Obsession of Beast

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 18

کالج کے گیٹ پر کھڑی وہ اس وقت داد کا انتظار کررہی تھی
آج نئے کالج میں اسکا پہلا دن تھا جہان زیب اسکا کالج تبدیل کرواچکا تھا کیونکہ بھلے وہ اسے یہ بات سمجھا چکا تھا کہ زین ایک برا انسان ہے پر پھر بھی اگر وہ اسی کالج میں حمنہ کے ساتھ رہتی تو یہ بات وہ زیادہ دیر تک اپنے اندر نہیں رکھ سکتی تھی کہ اسکے بھائی کو کس نے مارا تھا
یہ جہان زیب کا ہی آرڈر تھا کہ جب تک داد یا اسکے خود کے علاوہ اسے کوئی لینے نہیں آجاتا وہ کالج میں ہی رہے گی لیکن اسکی یہ بات شاید وہ سن کر بھی بھول چکی تھی
°°°°°
ٹارچر سیل میں اس وقت وہ اپنے سامنے بندھے شخص کی خاطر تواضع کررہا تھا جب پیچھے کھڑے داد نے اسے پکارا
جس پر اسنے گھور کر اسے دیکھا کیونکہ اپنے کام کے دوران کسی کا اسے ٹوکنا بلکل پسند نہیں تھا
“سر عبداللہ کی کال آرہی ہے” اسنے اپنے ہاتھ میں موجود جہان زیب کا فون اسکی طرف بڑھایا
“اس فضول کام کے لیے تم نے مجھے روکا” تولیہ سے اپنے خونی ہاتھ صاف کرکے اسنے اسکے ہاتھ سے موبائل لے کر کال پک کی
“کیا مسلہ ہے”
“تمہاری بیوی تم سے بہت چھوٹی نہیں ہے لیکن ماننا پڑے گا ہے بہت پیاری دکھنے میں ہی کتنی معصوم لگ رہی ہے” اسکی بات سن کر موبائل پر اسکی گرفت سخت ہوچکی تھی
“اپنی بکواس بند کرو”
“میں تو بس تمہاری بیوی کی تعریف کررہا تھا اگر تمہیں اچھا نہیں لگا تو دوبارہ نہیں کہوں گا” خباثت سے ہنستے ہوے اسنے کال کاٹ دی جبکہ جہانزیب کے چہرے کی سختی دیکھ کر داد تو کچھ غلط ہونے کا اندازہ ہوگیا تھا
“سر سب ٹھیک ہے”
“روح کہاں ہے تم اسے لینے نہیں گئے”
“سر وہ آپ نے سے لانے کے لیے کہا تھا تو میں نے اپنی جگہ ڈرائیور کو بھیج دیا تھا” اسنے کرسی پر بندھے اس ادھ مرے شخص کی جانب اشارہ کیا
“میں نے تم سے کیا کہا تھا داد اسکی ذمیداری تمہیں دی تھی” اسنے غصے سے اپنے ہاتھ میں موجود فون دیوار پر مارا باہر نکل گیا جبکہ داد اب بس یہ دعا کررہا تھا کہ کوئی بڑی بات نہ ہو ورنہ کل اس کرسی پر اسے ہونا تھا
°°°°°
دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا جہاں عبداللہ اطمینان سے کرسی پر بیٹھا یقینا اسکا ہی منتظر تھا
“آجاؤ میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا” اسکی بات کا جواب دیے بنا جہان زیب نے اسکا گریبان پکڑ کر اسے کرسی سے اٹھایا
جب پاس کھڑے اسکے ملازم جہان زیب کی طرف بڑھنے لگے لیکن عبدللہ اپنا ہاتھ اٹھا کر انہیں روک چکا تھا
“میری بیوی کہاں ہے”
“بیسٹ ہو تم ساری دنیا کی خبر رکھتے ہو یہ نہیں جاتے تمہاری بیوی کہاں ہے” اسکے قہقہہ لگانے پر جہان زیب نے زور دار مکا اسکے چہرے پر مارا جس سے ملازم جو عبداللہ کے کہنے پر رکے تھے وہ تیزی سے جہان زیب کی طرف بڑھے
لیکن غصے سے ںےقابو ہوتا وہ وہاں موجود ہر شخص کو ڈھیر کرچکا تھا اس وقت اسکے سر پر جنون سوار تھا
“عبداللہ آخری بار پوچھ رہا ہوں میری بیوی کہاں ہے” اسکے غرانے ہر عبداللہ نے اسے وہ جگہ بتادی
“جس جگہ پر میں نے تمہاری بیوی کو رکھا ہے وہاں ایک بم فٹ ہے جو دس منٹ میں پھٹ جاے گا بچا سکتے ہو تو بچا لو اپنی بیوی کو”اسنے اپنی ناک سے نکلتا خون صاف کرتے ہوے کہا
“اس بار تم نے غلط انسان سے ٹکر لی ہے بیسٹ مجھے یقیں ہے آئیندہ تم میرے راستے میں نہیں آؤ گے”اسکی بات کو نظر انداز کرکے وہ تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا
جس جگہ روحیہ موجود تھی وہاں پہچنے میں اسے پچیس منٹ لگنے تھے جبکہ اگر واقعی میں اس جگہ بم فٹ تھا تو اسے بلاسٹ ہونے میں صرف دس منٹ باقی تھے تیز ڈرائیونگ کرکے بھی وہ وہاں وقت پر نہیں پہنچ سکتا تھا لیکن کوئی اور ضرور تھا جو وہاں وقت پر پہنچ سکتا تھا
اسنے گاڑی میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کیا اور جیب سے مابائل نکال کر کال ملائی
اپنا موبائل وہ توڑ چکا تھا لیکن یہ کام وہ ہر ہفتے یا مہینے میں کرتا تھا اسلیے ایکسٹرا فون اسکے پاس ہمیشہ رہتا تھا
“ہیلو” کال اٹھاتے ہی دوسری طرف سے بھاری گمبھیر آواز گونجی
“ہیلو مہراب مجھے تمہاری مدد چاہیے”
“کیا بات ہے بیسٹ کو میری مدد چاہیے”
“مہراب پلیز”
“کیا ہوا ہے جہان”اسکے پوچھنے پر جہان زیب نے اسے مختصر سی ہر بات بتادی
“مجھے تمہاری مدد چاہیے ویسے بھی جس جگہ روح موجود ہے وہاں سے پولیس اسٹیشن قریب ہے”
“تم فکر مت کرو میں سب سمبھال کوں گا”کال کاٹ کر وہ پولیس اسٹیشن سے باہر نکل گیا جبکہ جہان زیب نے گاڑی کی رفتار مزید تیز کردی
°°°°°
وہاں پہنچتے ہی اسکی نظر گارڈز پر گئی جو زخمی حالت میں زمین پر پڑے تھے انکی یہ حالت یقینا مہراب نے ہی کی تھی
“مہراب”
“ادھر میرے بھائی” پیچھے سے آتی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا جہاں بھوری آنکھوں والا وہ خوبرو مرد پولیس یونیفارم میں کھڑا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا
“تمہارا ہی انتظار کررہا تھا”
“روح کہاں ہے” اسنے بےچینی سے پوچھا جس پر اسنے اندر بنے اس چھوٹے سے کمرے کی جانب اشارہ کیا
جہان زیب بھاگ کر اس کمرے میں داخل ہوا جہاں ہر طرف مٹی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکی کتنے وقت سے صفائی نہیں ہوئی ہے
کرسی کے ساتھ رسی زمیں پر گری پڑی تھی
جبکہ ٹیبل پر روحیہ کا بےہوش وجود پڑا تھا
اسکے قریب جاکر جہان زیب نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا
اسکی کلائیاں زخمی ہورہی تھیں شاید رسی ٹائٹ سے باندھنے کی وجہ سے ماتھے پر بھی چوٹ لگ تھی تھی جیسے اسکا سر کسی چیز سے ٹکرایا ہو
“یہ بےہوش کیوں ہے مہراب اور”
