قسط: 4
“کون ہے وہ لڑکی” ہاسپٹل میں اسکے پاس پہنچتے ہی تیمور صاحب نے سب سے پہلا سوال پوچھا انکی آواز سن کر اسنے چونک کر سر اٹھایا اور پھر انکے پیچھے کھڑے داد کو گھورنے لگا جبکہ اسکے ایسا کرتے ہی داد نے اپنی نظریں جھکا لیں
“اسے مت دیکھو آنے میں دیر ہوگئی تھی تو اسلیے میں نے خود اسکے پاس فون کیا تھا تم مجھے بتاؤ وہ لڑکی کون ہے اسکا نام کیا ہے اب کیسی ہے”
“ڈیڈ میں نہیں جانتا وہ لڑکی کون ہے اس وقت وہ بےہوش ہے اور جب ہوش میں آے گی تو سب سے پہلے اسکا نام پوچھوں گا آپ یہاں کیا کرنے آے ہیں”
“داد کے بتانے پر تمہاری فکر ہورہی تھی تو یہاں چلا آیا مجھے اس لڑکی کا شکریہ ادا کرنا ہے جس نے میرے بیٹے کی جان بچائی”
“میری زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لڑکی نے میری جان نہیں بچائی وہ بس ایک وسیلہ بنی تھی”
“گولی کس نے چلائی” انکے پوچھنے پر اسنے داد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا
“سر وہ آدمی پکڑا گیا اس وقت وہ ٹارچر سیل میں ہے”
“وہ آدمی پکڑا گیا ہے اس وقت وہ ٹارچر سیل میں ہے جہاں پر میں اسے ٹارچر کرکے یہ بات جان لوں گا کہ گولی اسنے کس کے کہنے پر چلائی تھی”
“لیکن کوئی ایسا کیوں کرے گا میری کون سی کسی سے کوئی دشمنی ہے”اسکی بات پر تیمور صاحب نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورا
“تمہارے پاس کوئی ایک وجہ نہیں ہے دشمنی کی سب سے پہلی وجہ تم سیاستدان تیمور کاظمی کے بیٹے ہو اور دوسری وجہ جو سب سے بڑی ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے وہ یہ کہ تم بیسٹ ہو جسے یہ ڈر نہیں ہے کہ وہ کھلے عالم لوگوں کو مارتا پھرتا ہے اگر تم ابھی تک بچتے آے ہو تو اسکی وجہ یہ ہے کہ پولیس کو آج تک تمہارے خلاف ثبوت نہیں ملا ہے”
“ملے گا بھی نہیں آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کا بیٹا اتنی صفائی سے کام کرتا ہے بھیڑ میں لوگوں کو مارتا ہے پھر بھی آج تک کسی نے اسے نہیں پکڑا اور یہ بات آپ بھی جانتے ہیں میں صرف انہی لوگوں کو مارتا ہوں جو مجرم ہوتے ہیں جو ظلم کرتے ہیں اور یہ قانون انہیں انکے کیے کی سزا نہیں دیتا” اسکی بات پر تیمور صاحب نے افسوس سے اسے دیکھا
“تم جانتے ہو جہان تمہارے اس کام کی وجہ سے میں کتنا پریشان رہتا ہوں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ تمہیں کچھ نہ ہوجاے” انکی آواز بھیگ چکی تھی
“خیر مجھے اس لڑکی کے پاس لے کر چلو مجھے اسے دیکھنا ہے” انکی بات پر اپنا سر ہلا کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا
°°°°°
“بہت کم عمر لگ رہی ہے”اسے دیکھتے ہی تیمور صاحب نے کہا
“لیکن میں اسکا یہ احسان نہیں بھولوں گا ڈاکٹر نے کیا کہا ہے کوئی خطرے والی بات تو نہیں ہے”
“نہیں گولی بس چھو کر گزری تھی اور یہ ڈرپوک لڑکی اسی میں بےہوش ہوگئی”
“ایک کم عمر لڑکی سے تم اور کیا امید رکھتے ہو اسکا خیال رکھنا اور داد” جہان سے بات کرکے انہوں نے اپنا رخ داد کی طرف کیا
