Obsession of Beast

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 8

اسنے غصے سے اپنے سامنے چلتا منظر دیکھا سامنے کھڑا لڑکا زین تھا اس بات کا اسے یقین تھا اور اسی بات کا اسے غصہ آرہا تھا وہ لڑکا اسکی روح کے اتنے قریب کیوں کھڑا تھا
وہ گاڑی میں بیٹھا بھی یہاں سے دیکھ سکتا تھا کہ وہ کن نظروں سے روحیہ کو دیکھ رہا ہے لیکن اگر نہیں سمجھ آرہا تھا تو وہ اسکے اتنے قریب کھڑی اس بےوقوف لڑکی کو نہیں آرہا تھا
“داد میری گن دو” ماتھے پر بل ڈالے اسنے داد کو مخاطب کیا
جبکہ نظریں سامنے چلتے اس منظر پر تھیں جہاں اب زین اپنا ہاتھ آگے بڑھاے اس سے ہاتھ ملانے کی کوشش کررہا تھا
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے داد نے مڑ کر اسے دیکھا سامنے زین کھڑا تھا یہ بات تو وہ بھی دیکھ چکا تھا لیکن وہ اسے یہیں سڑک پر مار دے گا ایسی توقع داد کو اس سے نہیں تھی
“کیوں سر”
“میری گن دو” اسنے ایک ایک لفظ چپا چپا کر ادا کیا جس پر گھبرا کر داد نے جلدی سے گن اسے دی
جسے تھام کر اسنے زین کی طرف چلا دی اور ہمیشہ کی طرح نشانہ سیدھا شکار پر لگا
°°°°°
وہ گولی سیدھی زین کی کنپٹی پر لگی اور دوسری اسکے بازو پر لگی خون کی چھینٹے روحیہ کی چہرے پر پڑی اور وہ آنکھیں پھاڑ کر سانس روکے اس منظر کو دیکھ رہی تھی
گولی چلتے ہی ہر جگہ بھگ دڑ مچ چکی تھی جہاں اس جگہ پہلے سب اطمینان سے کھڑے تھے اب سب اسی جگہ سے بھاگ رہے تھے تو کچھ زین کے قریب آکر اسے دیکھ رہے تھے
روحیہ نے اپنی گردن موڑ کر ہر طرف دیکھا اسکے حواس جیسے شل ہوچکے تھے دور گاڑی میں اسے وہ شخص بیٹھا دکھائی دیا جو گہری نظروں سے ہاتھ میں گن پکڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا
اسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہورہا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا دل کی دھڑکن بڑھ رہی ہے یا رک رہی ہے اسنے اپنے چکراتے سر پر ہاتھ رکھا اور اگلے ہی پل وہ دھڑام سے زمین پر گر چکی تھی
°°°°°
گاڑی سے اتر کر وہ اسکی جانب بڑھا اور نرمی سے اسکا نازک وجود اپنی بانہوں میں اٹھالیا
اسے اپنی بانہوں میں اٹھاے اسنے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر نرمی سے اسے لٹایا اور مڑ کر زین کو دیکھا جس کے قریب اب لوگوں کا رش بڑھتا جارہا تھا کوئی پولیس کو کال کررہا تھا کوئی ایمبولینس کو تو کوئی اسکی ویڈیو بنا رہا تھا
بھگ دڑ ایسی مچی تھی کہ کسی نے یہ دیکھا تک بھی نہیں کہ گولی کہاں سے چلی اور کس نے چلائی تھی
“اس میں بےہوش ہونے کی کیا بات تھی پرنسس” اسنے نرمی سے اسکا گال تھپتھپا کر کہا
“سر میڈم کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے” داد نے اسکے پیچھے کھڑے ہوکر کہا
“ہمم میں لے جاؤں گا تم اس لڑکے کو سیل میں لے کر جاؤ”
“سر سب لوگ جمع ہیں وہاں پر اور میرے خیال سے وہ مرچکا ہے” اسکے کہنے پر جہان زیب نے اپنی ہیزل براؤن آنکھوں سے اسے گھور کر دیکھا
“داد میں جارہا ہوں اور بعد میں جب میں آؤں تو مجھے یہ لڑکا سیل میں موجود ملے زندہ یا مردہ مجھے فرق نہیں پڑتا” اپنی بات کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا
جبکہ وہ بیچارا اب یہ سوچ رہا تھا کہ اس بھیڑ میں سے وہ زین کو کیسے نکالے گا ممکن تھا کہ پولیس بھی آنے والی ہو کالج کا گارڈ جو پہلے کالج کے اندر تھا اب وہ بھی باہر آکھڑا ہوا تھا
لیکن جو بھی تھا یہ حکم جہان زیب کاظمی نے دیا تھا جسے اسے ہر حال میں پورا کرنا تھا
°°°°°
وہ اس وقت ہاسپٹل میں موجود صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھاے بیٹھا تھا جب اسے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی اور بنا اس طرف دیکھے بھی وہ جانتا تھا کہ آنے والا احد ہوگا
“کیا ہوا ہے اسے تمہیں وہ کہاں ملی اور وہ بےہوش کیسے ہوئی” اسکے قریب آتے ہی اسنے ایک ہی سانس میں پوچھا
جہان زیب فون پر اسے یہ بات بتا چکا تھا کہ اسکی بہن اس وقت ہاسپٹل میں موجود ہے ساتھ ہی ہاسپٹل کا نام بھی بتادیا اور یہ بھی وہ بتاچکا تھا کہ وہ اسے سڑک پر بےہوش ملی تھی
“بتایا تو تھا کالج کے باہر بےہوش ہوگئی تھی”
“لیکن وہ بےہوش کیوں ہوئی” اسکے کہنے پر جہان زیب نے لاپروائی سے اپنے کندھے اچکا دیے
”کسی نے وہاں پر ایک لڑکے کو گولی مار دی تھی اسنے دیکھ لیا بس اس لیے بےہوش ہوگئی” اسکے اطمینان سے کہنے پر احد نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کرلیں
“جہان زیب تمہیں اندازہ ہے تم نے کیا کیا ہے سڑک پر بندہ مار دیا”
“میں نے اپنا نام تو لیا ہی نہیں ہے”
“تمہارے علاؤہ اور کون یہ کرسکتا ہے”
“اس میں غلط کیا ہے”
“تم نے روحیہ کے سامنے اسے مار دیا کم از کم یہی دیکھ لیتے وہ گرلز کالج تھا وہاں کسی کو مارنے کی کیا ضرورت تھی” گہرا سانس لے کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے مقابل کھڑا ہوا
“احد حسین تم مجھے مت بتاؤ کہ میں نے کیا کردیا ہے کیا نہیں کچھ نہیں ہوا ہے تمہاری بہن کو اور اچھا ہے ابھی سے اسے اس سب کی عادت ڈال لینی چاہیے خیر میں جارہا ہوں اسکا خیال رکھنا”اسنے ایک نظر اس روم کے دروازے پر ڈالی جہاں روحیہ موجود تھی اور وہاں سے چلا گیا جبکہ احد خود بھی بنا اسکی باتوں پر دھیان دیے اندر چلا گیا
°°°°°
اسکے ہوش میں آتے ہی احد اسے گھر لے کر آچکا تھا لیکن تب سے وہ بےحد خاموش اور خوفزدہ تھی
اسکے سامنے ایک انسانی جان گئی تھی یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی
وہ بس ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ حمنہ کا بھائی مر چکا ہے
اسکےخوف زدہ چہرے کو آنسوؤں نے بھگو رکھا تھا
جبکہ اسکی حالت دیکھ کر احد کو جہان زیب ہر غصہ آرہا تھا لیکن ضبط کرنے کے علاؤہ وہ اور کچھ کر بھی تو نہیں سکتا تھا
°°°°°
رات تک اسے تیز بخار ہوچکا تھا اور اسکی حالت دیکھ کر سب ہی پریشان ہوچکے تھے
ڈاکٹر آکر اسکا ٹریٹمنٹ کرکے جا چکی تھیں اسے دوائی دے کر زہرہ بیگم اور حریم اسکی پٹیاں کررہی تھیں جس کی وجہ سے اسکا بخار کافی حد تک اتر چکا تھا
زہرہ بیگم کو کمرے میں بھیج کر وہ اسکے قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی آج اسکا یہیں سونے کا ارادہ تھا لیکن حنین کے مسلسل رونے کی آواز سے وہ اٹھ کر اسے دیکھنے چلی گئی
پہلے سوچا اسے کمرے میں لے آے لیکن روحیہ کی نیند ڈسٹرب نہ ہو اسلیے اسنے اسے احد کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا
لیکن اب اسکے رونے کی آواز اسے پریشان کررہی تھی اسلیے اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ باہر چلی گئی
°°°°°
کھڑکی کے راستے سے وہ کمرے میں داخل ہوا جہاں اسکی وہ پنک کلر کے کمبل میں سکون سے سورہی تھی
اسکے قریب جاکر جہان زیب بیڈ پر اسکے قریب بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ کی پشت سے اسکا گال سہلانے لگا جو گرم ہورہا تھا
“تم تو بہت نازک ہو پرنسس ایک انسان کو گولی لگتے دیکھ کر تمہارا یہ حال ہوگیا کیا کہا تھا میں نے تم سے کہ مجھ سے پھر کبھی مت ملنا ورنہ تمہیں اس بیسٹ کی قید سے کوئی رہا نہیں کرپاے گا لیکن تم نے شاید میری بات پر دھیان ہی نہیں دیا تو اب تیار ہوجاؤ اس بیسٹ کی قید میں آنے کے لیے اب تمہیں مجھ سے کوئی الگ نہیں کر سکتا” باہر سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں
“پھر ملنے آؤں گا تم سے میرا انتظار کرنا”اسنے ایک آخری نظر اپنی پرنسس پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial