قسط: 6
“تم سچ کہہ رہی ہو روحی تمہیں گولی لگی تھی” حمنہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر حیرت سے کہا
اس وقت وہ دونوں کینٹین میں بیٹھی ہوئی تھیں عائزہ آج نہیں آئی تھی
اسے کالج آتے ہوے چار دن ہوچکے تھے اور ان چار دنوں میں ہی اسکی حمنہ سے کافی اچھی دوستی ہوچکی تھی
اسکی کلاسس شروع ہوے ایک ماہ ہونے والا تھا لیکن جب تک وہ مکمل صحت یاب نہیں ہوگئی اور اسکے چہرے کی پیلی رنگت جو صرف زہرہ بیگم اور حریم کو دکھ رہی تھی ختم نہیں ہوگئی جب تک زہرہ بیگم نے اسے کالج نہیں آنے دیا
“ہاں وہ لڑکا کھڑا تھا میں ایسے گئی اور اسے ایسے دھکا دیا” اپنے ہاتھوں کا استعمال کرکے وہ اسے سارے اسٹیپ کرکے دکھا رہی تھی
جب سے کالج آئی تھی وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ یہ بات حمنہ اور عائزہ کو بتاے یا نہیں کیونکہ پاپا نے أسے یہ بات بتانے سے منع کیا تھا لیکن پھر اسنے خود ہی سوچا کہ انہوں نے گھر والوں کو بتانے سے منع کیا تھا دوستوں کو تھوڑی
اسلیے آج وہ پوری اسٹوری حمنہ کو سنارہی تھی سب کو بتانا بھی تو تھا کہ وہ کتنی بہادر ہے
“پھر کیا ہوا”تجسس سے کہتے ہوے حمنہ نے اپنی چئیر مزید آگے کی
“پھر ایک آدمی تھا وہ لڑکا اسے دادا بلا رہا تھا تو اس لڑکے نے مجھے اس آدمی کے ساتھ پاپا کے پاس بھجوادیا”
“تم تو بہت بہادر ہو روحی” اسکے کہنے پر روحیہ نے شرما کر اپنی تعریف وصول کی
“اچھا میں دیکھ لوں بھائی مجھے لینے تو نہیں آگئے” اپنا بیگ اور ٹیبل پر رکھی کتاب اٹھا کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی
روحیہ بھی اسکے ساتھ ساتھ ہی چلنے لگی اور گیٹ تک پہنچنے تک بھی وہ دونوں باتیں کرتی رہیں
حمنہ کا بھائی لینے آگیا تھا اسلیے روحیہ کو اللہ حافظ کہہ کر وہ باہر نکل گئی اور اسکے جاتے ہی روحیہ بھی دوبارہ کالج کے اندر چلی گئی
حسین صاحب ایک ہی فکس ٹائم پر اسے لینے آتے تھے اور ابھی انکے آنے کا ٹائم نہیں ہوا تھا
°°°°°
“تمہارے ساتھ یہ لڑکی کون تھی” اسکے گاڑی میں بیٹھتے ہی زین نے پوچھا جو کب سے گیٹ پر کھڑی روحیہ کو دیکھ رہا تھا جو اب اندر کالج میں جاچکی تھی
“وہ میری دوست ہے بہت پیاری ہے”
“ہاں وہ تو لگ رہی ہے” یہ بات اسنے دل میں سوچی
“اف اللہ میں اسکی کتاب بھی لے آئی رک جائیں میں دے کر آتی ہوں” اپنے ہاتھ میں موجود تین کتابوں میں سے ایک روحیہ کی تھی جو وہ اپنی کتابوں کے ساتھ ہی اٹھالائی تھی
“نہیں رہنے دو ٹائم لگے گا بعد میں دے دینا” نارمل لہجے میں کہتے ہوے اسنے گاڑی اسٹارٹ کردی جبکہ زہہن کے پردے پر روحیہ کا عکس گھوم رہا تھا
°°°°°
آنکھیں موندے وہ اس وقت اپنی پرنسسز کے خیالوں میں گم تھا
ٹھنڈے بند کمرے میں سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا تھا
اسنے آنکھیں کھول کر آدھا بچا ہوا سگریٹ ایش ٹکرے کیں ڈالا اور ٹیبل پر رکھا وہ سفید ڈوپٹہ اٹھالیا اور ہاسپٹل کا منظر یاد کرنے لگا
“آپ کون ہیں”
“جسے تم نے دھکا دیا تھا جس کے بدلے کی گولی کھائی تھی”
“مجھے ماما کے پاس جانا ہے”
“ماما کے پاس کیوں جانا ہے”
“مجھے درد ہورہا ہے”
ایسا لگ رہا تھا اسکی معصوم سی آواز ابھی تک اسے سنائی دے رہی تھی
گہری مسکراہٹ کے ساتھ اسنے روحیہ کے ڈوپٹے پر اپنے لب رکھ دیے
°°°°°
آہستہ سے وہ اندر داخل ہوا حمنہ کا بیگ سامنے صوفے پر ہی رکھا ہوا تھا اسنے زپ کھول کر بیگ میں موجود حمنہ کی کتابیں نکالیں اور اس میں سے روحیہ کی کتاب تلاش کرنے لگا
دو ایک جیسی کتابیں رکھی ہوئی تھیں جن میں سے ایک حمنہ کی تھی تو ظاہر تھا دوسری روحیہ کی ہی ہونی تھی
اسنے وہ کتاب کھولی جہاں پہلے ہی صفحے پر چھوٹے چھوٹے لفظوں میں روحیہ حسین لکھا ہوا تھا
اسنے مسکراتے ہوے کتاب بند کردی اور جس طرح آیا تھا اسی طرح باہر چلا گیا اسے ایک بہانہ مل چکا تھا روحیہ سے ملنے کا
“حمنہ تو خالا کے گھر گئی ہے اور آج وہیں رہے گی تو مجبوراً یہ کتاب مجھے ہی تمہیں دینی پڑے گی مس روحیہ”اسنے اپنے ہاتھ میں موجود اس کتاب کو دیکھتے ہوے کہا
°°°°°
باہر میں گیٹ پر چوکیدار بیٹھا ہوا تھا جو اسے دیکھتے ہی گیٹ کھول چکا تھا
گھر میں داخل ہوتے ہی اسنے سب سے پہلے زہرہ بیگم اور حسین صاحب کے کمرے کی طرف دیکھا کمرے کی لائٹ آف تھی یقینا وہ دونوں سورہے تھے ویسے بھی رات کے دو بج رہے تھے ان سے اب اسکی ملاقات صبح ہی ہونی تھی
اپنے قدم اسنے روحیہ کے کمرے کی طرف بڑھا دیے کمرے کی لائٹ آن تھی اور وہ بیڈ پر سورہی تھی وہ ہمیشہ لائٹ آن کرکے ہی سوتی تھی
احد نے مسکراتے ہوے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھا
اور اسکے قریب جاکر اسکی پوزیشن درست کرنے لگا ایک پاؤں بیڈ پر جب کہ دوسرا زمیں پر تھا اور اسکا کمبل آدھا سے زیادہ زمیں پر گرا پڑا تھا
احد نے اسے ٹھیک سے لٹا کر اس پر کمبل درست کرکے ڈالا اور اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر اسکے کمرے میں نکل گیا اب اسکا ارادہ اپنے کمرے کی طرف جانب کا تھا
°°°°°
اپنے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی کمرے میں پہلے کی نسبت اب زیادہ سامان تھا
بےبی لوشن پاؤڈر بےبی کاٹ اور دیگر سامان موجود تھا لیکن اتنا سامان ہونے کے باوجود بھی کمرے کی ہر چیز بہت سلیقے سے رکھی ہوئی تھی
آہستہ سے دروازہ بند کرکے وہ بیڈ پر لیٹی حریم کے قریب آیا نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے
حریم کو زہرہ بیگم نے ایک پارٹی میں دیکھ کر پسند کیا تھا اور اسنے خود بھی انکی پسند پر سر جھکا دیا البتہ دل میں یہ خیال ضرور آتا تھا کہ وہ لڑکی پتہ نہیں کیسی ہوگی اسکا مزاج کیسا ہوگا
لیکن اس سے شادی ہوتے ہی سارے برے خیالات نے اسکا پیچھا چھوڑ دیا حریم اسکی سوچ سے زیادہ اچھی تھی ہر رشتے میں پرفیکٹ
دوسری سائیڈ پر آکر اسنے بیچ میں لیٹی اپنی بیٹی کو اٹھایا وہ ایک مہینے کی تھی اور کافی زیادہ صحت مند تھی دکھنے میں وہ بلکل روحیہ کی طرح تھی پھولے پھولے گال والی وہ گڑیا اس وقت سورہی تھی
اسے گود میں کے کر وہ پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگا
“آپ کب آے” اسنے اپنا چہرہ موڑ کر دیکھا جہاں نیند سے بھری آنکھیں بمشکل کھولے وہ احد کو دیکھ رہی تھی
“تھوڑی دیر پہلے” اسے جواب دے کر وہ دوبارہ سے اپنی بیٹی کو دیکھنے لگا اس وقت یہ لمحہ اسے دنیا کا سب سے حسین لمحہ لگ رہا تھا
آگے کو سرک کر حریم اسکے قریب آئی اور اسکے کندھے پر اپنا سر رکھ لیا
“مجھ سے ملے بھی نہیں بس آتے ہی بیٹی کو اٹھالیا”
“بیٹی کو پیار کر لوں پھر تم سے بھی اچھے سے مل لوں گا” احد نے اسکے کان میں سرگوشی کی جس پر اسنے مسکرا کر اپنی پلکیں جھکالیں
“پیاری ہے نہ”
“ہاں بلکل تمہاری طرح”
“جی نہیں آپ بھی جانتے ہیں یہ روحیہ کی طرح ہے”
“میں ابھی تک پوچھ ہی نہیں سکا اسکا نام کیا ہے”
“حنین روحیہ نے رکھا ہے اور آپ کو پتہ ہے ماما اور اسکی نام رکھنے پر کتنی لڑائی ہوئی تھی پھر پاپا نے اتنی مشکل سے انکی لڑائی ختم کروائی اور روحیہ نے اسکا نام حنین رکھ دیا” انکی لڑائی یاد کرکے حریم کی ہنسی چھوٹی
“کوئی بات نہیں ہم اور لے کر آجائینگے تاکہ اب اسکا نام ماما رکھ لیں” احد کے شرارت سے کہنے پر حریم نے گھور کر اسکے مظبوط بازو پر مکا رسید کیا لیکن جانتی تھی اس سے سامنے والے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا
“کھانا کھایا آپ نے لے کر آؤں”
“نہیں تم بس میرے پاس رہو”
“کپڑے تو چینج کرلیں”
“نہیں کرنے اس وقت بس مجھے سونا ہے” حنین کو دونوں کے بیچ میں لٹا کر اسنے حریم کو اپنے بازو پر لٹا لیا اور خود بھی سکون سے اپنی آنکھیں موند لیں
جب سے اسے حنین کی اس دنیا میں آنے کی اطلاع ملی تھی تب سے روز اسے یہی ڈر لگا رہتا تھا کہ وہ واپس جا بھی سکے گا یا نہیں اپنی بیٹی کو دیکھ بھی سکے گا یا نہیں لیکن وہ دیکھ چکا تھا
اپنی آنکھیں بند کرکے اسنے دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور اپنی سوئی ہوئی بیٹی کو دیکھ کر پھر سے مسکرا دیا
°°°°°