Obsession of Beast

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 10

“کارڈ پر کیا لکھا ہے احد کس نے بھیجا ہے یہ سب” حسین صاحب کے قریب آتے ہی اسنے وہ کارڈ جلدی سے جیب میں ڈال لیا یہ سب جہان زیب نے بھیجا تھا لیکن کیوں بھیجا تھا یہ سب سوچ کر وہ خود ہی الجھ رہا تھا تو انہیں کیا بتاتا
“میں نے رکھا تھا یہ سب”
“تو بتایا کیوں نہیں میں تو ڈر گئی تھی” اسکی بات سنتے ہی زہرہ بیگم نے سکون بھرا سانس لیا
“اف ماما آپ تو بات بات پر ڈر جاتی ہیں وہ گفٹس ہی تو ہیں چلو روحیہ اسے بعد میں دیکھنا پہلے ناشتہ کرو” زہرہ بیگم کو مطمئن کرکے اسنے روحیہ کے ہاتھ سے گفٹ لے کر رکھا
“نہیں بھیو مجھے ابھی دیکھنے ہیں”
“بعد میں دیکھ لینا ابھی چلو”اسے زبردستی پکڑ کر وہ باہر لے کر چلا گیا جبکہ ان دونوں کے باہر جاتے ہی باقی سب بھی اپنا ادھورا ناشتہ مکمل کرنے کی غرض سے باہر چلے گئے
°°°°°
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھا جہان زیب کے کمرے کی طرف گیا اور دروازہ نوک کیا
کوئی بنا اجازت اسکے کمرے میں داخل ہوجاے یہ اسے پسند نہیں تھا چاہے سامنے اسکا باپ ہی کیوں نہ ہو
اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہوا جہاں وائٹ ٹی شرٹ کے ساتھ اسنے بلیک ٹراؤزر پہنا ہوا تھا آنکھوں میں نیند کا خمار لیے وہ بیڈ سے اٹھا یقینا وہ ابھی ابھی نیند سے جاگا تھا
“خیریت کیپٹن صاحب تمہیں آج میری یاد کیسے آ گئی” اسنے خوش گوار لہجے میں کہا جس کا جواب دینے کے بجاے احد نے وہ کارڈ اسکے سامنے کیا
“یہ کیا ہے جہان”
“یہ کارڈ ہے”
“اس پر تمہاری لکھائی ہے اور یہ روحیہ کے برتھ ڈے گفٹس کے ساتھ ملا تھا”
“اوہ ہیپی برتھ ڈے”
“جہان فضول بات مت کرو اسکے کمرے میں گفٹس رکھے ہوے تھے وہ گفٹس کس نے بھیجے” اسنے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
“یہ کارڈ کس نے بھیجا ہے” اسنے احد کے ہاتھ میں موجود کارڈ کی جانب اشارہ کیا
“یقینا تم نے”
“تو بےوقوفوں جیسی بات کیوں کررہے ہو یقینا گفٹس بھی میں نے بھیجے ہوں گے” اطمینان سے جواب دے کر اسنے باہر کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی جو دروازہ بار بار نوک کررہا تھا
اسکے اجازت دیتے ہی وہ ملازم اندر آیا اور ہاتھ میں موجود ٹرے ٹیبل پر رکھ دی
“اور کچھ چاہیے سر”
“احد کے لیے بھی لے کر آؤ” اسکی بات سنتے ہی ملازم “جی” کہہ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ اب صوفے پر بیٹھ کر وہ اپنا ناشتہ کررہا تھا
“کیوں بھیجے تم نے اسے گفٹس”
“کیونکہ اسکی برتھ ڈے ہے”
“جہان دیکھو تم پلیز اس سے دور رہو میں اسے سمجھا چکا ہوں وہ کسی کو کچھ نہیں بتاے گی” اسکے کہنے پر جہان زیب نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
“کیا نہیں بتاے گی”
“یہی کہ اسنے تمہیں قتل کرتے ہوے دیکھا ہے وہ کسی کو نہیں بتاے گی بس تم اسے چھوڑ دو پلیز اسے کچھ مت کرنا” اسکی بات سن کر جہان زیب نے کانٹا پلیٹ میں پٹخا اور اٹھ کر اسکے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا
“تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے میں اسے کچھ کروں گا تمہارے خیال میں کسی کو گفٹ بھیجنا مطلب کوئی نقصان پہنچانا ہوتا ہے” وہ جیسے اسکا مذاق اڑا رہا تھا
“تو پھر اس سب کی وجہ”
“عشق ہوگیا ہے مجھے روحیہ سے پاگل ہوگیا ہوں میں اسکے پیچھے وہ میرا جنون بنتی جارہی ہے” جہان زیب نے یہ بات مذاق میں کہی ہوگی ایسی توقع احد کو اس سے نہیں تھی
“جہان زیب تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو”
“بہت اچھے سے” دروازہ دوبارہ نوک ہوا اور جہان زیب کے اجازت دینے پر ملازم اندر داخل ہوا اور دوسری ٹرے ٹیبل پر رکھ کر اپنا پہلے کی طرح کیا ہوا سوال دہرایا
