قسط: 12
لمحے بیتے کچھ پل گزرے اور روحیہ حسین جہان زیب کاظمی کے نام ہوگئی
تیمور صاحب اس وقت شہر سے باہر تھے اور جہان زیب کا ارادہ یہ سب باتیں انہیں جب ہی بتانے کا تھا جب وہ اسکے سامنے ہوتے
“جہان نکاح ہوچکا ہے اب اپنی بات پوری کرو اور روحیہ کو میرے ساتھ بھیج دو” کمرے میں موجود نکاح کے لیے آے وہ چند افراد جیسے ہی باہر گئے احد اسکے قریب آکر کھڑا ہوگیا
“میں اسے تمہارے ساتھ بھیج دوں گا لیکن میں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ تمہارے ساتھ صرف چند گھنٹوں کے لیے جاے گی اور اسکے بعد میں اسے اپنے پاس لے آؤں گا وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے”
اسکے سنجیدگی سے کہنے پر احد نے اپنا سر اثبات میں ہلادیا
“ویسے مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی تم اتنی آسانی سے کیسے مان گئے”
“جہان زیب تیمور کاظمی کبھی اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اب ہٹ جاتا بس اسکے لیے ڈر تھا اور ابھی بھی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ تم روحیہ کی حفاظت خود سے بڑھ کر کرو گے”
“جب جانتے تھے تو ولن کیوں بن رہے تھے”
“جہان حقیقت تو یہ ہے کہ تم ایک بیسٹ ہو تمہاری اور اسکی دنیا میں بہت فرق ہے اسے مرتے انسان کو دیکھ کر خوف آتا ہے اور تم روز پتہ نہیں کتنے انسانوں کو مار دیتے ہو”
“میں اسے اپنی اس دنیا سے الگ رکھوں گا اسی طرح کی لائف دوں گا جو ایک نارمل انسان گزارتا ہے”
“ٹھیک ہے مجھے تم پر یقین ہے”اسنے مطمئن ہوکر اپنا سر ہلایا
“میں ماما پاپا سے کہوں گا کہ روحیہ کڈنیپ ہوگئی تھی اور پھر تم نے اسے بچایا اور تم اسے پسند کرتے تھے تو میں نے تمہارا نکاح اس کے ساتھ کروادیا”
“وہ اغواہ کیوں ہوئی ہوگی یہ نہیں سوچا”
“بلکل سوچا ہے نہ میں ان سے کہوں گا کہ اس دن کالج میں زین کو جس شخص نے مارا تھا اس نے اسے اغواہ کیا تاکہ وہ کسی کو یہ بات نہ بتادے کہ قتل کس نے کیا ہے اور اب وہ لوگ اسکے پیچھے پڑے ہوے ہیں اسلیے میں نے اسکی حفاظت کے لیے اسکا نکاح تم سے کردیا”
“واہ تم نے تو پوری اسٹوری سوچ لی ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے”
“یہ جھوٹ بھی نہیں ہے اور یہ سب چلتا ہے”
“نہیں تم انہیں وہی بات بتاؤ گے جو سچ ہے”
“ہاں انہیں سب بتادوں اگر انہیں پتہ چلا کہ سرے عام لوگوں کا جو قتل کرتا ہے وہ تم ہو تو گھر کے سب افراد آکر تمہارے سامنے کھڑے ہوجائینگے کے ہم مرجائیں گے لیکن روحیہ کو تمہارے حوالے نہیں کرینگے”
اسکے کہنے کے انداز پر جہان زیب کو بے ساختہ ہنسی آگئی
“احد میں سر عام لوگوں کو مارتا ہوں کیا وہ مجھے جانتے نہیں ہوں گے”
“نہیں تم بھلے سر عام لوگوں کو مارتے ہو بہت سے لوگوں نے تمہیں یہ سب کرتے ہوے دیکھا ہوگا لیکن اس میں میرے ماں باپ اور بیوی نہیں آتے ہیں”
“تم زیادہ وقت تک یہ بات چھپا نہیں پاؤ گے”
“چھپا بھی سکتا ہوں یا شاید نہیں ،، زیادہ وقت تک نہیں لیکن کم از کم جب تک تو چھپا سکتا ہوں جب تک روحیہ اس رشتے کے لیے دل سے راضی نہیں ہوجاتی”
°°°°°
احد کے پاس سے ہوکر وہ اپنے کمرے میں گیا تھوڑی دیر پہلے نکاح کے وقت وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی لیکن اب پھر سے بیڈ سے اٹھ کر پہلے والی جگہ پر جاکر سر گھٹنوں پر رکھے بیٹھی تھی
“اٹھو روح”اسکا بازو پکڑ کر جہان زیب نے نرمی سے کہا
‘مجھے نہیں اٹھنا” وہ مزید کونے میں کھسک گئی
“تمہارا بھائی باہر کھڑا ہے اسکے ساتھ نہیں جانا” جہان زیب کے کہنے کی دیر تھی کہ وہ تیزی سے اٹھ کر باہر کی جانب بھاگنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی جہان زیب اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا
“جارہی ہو لیکن صرف تھوڑی دیر کے لیے واپس تمہیں میرے پاس ہی آنا ہے اور ہمیشہ میرے پاس ہی رہنا ہے میری یہ بات اپنے چھوٹے سے دماغ میں اچھے سے بٹھا لینا”جہان زیب کے کہنے پر اسنے جلدی جلدی اپنا سر اثبات میں ہلایا اس وقت تو اسے بس یہاں سے نکلنا تھا
بعد میں کیا ہوگا یہ اسنے نہیں سوچا تھا اور نہ ہی اسے سوچنا تھا
جہان زیب کے چھوڑتے ہی وہ کمرے سے باہر بھاگ گئی جہاں سامنے ہی احد کھڑا تھا
اسے دیکھتے ہی روحیہ کو پھر سے رونا آیا بھاگ کر وہ اسکے سینے سے لگ گئی
“روحیہ کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے” اسکے بالوں پر ہاتھ رکھ کر احد نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا
جب سے وہ یہاں آیا تھا روحیہ سے اسکی اب ملاقات ہوئی تھی کیونکہ نکاح کے وقت وہ ڈری سہمی سی نظریں جھکائے بیٹھی تھی اسنے نظریں اٹھا کر یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہاں اسکا بھائی بھی موجود ہے
“روحیہ رونا بند کرو”احد نے اسکے آنسو صاف کیے
جبکہ جہان زیب پیچھے کھڑا بیزاری سے ان بہن بھائی کا پیار بھرا مظاہرہ دیکھ رہا تھا
“احد میرے خیال سے ابھی کے لیے اتنا پیار کافی ہے یہاں کھڑے ہوکر تم اپنا وقت برباد کررہے ہو” اس سے سخت لہجے میں کہہ کر وہ روحیہ کی جانب متوجہ ہوا
“اور تم رونا بند کرو ورنہ جانے نہیں دوں گا” اسکے کہنے پر روحیہ نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور احد کا ہاتھ کھینچ کر اسے چلنے کا اشارہ کیا
اسے یہ ڈر تھا کہ اگر وہ تھوڑی دیر اور یہاں رکتی تو شاید وہ سچ میں اسے نہیں جانے دیتا
°°°°°
“سر آپ کے لیے یہ پارسل آیا ہے”
اس وقت وہ لاؤنج میں آنکھیں موندے بیٹھا تھا جب ملازم نے اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوکر کہا
عبداللہ نے ایک نظر اس ملازم کو دیکھا اور پھر اس بڑے سے پارسل کو
“کون لے کر آیا ہے”
“اسنے کہا تھا یہ جہان زیب کاظمی نے بھجوایا ہے”ملازم کے کہتے ہی اگلے ہی پل وہ سیدھا ہوا اور اس پارسل کو کھولنے کا حکم دیا
ملازم کے کھولتے ہی عبدللہ نے اس بوکس کو دیکھا جہاں بنا ہاتھوں کے زین کی لاش موجود تھی
اسنے اپنے غصے کو ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر ضبط کرنا چاہا لیکن اسے بھی پتہ تھا اب اسکا غصہ اتنی آسانی سے نہیں اترے گا
اسکے سب سے خاص آدمی کی لاش اسکے سامنے تھی جسے جہان زیب کاظمی نے بھجوایا تھا
“جہان زیب کاظمی آج تک تمہیں نظر انداز کیا ہے لیکن اب تم مجھ سے بچ نہیں سکتے ہو اب دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں”
غصے سے اسنے ایک نظر اس باکس میں پڑی زین کی لاش کو دیکھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے چلا گیا
°°°°°
روحیہ کو اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ کر ان سب گھر والوں نے سکھ بھرا سانس لیا
احد نے اسے کمرے میں بھیج کر اپنی بنائی ہوئی کہانی گھر والوں کو بتادی جسے سن کر سب ہی اس سے خفا تھے
“دماغ ٹھیک ہے تمہارا احد یہ کیا کرکے آے ہو” اسکی بات سنتے ہی سب سے پہلے حسین صاحب نے غصے سے کہا
“پاپا اس سے بہتر آپشن اور کیا ہوگا”
“ٹھیک کہہ رہے ہیں تمہارے پاپا ہم تو اس لڑکے کو جانتے بھی نہیں ہیں کہاں تم نے ہماری بچی کا اسکے ساتھ نکاح کردیا” ان دونوں کا غصے بھرا انداز دیکھ کر اسنے حریم کی طرف دیکھا جو خود آنکھوں میں خفگی لیے اسے دیکھ رہی تھی جیسے اسکا یہ فیصلہ حریم کو پسند نہیں آیا تھا
“حریم تم سمجھاؤ نہ انہیں”
“کیا سمجھاؤں آپ نے غلط کیا ہے احد” حریم کے منہ سے بھی اپنے لیے وہی بات سن کر اسنے دل میں جہاں زیب کو گالیوں سے نوازا
اگر عام انسانوں کی طرح تھوڑی تمیز سے یہ کام کرتا تو اس وقت اسے اس کٹہرے میں نہیں کھڑا ہونا پڑتا
°°°°°