قسط: 2
زہرہ بیگم کے کمرے سے جاتے ہی اسنے روحیہ کو اپنے قریب بلایا
“تمہارا ایڈمیشن ہوگیا”
“نہیں پاپا سے کہا تھا انہوں نے کہا تھا آج ہم جائینگے اور میں فام لے آؤں گی لیکن بےبی کی وجہ سے پروگرام چینج ہوگیا”اسنے کاٹ میں لیٹی بےبی کی طرف اشارہ کیا
“بہت خوشی ہورہی ہے تمہیں کالج جانے کی”
“ہاں بھابھی خوشی تو بہت ہورہی ہے اب سب کو پتہ چلے گا روحیہ بڑی ہوگئی ہے”
“کالج میں جانے سے بڑے ہوجاتے ہیں”
“جی ، اچھا مجھے بتائیں نہ ماما نے ڈانٹا کیوں کیا میں نے کچھ غلط کہا تھا میں نے تو وہی بولا تھا جو عائزہ نے مجھے بتایا تھا” اسکی سوئیں پھر سے وہی اٹک چکی تھی
“روحیہ میاں بیوی کا رشتہ سب سے الگ ہوتا ہے وہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں”
“پیار تو ہم سب ایک دوسرے سے کرتے ہیں”
“بیوی اور شوہر کے جیسا پیار اور کسی رشتے میں نہیں ہوتا انکے پیار کرنے کا طریقہ الگ ہوتا ہے” اسنے دبے لفظوں میں اسے بات سمجھانی چاہی لیکن وہ روحیہ تھی جسے سیدھی کہی ہوئی بات ٹھیک سے سمجھ نہیں آتی تھی تو یہ دبے لفظوں کی بات کیسے سمجھ آتی
“چھوڑو ان باتوں کو بقول تمہارے تم اب بڑی ہوچکی ہو تو تم خود ہی ان باتوں کو سمجھ جاؤ گی”حریم نے پیار سے اسکا گال تھپتھپاتے ہوے کہا
°°°°°
اجازت ملتے ہی وہ اندر کمرے میں داخل ہوا جہاں کمرے میں نائٹ بلب کی ہلکی سی روشنی جل رہی تھی
پورے کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ سگریٹ کا دھواں بھی پھیلا ہوا تھا جس سے یہ بات ظاہر ہورہی تھی کہ یہ عمل کافی دیر سے چل رہا تھا
“سر معید کا پتہ چل گیا ہے” داد کے کہنے پر اسنے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور انگلیوں میں دبا سگریٹ ایش ٹرے میں پھینکا
“کہاں ہے وہ”
”سعودیہ میں آپ کہیں تو اسے یہاں لے آؤں”
“نہیں میں خود وہاں جاؤں گا صبح ہونے سے پہلے میرے وہاں جانے کا سارا انتظام کرو”
“اوکے سر” اپنا سر ہلا کر وہ اسکے کمرے سے نکل گیا
°°°°°
“میں اسے کیسے اٹھاؤں گر گئی تو”اسنے کاٹ میں لیٹی اس بچی کو دیکھتے ہوے کہا
جو رو رہی تھی اور روحیہ اسے اٹھانے کی کوشش کررہی تھی زہرہ بیگم اس وقت کمرے میں موجود نہیں تھیں اسلیے یہ کام اسکے زمہ تھا کہ اس روتی ہوئی بےبی کو اٹھا کر اسکی ماما کو دے دے
“آپ خود اٹھالیں مجھ سے گر جاے گی بھابھی”
“مجھ سے اٹھا نہیں جارہا ہے تم اسے اٹھاؤ نہیں گرے گی بس جیسے میں بتا رہی ہوں ویسے اٹھاؤ” نرمی سے کہہ کر وہ اسے بےبی کو پکڑنے کا طریقہ بتانے لگی
“کتنی ہلکی ہے یہ” بےبی کو گود میں لیتے ہی اسنے بچوں جیسی خوشی لیے حریم کی طرف دیکھا جبکہ اسکے انداز پر حریم کو بےساختہ ہنسی آگئی
اسنے بےبی کو حریم کی گود میں دے دیا اور خود واپس جاکر بیٹھ گئی
°°°°°
یہ منظر سعودیہ میں بنے ایک ہوٹل کے روم کا تھا جہاں وہ شخص لائٹ آف کیے مزے سے سو رہا تھا
جب سوتے میں اسے کسی کی بھاری گمبھیر آواز سنائی دی جسے پہلے تو اسنے اپنا وہم سمجھا لیکن بعد میں دوبارہ وہ آواز جب مزید سختی سے سنائی دی تو اسنے جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کر لائٹ آن کردی
لائٹ آن کرتے ہی نظر سب سے پہلے وہاں رکھی کرسی پر بیٹھے شخص پر گئی جو اپنے دونوں پاؤں ٹیبل پر رکھے اپنا سر کرسی سے ٹکاے اسے ہی دیکھ رہا تھا
“ہیلو معید”
“ب–بیسٹ تم یہاں”
“جہاں تم وہاں میں آخر کب تک چھپتے تم مجھ سے”
“ن-نہیں میں کیوں چھپوں گا” اسنے اپنے لہجے کو مظبوط بنانے کی کوشش کی
“ہاں تم کیوں چھپو گے مجھ سے تم نے کونسا کوئی غلط کام کیا ہے تم نے کونسا کسی کا ریپ کیا ہے” پاؤں ٹیبل سے نیچے کرکے اسنے پراسرار انداز میں کہا
جبکہ اسکے کہنے پر معید کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوچکے تھے بیسٹ سب جانتا تھا تو پھر اس سے کچھ چھپانے کا کیا فائدہ
“د–دیکھو بیسٹ مجھے م–معاف کر دو میں آئیندہ کسی کے ساتھ یہ سب نہیں کروں گا میں نے بس اس لڑکی کو دیکھا اور میں بہک گیا مجھے معاف کر دو دوبارہ ایسی غلطی نہیں ہو گی”
“میں دوبارہ کا موقع ہی نہیں دوں گا”اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی ، دلکش مسکراہٹ لیکن معید کو اس وقت اسکی مسکراہٹ سے خوف آرہا تھا
بیسٹ نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی وہ نوکیلی چیز اٹھائی جسے دیکھ کر معید کا سانس رک چکا تھا یہ اسنے سائیڈ ٹیبل پر کب رکھی شاید جب ، جب وہ یہاں آیا تھا
اس کے ہاتھ میں موجود وہ چیز دیکھ کر معید نے اپنے ہاتھ اسکے سامنے جوڑ دیے جبکہ اسکی نظریں چاروں طرف گھوم رہی تھیں کیا پتہ کوئی ایسی چیز مل جاتی جس سے وہ بیسٹ کا مقابلا کرسکتا لیکن اس وقت کمرے میں کوئی چیز ایسی نہیں تھی وہ کمرے کے کونے میں کھڑا یہی سوچ رہا تھا یہاں سے نکلنے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے
“پ–پلیز مجھے چھوڑ دو تمہیں ، تمہیں تمہارے باپ کا تمہاری ماں کا واسطہ” اسکے کہنے پر بیسٹ ہی رگیں تن چکی تھیں جبکہ آنکھوں کی سرخی بھی بڑھ چکی تھی
اگلے ہی پل اسنے معید کی سانسیں روک دیں اسنے اس طرح سے اسے مارا تھا کہ اسکی چیخ بھی نہیں نکل سکی تھی
جبکہ اسکی سانسیں روکنے کے باوجود بھی وہ بےدردی اسے مار رہا تھا
°°°°°
اسکے کمرے کی لائٹ کھلی دیکھ کر آہستہ سے دروازہ کھول کر حریم اسکے کمرے میں آگئی
“روحیہ تم سوئی نہیں ہو”
“آپ یہاں کیا کررہی ہیں ماما نے کہا تھا آپ کو آرام کروانا ہے کچھ چاہیے تھا تو مجھے بلالیتیں” اسکی بات پر حریم مسکراتے ہوے اسکے پاس بیٹھ گئی تین دن پہلے ہی وہ ہاسپٹل سے آئی تھی
“میں ٹھیک ہوں کمرے میں پانی نہیں تھا تو وہی لینے آئی تھی تمہارے کمرے کی لائٹ آن دیکھی تو یہاں آگئی کیا کررہی ہو”
“میں اسٹوری پڑھ رہی تھی”
“کون سی”
“بیوٹی اینڈ دا بیسٹ” روحیہ نے اسٹوری بک اسکے سامنے رکھی اس کتاب میں اسٹوری کے ساتھ ساتھ کارٹون اسٹائل میں تصویریں بھی موجود تھیں
“تم تو کہہ رہی تھیں اب تم فرسٹ ائیر میں جاؤ گی تو اب تم بڑی ہوگئی ہو لیکن پھر بھی یہ بچوں والی کہانی پڑھ رہی ہو”
“بھابھی یہ اسٹوری مجھے بہت پسند ہے اور پتہ ہے میں کیا سوچتی ہوں کہ میری بھی لائف میں کوئی بیسٹ آے گا اور وہ مجھے قید کرکے گا”
“روحیہ میری جان یہ ساری باتیں صرف کہانیوں میں اچھی لگتی ہیں حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے”
“لیکن یہ بیسٹ تو اپنی بیوٹی سے اتنا پیار کرتا ہے بھابھی”
“وہ شہزادہ ہوتا ہے اور ہاں وہ اپنی بیوٹی سے بہت پیار کرتا ہے تو فکر مت کرو ہم بھی اپنی بیوٹی کے لیے ایسا شہزادہ ڈھونڈ لیں گے جو اس سے بہت پیار کرے گا”اسنے روحیہ کے بھرے بھرے گالوں کو کھینچتے ہوے کہا جبکہ اسکی بات سن کر وہ شرما کر اپنا چہرہ تکیے میں چھپا چکی تھی
“اچھا اب سوجاؤ پھر صبح ایڈمیشن کے لیے بھی تو جانا ہے” اسکے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاکر وارڈروب سے نائٹ سوٹ نکال کر واشروم میں گھس گئی