“اور کچھ چاہیے سر”
“نہیں تم جاؤ”جہان زیب کے کہتے ہی وہ ملازم اپنا سر ہلاکر وہاں سے چلا گیا اور اسکے جاتے ہی ان کی باتوں کا سلسلہ وہیں سے جڑ گیا جہاں سے ٹوٹا تھا
“جہان زیب اس بات کو یہیں ختم کردو اور بھلے تم اسے میری التجا سمجھو یا کچھ بھی بس پلیز روحیہ سے دور رہنا”
“میں تمہاری بات کیوں مانوں گا میں کیوں دور رہوں گا اس سے”
“تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی ہے روحیہ تمہاری نہیں ہوسکتی ہے” اسنے اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوے کہا
“روح میری ہی ہوگی بہتری اسی میں ہے شرافت سے بنا کوئی تماشہ لگاے اسے مجھے سونپ دینا ورنہ مجھے اپنا طریقہ آزمانا پڑے گا”
“تمہیں جو کرنا ہے کرلو لیکن میں اپنی معصوم بہن تم جیسے درندے کے حوالے نہیں کروں گا” اسنے مضبوط لہجے میں اپنی بات کہی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے چلا گیا
جبکہ اسکی بات سن کر اسنے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کام اسکے بس کا نہیں تھا تھوڑی ہی دیر میں کمرے کا سارا سامان بکھر چکا تھا
کانچ کی چیزیں زمیں پر ٹونٹی ہوئی پڑی تھیں اور جو چیزیں کانچ کی نہیں تھیں وہ زمین پر گر نے سے بھی بچ چکی تھیں
پرفیوم ٹوٹنے کی وجہ سے اب سارے کمرے میں تیز خوشبو پھیل چکی تھی
“میں درندہ ہوں تو درندہ ہی سہی لیکن روح میری ہی ہے جہاں زیب کاظمی ہوں میں جو اپنی پسند کی ہوئی چیز کسی کو نہیں دیتا یہاں تو معاملہ پھر ایک انسان کا ہے انسان بھی وہ جو میرا عشق ہے میرا جنون ہے”
اپنی آنکھیں بند کرکے اسنے گہرا سانس لیا غصہ کم ضرور ہوا تھا لیکن ختم نہیں
°°°°°
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا جہاں حریم اپنے گود میں حنین کو لیے اس سے پتہ نہیں کونسی باتیں کررہی تھی
“کیا پٹیاں پڑھا رہی ہو میری بیٹی کو”والٹ اور موبائل ٹیبل پر رکھ کر وہ بیڈ پر آکر لیٹ گیا
“کیا ہوا ہے احد”
“کیا ہوا ہے حریم”
“کوئی تو بات ہے آپ پریشان لگ رہے ہیں روحیہ کے کمرے میں گفٹس کہاں سے آے میں جانتی ہوں آپ نے وہ نہیں رکھے تھے”اسکے کہنے پر احد نے گہرا سانس لیا
“روحیہ کو کچھ دنوں تک کالج مت بھیجنا”
“کیوں”
“ابھی تو اسکی طبیعت بہتر ہوئی ہے میں نہیں چاہتا کہ وہ وہاں جاے تو پھر سے وہی سب یادیں تازہ ہوں میں کوشش کروں گا کہ اسکا کالج تبدیل کروا دوں”وہ اسے یہ نہیں بتا سکا کہ روحیہ کو گھر میں رکھ کر وہ جہان زیب کی نظروں سے چھپانا چاہ رہا تھا
“اور وہ گفٹس میں نے ہی رکھے تھے” احد نے اسکی گود سے حنین کو لیتے ہوے کہا جس پر حریم نے “اچھا” کہہ ہولے سے اپنا سر ہلادیا
°°°°°
ایک ایک کرکے اسنے اپنے سارے گفٹس کھول کر دیکھے جنہیں دیکھ کر اسکے چہرے پر بچوں جیسی خوشی آرہی تھی
ان سب گفٹس میں اسے سب سے اچھا جو گفٹ لگا تھا وہ تھا گولڈ کا لاکیٹ جس پر اسکا نام لکھا ہوا تھا
وہ اس لاکٹ کو ہاتھ میں پکڑے مسکراتے ہوے دیکھ رہی تھی وہ تھا ہی اتنا خوبصورت
“کیسا لگا تمہیں” اسے اپنے پیچھے سے آواز آئی
“بہت اچھا” جوش سے کہتی ہوئی وہ مڑی لیکن پھر سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر جیسے اسکا سانس رک چکا تھا
“مام” اسنے چلانا چاہا لیکن اسکے چیخنے سے پہلے ہی وہ اپنا بھاری ہاتھ اسکے لبوں پر رکھ کر اگلے ہی پل روحیہ کی مخصوص نس دبا چکا تھا
“سوری روح میں ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن تمہارے بھائی نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے” اسکا وجود اپنی بانہوں میں بھرے وہ بیسٹ اپنی بیوٹی کو لے کر وہاں سے جاچکا تھا
°°°°°°
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial