قسط: 16
اپنے پاس کسی کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی اپنی بند آنکھوں کو کھولے بنا وہ اس وجود کے ساتھ چپک گئی
“ماما”
“نہیں ماما کا داماد” اسکی آواز سنتے ہی اسنے خوف زدہ ہوکر آنکھیں کھولیں سب سے پہلی نظر جہان زیب پر گئی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
اسکے کپڑے اب تبدیل ہوچکے تھے ہاتھ بھی صاف تھے لیکن اسے ابھی بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی تک جہان زیب کے ہاتھوں پر وہ خون لگا ہوا ہے
وہ جلدی سے بیڈ سے اترنے لگی جب اسکی اس حرکت کو دیکھتے ہوے جہان زیب نے اسے بیڈ پر دوبارہ دھکا دیا اور اسکے دونوں ہاتھ قید کرکے اسکے اوپر جھک گیا
“کہاں جارہی ہو”
“چ–چھوڑیں مجھے” اسکی آنکھیں بھیگ چکی تھیں اور اسکی گرفت میں موجود وہ اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کررہی تھی
“کتنی بار کہا ہے مجھ سے مت ڈرا کرو”
“آ–پ نے اس آدمی کو م-مارا تھا میں نے خود دیکھا تھا وہ مرا ہوا تھا اور آپ کے ہاتھ پر خ–خون لگا ہوا تھا آپ نے حمنہ کے بھائی کی طرح اسے بھی مار دیا”
“ہاں مار دیا میں نے اسے کیونکہ میں ایک درندہ ہوں اور یہی میرا کام ہے”
“مجھے جانے دیں”
“میرے سامنے یہ بات مت بولا کرو”
“نہیں رہنا مجھے آپ کے ساتھ” اسکے آنسوؤں میں روانی آچکی تھی
“رہنا تو تمہیں میرے ساتھ ہی ہے ساری زندگی تمہیں اس بیسٹ کی قید میں ہی رہنا ہے تم مجھ سے دور جا سکو گی یہ بھول ہے تمہاری” ماتھے پر بل ڈالے اسنے روحیہ کو گھورتے ہوے کہا
“چھوڑیں مجھ” اسکے دوبارہ وہی الفاظ دہرانے پر وہ شدت سے اسکے لبوں پر جھک گیا
تھوڑی دیر میں اپنی رکتی سانسوں کے باعث وہ نازک جان بےحال ہوچکی تھی لیکن کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ دونوں ہاتھ جہان زیب کی قید میں تھے
آخر اس پر ترس کھاکر اسنے اسکی سانسوں کو آزاد کردیا لیکن اگلے ہی پل اسکی گردن پر جھک کر وہاں اپنا شدت سے بھرپور لمس چھوڑنے لگا
آج اسکا روحیہ کو چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اسکی ہر طرح کی مزاحمت کو نظر انداز کرکے وہ اس پر جھکتا چلا گیا
اسکی طلب تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اگر اسنے روحیہ کو اپنی قید سے آزاد کیا تھا تو صرف اس وجہ سے کیونکہ اسکی نازک بیوی اسکی وجہ سے بےہوش ہوچکی تھی
°°°°°
اسکی آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں اکیلی تھی گزرا ہر منظر یاد کرتے ہی اسکی آنکھیں نم ہوچکی تھیں وہ تو اب تک اس کتاب میں لکھی ہوئی ان باتوں کو جھوٹ سمجھ رہی تھی
لیکن وہ ساری باتیں حقیقت میں ہوتی ہیں اور یہ بات جہان زیب اسے اچھے سے سمجھا چکا تھا
شاور لے کر وہ نیچے چلی گئی جہان زیب گھر میں نہیں تھا جس پر اسنے شکر کا سانس لیا اس وقت وہ اسے اپنے سامنے دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی
°°°°°
گھر آتے ہی اسنے ملازم سے روحیہ کے بارے میں پوچھا جس پر اسنے بتایا کہ وہ اسٹڈی روم میں گئی تھی
لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھی اسے یہی لگا کہ وہ کمرے میں ہوگی لیکن خالی کمرہ دیکھ کر اسے اچھی خاصی پریشانی ہوچکی تھی
لیکن یہ پریشانی زیادہ دیر تک نہیں رہی اسکے زہہن میں وہ منظر چلنے لگا جب اسنے روحیہ کو بیڈ کے نیچے سے نکالا تھا
یہی بات سوچتے ہوے وہ واپس اسٹڈی روم میں آیا اور اسکا اندازہ ٹھیک تھا وہ ٹیبل کے نیچے چھپی ہوئی تھی یقینا اسی سے
اسکا ہاتھ پکڑ کر اسنے اسے ٹیبل کے نیچے سے نکالا
“یہاں بیٹھ کر کیا ہورہا تھا”
روحیہ نے اسکی بات کا جواب نہیں دیا وہ اسی طرح نظریں جھکائے کھڑی رہی جس پر گہرا سانس لے کر اسنے اسے ٹیبل پر بٹھایا اور خود اسکے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا
“پلیز روح تم مجھ سے ڈرا مت کرو ہاں میں لوگوں کو مارتا ہوں کیونکہ میں ایک بیسٹ ہوں”
“آپ کیوں مارتے ہیں انہیں”
“کیونکہ وہ اسی لائق ہیں میں صرف برے انسان کو مارتا ہوں جنہیں قانون سزا نہیں دیتا انہیں میں سزا دیتا ہوں جس مظلوم کے ساتھ ظلم ہوتا ہے میں اسے انصاف دلاتا ہوں تم بتاؤ کیا یہ غلط ہے” اسکا چہرہ تھوڈی سے اوپر کرکے اسنے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جس پر کچھ سوچ کر اسنے اپنا سر نفی میں ہلادیا وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا وہ غلط نہیں کررہا تھا
“لیکن آپ نے حمنہ کے بھائی کو کیوں مارا”
“کیونکہ وہ بھی ایک برا انسان تھا اب مجھے بتاؤ تم وہاں پر کیوں آئی تھیں”
“میں بس دیکھ رہی تھی کہ یہاں کونسی جگہ ہے پھر میں نے کسی کے چیخنے کی آواز سنی مجھے لگا کوئی مصیبت میں ہے اسلیے میں نیچے چلی گئی تھی”
“اگر کوئی مصیبت میں ہوتا بھی تو تم کیا کرتیں”
“میں باہر کھڑے گارڈز کو آواز دیتی”
“تو اس سے بہتر نہیں تھا تم خود نیچے آنے کے بجاے گارڈز کو ہی بتادیتیں” جہان زیب کے کہنے پر اسنے جیسے اپنی عقل پر ماتم کیا
“ہاں یہ میں نے نہیں سوچا تھا”
“خیر آج کے بعد تم وہاں نہیں جاؤ گی وہ میری الگ دنیا ہے جسے میں تم سے دور رکھنا چاہتا ہوں اور میں یہی چاہوں گا تم اس سے دور رہو اور میری بات کو سمجھو”
“لیکن آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا” اسکے منہ کھلا کر کہنے پر جہان زیب مسکرا اٹھا وہ جانتا تھا وہ کس بارے میں بات کررہی ہے
“میں نے کچھ غلط نہیں کیا تھا بیوی ہو تم میری اور جو میں نے کیا تھا وہ تو میں اب بھی دوبارہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں”
جہان زیب کے کہتے ہی وہ وہاں سے بھاگنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی وہ اسے اپنی طرف کھینچ کر اسکا نازک وجود اپنے کندھے پر ڈال چکا تھا
“جہان مجھے بھوک لگ رہی ہے نیچے اتاریں” روحیہ کے کہنے پر اسکے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نمودار ہوئی کیونکہ اسنے پہلی بار اسکے منہ سے اپنا نام سنا تھا
اسنے روحیہ کو نیچے اتارا اور نرمی سے اسکے لبوں پر جھک گیا
“میری جان میں جانتا ہوں میرے آنے سے پہلے تم اپنا پیٹ اچھے سے بھر چکی ہو اسلیے یہ بہانہ مت بناؤ”اسے دوبارہ اپنی بانہوں میں اٹھاے وہ اسے اپنے کمرے کی طرف لے گیا
جبکہ اسے پھر سے پہلے والے موڈ میں دیکھ کر روحیہ نے شرما کر اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا لیا