“اسکے گھر والوں کا پتہ کرو”
“آپ کیا کریں گے جان کر” اسنے پیشانی پر بل ڈال کر اپنے باپ کو دیکھا
“اسنے جان بچائی ہے تمہاری جہان زیب تیمور کاظمی کی یہ کوئی عام بات نہیں ہے ٹھیک سے شکریہ ادا کروں گا اس بچی کا اسکے گھر والوں کا اسکا خیال رکھنا” اسکا کندھا تھپتھپا کر انہوں نے ایک نظر بیڈ پر بےہوش روحیہ پر ڈالی اور داد کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے وہاں سے چلے گئے
انکے جاتے ہی وہ بیڈ پر بیٹھ کر غور سے اسکا چہرہ دیکھنے لگا
صاف رنگت اس وقت زرد ہورہی تھی پھولے پھولے گلابی گال اور لمبی پلکیں اسکے چہرے پر معصومیت تھی بےانہتا معصومیت اسکے گلابی لب دکھنے میں ہی اتنے نرم لگتے تھے کہ انہوں چھونے کی چاہ محسوس ہوتی
یک ٹک وہ اسکے چہرے کو دیکھے جارہا تھا جب اسے روحیہ کی پلکوں میں جنبش محسوس ہوئی
اسنے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں نظر سب سے پہلے سفید چھت پر گئی وہ جھٹکے سے اٹھی جس سے بازو میں تکلیف ہوئی ہلکی سی چیخ اسکے لبوں سے نکلی جبکہ آنکھیں نم ہوگئیں
“درد ہورہا ہے” بھاری مردانہ آواز پر اسنے اپنی تکلیف سے دھیان ہٹا کر بیڈ پر اپنے بلکل قریب بیٹھے شخص کو دیکھا
“آپ کون ہیں”
“جسے تم نے دھکا دیا تھا جس کے بدلے کی گولی کھائی تھی”
“مجھے ماما کے پاس جانا ہے”
“ماما کے پاس کیوں جانا ہے”
“مجھے درد ہورہا ہے” اب کی بار آنسو اسکی آنکھ سے گرنا شروع ہوچکے تھے یقیناً اسے درد زیادہ ہورہا تھا یا شاید یہ کم درد بھی اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا
“تمہارے درد کا علاج تو میں بھی کرسکتا ہوں”
“نہیں مجھے ماما کے پاس جانا ہے” روحیہ کی بات سن کر وہ گہرا سانس لے کر بڑبڑایا
“ماماز گرل”
موبائل جیب سے نکال کر اسنے داد کو کال ملائی اور اسے کمرے میں بلایا
“کہاں درد ہورہا ہے”جہان نے اسکے بازو پر ہاتھ رکھنا چاہا جس سے وہ تھوڑا کھسک کر پیچھے ہوئی
اسکی اس حرکت پر جہان نے حیرت سے اسے دیکھا
“کیا ہوا ہے”
“آپ مجھے ہاتھ مت لگائیں”
“کیوں” اسنے فرصت سے اس چھوٹی سی ناک اور گلابی لبوں والی لڑکی کو دیکھا
“آپ اجنبی ہیں ماما کہتی ہیں اجنبی سے دور رہنا چاہیے”
“ہاں ہوں تو میں اجنبی لیکن یہ بات جب زہہن میں نہیں آئی جب تم نے میری جان بچائی تھی”
“ماما کہتی ہیں کہ لوگوں کی مدد کرنی چاہیے میں نے دیکھا وہ آدمی آپ کی طرف گولی چلا رہا تھا تو میں نے بس اسی لیے یہ سب کیا”
“مجھے جانتی ہو تم میں کون ہوں” اسنے مدھم آواز میں اسے دیکھتے ہوے پوچھاجس پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلادیا
“کون ہیں آپ”
“جہان تم بس مجھے اتنا ہی جان لو اور مجھے بتاؤ تم وہاں کیفے میں کیا کررہی تھیں وہ بھی اکیلی”
“میں کالج گئی تھی فرسٹ ائیر کے ایڈمیشن کے لیے پھر میری دوست عائزہ نے مجھے ماما پاپا کی قسم دی اور مجھے زبرستی کالج کے سامنے بنے کیفے میں لے گئی پھر میں نے آپ کو دیکھا اور میں درمیاں میں آئی جس سے مجھے گولی لگی اور پھر شاید میں بےہوش ہوگئی” جہان حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس کے نزدیک وہ اجنبی تھا پھر بھی وہ اسے پوری تفصیل بتارہی تھی
“اچھا نام کیا ہے تمہارا”
“آپ اجنبی ہیں میں آپ کو اپنا نام کیوں بتاؤں گی” روحیہ کے کہنے پر بےساختہ اسکی ہنسی چھوٹی وہ اجنبی کو اپنا نام نہیں بتاسکتی تھی جبکہ باقی کی تفصیل آرام سے بتا چکی تھی اس لڑکی میں کتنی عقل تھی یہ بات وہ ان چند منٹ میں ہی جان چکا تھا
“سر آپ نے بلایا تھا” کمرے میں داخل ہوکر داد نے کہا
“پتہ چل گیا”
“جی سر وہ اس وقت کالج میں ہی ہیں”
اسکی بات پر اپنا سر ہلاکر وہ روحیہ کی طرف متوجہ ہوا
“تم نے مجھے اپنا نام نہیں بتایا کوئی بات نہیں میرے لیے اب سے تم پرنسسز ہو اور اب تمہیں گھر جانا چاہیے تمہارے پاپا تمہارا ویٹ کررہے ہوں گے”
“کہاں ہیں وہ” اسنے بےچینی سے پوچھا
“داد تمہیں ان کے پاس چھوڑ آے گا”اسنے داد کی طرف اشارہ کیا جبکہ اسکے کہنے پر روحیہ نے اپنے قدم زمین پر رکھے اور وہاں سے جانے لگی اسے تو بس اس وقت اپنے پاپا کے پاس جانے کی جلدی تھی
جہان زیب نے ہاسپٹل کے بیڈ پر پڑا وہ سفید ڈوپٹہ دیکھا جس پر خون لگا ہوا تھا اس وقت وہ بنا ڈوپٹے کے کھڑی تھی اور اسے احساس بھی نہیں تھا
“رکو پرنسسز”بھاری آواز نے روحیہ کے چلتے قدم روکے اسنے مڑ کر جہان کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ روحیہ کے قریب آیا اور اپنی جیکیٹ اتار کر اسکے کندھوں پر ڈال دی
“داد دھیان سے لے کر جانا”اسکا انداز داد کو صاف سمجھا رہا تھا کہ دھیان سے لے کر جانا ورنہ کوئی گڑبڑ ہوئی تو تمہاری زندگی کی کوئی گیرینٹی نہیں
“جی سر آپ بے فکر رہیں” روحیہ کو لے کر وہ کمرے سے چلا گیا اور اسکے جاتے ہی جہان نے بیڈ پر پڑا وہ سفید ڈوپٹہ اٹھالیا
°°°°°
اپنے بجتے فون کو اسنے پہلی ہی بیل پر اٹھالیا
“سب ٹھیک داد”
“جی سر”
“کہاں چھوڑا اسے”
“انکے والد کے پاس کالج میں ہی تھے کافی پریشان تھے میڈم کو ہی ہر جگہ ڈھونڈ رہے تھے”
“تم نے ان سے کیا کہا انکی بیٹی کے بارے میں”
“سر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت کی نہیں پڑی وہاں پہنچتے ہی میڈم نے انہیں سب کچھ بتادیا سانس کافی پھول رہا تھا لیکن جب تک بات مکمل نہیں ہوئی وہ چپ نہیں ہوئیں”
اسکی بات سن کر جہان زیب کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑی زہہن میں بےاختیار اسکا تصور آیا پھولی سانسوں کے ساتھ باتیں کرتی وہ پھولے پھولے گالوں والی معصوم لڑکی کتنی کیوٹ لگ رہی ہوگی
“نام کیا ہے اسکا”
“روحیہ ، روحیہ حسین” داد کی بات سنتے ہی اسنے کال کاٹ کر اپنی آنکھیں موند لیں
“روحیہ حسین ، نہیں” اسنے خود ہی اپنی بات کی نفی کی اور پھر ایک خیال آتے ہی لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی
“روح ، جہان کی روح ، جہان زیب تیمور کاظمی کی روح”