Luta hai dil ko teri ada ny

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 8

وہ ڈاکٹر کو چھوڈ کر آیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی مگر جیسے ہی کمرے کے اندر آتے اس کی نظر عنیزہ پر پڑی تو مسکراہٹ کی جگہ غصے نے لے لی تھی – وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب پہنچ سلال کو اس سے لیتا پاس پڑے جھولے میں ڈالتا واپس اس کی طرف آیا تھا –
یوں اچانک ہی فرجاد کے سلال کو لینے سے وہ ایک دم پریشان ہوئی تھی – اس سے پہلے کہ وہ سیدھی ہو کر بیٹھتی فرجاد واپس پلٹتا اس کے قریب بیڈ پر ایک گھٹنا رکھتا اس کے تکیے پر رکھے سر کے گرد اپنے دونوں ہاتھ رکھتا اسے غصے سے گھورنے لگا – فرجاد کے یوں اپنے اتنے قریب ہوکر غصے سے گھورنے پر عنیزہ نے ڈر کے مارے آنکھیں میچ لی تھیں – آنکھیں کھولو عنیزہ –
میں نے کہا آنکھیں کھولو – فرجاد کے پہلے کہنے پر جب اس نے آنکھیں نہ کھولیں تو دوسری بار اس نے اپنا لہجہ اور سخت کرتے کہا جس پر عنیزہ نے فوراً آنکھیں کھولیں تھیں – ڈری سہمی آنکھیں غصے سے ہوئی لال آنکھوں سے ٹکرائی تھیں – کیوں چھپایا مجھ سے ؟؟ کیوں تم نے نہیں بتایا مجھے اپنی پریگننسی کا ؟؟ وہ غصے سے ایک ایک لفظ چباتا بولا – و..وہ مم..میں…. –
وہ میں کیا ؟؟ کیا ہاں ؟؟ تمہیں لگا کہ تم یہ بات مجھ سے چھپاو گی اور موقع دیکھ یہاں سے دور چلی جاو گی – میری اولاد کو میرے سے دور لے جاو گی اور میں تمہیں اتنی آسانی سے جانے دوں گا – عنیزہ کے اٹکتے اٹکتے بولنے پر وہ ایک دم اس کا منہ دبوچتا غصے سر بولا جبکہ عنیزہ اس کے بلکل سہی اندازے پر حیران ہوئی تھی – چھوڈیں مجھے درد ہو رہا ہے –
وہ اس کے بات کا جواب دیے بغیر اس کی گرفت سے اپنا منہ آزاد کرونے کی کوشش کرتے بولی – بہت ہوگیا بس اب جیسے ہی یہ بے بی دنیا میں آئے گا میں تمہارا سایہ بھی پڑنے نہیں دوں گا اس پر – سلال کی مرتبہ تو میں نے غلطی کر دی مگر اس بے بی کو تمہاری عادت نہیں پڑنے دوں گا –
اور تیاری پکڑو کیونکہ سلال بھی اب تمہارے پاس زیادہ دیر رہنے والا نہیں ہے – وہ اس کا منہ چھوڈ کر اسے بازو سے پکڑ کر سیدھا کرتے بولا مگر اس کے الفاظ نے عنیزہ کے اندر کی ممتا کو للکارا تھا – کیا کہا آپ نے کہ آپ مجھ سے میری اولاد کو دور کریں گے ؟؟ وہ ایک دم کھڑی ہوتی غصے سے بولی جبکہ یوں اچانک اس کے اس روپ نے فرجاد کو حیران کیا تھا – کرنا تو دور اگر آپ نے پھر سے یہ بات مجھ سے کی بھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا –
دیکھوں گی میں کون الگ کرے گا مجھ سے میرے بچوں کو – وہ آنکھوں میں ایک عظم لیے بولتی فرجاد کو حیران پر حیران کر رہی تھی – میں کروں گا تم سے انہیں الگ کیونکہ میں باپ ہوں ان کا – فرجاد کی بات پر وہ ہستے ہوئے تالیاں بجانے لگی – واہ فرجاد صاحب واہ کیا خوب کہی کہ باپ ہیں – باپ ہیں تو مطلب ماں سے اولاد کو الگ کر دیں گے –
بہت بڑی دلیل سمجھتا ہے نہ یہ زمانہ باپ ہونا جبکہ ماں کو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں – تو سنیں میں نہیں مانتی اس دلیل کو – اور مانوں بھی کیوں ؟؟ کس بات پر یہ دلیل بڑی سمجھوں محظ اس بات پر کہ باپ کما کر کھلاتا ہے – وہ تو اج کل کی مائیں بھی کما کر کھلا لیتی ہیں –
مگر اب آپ ماں ہونے کی دلیل سنیں – ایک عورت کی دلیل سنیں – پہلے تو ہم عورتیں اپنا گھر بار چھوڈ کر آپ مردوں کے ساتھ آپ کے گھر آتی ہیں وہاں جہاں کے لوگوں کو جانتی بھی نہیں ہیں مگر پھر بھی اپنوں کو بھلا کر اپنے شوہر سے جڑے رشتوں کو اپناتی ہیں –
پھر اپنے وجود پر آپ مردوں کی شدتیں بھی سہتی ہیں – تکلیف ہم اٹھاتی ہیں آپ نہیں – آپ لوگوں کی وحشت کے پانی کو اپنی کوکھ میں پال کر انسان بناتی ہیں – نو ماہ ہم تکلیف سے گزرتی ہیں – کھانے ، پینے ، اٹھنے ، بیٹھنے سب چیزوں میں تنگ ہوتی ہیں مگر پھر بھی خود سے زیادہ اپنی اولاد کی فکر کرتی ہیں – پھر بچے کی پیدائش کے وقت ہم مائیں ہی تکلیف برداشت کرتی ہیں –
آپ مرد وہ تکلیف نہیں برداشت کرتے ارے کر بھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ یہ حوصلہ تو صرف میرے اللہ نے عورت کو دیا ہے – موت کا فرشتہ ہمارے کندھے کے پاس ہوتا ہے جب ہم اپنی اولاد کو دنیا میں لاتی ہیں بے حد تکلیف برداشت کر کے – ساری ساری رات جاگتی ہیں بچوں کے ساتھ –
آپ مرد تو اپنی نید پوری کرتے ہیں – اور ہم عورتیں نہ رات سوئیں سکون سے نہ دن میں – بچوں کے ساتھ گھر بھی دیکھیں – اور کیا کیا گنواوں آپ کو میں ایک ماں کی عظمت – سب درد سہتی ہے ماں مگر بچہ پیدا ہوتے ہی باپ کے نام سے جانا جاتا ہے – کیوں ؟ آخر کیوں ایسا کرتا ہے یہ معاشرہ ؟؟
کیوں ماں کے نام سے نہیں پکارا جاتا اسے کبھی ؟؟ کیوں عدالتوں میں ماں باپ کی علیدگی کے بعد بچے باپ کو سونپ دہے جاتے ہیں ؟؟ ارے ماں تو اولاد کے لیے ساری زندگی گزار دیتی ہے تنہا اور باپ تو فوراً شادی کرکے سوتیلی ماں لا کر تھوپ دیتا ہے بچوں کے سر پر –
اور یہ بات زمانہ جانتا ہے کہ سوتیلی مائیں سوتیلی ہی ہوتی ہیں – کیوں عدالتوں میں یہ سب باتیں نہیں سوچتا جج ؟؟ کیوں ہر مرد یہ سوچ نہیں رکھتا اپنی بیوی سے اولاد چھینتے وقت کہ ماں مر جائے گی اولاد کے بچھرنے پر – ہمارے دل کا جگر کا جسم کا حصہ ہوتی ہے اولاد ہم ان کی دوری پر ہی آدھی مر جاتی ہیں – خدا کے لیے بس کردیں یہ ظلم – خدا کے لیے –
وہ ساری بات کہتے آخر میں رو پڑی تھی جبکہ فرجاد تو خاموش کھڑا رہ گیا تھا – ہاں وہ سچ کہہ رہی تھی سب باتیں – سامنے کھڑی لڑکی نے بھی اس کی وحشت کو خود پر کم عمری میں برداشت کیا تھا – تب برداشت کیا تھا جب اسے لڑکا لڑکی کے تعلق کا پتا بھی نہیں تھا –
