قسط: 14
انکے گھر پہنچتے ہی ملازم بھاگتا ہوا جہان زیب کے قریب آیا جیسے وہ اسی کا انتظار کررہا تھا
“سر وہ تیمور سر آگئے ہیں اسٹڈی روم میں آپ کا انتظار کررہے ہیں” ملازم کو جانے کا اشارہ کرکے اسنے اپنے پیچھے نظریں جھکا کر کھڑی روحیہ کو دیکھا
“جس کمرے میں پہلے تمہیں رکھا تھا وہاں جاؤ میری تھوڑی دیر میں آرہا ہوں اور رونے مت بیٹھ جانا” اسکا گال تھپتھپا کر وہ وہاں سے اسٹڈی روم میں چلا گیا اس خاموش ماحول میں وہ آرام سے اسکے دور جاتے جوتوں کی ٹک ٹک سن سکتی تھی
لیکن اس کمرے میں جانے کے بجاے وہ ملازم سے اسٹڈی کا راستہ پوچھ کر اس طرف چلی گئی کیونکہ جہان زیب بھی وہیں گیا تھا
°°°°°
اسٹڈی کے قریب پہنچتے ہی اسکے اندر سے کسی کی غصے سے جنگھاڑتی آواز سنائی دی
“یہ کیا حرکت کی ہے تم نے”
“کیا کیا ہے میں نے”
“داد مجھے بتا چکا ہے”
”تو پوچھ کیوں رہے ہیں”
“تمہاری حرکت کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھا جانتے بھی ہو کیا کیا ہے تم نے”
“نکاح کیا ہے میں نے”
“نکاح ایسے ہوتا ہے جیسے تم نے کیا ہے”
“میرے خیال سے نکاح تو ایسے ہی ہوتا ہے ایسے نہیں ہوتا کیا” اسکے پوچھنے پر تیمور صاحب نے بمشکل اپنے غصے کو ضبط کیا
“تمہیں اندازہ نہیں ہے جہان زیب اگر یہ بات میڈیا میں پھیلی تو کیا وبال طوفان مچ جاے گا”
“میری بلا سے مچ جاے آئی ڈونٹ کئیر” اسنے لاپروائی سے شانے آچکا کر کہا
“تمہاری یہی لاپروائی مجھے بری لگتی ہے”
“نکاح کی مبارک باد دینے کے بجاے آپ مجھ پر غصہ ہورہے ہیں یہی خیال کر لیجیے کہ آپ کی بہو باہر کھڑی ہے” اسکے کہنے پر تیمور صاحب کے ساتھ ساتھ باہر کھڑی روحیہ بھی چونکی
“روح اندر آجاؤ چھپنے کا کیا فائدہ تمہارا سایہ دکھ رہا ہے” گہرا سانس لے کر وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیے اندر کمرے میں چلی گئی اور اسے دیکھتے ہی تیمور صاحب نے غصے سے جہان زیب کو دیکھا
“جہان زیب یہ تو تم سے بہت چھوٹی لگ رہی ہے”
“اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے صرف تیرہ سال کا فرق ہے”
“تو تیرا سال کا فرق کم ہوتا ہے”
“بلکل” اسنے اطمینان سے جواب دیا
جب اسکا فون رنگ ہوا اسنے پوکیٹ سے موبائل نکال کر دیکھا جہاں انجان نمبر سے کال آرہی تھی
اسکے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ یہ کال عبداللہ کی ہی طرف سے ہے
“میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں”کال اٹینڈ کرکے وہ باہر چلا گیا
جبکہ اب وہ نروس سی کبھی انگلیاں مڑوڑتی تو کبھی سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھتی جس نے سفید کمیرز شلوار پر سیفد ہی کوٹ پہنا ہوا تھا
“بیٹھو یہاں” انہوں نے اشارے سے اسے اپنے سامنے بنے صوفے پر بیٹھے کا اشارہ کیا
اور اس سے باتیں کرنے لگے تاکہ وہ تھوڑی کمفرٹیبل ہوجاے جو وہ تھوڑی ہی دیر میں ہوچکی تھی
°°°°°
“یقینا میرا بھیجا تحفہ تمہیں مل گیا ہوگا”چہرے پر دلکش مسکراہٹ سجائے اسنے فون پر دوسری طرف موجود عبداللہ سے کہا اور وہ جو پہلے ہی آگ بگولہ ہوا پڑا تھا اسکی آواز سن کر مزید تیش میں آگیا
“تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم نے کس سے ٹکر لی ہے اب تک میں تمہیں نظر انداز کررہا تھا لیکن اب دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں”
