قسط: 7
بالوں کی اونچی پونی بناے کالج یونیفارم میں ملبوس وہ اپنا بیگ پکڑے تیز قدموں سے بھاگ کر ڈائینگ روم میں آئی جہاں بیٹھے شخص کو دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی
“بھیو آپ کب آے” وہ بھاگتے ہوے احد کے پاس گئی
وہ جو اپنا ناشتہ کررہا تھا اسکی آواز سن کر مسکرا اٹھا گھر میں وہ صبح ہوتے ہی سب سے مل چکا تھا بس ایک روحیہ ہی بچی تھی جس سے وہ اب مل رہا تھا
“میں تو بہت سال پہلے آگیا تھا”
“ہاں مجھے پتہ ہے آپ بہت سال پہلے آگئے تھے” اسنے بہت کو لمبا کھینچا
“اب اتنا بھی بہت مت کرو”
“میں کروں گی کیونکہ یہی بات ہے”
“ہاں یہی بات ہے پتہ ہے ماما کبھی کبھی تو مجھے بھی لگتا ہے میں بہت بڑا ہوں یا پھر روحیہ میڈم کچھ زیادہ چھوٹی ہیں زرا باہر جاؤ ہر کوئی انہیں میری بیٹی سمجھتا ہے” احد نے انکے سامنے اپنے دکھ کا اظہار کیا
“بیٹا ہے تو تم سے بہت چھوٹی” حسین صاحب نے اخبار کا صفحہ پلٹتے ہوے کہا
“اب اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے”
“جی نہیں ہوں پورے تیرہ سال” روحیہ نے اپنی ساری انگلیاں اسے دکھائیں
“یہ دس ہوئیں”
“بھابھی تین انگلی اور دکھائیں” روحیہ نے اپنے برابر بیٹھی حریم کو دیکھتے ہوے کہا جس پر اسنے اپنی مسکراہٹ دبا کر روحیہ کے ساتھ اپنی تین انگلیاں ملادیں
“لیجیے بھیو ہوگئیں تیرہ اور اب جلدی سے ناشتہ کریں پھر مجھے کالج چھوڑ کر آئیے گا
آج میں آپ کے ساتھ جاؤں گی”اسکی بات پر اسنے اپنا سر اثبات میں ہلادیا اور ٹیبل پر رکھا اپنا چاے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا
°°°°°
اپنے جم روم میں موجود اس وقت وہ کافی دیر سے ایکسرسائز کررہا تھا اور ایک طرف کھڑا داد کب سے اسکا کام ختم ہونے کا انتظار کررہا تھا تاکہ اسے وہ بات بتا سکے جس کے لیے وہ یہاں کھڑا تھا
“بولو کیا پتہ چلا ہے” وہاں کھڑے ملازم نے اسکی طرف تولیہ بڑھایا جس سے وہ اپنے وجود پر موجود پسینہ صاف کرنے لگا
“سر زین کا پتہ چل گیا ہے یقینا وہ عبداللہ کے لیے بہت خاص ہے جب ہی وہ گھر سے باہر نکلتا ہے اسکے ساتھ گارڈز ہوتے ہیں جو عبدللہ نے رکھواے ہیں اکیلے وہ بس جب ہی نظر آتا ہے جب اپنی بہن کو کالج لینے آتا ہے”
“مجھے وہ کسی بھی حالت میں چاہیے چاہے اسکے ساتھ گارڑذ کی فوج ہو یا پھر اکیلا ہو مجھے وہ چاہیے” سخت لہجے میں کہہ کر اسنے ہاتھ میں پکڑا وہ ٹاول پھینکا اور خود جم روم سے نکل گیا
°°°°°
روحیہ کو کالج چھوڑ کر اسنے اپنے چند ایک کام نمٹاے اور گاڑی گھر کی جانب بڑھا دی
جب اسکا فون بجا جہاں نام دیکھتے ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی
“کیسے ہو احد”
“بلکل ٹھیک تم سناؤ”
“کچھ خاص نہیں بس تمہاری واپسی ہوئی ہے تو سوچا تم سے ملنے کا پلین بنالوں”
“مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ تمہیں پتہ چل گیا میرے واپس آنے جا کوئی نئی بات نہیں ہے کب ملنا ہے”
“لوکیشن بھیج دوں گا”
“ویسے تم نے مجھے میری بیٹی کی مبارک باد نہیں دی”
“میں یہ خبر سنتے ہی تمہارے گھر کیک اور پھول بھجوا چکا تھا ہاں تمہیں مبارک باد نہیں دی سوچا تھا جب واپس آؤ گے تو مل کر ہی دوں گا” جہان زیب کے کہنے پر احد نے قہقہہ لگایا
“اچھا تو وہ کیک اور پھولوں کی دکان تم نے بھجوائی تھی بندہ کوئی کارڈ وغیرہ ہی لگا دیتا ہے ماما تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہی تھیں کہ پتہ نہیں کس نے یہ سب بھیج دیا اور میری بہن اس خوش فہمی میں مبتلا ہوچکی تھی کہ کسی نے اسے باہر دیکھ لیا اور اس سے پہلی نظر کی محبت ہوگئی اس وجہ سے یہ سب بھیجا ہے” اسکے قہقہے کی وجہ جہان زیب کو اب سمجھ آئی تھی
“خیر مجھے بتاؤ میں کب یہ کام تمہارے لیے کروں آئی مین تم کب شادی کررہے ہو سوچ لو عمر نکلی جارہی ہے”
“اتنی بھی نہیں نکلی جارہی صرف اکتیس کا ہوں”
“تو اکتیس کم عمر نہیں ہوتی مجھے دیکھ لو تم سے صرف دو ماہ بڑا ہوں اور ماشاءاللہ سے ایک بیٹی کا باپ بھی بن گیا”
“میرے بھائی اگر اتنی ہی جلدی لگ رہی ہے تو اپنی بہن کی شادی کروادو مجھ سے”
“میری بہن اور تم میں بہت فرق ہے جہان اگر نہیں ہوتا تو میں اس بارے میں ضرور سوچتا لیکن ایسا ہے نہیں روحیہ بہت معصوم ہے وہ تمہارے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی ہے”
“کیوں نہیں گزار سکتی” احد کی بات سنتے ہی اسکے ماتھے پر بل پڑے
“کیونکہ تم ایک بیسٹ ہو تمہاری ایک الگ دنیا ہے جس میں کسی کی جان لینا زرا بھی مشکل نہیں ہے اور اسکی دنیا الگ ہے خیر میں بھی کیا باتیں کرنے لگ گیا ہوں تم کونسا میری بہن کو جانتے ہو اگر جانتے تو مذاق میں بھی یہ بات نہیں کہتے خیال رکھنا تمہیں بعد میں فون کرتا ہوں” الوداعی کلمات ادا کرکے اسنے فون رکھ دیا
جہان زیب نے غصے سے اپنے فون کو دیکھا اور اگلے ہی پل اسے زور سے دیوار پر مار دیا احد کی باتیں یاد کرکے اسے بےانتہا غصہ آرہا تھا جبکہ زمیں پر پڑا وہ مہنگا فون اپنی قسمت پر ماتم کررہا تھا
°°°°°
کینٹین میں بیٹھی وہ سینڈوچ سے انصاف کررہی تھی جب اسکی کلاس فیلو نے بتایا کہ باہر کوئی اسکا انتظار کررہا ہے
آج وہ اکیلی کالج آئی تھی اور سارا دن بوریت بھرا گزرا کیونکہ اسکی دوستیں جو نہیں آئی تھیں
اپنا بیگ اٹھا کر وہ کالج سے باہر چلی گئی چھٹی کا ٹائم تھا اور اسے یہی لگ رہا تھا کہ آج احد اسے لینے آیا ہوگا کیونکہ پاپا اتنی جلدی لینے نہیں آتے تھے
باہر نہ ہی تو احد تھا نہ ہی حسین صاحب اسنے یہی سوچا تھا شاید اس لڑکی نے کوئی مذاق کیا ہوگا اور یہی سب سوچتے ہوے وہ واپس اندر جانے لگی جب کوئی اسے پکارتا ہوا تیزی سے اسکے قریب آگیا
°°°°°
“اسے یہاں آنا ہے”
“جی سر اسکی بہن یہاں پڑتی ہے اور اس وقت وہ روزانہ اسے لینے آتا ہے” داد کے کہنے پر اسنے اپنا سر ہلادیا زین کی تصویر وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھا جس کے باعث اسے پہچاننے میں اسے کوئی مشکل نہیں آنی تھی
گود میں رکھا لیپ ٹاپ اسنے بند کرکے بیگ میں ڈالا اور کالج کی طرف دیکھنے لگا گاڑی کالج کے سامنے ہی کھڑی تھی اسلیے وہاں کا منظر صاف دکھ رہا تھا
جہاں بس یونیفارم میں موجود لڑکیاں تھیں اور جب ہی اسکی نظر ان لڑکیوں کے درمیان کھڑی اس لڑکی کی طرف اٹھی جہاں وائٹ یونیفارم میں موجود وہ پھولے پھولے گالوں والی لڑکی کھڑی تھی اسکے لبوں پر بےساختہ مسکراہٹ پھیل گئی لیکن اگلے ہی لمحے وہ مسکراہٹ سمٹ چکی تھی اور غصے سے رگیں تن چکی تھیں
°°°°°
“میرا نام زین ہے”
“سوری میں آپ کو نہیں جانتی” اسنے جلدی جلدی بات مکمل کی اور اندر جانے لگی جب وہ پھر اسکے راستے میں آگیا
“میں حمنہ کا بھائی ہوں آپ کی بک دینے آیا تھا آج حمنہ کالج نہیں آئی تھی تو اسنے مجھ سے کہا کہ یہ میں آپ کو دے دوں” اسنے اپنے ہاتھ میں موجود بک اسکی طرف بڑھائی
“تھینک یو بھائی”
“میں آپ کا بھائی نہیں ہوں آپ مجھے زین بلا سکتی ہیں”اسنے مسکراتے ہوے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا
جسے کچھ دیر جھجک کر اسنے ملا لیا لیکن اگلے ہی لمحے جو ہوا وہ اسکا سانس تک روک چکا تھا
°°°°°