اور اسی کم عمری میں وہ اس کی اولاد کو بے تحاشہ تکلیفوں کے بعد دنیا میں بھی لائی تھی – وہ چپ ہو گیا تھا بلکل چپ – ابھی اس کے پاس بولنے کے لیے الفاظ نہیں تھے – تو وہ چپ چاپ کمرے سے نکل گیا تھا بنا اسے کچھ کہے بنا اس پر طنز کی بارش کیے اور بنا اس کے وجود پر نیل کے نیشان چھوڈے –
جبکہ وہ پیچھے روتی ہوئی ہانپ رہی تھی – وہ نہیں جانتی تھی یہ سب اس نے کیسے بولا – وہ سب اس ڈرپوک لڑکی نے بولا بھی نہیں تھا جو ابھی یٹھی رو رہی تھی – وہ سب تو ایک ماں نے بولا تھا جس سے اس کی اولاد کو دور کرنے کی بات کی گئی تھی –
::::::::::::::::: ::::::::::::::::::: ::::::::::::: ::::::::::::::::::
سب لوگ بلکل تیار تھے جانے کے لیے – عارش عرش اور علی گاڑی میں سامان رکھ رہے تھے – تمام بڑے مرد حضرات لاونچ میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے جبکہ گھر کی ساری عورتیں بکھرا سامان جلدی سے سمیٹ رہی تھیں سوائے معصومہ کے جو شہریار کے ساتھ لڑائی کر رہی تھی –
بس شیری میں کہہ رہی ہوں مجھے تمہارے ساتھ ہی جانا ہے تمہاری گاڑی میں – پر معصومہ میری گاڑی میں تو…..- کچھ نہیں سننا مجھے بس میں نے کہہ دیا سو کہہ دیا – مرضی ہے تمہاری بعد میں مجھے مت کہنا کہ بتایا نہیں اب تم خود ہی مجھے بولنے نہیں دے رہی کچھ – وہ ہاتھ کھڑے کرتا بولا جس پر معصومہ نے ڈن کا اشارہ کیا تھا – ہاں ہاں نہیں کہتی میں تمہیں کچھ –
پتا ہے تم نے کوئی بہانا ہی گھڑنا ہے اسی لیے نہیں بولنے دے رہی تمہیں – وہ منہ بگاڑ کر کہتی صوفے پر بیٹھی تھی – چلو ٹھیک ہے – شہریار کہتا صوفے پر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ معصومہ نے روکا تھا – کدھر بیٹھ رہے ہو ؟؟ جاو کوئی کام کرو مجھے پانی پلاو لا کر – سب کام کر رہے ہیں تمہیں کوئی شرم ہی نہیں –
وہ ایک ادا سے کہتی ٹانگ پر ٹانگ رکھ چکی تھی جبکہ اس کی بات پر شہریار نے اسے گھور کر دیکھا تھا – بات تو ایسے کر رہی ہے جیسے خود تو بہت کام کر رہی ہے – وہ منہ میں بڑبڑاتا اٹھ کر کچن میں گھس گیا تھا پانی لانے –
تھوڑی دیر بعد وہ ایک باول میں پانی لے آیا تھا جبکہ باول میں پانی دیکھ معصومہ نے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھا تھا – یہ کیا شیری تمہیں گلاس نہیں ملا کیا جو اس باول میں لے آئے پانی ؟؟ وہ حیرت سے اس کے ہاتھ سے باول پکرتی بولی – کیوں معصومہ تمہیں نہیں پسند یہ باول ؟؟ اگر نہیں پسند تو لاو میں کسی گلاس میں لا دیتا ہوں پانی –
نہیں پسند تو چھوڈ دو – شیری نے پہلے حیرت سے پوچھتے بعد میں باول لینے کا اشارہ کرتے کہا – جس پر معصومہ نے ہاتھ سے نہ کا اشارہ کیا تھا – پسند تو مجھے تمہںری شکل بھی نہیں ہے تو کیا اسے بھی دیکھنا چھوڈ دوں ؟؟ پانی پی کر معصومہ نے بنا کوئی تاثر چہرے پر سجائے کہا جس پر شیری نے اسے حیرت سے دیکھا –