“دیکھ لیتا ہوں کتنا دم ہے تم میں ، میرے ساتھ تم کیا کرسکتے ہو” اسنے اطمینان بھرے لہجے میں کہا
“اتنے اطمینان سے کھڑے تم مجھ سے بات کررہے ہو لگتا ہے تم مجھے جانتے نہیں ہو چٹکیوں میں ، میں تمہارے باپ کی بنائی ہوئی یہ عزت خاک میں ملا سکتا ہوں اوہ نہیں وہ تو تمہارا باپ ہے ہی نہیں” عبداللہ کے الفاظ سنتے ہی اسکی رگیں تن چکی تھیں
“تمہارا باپ تو پتہ نہیں کون ہے دنیا کے کس کونے میں چھپا ہوا ہے زندہ بھی ہے یا نہیں پہلے اسے ڈھونڈ کر مارو پھر آکر مجھ سے لڑنا”دوسری طرف سے کال کٹ چکی تھی لیکن وہ ابھی تک اسی طرح مظبوطی سے موبائل اپنے ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا
آنکھیں غصے سے سرخ ہوچکی تھیں اسنے غصے میں اپنے موبائل کو دیوار پر مارا
جبکہ پاس سے گزرتے ملازم نے ایک نظر اسکی اس حرکت پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا
یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی یہ منظر انہیں ہر ہفتے یا مہینے میں دیکھنے کو ملتا تھا کیونکہ جہان زیب کاظمی کا سب سے زیادہ غصہ اپنے موبائل فون پر ہی نکلتا تھا
°°°°°
فون اسکا ٹوٹ چکا تھا اور شام کا گیا وہ رات کے بارہ بجے تک بھی نہیں لوٹا تھا اور یہی وجہ تیمور صاحب کی پریشانی میں اضافہ کررہی تھی
وہ جانتے تھے کہ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ جہان زیب کاظمی کو کچھ کر سکے اسکے دشمن ہر جگہ پھیلے ہوے تھے لیکن وہ اپنی حفاظت کرنا جانتا تھا
انہیں اتنی فکر ہوتی بھی نہیں اگر ملازم انہیں یہ نہیں بتاتا کہ وہ غصے سے گھر سے نکلا ہے
کتنی دیر سے وہ مسلسل ٹہلتے جارہے تھے لیکن وہ تھا کہ آکر ہی نہیں دے رہا تھا
بڑھتا انتظار جب ختم ہوا جب جہان زیب کی گاڑی گھر میں داخل ہوئی گہرا سانس لے کر وہ خود بھی باہر چلے گئے
جہاں اب وہ لان میں رکھی کرسییوں میں سے ایک پر بیٹھا ہوا تھا
“کہاں گئے تھے تم” اسکے قریب جاکر وہ خود بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے
ٹھنڈی ہوائیں ان دونوں کو چھو کر گزر رہی تھیں انکے پوچھنے پر اسنے اسی پوزیشن میں بیٹھے ہوے جواب دیا
“قبرستان گیا تھا ماں سے ملنے” اسکے کہنے پر وہ سمجھ چکے تھے کہ آج پھر کسی نے اسے گزرا وقت یاد کروایا ہے
کیونکہ جب بھی کوئی اس سے ماضی کی بات کرتا تھا وہ تب ہی اپنی ماں کے پاس جاتا تھا
“کسی نے کچھ کہا ہے جہان”وہ جانتے تھے کہ وہ کچھ نہیں بتاے گا پھر بھی انہوں نے پوچھ لیا
“نہیں ، روح کہاں ہے”
“کمرے میں ہے بہت پیاری بچی ہے”اسکا ذکر ہوتے ہی جیسے ان دونوں کا موڈ فریش ہوگیا
“اچھا اسی پیاری بچی کی وجہ سے آپ غصہ ہوے تھے”
“وہ تو وقتی تھا” اسکی بات انہوں نے ہوا میں اڑائی
“چلو اندر کھانا کھاؤ”
“روح نے کھالیا”
“ہاں کھالیا اب تم بھی کھالو”
‘نہیں مجھے بھوک نہیں ہے میں بس آرام کروں گا آپ بھی جاکر سوجائیں گڈ نائٹ” اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ کمرے میں چلا گیا جبکہ تیمور صاحب اب بس اس سوچ میں گم تھے کہ یہ گزرا ہوا باب پھر کس نے انکے بیٹے کے سامنے دہرایا
°°°°°
وہ جو مزے سے ٹی وی دیکھ رہی تھی اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی
جہان زیب نے ایک نظر ٹی وی کی طرف دیکھا جہاں کومیڈی ڈرامہ چل رہا تھا اور جاکر اسکے قریب صوفے پر بیٹھ گیا
اسکے بیٹھتے ہی روحیہ وہاں سے اٹھ کر جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر جہان زیب نے اپنی جانب کھینچ کر اسے اپنی گود میں بٹھالیا
“کہاں جارہی ہو”
“وہ مجھے سونا ہے’
“بہت مزے آرہے ہیں شوہر گھر سے باہر تھا اسکی فکر کرنے کے بجاے تم یہاں ڈرامے دیکھ رہی ہو”
“پ-پلیز چھوڑیں” روحیہ نے اسکی گود سے اٹھنا چاہا لیکن اسکی گھورتی آنکھیں دیکھ کر خاموشی سے نظریں جھکا کر بیٹھی رہی
اسکی اس ادا پر جہان زیب کو بےساختہ اس پر پیار آیا اسکا چہرہ اپنے قریب کرکے جہان زیب نے اسکی گردن پر نرمی سے اپنے لب رکھ دیے
“ی–یہ کیا کررہے ہیں پلیز دور رہیں”اسکے مظبوط سینے پر ہاتھ رکھ کر روحیہ نے اسے خود سے دور کرنا چاہا
جبکہ اسکی اس حرکت پر جہان زیب نے اپنا چہرہ اسکی گردن سے نکال کر اسے دیکھا جہاں آنکھوں میں ناسمجھی کا تاثر لیے وہ اسے دیکھ رہی تھی
“میں وہ کررہا ہوں جو ایک شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے”
“کیا کرتا ہے”
“تم میری سوچ سے زیادہ معصوم ہو اور میں چاہتا ہوں تم ہمیشہ ایسی ہی رہو”اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر اسنے روحیہ کی پیشانی کو اپنی پیشانی سے جوڑ دیا
“بس اس بات کا دھیان رکھنا کہ جن جذبات کو میں نے دبایا ہوا ہے وہ باہر نہ نکلیں تمہاری نازک جان میری شدتیں سہہ نہیں پاے گی اور اس طوفان کو مت جگانا جسے تم جھیل نہیں سکتی ہو بات سمجھ آئی” ویسے تو اسکی کہی بات کا ایک لفظ بھی اسے سمجھ نہیں آیا تھا لیکن اسکی گرفت سے نکلنے کے لیے اسنے جلدی جلدی اپنا سر اثبات میں ہلادیا
“ویری گڈ اب جاکر سوجاؤ”، اسکے آزادی دیتے ہی وہ بیڈ پر جاکر کمبل میں چھپ کر لیٹ گئی اسکی اس حرکت کو دیکھتے ہی جہان زیب کے لب مسکرا اٹھے
ٹی وی آف کرکے وہ چینج کرنے کے لیے چکا گیا
°°°°°
چینج کرنے کے بعد اسکا ارادہ اب سونے کا تھا
کمبل ہٹا کر اسنے اپنی معصوم بیوی کو دیکھا
جو سوئی تو نہیں تھی لیکن اس سے بچنے کے لیے اپنی آنکھیں بند کرکے سونے کا دکھاوا ضرور کررہی تھی
بیڈ پر لیٹ جہاں زیب نے روحیہ کو کمر سے تھاما اور اسکا نازک وجود خود پر لٹا لیا جبکہ اسکی اس حرکت پر اسنے سٹپٹا کر آنکھیں کھولیں
“یہ کیا”اسنے اسکے اوپر سے اترنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی اسکی کمر پر اپنی گرفت سخت کرکے جہان زیب اسکی اس حرکت کو روک چاک تھا
“سوجاؤ”
“دی–کھیں پلیز چھوڑیں مجھے آپ ایسے سو نہیں پائینگے” وہ اسے یہ نہیں کہہ سکی کہ اس طرح کی پوزیشن میں وہ کمفرٹیبل ہوکر سو نہیں پاے گی
“تمہیں اندازہ نہیں ہے اس طرح میں کتنا پرسکون ہوکر سوؤں گا اب تم بھی سوجاؤ روح”اس کا سر اپنے سینے پر رکھ کر اسنے سائیڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ آف کردیا
کمرے میں موجود اس آخری روشنی کے بند ہوتے ہی کمرہ اندھیرے میں ڈوب گیا جبکہ اسکی اس حرکت پر اسنے اسکے سینے پر رکھا سر دوبارہ اٹھایا
“پلیز لائٹ کھول دیں مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے”
“ڈرنے کی کیا ضرورت ہے آنکھیں بند کرکے سوجاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں نہ” اسکا سر دوبارہ آنکھیں سینے پر رکھ کر اسنے روحیہ کے بالوں پر اپنے لب رکھے اور خود بھی سکون سے آنکھیں موند لیں
°°°°°