قسط: 9
ان سب کا اچھے سے استقبال کیا گیا تھا – تھوڑی دیر سب سے ملنے کے بعد ان سب کو ان کے کمرے دے دیے گئے تھے تاکہ آرام کر سکیں – چھ گھنٹوں کے سفر سے وہ سب تھک چکے تھے اور ابھی رات کا وقت بھی یو گیا تھا اس لیے سب اپنے ملے کمروں میں آرام کے لیے چلے گئے تھے –
اگلی صبح پورے گھر میں شادی کی تیاریوں کا شور برپا تھا – اس سارے شور میں ایک شور معصومہ کا بھی تھا جو صبح سے زمینوں پر جانے کی ضد کر رہی تھی –
لیکن گھر میں کوئی لڑکا نہیں تھا سوائے عارش کے کیونکہ سب لڑکے باہر والے کاموں میں مصروف تھے اور عارش اس لیے گھر تھا کیونکہ وہ دیر سے اٹھا تھا آج –
عارش یہ لیں چائے مامی نے بھیجی ہے – وہ کمرے سے نکلتا باہر لان میں آکر بیٹھا تو کنزہ اس کے پاس چائے لے کر آتی بولی – شکریہ کنزہ – وہ مسکرا کر شکریہ کہتا چائے تھام چکا تھا جبکہ کنزہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی – کیسے گزرے تمہارے یہ دن ؟؟
وہ مسکرا کر اس سے پوچھنے لگی – بس کام میں بزی اور کچھ خاص نہیں – وہ چائے کا سپ لیتا کندھے اچکا کر بولا – اوہ سہی تو پھر شادی کا کیا سین ہے ؟؟ کوئی پسند آئی ؟؟ کنزہ کے سوال پر وہ مسکرایا تھا – نہیں یار تمہیں پتا ہے میں ان سب کاموں میں نہیں پڑتا –
وہ ہستے ہوئے بولا جس پر کنزہ نے بھی قہقہہ لگایا تھا – دیکھ لینا کہیں پڑ نہ جانا ان کاموں میں اور مجھے پتا بھی چلنے نہ دو – وہ اسے تنگ کرتی بولی – ہاہاہا تم بے فکر رہو اگر پڑا بھی تو تمہیں ضرور بتاوں گا پر ابھی تو وہ کہیں بھی آس پاس نہیں جو مجھے ان کاموں میں ڈالے گی –
وہ اسے چل کرتے بولا جس پر وہ ہسی تھی – اچھا جی کیا پتا وہ اس پاس ہی ہو بس ابھی تم نے اس پر نظر کرم نہ کی ہو – وہ پھر شرارت سے بولی جس پر عارش نے سر جھٹکا تھا – تم سناو کتنے مزے کیے تم نے یہاں ؟؟
عرش نے بات بدلتے اس سے پوچھا جس پر وہ ان گزرے ماہ کی روٹین بتانے لگی – اس کی اور عارش کی اچھی بنتی تھی کیونکہ وہ بلکل عارش جیسی تھی – وہ سڑیل نہیں تھی بس ویسے ہی اسے چپ اور سب سے الگ رہنا پسند تھا جب سے اس کے موم ڈیڈ کی ڈیٹھ ہوئی تھی – عارش سے بھی وہ کبھی کبھی ہی بات کرتی تھی –
وہ دونوں باتوں میں مصروف تھے کہ تبھی ملازمہ عارش کے پاس دادی کا پیغام لے کر آئی جو اسے بلا رہی تھیں – تم چلو میں آتا ہوں – وہ ملازمہ سے کہتا اپنا فون اٹھا کر کنزہ سے ایسکیوز کرتا اندر کہ جانب بڑھ گیا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::::::::
جی دادی آپ نے بلایا ؟؟ وہ اندر اتا دادی سے بولا جبکہ ایک نظر اس نے دادی کے پاس منہ سجائے بیٹھی معصومہ پر بھی ڈالی تھی – عارش بیٹا تمہیں ہماری زمینوں کا پتا ہے نہ ؟؟ دادی نے اس سے پوچھا – جی دادی مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ؟؟
اس نے حیرت سے جواب دیتے کہا – بیٹا تو پھر تم معصومہ کو لے جاو زمینوں پر کب سے ضد کر رہی ہے – پچھلی بار بھی جب آئی تھی شادی پر تو نہیں جا سکی تھی بخار کی وجہ سے – دادی نے معصومہ کی طرف دیکھتے اسے کہا – مکر دادی گاڑی تو کوئی نہیں گھر – عارش کے جواب پر معصومہ نے چہرے پر معصومیت لاتے دادی کو دیکھا – تو بیٹا آپ بائیک لے جاو گراج میں کھڑی ہے –
صغراں خالہ جو ابھی آئی تھیں عارش کی بات پر بولیں – اوکے آنٹی آپ مجھے چابی دے دیں بائیک کی اور معصومہ تم جلدی سے باہر آو – وہ صغراں خالہ سے بولتا آخر میں معصومہ سے مخاطب ہوا جس کے چہرے پر عارش کی بات پر مسکراہٹ بکھری تھی –
اور وہ فوراً کھڑی ہوتی پاوں میں جوتی پہننے لگی جبکہ عارش بھی صغراں آنٹی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل چکا تھا – اب خوش ہو – دادی نے معصومہ سے پوچھا جس پر وہ انہیں خوشی سے ہگ کرتی کمرے سے باہر بھاگی تھی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
ارے عارش بھائی یہ تو ہیوی بائیک ہے – اس پر کیسے جائیں گے ؟؟ وہ جب باہر آئی تو عارش کو ہیوی بائیک پر بیٹھے دیکھ پریشانی سے بولی – جیسے جاتے ہیں – عارش کے جواب پر وہ نہ میں سر ہلانے لگی –
ارے نہیں نہیں میرا مطلب کہ ہیوی بائیک تو شہر کی صاف بنا گڑھوں والی سڑکوں پر چلائی جاتی ہے یہاں گاوں کی گلیوں میں کیسے چلے گی بائیک – وہ اسے سمجھاتے بولی – اتنی بھی بری نہیں ہیں اس گاوں کی گلیاں اچھی خاصی ہیں – گڑھے بھی نہیں ہیں یہاں کی سڑکوں پر اور اب کوئی اور بات نہیں چپ چاپ بیٹھ جاو اگر جانا ہے تو – عارش ہیلمٹ پہنتا اس سے بولا –
وہ واقع سہی کہہ رہا تھا یہ گاوں تو تھا مگر سہولیات ساری شہر والی تھیں – اچھا چلیں ٹھیک ہے – وہ اس کی بات مانتی احتیاط سے اس کے پیچھے بائیک پر ایک طرف ٹانگیں کرتی بیٹھ گئی – اس کے بیٹھتے ہی عارش نے بائیک سٹارٹ کی تھی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::::::::::
عارش بھائی آہستہ چلائیں نہ مجھے ڈر لگ رہا ہے – عارش بائیک تیز چلا رہا تھا اور معصومہ کا سانس سوکھ رہا تھا بائیک کی تیز سپیڈ پر – اس لیے وہ ڈرتے ہوئے بولی – کچھ نہیں ہوتا نہیں گرتی تم – وہ اس کی بات پر بولا –
م
بائیک تیز ہونے کے سبب ان دونوں کو اونچی آواز میں بات کرنی پڑ رہی تھی – ابھی بائیک اور تھوڑی آگے گئی تھی کہ گڑھے پر سے بائیک گزرنے کی وجہ سے بائیک کو جھٹکا لگا تھا اور معصومہ پیچھے بیٹھی اچھلی تھی اور اس نے بےساختہ ہی ڈر کر اپنے بازو کو عارش کی کمر کے گرد ہائل کیا تھا –
معصومہ کے یوں بازو ہائل کرنے پر عارش کے دل کی دھڑکن رکی تھی اور پھر اگلے ہی لمحے دل نے تیزی سے دھڑکناں شروع کر دیا تھا – اس نے رکے ہوئے سانس کے ساتھ چہرے نیچے کرتے اپنے پیٹ پر بندھے معصومہ کے بازو کر دیکھا تھا –
اس نے بائیک کی سپیڈ فوراً کم کی تھی کیونکہ اس کے ناجانے کیوں اچانک سے پورے جسم نے کام کرنا بند کر دیا تھا – عارش بھائی پلیز اہستہ ہی چلانا بائیک کیونکہ مجھے ابھی مرنا نہیں ہے – وہ اپنے دل کی کبھی بند ہوتی تو کبھی تیز ہوتی دھڑکن پر حیران ہو رپا تھا کہ تبھی اسے معصومہ کی ڈری سہمی آواز سنائی دی –
تت…تم ڈرو نہیں کچھ نہیں ہونے دیتا میں تمہیں – بس پہنچ گئے ہم زمینوں پر – زندگی میں پہلی بار عارش بات کرتے اٹکا تھا – جبکہ اس کے جواب پر معصومہ نے شکر کیا تھا کہ چلو پہنچے تو زمینوں پر –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::::::
شہریار اور عرش جو مہندی کا سامان لینے گئے ہوئے تھے واپس آگئے تھے اور ابھی عرش سیڑھیاں چڑھتا چھت پر جانے ہی لگا تھا مگر تبھی اس کی نظر مریم پر پڑی جو عابد سے ہس ہس کر باتیں کر رہی تھی –
عابد ان کا دور کا کزن لگتا تھا مگر بہت عیاش قسم کا تھا – وہ واپس سیڑھیاں اترتا ان کے پاس پہنچا – مریم ! اس نے قریب جاتے اسے پکارا – جی عرش ؟؟ مریم نے فرمابردار بیوی کی طرح جواب دیا – میرے کپڑے پریس کر دو – عرش کو جب کوئی بہانا نہ سوجھا تو کپڑے پریس کرنے کا کہہ دیا –
اچھا میں ابھی کرتی ہوں – وہ مسکرا کر کہتی وہاں سے چلی گئی جبکہ عرش نے غصے سے عابد کو دیکھا تھا – آج کے بعد میری بیوی سے دور رہنا کیونکہ وہ تمہاری اصلیت نہیں جانتی مگر میں جانتا ہوں – تو اس سے دور رہنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا – وہ غصے سے اسے وارن کرتا بولا – .
.ارے عرش صاحب میں ابھی آیا ہوں اور جب کوئی آتا ہے تو بندہ سلام دعا کرتا ہے پہلے مگر اپ تو دھمکی دے رہے ہیں – وہ بنا اس کی بات کی پرواہ کیے بولا – دھمکی نہ سمجھو اسے میں دھمکی نہیں دیتا – وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتا وہاں سے چلا گیا جبکہ عابد پیچھے کمینگی سے مسکراتا حویلی سے باہر نکل گیا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::::::::
کیا باتیں کر رہی تھی تم عابد سے اتنا ہس ہس کر ؟؟ وہ کپڑے پریس کرتی مریم کے پاس جاکر کھڑا ہوتا تھوڑے سنجیدہ لہجے میں پوچھنے لگا – اس کے لہجے کا مریم نے نوٹس نہ لیا تھا اس لیے آگے سے مسکرا دی –
کچھ نہیں بچپن کی باتیں کر رہے تھے کہ جب ہم سب بچپن میں کھیلتے تھے تو میں کیسے گیم میں آوٹ ہونے کے باوجود روتے ہوئے کسی کو باری نہیں دیتی تھی – تو تم اس سے جو سن رہی تھی قصے وہی مجھ سے سن لو تمہارا سارا بچپن یاد ہے مجھے –
وہ اس کے ہاتھ سے استری لے کر رکھتا اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں قید کیے بولا – آپ جیلس ہو رہے ہیں ؟؟ مریم کو اس کے لہجے میں جیلسی محسوس ہوئی تو مسکراتے ہوئے بولی – ہاں ہو رہا ہوں جیلس کیونکہ مجھے پسند نہیں ہےتمہارا میرے علاوہ کسی اور سے بات کرنا –
وہ بنا انکار کرتے اپنی جیلسی کا اظہار کر گیا تھا – اچھا جی تو پھر میں نہیں کرتی ان سے بات – وہ مسکرا کر اس کے کندھے پر سر رکھ کر بولتے اسے معتبر کر گئی تھی – بلکل کرنا بھی نہیں مجھے پسند نہیں ہے اور وہ لڑکا بھی اچھا نہیں ہے – وہ اس کے سر کے بالوں پر ہاتھ پھیرتا بولا –
ٹھیک ہے نہیں کرتی بات مگر ابھی مجھے کام کرنے دیں چلیں بھاگیں یہاں سے – وہ ہس کر کہتی اسے جانے کا اشارہ کرتے بولے – نہیں تم کرو کپڑے پریس میں تمہارے پاس کھڑا تمہیں دیکھوں گا – وہ انکار کرتا بولا –