اوہ مائے گوڈ ! میرے خیال سے پھر تمہیں اپنا دماغ اور دل ہارپیک سے واش کرنے چاہیے ہیں – شیری اس کی طرف دیکھتا پہلے سنجیدہ ہو کر بولا اور آخر میں معصومہ کے گھور کر دیکھنے پر دانت نکالنے لگا – اس سے پہلے کہ معصومہ اسے کچھ بولتی دادی وہاں آ گئی تھیں – اٹھو تم دونوں اور چلو اپنا جو ضروری چھوٹا موٹا سامان ہے اٹھاو ہم نکلنے والے ہیں –
دادی ان سے بولتے مرد حضرات کی جانب چل پڑی تھیں تاکہ ان کی گفتگو کو اختتام دیتیں انہیں بھی اٹھا سکیں جانے کے لیے –
::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::
سب گاڑیوں میں بیٹھنے کو تیار تھے بس معصومہ کا نتظار کر رہے تھے جو نکل ہی نہیں رہی تھی گھر سے – انتظار کے بعد وہ سب سے آخر میں گھر سے نکلی تھی اور اس کے ساتھ ہی تائی امی تھیں جنہوں نے تالا لگانا تھا گھر کو – گارڈز اور ملازموں کو بھی وہ لوگ جاتے ہوئے چھٹی دے گئے تھے جتنے دن انہوں نے وہاں رہنا تھا اتنے دن کے لیے –
اس لیے گھر کو تالا لگا کر وہ جا رہے تھے – وہ ہاتھوں میں کھانے پینے کی چیزوں کے شاپر جو اس نے کل شیری سے منگوائے تھے لیے شہریار کی گاڑی کی طرف خوشی سے بڑھتی فرنٹ سیٹ پر جا کر بیٹھ چکی تھی – اس کا خیال تھا کہ وہ اور شیری الگ اکیلے جائیں گے وہ بھی انجوائے کرتے ہوئے –
وہ گاڑی میں بیٹھی شیری کا انتظار کر رہی تھی کہ تبھی گاڑی کا ڈرائیونگ سیٹ کا ڈور اوپن کرتے عارش بیٹھا تھا – عارش کو دیکھ معصومہ کو حیرت ہوئی تھی – خارش بھائی میرا مطلب عارش بھائی یہ شیری کی گاڑی ہے اس کی جگہ ہے یہ آپ کیوں بیٹھ رہے ہو – وہ عارش کے ڈر سے آہستہ آواز میں بولی –
اسی کی ہی ہے پتا ہے مجھے اور وہ بھی آ رہا ہے بلکہ عرش اور علی بھی آ رہے ہیں – وہ اسے جواب دیتا سیٹ بیلٹ باندھنے لگا – ہیں ؟؟ وہ کیوں آئیں گے ؟؟ معصومہ نے حیرت سے پوچھا – کیونکہ ہم سب لڑکے ایک ہی گاڑی میں جا رہے ہیں – دوسری گاڑیاں بابا اور چاچو لوگ چلا لیں گے – عارش نے اس کی طرف دیکھتے بتایا –
میں بھی پھر دوسری گاڑی میں جاوں گی – وہ کہتے ہوئے سیٹ بیلٹ کھولنے لگی تھی کہ عارش نے اسے روکا – چپ چاپ بیٹھی رہو – جگہ نہیں ہے دوسری گاڑیوں میں – عارش کے سخت لہجے میں روکنے پر وہ برا سا منہ بنا کر رہ گئی تھی – اتنی دیر میں عرش علی اور شہریار بھی آ گئے تھے –
شہریار کے بیٹھتے ہی معصومہ نے پیچھے مڑ کر اسے گھورا تھا – مجھے مت گھورو اسی لیے کہہ رہا تھا میں کہ پہلے سن لو میری – شہریار کے آگے سے جواب پر وہ زیر لب اسے صلاط سناتی واپس سیدھی ہو کر بیٹھی تھی – واہ بھئی ہماری گڑیا بھی ساتھ جائے گی ہمارے – علی نے پیچھے سے ہی اس کے بال بگارتے کہا – جس پر عارش نے نظریں گھمائی تھیں اور معصومہ نے پیچھے مڑ کر اعلی کو سمائل پاس کی تھی –
:::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::
وہ صوفے پر بیٹھی سوئے ہوئے سلال کو گود میں لیے بیٹھی تھی اور فرجاد آفس کے لیے تیار ہو رہا تھا اور وہ اسے کب سے دیکھ رہی تھی- فرجاد ایک بات کہنی تھی – وہ آخر ہمت کرتی بول پڑی –
کل کی ہوئی بحس کے بعد سے ان دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی – ہمم بولو – وہ اپنی شرٹ کے کف کے بٹن بند کرتا بولا – ایک ریکویسٹ تھی آپ سے – وہ پھر سے بولی – میں نے بولا نہ بولو تو مطلب بولو –
وہ لہجے میں تھوڑی سختی لاتا بولا – پلیز آپ میری پریگنٹسی کا کائنات کو مت بتائیے گا اور نہ ہی اسے میری ڈیلیوری تک اس گھر میں آنے دیجیے گا – وجہ میں نہیں بتاوں گی آپ کو کیونکہ آپ نے یقین تو کرنا نہیں تو بس اتنا سن لیں کہ مجھے میرے بچے کی فکر ہے –
وہ بنا اس سے نظریں ملائے بولی جبکہ وہ بنا اس کی بات کا جواب دیتا اپنا لیپ ٹاپ بیگ اور فون اٹھاتا اس کے پاس آکر سلال کو پیار کرتا کمرے سے نکل گیا تھا اور عنیزہ اسے بنا کوئی جواب دیے جاتا دیکھتی رہ گئی –
::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::
معصومہ اپنے ساتھ لائی چیزیں سب کو بانٹ چکی تھی سوائے عارش کے کیونکہ وہ ڈرائیو کر رہا تھا – عرش علی اور شہریار مزے سے پیچھے بیٹھے معصومہ کے گئے کرم کو انجوائے کر کے کھا رہے تھے –
عارش بھائی آپ نہیں لیں گے ؟؟ معصومہ نے اس کی طرف چپس کا پیکٹ کرتے پوچھا – اگر تم دیکھ سکو تو میں ڈرائیو کر رہا ہوں – عارش نے اس کی بات کا الٹا ہی جواب دیا تھا – لو جی تو کیا ہوا میں کھلا دیتی ہوں آپ ڈرائیو کرو بس – وہ ایکسائٹمنٹ سے بولتی اگلے ہی لمحے اس کے منہ میں چپس ٹھونس چکی تھی –
عارش اور باقی سب تو معصومہ کی اس اچانک حرکت پر حیران رہ گئے تھے – یہ نہیں بچتی اب – شہریار نے اپنی طرف سے آہستہ آواز میں اپنے ساتھ بیٹھے علی کے کان میں کہا – کچھ نہیں کہتا عارش –
عرش جو شہریار کی اعلان نما سرگوشی سن چکا تھا بولا – واقع عارش تو کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا ایک تو معصومہ نے اس کا منہ بھر دیا تھا چپس سے اور دوسرا چپس اس کے منہ میں ڈالتے معصومہ کی فنگرز عارش کے ہونٹوں سے ٹچ ہوئی تھیں اور اس وجہ سے ایک الگ ہی احساس پیدا ہوا تھا عارش کے دل میں اسی لیے وہ چپ بیٹھا اپنے دل کی سوچ پر لعنت بھیج رہا تھا –
معصومہ بھی اسی وجہ سے کنفیوز ہوتی چپس کا پیکٹ ویسے ہی سائیڈ پر رکھ چکی تھی جبکہ پیچھے والے اصل بات سے بے خبر یہ سوچ رہے تھے کہ آج سورج کہاں سے نکلا تھا جو عارش نے معصومہ کو کچھ کہا نہیں – وہ جو سوچ کر آئی تھی کہ سارا رستہ انجوائے کرے گی اتنا ہی وہ بور ہوتی گئی تھی –
عرش علی اور شیری بھی ہوتے تو وہ انجوائے کر لیتی مگر ساتھ کھڑوس بھی تھا اسی لیے سارا رستہ بورنگ گزرا تھا – اللہ اللہ کرتے وہ اپنی منزل پر پہنچے تھے – معصومہ نے سکھ کا سانس لیا تھا اور فوراً وہ گاڑی سے اتری تھی کیونکہ وہ اور کھڑوس کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی تھی –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial