Obsession of Beast

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 9

کل کا ہر منظر کسی فلم کی طرح پھر سے زہہن میں چلنے لگا اسنے زور سے پہلے اپنے گال رگڑے پھر اپنی ناک پھر گردن کیوں کہ ان حصوں پر زین کے خون کی چھینٹے آئی تھیں
چہرہ اسکا بلکل صاف تھا لیکن اسے ابھی بھی ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ خون اسکے چہرے پر لگا ہے جسے وہ جتنا بھی صاف کرلیتی اسے صاف نہیں ہونا تھا
دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے چونک کر دیکھا وہاں احد تھا جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا
“اٹھ گئی تم اب طبیعت کیسی ہے”مسکرا کر کہتے ہوے وہ اسکے قریب بیٹھ گیا اور اسکے بیٹھتے ہی روحیہ نے اپنا سر اسکے کندھے پر رکھ لیا
“بھیو اسنے حمنہ کے بھائی کو مار دیا”آنسو پھر اسکی آنکھ سے بہنے لگے
“روحیہ اس واقعے کو بھول جاؤ”
“میں نہیں بھول سکتی میں نے اس لڑکے کو دیکھا تھا جس نے حمنہ کے بھائی کو مارا تھا میں اسے جانتی ہوں”
“تم اسے کیسے جانتی ہو”
“مجھے گولی تھی جب میں اس اس لڑکے سے ملی تھی”احد کے لیے یہ بات کافی حیرت انگیز تھی
“تمہیں گولی لگی تھی کب اور کسی نے مجھے بتایا کیوں نہیں کب لگی تھی کہاں لگی تھی” اسکا انداز دیکھ کر روحیہ کو اندازہ ہوا کہ وہ کیا بول چکی ہے جو بات چھپی تھی وہ اسنے خود ہی کھول دی
“وہ پاپا نے منع کیا تھا بتانے سے آپ بھی کسی کو مت بتانا ورنہ میری ڈانٹ پٹے گی”
“کیسے لگی تمہیں گولی” اسکے پوچھنے پر روحیہ نے اسے اس دن ہوا وہ پورا واقعہ بتادیا
“آپ کسی کو بتانا مت” اسکے معصومیت سے کہنے پر احد نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا اسکی بہن تکلیف میں تھی اور اسے خبر ہی نہیں ہوسکی
“مجھے حمنہ کے گھر جانا ہے بھیو پتہ نہیں وہ کیسی ہوگی”
“روحیہ میری بات سنو تم نے اس دن جو بھی دیکھا وہ کسی سے مت کہنا سمجھو تم نے ایک برا خواب دیکھا تھا جو ٹوٹ گیا”
“لیکن کیوں،،،؟”
“تم ان سب سے جتنا دور رہو اتنا اچھا ہے اور حمنہ کے گھر جانا ہے تو میں لے جاؤں گا لیکن اس وقت جب تم مکمل طور پر ٹھیک ہوجاؤ گی جاؤ جاکر برش کرو اور جلدی سے ناشتہ کرکے میڈیسن لو”اسکے کہنے پر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر واشروم میں چلی گئی جبکہ احد کی سوچوں کا رخ اب کسی اور طرف تھا
جہان زیب کاظمی جسے ہر کوئی بیسٹ کے نام سے جانتا ہے لیکن جاننے کے باوجود بھی کبھی کوئی اسے پکڑ نہیں سکا وجہ یہ کہ اسنے کبھی اپنے خلاف کوئی ثبوت نہیں چھوڑا
وہ کھلے عام قتل کرتا تھا اور یہ منظر دیکھنے کے باوجود بھی کوئی اسکے خلاف گواہی نہیں دیتا تھا کیونکہ جو ایسا کرنا چاہتا تھا اسکا دنیا سے نام و نشان ہی مٹ جاتا تھا
جہان زیب کی ان حرکتوں پر آج تک اسنے کچھ نہیں کہا تھا لیکن اب معاملہ الگ تھا
اب اسے کسی کو مارتے ہوے روحیہ نے دیکھا تھا اور اسے یہی ڈر تھا کہ روحیہ کسی کو یہ بات نہ بتادے وہ اسے منع کرچکا تھا
لیکن پھر بھی یہ فکر اسے رہنی تھی کہ اگر روحیہ نے کسی کو یہ بات بتادی تو جہان زیب اسے بھی نہ مار دے وہ اپنے گھر والوں کی حفاظت سب سے کرسکتا تھا سواے بیسٹ کے
لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بیسٹ اسے نہیں مارے گا کیونکہ روحیہ حسین جہان زیب کاظمی کی جان بن چکی تھی اور وہ اپنی جان کو کیسے کوئی نقصان پہنچا سکتا تھا
°°°°°
سیل میں داخل ہوکر اسنے اپنا کوٹ اتار کر داد کی طرف اچھالا اور اپنی آستین کونیوں تک موڑ کر وہاں رکھے سرجیکل گلوز پہننے لگا
“کیسے لے کر آے تم اسے”
“پولیس یونیفارم میں پولیس سے پہلے پہنچ گیا اور ایمبولینس میں بیٹھا کر لے آیا”
اسکے کہنے پر اسنے ہلکے سے اپنے سر کو جنبش دی اور ٹیبل پر لیٹے زین کو دیکھا چند سانسیں اس میں اب بھی باقی تھیں جو کہ ممکن تھا جلد ہی رکنے والی ہیں
ایک چھوٹا سا نوکیلا چاقو اٹھا کر وہ اسکے ہاتھ پر عجیب سے نقش و نگار بنانے لگا زہہن کے پردے پر وہی منظر گھوم رہا تھا جس میں زین نے روحیہ سے ہاتھ ملایا تھا اسنے ٹیبل پر رکھی تیز دھار چھری اٹھا لی منظر یاد کرکے اسے غصہ آرہا تھا اور غصے کی وجہ سے اسکی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں
اپنے اس غصے میں وہ زین کے ہاتھ اسکے وجود سے الگ کرچکا تھا خون اسکے کپڑوں پر لگ چکا تھا لیکن یہاں پرواہ کسے تھی
اپنا کام ختم کرکے اسنے گلوز اتار کر ڈسٹ بن میں پھیکے
“سر اب اسکا کیا کرنا ہے”
“اسکے دونوں ہاتھ کتوں کے آگے ڈال دینا اور باقی کا وجود عبداللہ کے پاس بھیج دینا میرا کام کردیا تم نے”
“جی سر سارے گفٹس پیک کروا کر آپ کے کمرے میں رکھ دیے ہیں” اسکے کہنے پر جہان زیب وہاں سے چلا گیا جبکہ داد اب تک ٹیبل پر پڑے زین کے وجود کو دیکھ رہا تھا
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس لڑکے نے ایسی کیا غلطی کردی تھی جو اسکے ساتھ یہ سب ہوا کیونکہ آج سے پہلے بیسٹ نے کبھی بھی کسی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا تھا
داد نے اسکے کٹے ہوے دونوں ہاتھ دیکھے پھر زین کو دیکھا اسکا حال دیکھ کر ایک دم اسے جھرجھری آئی لیکن اب یہ آگے کا کام اسی نے کرنا تھا اس لیے خود کو سنبھال کر وہ اپنا کام کرنے لگ گیا
°°°°°
آج پھر وہ اسی راستے سے اسکے کمرے میں آیا تھا جہاں کل کی طرح ہی وہ پر سکون ہوکر سو رہی تھی
اسکے قریب جاکر اسنے بیڈ کے دونوں طرف اپنے ہاتھ رکھ لیے اور غور سے اسکا چہرہ دیکھنے لگا پھر اسکے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی
“ہیپی برتھ ڈے پرنسس” اسکی آواز سن کر روحیہ نے کسمسا کر کروٹ بدلی جسکی وجہ سے اسکے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی
اسنے اگلے ہی پل اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے پہلے والی پوزیشن میں لٹایا وہ نیند سے نہیں جاگی تھی بس چہرے کے زاویے بگڑے اور پھر دوبارہ پہلے کی طرح ہوگئے
