قسط: 17
اپنے کمرے کی کھڑکی سے وہ اس وقت باہر لان میں موجود سبزہ دیکھ رہے تھے جبکہ زہہن کے دھاگے ماضی میں الجھے ہوے تھے جہاں ایک کے بعد ایک منظر آے جارہا تھا
°°°°°
“تیمور مجھے ڈر لگ رہا ہے”دلہن بنی زائشہ نے اپنا سر تیمور کے کندھے پر رکھا
دو محبت کرتے وجود آج ایک پاک بندھن میں بندھ چکے تھے
یونیورسٹی میں کی ہوئی دوستی انکی محبت بن گئی انکا ارادہ پڑھائی کے بعد ہی شادی کرنے کا تھا اور اس پل کا ان دونوں نے بےصبری سے انتظار کیا تھا لیکن اب جب وہ وقت آگیا تھا تو انہیں کہیں سے بھی اپنی بیوی کے چہرے پر وہ خوشی نہیں مل رہی تھی جو اس وقت کا زکر کرتے ہی ہمیشہ اسکے چہرے پر آجاتی تھی
“کیوں ڈر لگ رہا ہے”
“میں نے ایک برا خواب دیکھا میں نے دیکھا کہ میں آپ سے دور جارہی ہوں”
“زائشہ تم اپنے خواب کی وجہ سے ہمارا اتنا بڑا دن خراب کررہی ہو وہ بس ایک خواب ہی تو تھا ٹوٹ گیا اب اس خواب کے اثر سے باہر نکلو اور تھوڑا دھیان میری طرف بھی دو” اسکا چہرہ اپنے سامنے کرکے انہوں نے پیار بھری نظروں سے اپنی من چاہی بیوی کو دیکھا
“تیمور آپ ڈرائیونگ پر فوکس کیجیے” انکی نظروں سے گھبرا کر وہ پیچھے ہوئی جس پر انہوں نے مسکراتے ہوے سامنے دیکھا
°°°°°
منظر بدلا جہاں پہلے رات تھی اب وہیں صبح ہو چکی تھیں انہیں بس اتنا یاد تھا کہ گاڑی کے سامنے کچھ آنے کی وجہ سے وہ پیڑ سے جالگی اور سر اسٹیرنگ سے زور سے لگنے کے باعث وہ بیہوش ہوچکے تھے جو چیز گاڑی کے سامنے آئی تھی وہ کیا تھی یہ انہیں یاد نہیں تھا
یاد تھا تو بس اتنا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ موجود تھے
“بیوی”
زائشہ کا خیال آتے ہی گھبرا کر انہوں نے اس سیٹ کی طرف دیکھا جہاں پر پہلے زائشہ موجود تھی لیکن اب وہاں زائشہ نہیں تھی وہ جگہ خالی تھی
°°°°°
منظر بدلا وہ بھاگتے ہوے اپنی بانہوں میں موجود اپنی ایک دن کی دلہن کو لے کر ہاسپٹل میں داخل ہوے اور ڈاکٹر کو آواز دے کر جلدی سے اسکا ٹریٹمنٹ کرنے کو کہا
جس راستے پر وہ لوگ تھے وہیں سے تھوڑے فاصلے پر ایک جنگل ملا تھا جہاں سے انہیں اپنی بیوی اس حالت میں ملی تھی کہ انکا دل ہزار ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا
°°°°°
دو دن بعد زائشہ کو ہوش آیا تھا لیکن اسکی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا
ڈسچارج ہوکر گھر میں آنے کے بعد بھی وہ رونے کے سوا کچھ نہیں کرتی تھی جبکہ تیمور کے پاس اب اسکے لیے کوئی تسلی بھرا جملہ بھی نہیں تھا
لیکن آخر کب تک وہ اسے ایسے روتے ہوے دیکھ سکتے تھے
“زائشہ” اسکے قریب بیٹھ کر تیمور نے نرمی سے زائشہ کے آنسو صاف کیے
“آپ مجھے چھوڑ دیں گے تیمور” اسکی بات سن کر تیمور نے حیرت سے اپنی جان سے عزیز بیوی کو دیکھا
“نہیں میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا تم جان ہو میری میں کیسے تمہیں چھوڑ سکتا ہوں”
“آپ سچ میں مجھے نہیں چھوڑیں گے”
“نہیں زائشہ بھول جاؤ ان گزرے لمحوں کو ہم اپنی نئی یادیں بنائینگے جہاں بس تم اور میں ہوں گے”
تیمور نے اسکے بھیگے گال صاف کیے اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا
°°°°°
لیکن یہ خوشی بھی عارضی تھی کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد زائشہ کی طبیعت خراب ہونے پر جب وہ اسے ہاسپٹل لاے اور چیک اپ کے بعد جو خبر ان دونوں کو ملی وہ ان دونوں وجود کو ہی صدمے میں ڈال چکی تھی
ان دونوں نے ایک دوسرے سے کچھ نہیں کہا تھا کہنے کے لیے شاید اب کچھ تھا ہی نہیں
گھر پہنچ کر بھی وہ دوسرے روم میں جاکر بند ہوچکے تھے اپنی بیوی کو وہ کسی بھی حال میں اپنا سکتے تھے لیکن کیا ان میں اتنی ہمت تھی کہ اس بچے کو بھی اپناتے جس کے باپ کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا
لیکن اس سب میں اس بچے کا کیا قصور وہ تو معصوم تھا جو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں تھا جو اس دنیا کے ظالم لوگوں کو جانتا بھی نہیں تھا بھلا اس سے کیسی نفرت
لیکن یہ انکی سوچ تھی انکی بیوی کی سوچ کچھ اور تھی
اسے نہ تو اب یہ زندگی چاہیے تھی نہ ہی یہ اولاد اگر تیمور صحیح وقت پر اس کے پاس نہ پہنچتے تو نہ جانے وہ کیا کچھ کرچکی ہوتی اسکی حالت جو کچھ دیر پہلے تھوڑی سمبھلی تھی وہ اب پھر سے خراب ہوچکی تھی
°°°°°
“زائشہ کیوں اس بچے کو نقصان پہنچانا چاہتی ہو یہ معصوم ہے تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس میں اسکا کیا قصور ہے”
“یہ معصوم نہیں ہے اسنے میری زندگی برباد کی ہے نہیں چاہیے مجھے یہ” اسنے چیختے ہوے کہا اور کمرے میں رکھا سارا سامان پھینک دیا
وہ جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرتی تھی جس سے اسکے اندر پلتے اس وجود کا خاتمہ ہوجاے
لیکن تیمور اسکا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے
گھر میں وہ ہر وقت زائشہ کے ساتھ رہتے جب کہ باہر جاتے وقت ملازمہ کو مسلسل اسکے پاس ٹھہرنے کا حکم دے کر جاتے وہ نہ تو اپنی بیوی کو کچھ ہونے دینا چاہتے تھے نہ اس معصوم بچے کو
لیکن زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے زندہ رکھے اور جسے چاہے موت دے دے
جس معصوم بچے کو وہ مارنا چاہتی تھی وہ دنیا میں آچکا تھا لیکن زائشہ کی خود کی حالت بہت خراب تھی جس کے باعث وہ چند دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکی
لیکن ان چند دنوں میں بھی اسنے اپنے بیٹے کی شکل تک نہیں دیکھی تھی کیونکہ اسے اس بچے سے نفرت تھی
°°°°°
اپنی بیوی کا غم انکے لیے بہت بڑا تھا لیکن انہیں ہمت کرنی تھی اپنے لیے اس بچے کے لیے جسے وہ اپنا بنا چکے تھے
جہان زیب کے سمجھدار ہوتے ہی وہ اسے وہ ساری باتیں بتا چکے تھے جو اسکی ماں کے ساتھ ہوئی تھی سواے اسکے کے اسکی ماں اس سے کتنی نفرت کرتی تھی
یہ بات وہ اسے کبھی نہیں بتا پاے اور نہ ہی بتانا چاہتے تھے
ہر طرف یہی سب باتیں دیکھ کر یہی ہوتا ظلم جہان زیب کاظمی کو بیسٹ بنا چکا تھا
وہ اپنی ماں کا بدلہ تو لے نہیں سکا لیکن ان سب کا تو لے سکتا تھا جو اسکے سامنے یہ ظلم کررہے تھے اور اسنے ایسا یہی کیا
اسے جب بھی یہ بات پتہ چلتی کہ کسی کے ساتھ ظلم کرنے والا کوئی بھی شخص ایسے کھلے عالم گھوم رہا ہے تو وہ خود اسے سزا دیتا کیونکہ بقول جہان زیب کے وہ سب اسی لائق تھے
°°°°°