قسط: 5
“روحیہ حسین نہیں” اسنے خود ہی اپنی بات کی نفی کی اور پھر ایک خیال آتے ہی لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی
“روح جہان کی روح جہان زیب تیمور کاظمی کی روح”
اسنے اپنی آنکھیں بند کرکے روحیہ کا تصور کیا لبوں پر ایک مسکراہٹ دوڑی جو کہ جلدی ہی جدا ہوگئی اسنے اپنی آنکھیں دوبارہ کھولیں اس بار چہرے پر سختی تھی جو بیسٹ کے چہرے پر رہتی تھی
“نہیں وہ میری کیسے ہوسکتی ہے وہ تو بہت معصوم ہے بھلا ایک بیسٹ کے ساتھ وہ زندگی کیسے گزار سکتی ہے نہیں میری اور اسکی دنیا الگ ہے بہت الگ” وہ خود سے بڑبڑاتے ہوے کہہ رہا تھا
پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ جہان زیب کاظمی نے اپنی پسند کو چھوڑا تھا لیکن وہ بھی صرف اس شرط پر کہ وہ اسے دوبارہ کبھی نہ ملے
اگر روحیہ حسین اسے دوبارہ ملی تو پھر جہان کی روح کو اس سے کوئی جدا نہیں کرسکتا کوئی بھی نہیں
°°°°°
اسکے گھر میں داخل ہوتے ہی زہرہ بیگم اور حریم اسے دیکھتے ہی پریشانی سے اسکی طرف بڑھیں کیونکہ اسکے کپڑوں پر لگا خون دور سے ہی دکھ رہا تھا
“کیا ہوا ہے اسے” اسکے زدر چہرے کو دیکھ کر زہرہ بیگم نے پریشانی سے کہا
“حریم اسے کمرے میں لے جاؤ” زہرہ بیگم کے سوال کا بنا کوئی جواب دیے انہوں نے حریم سے کہا جو اسے کمرے میں کے گئی
“حسین کیا ہوا ہے اسے”
“کچھ نہیں ہوا ٹھیک ہے بس چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا”
“چھوٹا سا حسین اسکی حالت دیکھی ہے آپ نے پوری زرد ہورہی ہے وہ کپڑے اسکے خون سے رنگے ہوے ہیں”
“زہرہ پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے ٹھیک ہے ہماری بچی بس اس پر شکر ادا کرو” نرمی سے کہتے ہوے وہ انہیں اندر اپنے ساتھ لے گئے
°°°°°
“کیا ہوا ہے روحیہ تمہارے ساتھ” اسے بیڈ پر بٹھا کر حریم نے فکرمندی سے کہا
“چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا” اسنے اپنے انگھوٹھے اور پہلی انگلی کے پوروں کو ملا کر اسے بتایا
یہ بات حسین صاحب نے اسے گاڑی میں ہی بتا دی تھی کہ یہ بات کسی کو نہیں بتانی کہ تمہیں گولی لگی ہے بلاوجہ سب پریشان ہوں گے
انکی یہ بات سن کر اسکے چہرے کے تاثرات بگڑے تھے وہ جو کب سے سوچ رہی تھی کہ سب کو اپنی اس بہادری کا قصہ سناے گی کہ روحیہ نے گولی کھائی ہے وہ ساری سوچیں ڈوب چکی تھیں کیونکہ پاپا کی بات بھی تو ماننی ہے
“اچھا تم ایسا کرو کپڑے بدلو آؤ میں ہیلپ کردیتی ہوں پھر تمہیں جوس بنا کر دوں گی” حریم نے اسکے کپڑے الماری سے نکالتے ہوے کہا
اور کمزوری ہونے کے باوجود وہ مسکراتے ہوے اپنے لیے پریشان اپنی بھابی کو دیکھتی رہی
°°°°°
وہ اس وقت اپنے بناے گئے ٹارچر سیل میں موجود تھا وہاں چند کمرے بنے ہوے تھے جن میں سے وہ سب سے پہلے والے کمرے میں داخل ہوگیا جہاں ایک آدمی کرسی پر بندھا ہوا تھا اسکا سر لٹکا پڑا تھا جس سے دکھ رہا تھا کہ وہ بےہوش ہے
اسنے داد کو اشارہ کیا جسے سمجھ کر وہ باہر چلا گیا اور دو منٹ بعد ہی اسکی واپسی ہوگئی اسکے ہاتھوں میں بالٹی تھی ٹھنڈے یخ پانی سے بھری بالٹی جو اسنے کرسی پر بندھے شخص پر الٹ دی
اسکے ایسا کرتے ہی وہ شخص ہڑبڑا کر اٹھا نظر سب سے پہلے اپنے سامنے کھڑے اس شخص پر گئی جس نے اس وقت وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیک جینز اور پہنی ہوئی تھی
“ایک ہی بار سوال پوچھوں گا جواب دے دینا ورنہ انجام کے لیے تیار رہنا”شرٹ کی آستین کونیوں تک چڑھا کر وہ اس شخص کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا
“نام کیا ہے تمہارا”
“ز-زبیر”جواب دے کر اسنے ڈرتے ڈرتے اپنی نگاہ ٹیڑھی کرکے اپنے سے چند انچ فاصلے پر رکھی ان چیزوں کو دیکھا
چھوٹی سے لے کر بڑی تک مارنے والی کسی کو چوٹ پہنچانے والی ہر چیز یہاں موجود ٹیبل پر ترتیب سے الگ الگ کرکے رکھی ہوئی تھی
ان چیزوں کو دیکھ کر اسنے اپنا تھوک نگلا
“بیسٹ مجھے جانے دو”
“کس کے کہنے پر تم مجھے مارنے آے تھے” اسنے سنجیدہ چہرے کے ساتھ پھر سوال کیا
“عبداللہ مجھے انہوں نے بھیجا تھا انکا کہنا تھا کہ وہ جو ڈرگز اسلحہ وغیرہ وہ دوسرے ملک میں پہچانا چاہتے ہیں وہ تمہاری وجہ سے نہیں جارہی ہیں تم انکے تین بندے مار چکے ہو اسلیے تمہیں راستے سے ہٹانے کے لیے انہوں نے مجھے پیسے دیے تھے”
“میں اگر تمہیں چھوڑ دوں تو عبداللہ تمہیں مار دے گا مرنا تو تمہیں ہے”
“نہیں میں یہاں سے بہت دور چلا جاؤں گا” اسنے جلدی سے کہا بچنے کی امید جو نظر آرہی تھی
“اپنا انگلہ مال وہ کہاں بھیجے گا”
“ابھی اپنا مال وہ پاکستان کے شہر میں ہی بیچے گا کونسا شہر ہے یہ مجھے نہیں پتہ لیکن جو لڑکا یہ کام کرے گا اسکا نام زین ہے”
“لڑکے کا پورا نام کیا ہے”
“زین غفار وہ اسی شہر میں رہتا ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا مجھے جانے دو”
“تم سے کس نے میں تمہیں جانے دوں گا” وہ عجیب سے انداز میں ہنسا
“م–میں تمہیں سب بتاچکا ہوں ب-بیسٹ”
“میں نے یہ کب کہا تھا کہ سب جاننے کے بعد میں تمہیں چھوڑ دوں گا”
اسنے ٹیبل پر رکھی بندوق اٹھائی جسے دیکھ کر زبیر کے چہرے پر خوف چھا چکا تھا
“بیسٹ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے چھوڑ دو میں تمہارے لیے کام کروں گا تم جو بولو گے میں کروں گا”بیسٹ نے گہری نظروں سے اسے دیکھا
“موت کے خوف سے تم اپنے مالک کے ساتھ غداری کررہے ہو کل میرے ساتھ بھی کرسکتے ہو مجھے تم جیسے غدار لوگ نہیں چاہییں”
اسنے گولی چلائی جو زبیر کے بازو کو چھوتی ہوئی گزر گئی درد سے اسکی چیخ نکلی جسے سن کر بیسٹ کے اندر اطمینان بھری لہر دوڑی
“تم مرد ہوکر اس درد پر چیخ رہے ہو وہ تو ایک نازک سی لڑکی تھی جسے تم نے یہ تکلیف دی تھی اسے کتنا درد ہورہا ہوگا” دانت پیستے ہوے اسنے غصے سے کہا اور بندوق اسکے دوسرے بازو پر رکھ کر چلادی
اسکے بازو سے نکلتا خون زمین پر گرنے لگا اور درد سے تڑپتے ہوے وہ بےہوش ہوچکا تھا اسکے بےہوش ہوتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھا
“سر اسکا کیا کرنا ہے” اسکے کھڑے ہوتے ہی داد نے پوچھا
“اسکا علاج کرو جب ہوش میں آے تو دوبارہ یہی ڈوز دو اور اسکے بعد جس بلڈنگ سے اسنے گولی چلائی تھی وہاں کی چھت سے اسے پھینک دینا” اسکی بات سن کر داد نے جلدی سے اپنا سر اثبات میں ہلادیا
بیسٹ نے مڑ کر ایک نظر کرسی پر بندھے زبیر پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا
°°°°°
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے سب سے پہلے اپنے کپڑے بدلے کیونکہ سفید شرٹ پر خون کے داغ لگ چکے تھے
فریش ہوکر اسنے ڈارک بلیو ٹراؤزر پر وائٹ ٹی شرٹ زبیر تن کی تھی
اپنے کمرے میں موجود نرم صوفے پر بیٹھ کر اسنے ٹیبل پر رکھا سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا اور اسے جلاکر لبوں میں دبا لیا
جبکہ زہہن کے پردے پر اپنی پرنسسز کے ساتھ ہوئی ملاقات چل رہی تھی اور اسکا خیال ہی جہان زیب کے لبوں پر مسکراہٹ لاچکا تھا