قسط: 11
اجنبی کمرہ اجنبی گھر اجنبی جگہ
آنکھ کھلتے ہی اسنے کچھ دیر غائب دماغی سے ہر طرف دیکھا جو آخری منظر اسے یاد تھا وہ یہ تھا کہ اسنے اس شخص کو دیکھا تھا جس نے اسکے سامنے ایک انسان کی جان لی تھی
جھٹکے سے وہ بیڈ سے اتری اور کمرے کا دروازہ کھولا شکر تھا کہ وہ لاکڈ نہیں تھا
تیز قدموں سے وہ باہر کی طرف بھاگی اسے کہاں جانا تھا وہ نہیں جانتی تھی بس پتہ تھا تو اتنا کہ اسے اس جگہ سے نکلنا ہے
“میم آپ یہاں کیا کررہی ہیں” پیچھے سے آتی آواز پر اسنے ڈر کر پیچھے دیکھا جہاں ایک دبلا پتلا نوجوان کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا
بنا جواب دیے وہ وہاں سے بھاگنے لگی جب اس نوجوان نے اسکی کلائی پکڑ لی
“چھوڑیں میرا ہاتھ”
“دیکھیں آپ واپس کمرے میں جائیں سر آنے والے ہوں گے” اسنے اسے نرمی سے سمجھانا چاہا
“پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں مجھے جانا ہے یہاں سے”
“میں آپ کو نہیں جانے دے سکتا”
“ہاتھ چھوڑو اسکا” گمبھیر بھاری آواز سنتے ہی اس نوجوان نے جلدی سے روحیہ کا ہاتھ چھوڑا اور اپنے مالک کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی وہاں پر آیا تھا
“سر یہ بھاگ رہی تھیں”بنا اسکی بات سنے جہان زیب نے اسے جانے کا اشارہ کیا جسے دیکھتے ہی وہ وہاں سے چلا گیا
اسکے جانے کے بعد جہان زیب نے اپنے پیچھے کھڑے داد کو دیکھا
“اسے سیل میں پہنچا دینا” جہان زیب کے کہنے پر وہ “جی اچھا” کہہ کر خود بھی وہاں سے چلا گیا
دل میں البتہ اس لڑکے کے لیے ہمدردی ضرور جاگی تھی زین نے اس لڑکی سے ہاتھ ملایا تھا جسے اس لڑکی نے خود بڑھایا تھا جب اسکا یہ حال ہوا تھا اس لڑکے نے تو اسکا ہاتھ ہی پکڑ لیا وہ بھی زبردستی اسکا کیا حال ہونا تھا
°°°°°
اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ زبردستی اسے دوبارہ اپنے کمرے میں لے کر آیا
“پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں مجھے گھر جانا ہے”
“گھر تو اب تم نہیں جا سکتی ہو میں یہ طریقہ نہیں آزماتا اگر تمہارا بھائی میرے کام کے بیچ میں نہیں آتا”
“ہاں تو آپ کو جو بھی کام ہے آپ بھیو سے کہیے گا بس پلیز مجھے جانے دیجیے” اسنے خوف زدہ لہجے میں اپنی بات مکمل کی آنسو اسکی آنکھ سے بہہ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے ٹھیک سے بولا بھی نہیں جارہا تھا
“رونا بند کرو روح مجھے تمہارے آنسو نہیں پسند” جہان زیب نے اسکے آنسو صاف کرنے چاہے لیکن اسکی اس حرکت پر وہ ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی
“تم مجھ سے ڈر کیوں رہی ہو” اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوے اسنے روحیہ کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا
“آپ نے اسے مارا تھا” اسکے بنا نام لیے بھی وہ جانتا تھا کہ وہ کس کا ذکر کررہی ہے
“ہاں میں نے اسے مار دیا کیونکہ وہ اسی لائق تھا وہ ایک برا انسان تھا اب اس بات کو بھول جاؤ اور یہاں آرام سے رہو میں جانتا ہوں تمہاری غیر موجودگی دیکھ کر احد سیدھا یہیں آے گا تب تک کے لیے تم اس کمرے میں ہی رہو گی”
“نہیں پلیز مجھے میرے گھر جانا ہے” اسنے ہمت کرکے کہا لیکن وہ دروازہ بند کرکے جاچکا تھا روحیہ نے تیزی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنا چاہا لیکن اب وہ لاکڈ تھا
“پلیز کھولو اسے”اسنے روتے ہوے کافی دیر تک دروازہ بجایا شاید کوئی سن لے لیکن کسی نے اسکی نہیں سننی تھی کیونکہ یہی انکے مالک کا حکم تھا
روتے روتے وہ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئی دل سے بس یہی دعا نکلی کہ جلدی سے اسکا بھائی یہاں آجاے اور اسے یہاں سے لے جاے
°°°°°
اسے یقین تھا کہ جیسے ہی گھر میں روحیہ کی غیر موجودگی کا پتہ چلے گا احد یہیں آے گا اور ایسا ہی ہوا
بلیک جینز کے ساتھ وائٹ شرٹ اور بلیک کوٹ پہنے وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاے بڑی شان سے صوفے پر بیٹھا اسکا ہی منتظر تھا
“آجاؤ احد میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا”
“جہان زیب روحیہ کہاں ہے”
“میرے پاس ہے” اسکا اطمینان دیکھ کر احد کا پارہ مزید ہائی ہوچکا تھا
“کیا کیا ہے تم نے اسکے ساتھ”
“ابھی تو کچھ نہیں کیا”
“جہان زیب روحیہ کو بلاؤ مجھے اسے لے کر جانا ہے کہاں ہے وہ”
“اب وہ کہیں نہیں جاے گی احد وہ اب یہیں رہے گی”صوفے سے اٹھ کر اسنے کوٹ کا بٹن بند کیا
“میں تمہارا انتظار اس لیے نہیں کررہا تھا کہ تم آؤ گے اور اسے لے جاؤ گے میں تمہارا انتظار اسلیے کررہا تھا تاکہ جب نکاح ہو تو اسکا کوئی اپنا تو اسکے ساتھ ہو”
“جہان پلیز مت کرو ایسا وہ تمہاری نہیں ہوسکتی” احد نے بےبسی سے اسے دیکھتے ہوے کہا
“اب تو وہ میری ہوچکی ہے احد اور تم بھی جانتے ہو اگر جہان زیب کاظمی کو کچھ پسند آجاے تو وہ اسکا ہی ہوتا ہے”اسکی بات سن کر وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا
“روحیہ کبھی نہیں مانے گی”
“اسے منانا میرا کام ہے”
“اگر اسے کچھ بھی ہوا نہ جہان زیب تو میں تمہیں ختم کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گا”
“اگر اسے کچھ ہوا تو میں خود لمحہ نہیں لگاؤں گا خود کو ختم کرنے میں لیکن اسے کچھ نہیں ہوگا میں ہمیشہ اسکی حفاظت کروں گا”
احد نے آنکھیں بند کرکے گہرا سانس لیا جانتا تھا اسکے علاؤہ کوئی اور راستہ جو نہیں ہے جہان زیب کی مرضی کے بنا روحیہ تو کیا وہ خود بھی یہاں سے نہیں نکل سکتا
°°°°°
کونے میں بیٹھی وہ سر گٹھنوں میں دیے رونے کا کام بخوبی سر انجام دے رہی تھی
اسکے قریب جاکر جہان زیب زمین پر اسکے پاس بیٹھ گیا
“رونا بند کرو” اسکی آواز پر روحیہ نے آنسوؤں سے بھیگا چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا
“پلیز مجھے جانے دیں”
“جانے دوں گا پہلے مجھ سے نکاح کرلو”
٫مجھے نہیں کرنا کوئی نکاح” روحیہ کے کہنے پر جہان زیب نے گھور کر اسے دیکھا اور اسکے مزید قریب ہوا جبکہ اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ پوری دیوار سے چپک چکی تھی
“تم جانتی ہو جس لڑکے کو میں نے تمہارے سامنے مارا تھا میں نے اسکا کیا حال کیا تھا”
“مجھے نہیں جاننا”
“لیکن مجھے دکھانا ہے” اپنے کوٹ کی جیب سے موبائل نکال کر اسنے ایک ویڈیو چلا کر اسکے سامنے کی اس میں وہ سب کچھ ہورہا تھا جو اسنے زین کے ساتھ کیا تھا
اس ویڈیو میں جیسے ہی اسنے زین کا ہاتھ کاٹا اس کو منظر دیکھتے ہی اسنے اپنی آنکھیں بند کرکے چہرے کا رخ پھیر لیا
“آنکھیں کھولو اور دیکھو اسے اگر نہیں چاہتی یو میں یہ سب تمہارے بھائی کے ساتھ کروں تو شرافت سے نکاح کر لینا بنا کوئی تماشہ لگاے”
سخت لہجے میں کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی وارڈروب سے وہ سفید ڈوپٹہ نکالا جو روحیہ کا ہی تھا
وہ ڈوپٹہ اسنے روحیہ کو اوڑھا دیا ویسے بھی اس وقت وہ بنا ڈوپٹے کے ہی بیٹھی ہوئی تھی جس کا اسے احساس بھی نہیں ہورہا تھا
°°°°°