نہیں جی جائیں شاباش کیونکہ ہم اپنے گھر نہیں ہیں اور اگر کوئی دیکھے گا تو ایسے ہی باتیں کرے گا کیونکہ ابھی ہماری رخصتی نہیں ہوئی – وہ اسے سمجھانے کے انداز میں بولی -جبکہ وہ بھی اس کی بات مانتا چلا گیا تھا اور وہ مسکراتے ہوئے کپڑے پریس کرنے لگی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::::::
معصومہ واپس اتے سب کو خوشی سے بتا رہی تھی کہ اس نے زمینوں پر کیا کیا دیکھا جبکہ عارش چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا تھا –
اچھا بچو سب سو جاو جا کر تھوڑی دیر رات کو دیر تک جاگنا ہے تم لوگوں نے اور شیری بیٹا تم ساجدہ کو پالر چھوڈ آو کیونکہ اصغر ملائکہ کو لے کر گیا ہے ڈںکٹر پاس اس کی اپائمنٹ تھی ڈاکٹر کے پاس ورنہ وہ لے جاتا –
ظہیر ( صغراں خالہ کا دوسرا بیٹا ) اور علی دونوں ابھی واپس نہیں آئے وہ دونوں کیٹرنگ والوں کے پاس گئے ہوئے ہیں – صغراں خالہ سب سے کہتیں آخر میں شیری سے بولیں – کوئی بات نہیں خالہ میں لے جاتا ہوں – میں بھی تو ساجدہ کا بھائی ہی ہوں نہ – اس کے مسکرا کر کہنے پر صغراں خالہ مسکرائی تھیں –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::::::::::
عارش عرش علی اور شیری کو ایک ہی روم دیا گیا تھا – سیری ساجدہ کو پالر لے کر گیا تھا ، علی ابھی آیا ہی نہیں تھا اور عرش بھی باہر تھا جبکہ عارش بیڈ پر لیٹا معصومہ کے بارے میں سوچ رہا تھا –
یہ کس طرح اس کا دل آج دھڑکا تھا – کیوں اسے معصومہ کو سوچنا اچھا لگ رہا تھا – وہ بار بار وہ لمحہ یاد کر رہا تھا جب معصومہ نے اس کی کمر کے گرد بازو ہائیل کیے تھے – اففف عارش تم پاگل ہو گئے ہو جو یہ ساری فضولیات سوچ رہے ہو – وہ خود کو ڈپٹتے ہوئے بولتا اپنا موبائیل یوز کرنے لگا تاکہ اپنی سوچوں کا رخ بدل سکے –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::::::
پریزے تم سے کہا تھا کہ گجروں کا کہہ دو علی سے مگر تم نے نہیں کہا ابھی تک – کنزہ نے اپنے اور مریم کے درمیان میں لیٹی پریزے کو گھور کر دیکھتے کہا – سوری میں بھول گئی تھی ابھی کر دیتی ہوں کال –
وہ ماتھے پر ہاتھ مارتی اٹھ کر بیھٹی بولی اور فون پر علی کا نمبر ڈائل کرنے لگی – علی جو ظہیر کے ساتھ تھا اپنے فون پر پریزے کی کال دیکھ حیران ہوا اور فوراً اس نے کال اٹینڈ کی تھی – جی پریزے ! کیا بات ہے خیرت تھی – علی نے کال اٹھاتے ہی پوچھا کیونکہ پریزے نے اسے کبھی کال نہیں کی تھی –
جی جی سب ٹھیک بس وہ کہنا تھا کہ آتے ہوئے سب لڑکیوں کے لیے فریش گجرے لیتے آنا آپ لوگ – پریزے نے جلدی سے کہا جبکہ اس کی بات پر علی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی – اوہ چلیں ٹھیک ہے لے آئیں گے آپ بے فکر رہیں – علی کے کہنے پر وہ شکریہ کہتی کال کاٹ گئی –
لو بہن آ جائیں گے تم سب کے گجرے خدارا اب مجھے بھی سونے دو اور خود بھی سو جاو دیکھو تو مریم اور معصومہ سو بھی گئی ہیں – پریزے فون بند کرکے رکھتی اپنے ساتھ بیڈ پر سوئی مریم اور کمرے میں پڑی ایک اور چارپائی پر لیتی معصومہ کی طرف اشارہ کرتی کنزہ سے بولی –
اچھا بہن لڑ تو نہ سو جا میں کچھ نہیں کہہ رہی – کنزہ واپس بیڈ پر لیٹتی بولی جبکہ پریزے بھی لیٹتی انکھیں بند کر گئی تھی –