“کیا کرنا چاہیے مجھے ڈیڈ کو تمہارے گھر بھیجنا چاہیے،،، اگر میں نے ایسا کیا تو تمہارے گھر والے مان جائینگے شاید نہیں خاص طور پر تمہارا وہ بھائی تم دیکھ لینا روح میری اس لو لائف میں میرا سب سے بڑا دشمن تمہارا بھائی ہی ہوگا تو اسے پہلے ہی اپنی پیار بھری زبان میں سمجھا دینا کہ کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کرے ورنہ میں یہ بھول جاؤں گا کہ وہ میرا دوست ہے اور پھر میں اسکے لیے بھی بیسٹ بن جاؤں گا”
وہ اس طرح اس سے باتیں کررہا تھا جیسے وہ واقعی اسے سن رہی ہے
“خیر اگر واقعی میں احد نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو اسکا ذمیدار تم مجھے مت ٹھہرانا کیونکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں لیکن ہم ابھی یہ باتیں نہیں کرتے ہیں آج تمہارا برتھ سے ہے میں نے تمہارے لیے کچھ گفٹ لیے ہیں امید کرتا ہوں تمہیں پسند آئینگے” اسکا نرم ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے وہ اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوے کہہ رہا تھا
°°°°°
صبح اٹھ کر اسنے سب سے پہلے گھڑی کی طرف دیکھا جو سات بجارہی تھی اسکا ارادہ دوبارہ سونے کا تھا
لیکن تب ہی نگاہ سامنے رکھے سامان کی طرف گئی نیند سے بھری آنکھیں زبردستی کھول کر اسنے سامنے رکھے ان گفٹس کی طرف دیکھا
پہلے اسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے لیکن وہ منظر حقیقت تھا اپنی جگہ سے اٹھ کر اسنے ایک گفٹ اپنے ہاتھ میں لیا
الگ الگ سائز کے وہ چھوٹے بڑے گفٹس رکھے ہوے تھے ساتھ ہی ایک کارڈ بھی وہاں پر موجود تھا لیکن اسے کارڈ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اسے پتہ تھا یہ کام اسکے گھر والوں کے علاؤہ اور کون کرے گا
اسنے ان سارے گفٹس کی گنتی کری اور جلدی سے موبائل میں تاریخ دیکھی آج اسکی برتھ ڈے تھی جسے زین والے حادثے کی وجہ سے وہ فراموش ہی کر چکی تھی
خوشی سے اچھلتی ہوئی وہ باہر بھاگی جہاں سب بیٹھے ناشتہ کررہے تھے گھر میں سب جلدی ہی اٹھتے تھے سواے اسکے
“اتنے سارے گفٹس تھینک یو تھینک یو مجھے بہت اچھا لگا پتہ نہیں کس کا آئیڈیا تھا لیکن جس کا بھی تھا کمال تھا” وہ خوشی سے چیختے ہوے کہنے لگی اور پھر دوبارہ اندر اپنے کمرے میں بھاگ گئی
اسکی اس حرکت پر سب نے حیرت سے اسے دیکھا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے پیچھے چلے گئے
جہان کمرے کا منظر ان سب کے لیے بھی خاصا حیران کن تھا
سارے گفٹ بکھرے پڑے تھے اور روحیہ میڈم ایک ایک کرکے انہیں کھول رہی تھیں
احد کی نظر اس سفید کارڈ پر گئی جس پر “ہیپی برتھ ڈے پرنسس” لکھا ہوا تھا
پہلی نظر میں دیکھ کر ہی وہ جان چکا تھا کہ یہ لکھائی جہان زیب کی ہے لیکن وہ روحیہ کو گفٹس کیوں بھیجے گا یہ بات اسے سمجھ نہیں آرہی تھی
°°°°°
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial