قسط: 13
“ماما میں بھائی ہوں روحیہ کا اسکے لیے برا فیصلہ نہیں کروں گا بھلے یہ فیصلہ تھوڑا جلد بازی میں کیا ہے لیکن بہترین ہے جہان زیب بہت اچھا ہے میں اسے یہاں بلا لوں گا آپ لوگ مل لیے گا اور پھر ہم روحیہ کو اسکے ساتھ رخصت کردیں گے” اسنے بات سے گھر والوں پر جیسے بم گرایا تھا
“یہ کیا کہہ رہے ہو احد”
“پاپا میں نے اسکی شادی جہان زیب سے اسی لیے کروائی ہے نہ تاکہ وہ اسکے پاس محفوظ رہے تو ظاہر ہے اسکی رخصتی بھی ہم ابھی کریں گے”
“اور لوگ کیا کہیں گے” زہرہ بیگم نے اپنی کئیں فکروں میں سے ایک ظاہر کی
“وہی جو سچ ہے یہی کہ آپ نے روحیہ کی شادی کردی اسکے علاؤہ آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے لوگ باتیں بناتیں ہیں تو بنائیں یہی انکا کام ہے آپ انکی فکر کرنا چھوڑ دیں میں روحیہ کے پاس جارہا ہوں امید کرتا ہوں آپ سب لوگ میری بات سمجھ گئے ہوں گے”اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ روحیہ کے کمرے میں جانے لگا جب اسے حسین صاحب کی آواز سنائی دی
“بہن کی حفاظت کے لیے دوست سے نکاح کروادیا لیکن خود آرمی آفیسر ہوکر اسکی حفاظت نہیں کرسکتا ہے” حسین صاحب کے کہنے پر اسنے مڑ کر انہیں دیکھا لیکن ابھی کچھ کہنا فضول تھا اسلیے بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا
البتہ دل میں یہ خیال ضرور آیا تھا کہ اگر جہان زیب اسکے سامنے ہوتا تو اسکے دانت توڑنے میں وہ دیر نہیں لگاتا
لیکن انکی بات اسے غلط بھی نہیں لگی تھی سچائی تو اس میں تھی وہ سب سے اپنے گھر والوں کی حفاظت کرسکتا تھا لیکن بیسٹ سے نہیں
°°°°°
صوفے پر بیٹھی وہ اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سوچ رہی تھی ایک ہی دن میں اسکی زندگی کتنی بدل گئی تھی
وہ روحیہ حسین سے روحیہ جہان زیب بن چکی تھی اس شخص کے نکاح میں آچکی تھی جس نے اسکے سامنے ایک انسانی جان لی تھی
دروازہ کھولنے کی آواز پر اسنے ایک نظر اندر آتے احد کو دیکھا اور نظروں کا زاویہ موڑ لیا
“روحیہ میری بات سنو”احد نے صوفے پر اسکے قریب بیٹھ کر کہا جس پر اسنے نظریں اٹھا کر احد کی طرف دیکھا
“گھر میں کسی کو مت بتانا کہ جہان زیب نے زین کو مارا تھا”
“لیکن کیوں”
“یہ جاننا تمہارے لیے ضروری نہیں ہے اگر گھر کا کوئی افراد تم سے کچھ پوچھے تو تم انہیں وہی بتانا جو میں تم سے کہہ رہا ہوں” اپنی بنائی ہوئی اسٹوری اسنے اسے بھی اچھے سے سمجھا دی
“لیکن یہ غلط ہے بھیو اسنے حمنہ کے بھائی کو مارا تھا”
“روحیہ اسنے اسے صرف اسلیے مارا تھا کیونکہ وہ ایک برا انسان تھا اسنے کچھ غلط نہیں کیا ہے جو کام یہاں کا قانون نہیں کرسکتا پولیس نہیں کرسکتی وہ کام جہان زیب کرتا ہے”
“وہ جو بھی کرتے ہیں مجھے پرواہ نہیں ہے بس مجھے انکے ساتھ نہیں جانا ہے” آنسو پھر اسکی آنکھ سے بہنے لگے
جسے دیکھ کر احد نے نرمی سے اسکے آنسو صاف کیے
“ہر لڑکی کو جانا پڑتا ہے روحیہ ہاں تمہارے جانے کا طریقہ تھوڑا مختلف ہے لیکن یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہے بھروسہ ہے بھیو پر”روتے روتے اسنے اپنا سر اثبات میں ہلادیا
“تو پھر اسے قائم رکھو میں تمہارے لیے کچھ غلط تھوڑی کروں گا” اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر وہ اسکے کمرے سے چلا گیا
اسکے جانے کے بعد روحیہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اسے اپنے بھائی پر بھروسہ تھا لیکن جہان زیب پر نہیں
اسکے تو نام سے بھی اسے خوف آرہا تھا
°°°°°
گھر میں جہان زیب کی اتنی عزت دیکھ کر اسے اپنا وہاں بیٹھنا مشکل لگ رہا تھا اسے نہیں یاد تھا کبھی اسے اس گھر میں اتنی عزت ملی ہو
پہلے اتنی مشکل سے گھر والوں کی خفگی کو دور کیا تھا لیکن جہان زیب کو دیکھ کر ان سب کی جو تھوڑی بہت ناراضگی دور ہوئی تھی وہ بھی واپس بڑھ گئی کیونکہ اسنے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ سیاستدان تیمور کاظمی کا بیٹا ہے
“بہت سوئیٹ ہیں تمہارے گھر والے” اسنے احد کے کان میں سرگوشی کی
“ہاں یہ ساری سوئیٹنیس صرف تمہارے لیے ہی رکھی تھی”
تھوڑی دیر وہاں بیٹھ کر اب اسے گھر جانے کی جلدی تھی
“بیٹھ جاؤ بیٹا حریم بس کھانا لگار رہی ہے کھا کر جانا”
“نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے مجھے ایک کام سے جانا ہے انشاءاللہ پھر کسی دن ضرور کھاؤں گا ابھی مجھے جلدی ہے” اسکے کہنے پر زہرہ بیگم نے حریم کو اشارہ کیا جو انکا اشارہ سمجھتے ہی روحیہ کے کمرے کی طرف اسے لینے چلی گئی
لیکن دو منٹ بعد ہی وہ پریشانی سے انگلیاں مڑوڑتی ہوئی واپس وہاں آئی
”وہ ماما روحیہ دروازہ نہیں کھول رہی ہے” اسکے کہنے پر سب نے اسکی طرف دیکھا
‘کمرے کی چابی کہاں ہے”سوال جہان زیب کی طرف آیا تھا جسے سن کر وہ تیزی سے کمرے کی چابی لینے کے لیے بھاگ گئی
اور چابیاں لاکر احد کو دے دیں
لیکن احد کے دروازہ کھولتے ہی خالی کمرہ دیکھ کر سب پریشان ہوچکے تھے
°°°°°
“روحیہ کہاں گئی” حریم نے واشروم کا دروازہ نوک کیا لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں ملا اسنے دروازہ کھول کر دیکھا واشروم خالی تھا
انک سب کے پریشان چہرے دیکھ کر وہ اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر اطمینان سے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا
“حسین روحیہ ہاں گئی ہے” زہرہ بیگم نے پریشانی سے اپنے شوہر کو پکارا
“میں باہر دیکھ کر آتی ہوں کیا پتہ وہاں ہوں” جلدی جلدی میں کہہ کر حریم وہاں سے جانے لگی لیکن سب جانتے تھے کہ وہ باہر نہیں ہوگی کیونکہ جب سے وہ گھر آئی تھی اپنے کمرے میں ہی بند تھی
“اسکی ضرورت نہیں ہے وہ یہیں پر موجود ہے” جہاں زیب کی سنجیدہ آواز پر اسکے باہر جاتے قدم رکے
“کہاں ہے وہ یہاں ہمیں تو نہیں دکھ رہی ہے” احد نے اسکے قریب آکر کہا جس پر اسنے گھور کر اسے دیکھا
“آنکھوں کا استعمال کرتے تو دکھ جاتی”
بیڈ کے قریب جاکر اسنے بیڈ کے نیچے سے اسکا پاؤں کھینچ کر اسے نکالا
اور اسکے باہر نکالتے ہی وہ جلدی سے کھڑی ہوئی جبکہ سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے
‘روحیہ یہ کیا بچوں والی حرکت ہے”سب سے پہلے زہرہ بیگم کی صدمے سے بھری آواز نکلی
“مجھے انکے ساتھ نہیں جانا ہے”کان کھجاتے ہوے اسنے منمناتے ہوے کہا جسے اور کوئی نہ سہی لیکن قریب کھڑا جہان زیب ضرور سن چکا تھا
اسے پتہ تھا کہ وہ اسے لینے آیا ہے اسلیے اسکے آتے ہی وہ بیڈ کے نیچے چھپ چکی تھی لیکن وہاں چھپنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا
“ویڈیو بھول گئی ہو تو دوبارہ دکھاؤں”اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر اسنے ہلکی سی سرگوشی کی جسے سن کر روحیہ نے ڈر کر اسکی طرف دیکھا
اسکی دکھائی ہوئی وہ ویڈیو پھر سے اسکے زہہن میں چلنے لگی
“ٹھیک ہو میرا بچہ کیا ہوا ہے وہاں کیوں چھپی تھیں”حسین صاحب نے اسے اپنے قریب بلا کر پیار سے کہا جس پر ایک نظر جہان زیب پر ڈال کر وہ انکے سینے سے لگ گئی
لیکن کچھ کہا نہیں تھا وہ کہہ بھی کیا سکتی تھی شاید اسے اسی فیصلے پر راضی رہنا تھا یقینا یہی رب کی رضا تھی جس پر اسے راضی رہنا تھا
°°°°°