“کچھ نہیں ہوا ہے جہان زیب ریلیکس شاید ڈر کی وجہ سے بےہوش ہوئی ہیں اور ہاں اس جگہ پر بم فٹ تھا تھوڑی بہت مار پڑنے پر گارڈز نے بتادیا کہ وہ کہاں موجود ہے اور ہم نے اسے ڈفیوز کردیا ہے” اسکے کہنے پر جہان زیب نے سکون بھرا سانس لے کر اپنی آنکھیں بند کرکے روحیہ کو مزید سختی سے خود میں قید کرلیا
“تھینک یو یا میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں”
“اپنا شکریہ اپنے پاس رکھو اور تم انہیں میرے گھر لے کر چل لو زیادہ دور نہیں ہے میں نے ڈاکٹر کو کال کی ہے وہاں پر پہنچنے والی ہوں گی” اسکے کہنے پر جہان زیب نے اپنا سر ہلاکر روحیہ کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اسے لے کر باہر کی طرف چلا گیا
°°°°°
ڈاکٹر اسکا چیک اپ کرکے جا چکی تھیں وہ صرف ڈر کی وجہ سے بےہوش ہوئی تھی اور کچھ دیر میں اسے ہوش آجانا تھا جبکہ اسکے زخم بھی صاف کردیے تھے
روحیہ کو آنٹی (مہراب کی والدہ) کے پاس چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر نکل کر داد کا نمبر ملانے لگا جو پہلی ہی بیل پر اٹھالیا جاچکا تھا
“جی سر میم ٹھیک ہیں”
“ہمم میرا کام کردیا”
“جی سر ہوگیا اور” اسکی مزید کوئی بات سنے بنا اسنے کال کاٹ دی اس وقت اسے داد پر بےانتہا غصہ آرہا تھا جس کی لاپروائی سے اسکی بیوی مرتے مرتے بچی تھی اگر داد اس وقت اس کے سامنے ہوتا تو وہ اسے جان سے مارنے سے بھی گزیز نہیں کرتا
اگلا نمبر جو اسنے ملایا وہ عبداللہ کا تھا جو تھوڑی ہی دیر بعد اٹھا لیا جا چکا تھا
“عبداللہ تم نے بہت غلط جگہ وار کیا ہے”
“اب تو کردیا ہے اور مجھے امید ہے اس بات سے سبق سیکھ کر تم اب میرے راستے میں نہیں آؤ گے”
“میں اپنی بیوی پر ایک خروچ تک برداشت نہیں کرسکتا اور تم نے اسے اتنی تکلیف پہنچادی بیسٹ کی بیوی اسکی جان کو نقصان پیچایا ہے تم نے ایسا کیسے ہوسکتا ہے میں تمہیں چھوڑ دوں گا” اسکی بات سن کر دوسری طرف موجود شخص نے قہقہہ لگایا
“بگاڑ کیا سکتے ہو ت” دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی رابطہ کٹ چکا تھا جبکہ اس آواز کو سنتے ہی جہان زیب کو سکون کی ایک لہر اپنے اندر دوڑتی محسوس ہوئی
“تم نے ٹائیمننگ تو پرفیکٹ سیٹ کی ہے داد” بڑبڑاتے ہوے وہ اندر کی طرف چلا گیا
°°°°°
شروع میں جب تک وہ خوفزدہ رہی جب تک جہان زیب اسکے پاس رہا تھا لیکن اپنی ناراضگی وہ خوب ظاہر کررہا تھا
شروع میں وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ اسکی خفگی کو نوٹ کی نہیں کرپائی لیکن اب اسکا رویہ روحیہ کو بری طرح چب رہا تھا
تین دن سے جہان زیب نے اس کے ساتھ ضرورت کے علاؤہ کوئی بات نہیں کی تھی اس وقت بھی اسٹڈی روم میں بیٹھا بلیک جینز اور بلیو شرٹ پہنے ٹانگ پر ٹانگ چڑھاے سنجیدگی سے کتاب پڑھ رہا تھا
جب روحیہ نے اسکی گردن کے گرد اپنے بازو حمائل کردیے اسنے اسکے ہاتھ نہیں ہٹانے تھے لیکن کوئی اور ردِعمل بھی ظاہر نہیں کیا تھا
“جہان” نرمی سے پکار کر اسنے اپنے بازو میں مزید سختی کرلی لیکن وہ اسی طرح بیٹھا رہا
“جہان” اس بار اسنے ہولے سے اسکے گال پر اپنے لب رکھے جب اگلے ہی پل رولنگ چئیز موڑ کر اسنے روحیہ کو اپنی گود میں بٹھالیا
“کیا مسلہ ہے”
“آپ ناراض ہے مجھ سے”
“بلکل نہیں تمہیں کیوں لگا میں ناراض ہوں”
“آپ مجھ سے بات نہیں کررہے ہو”
“تو تمہیں فرق پڑتا ہے”
“بلکل” اسنے اسکے سینے پر اپنا سر رکھ لیا
“یہ ادائیں کہاں سے سیکھ لیں تم نے”
“بھابھی سے بات کی تھی انہوں نے مجھ سے کہا میں ایسا کروں گی تو آپ کی ناراضگی ختم ہوجاے گی” اسنے صاف گوئی سے کام لیا
“وہی تو میں سوچ رہا تھا ضرور کسی نے بتایا ہوگا کیونکہ تمہارے پاس اتنا دماغ نہیں ہے”
“تو آپ کی ناراضگی ختم ہوگئی”
“تمہیں اندازہ ہے تمہاری اس بیوقوفی سے تمہارا کیا نقصان ہوسکتا تھا کیوں نہیں مانی تم نے میری بات ہے”اسکے سختی سے کہنے پر اسنے اپنا سر جھکا کر منمناتے ہوے کہا
“سوری اب ساری باتیں مان لوں گی”
“اچھا” جہان زیب کے لبوں پر تبسم بکھرا
“مجھے کس کرو” جہان زیب کے کہنے پر کچھ دیر سوچ کر اسنے اسکے گال پر اپنے لب رکھ دیے
“یہاں نہیں یہاں” اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر جہان زیب نے اسکی انگلیاں اپنے لبوں پر پھیری جبکہ اسکی اس حرکت وہ پل میں ہی سرخ ہوچکی تھی
“چھوڑیں مجھے” روحیہ نے اسکی گود سے اٹھنا چاہا لیکن اب ایسا تب تک ممکن نہیں تھا جب تک جہان زیب کاظمی کی مرضی نہیں ہوتی
“پہلے مجھے کس دو”
“مجھے نہیں دینی”
“تم شرافت سے مجھے کس دے دو ورنہ میں نے خود لی تو تمہاری جان مشکل میں آجاے گی” اسکا ڈھیٹ پن دیکھ کر وہ بھی گہرا سانس لے کر رہ گئی
“آنکھیں بند کریں” روحیہ کے کہتے ہی اسنے اچھے بچوں کی طرح اپنی آنکھیں بند کرلیں
ہلکے سے اسکے لبوں پر اپنے لب رکھ کر روحیہ نے اپنا سر اسکے سینے میں چھپالیا
جبکہ اسکی اس حرکت سے جہان زیب نے مسکرا کر اسکے بالوں میں اپنا ہاتھ پھنسایا اور شدت سے اسکے لبوں پر جھک گیا اسکے جنونی انداز پر وہ کانپ کر رہ گئی
کس کا بڑھتا دورانیہ اور اپنے سینے پر نازک مکوں کی برسات دیکھ کر وہ پیچھے ہٹا جہاں اب اسکی بیوی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی
جہان زیب نے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ کر اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا دی
“اب آپ کی ناراضگی ختم ہوگئی کیا”اسے ابھی بھی اسکی ناراضگی کی پرواہ تھی
“جس کی تم جیسی بیوی ہو وہ بھلا زیادہ دیر تک کیسے ناراض رہ سکتا ہے” اسکا ہاتھ تھام کر جہان زیب نے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ دیے
“آئی لو یو روح تم میری لیے بہت خاص ہو بہت زیادہ”اسکا سر اپنے سینے پر رکھ کر جہان زیب نے سکون سے آنکھیں موند لیں
اسکا سکون اسکے پاس تھا اسکی روح اسکے پاس تھی
°°°°°
ختم شد

UMM E OMAMA NOVEL: فیس بک پیج

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial