The Creature’s Love

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 10

ازمیر اپنے روم میں تھا لیکن اسے کسی ہل سکون نہیں تھا پل پل اس کا غصّہ بڑھ رہا تھا جب جب عرشیہ کی حالت اس کی آنکھوں کے سامنے آتی اس کا غصّہ دس گنا بڑھ رہا تھا۔۔اس نے اپنی الماری کھولیں اور اس کے لاکر سے کچھ نکال کر چیک کیا اور اسے اپنے بیڈ کے سائیڈ ڈرار میں رکھ لیا۔۔۔دوسری طرف عرشیہ کو بھی ہوش آگیا تھا لیکن جیسے ہی وہ ہوش میں آئ چیخنے چلانے لگی اس کی آواز سن کر سب اس کے روم کی طرف آۓ اس کی حالت غیر ہو رہی تھی زارا نے اسے بڑی مشکل سے سنبھالا۔۔۔ماما مجھے چھپا لیں پلیز مجھے چھپا لیں وہ لوگ پھر مجھے لے جائیں گے ماما پاپا پلیز مجھ سے دور مت جانا میرے پاس رہنا آپ لوگ وہ رو رو کر اپنے ماما پاپا سے لپٹ رہی تھی۔۔۔اس کی حالت دیکھ کر اب کی آنکھیں نم ہوئیں بڑی مشکل سے عرشیہ کو سنبھالا اور اس کو باتوں میں لگانے لگے جب تھوڑا سنبھلی تو سب کو کچھ تسلی ہوئی۔۔۔ازمیر سے اس کی حالت برداشت نہیں ہوتی وہ وہاں سے اپنے روم میں جا کر بند ہو گیا۔۔۔آہہہہہہہ۔۔ازمیر نے اپنا سارا کمرہ تہس نہس کردیا یہاں تک کہ غصے میں اپنا بیڈ اور صوفے تک الٹا دیے.۔میرے ہوتے ہوۓ میری کرسٹل ڈول کی یہ حالت ہو گئ وہ لوگ اسے اٹھا کر لے گۓ میرے ہوتے ہوۓ میں چھوڑوں گا نہیں ان دونوں کو۔۔۔ان کو تو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ ساری زندگی کبھی کچھ غلط کرنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔۔۔مغرب کا ٹائم تھا ازمیر نے ڈرار میں جو چیز رکھی تھی وہ تیز دھار والا خنجر تھا وہ اٹھایا اور پھر کچن میں آکر کچھ سامان لیا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔ازمیر گاڑی کو ہوا میں اڑا رہا تھا وہ جلد سے جلد اپنی شبینہ اور جنید کے پاس پہنچنا چاہتا تھا تاکہ ان کو سزا دے سکے۔۔۔ازمیر نے مخصوص جگہ پہنچ کر ایک جھٹکے سے گاڑی روکی اور تیزی سے باہر نکل کر وہاں پہنچا جہاں ان دونوں کو بند کیا ہوا تھا۔۔جیسے ہی کمرہ کھلا وہ دونوں ازمیر کی طرف دیکھنے لگے جس کی آنکھیں سرخ انگارا ہو رہی تھیں وہ دونوں اسے دیکھ کر سہم گیۓ۔۔۔ازمیر آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھا۔۔۔اپنی جیب سے خنجر نکالا پہلے جنید کی طرف آیا خنجر اور ازمیر کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر جنید پر کپکپی طاری ہوئی اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی۔۔ازمیر اس کے پاس بیٹھا اور اسکا ہاتھ پکڑتے ہوۓ بولا یہی وہ ہاتھ ہے نا جس سے تم نے میری زندگی کی زندگی برباد کرنے کی کوشش کی۔۔نہ نہیں پلیز مجھے چھوڑ دو مجھے اس نے شبینہ نے کہا تھا اس کے کہ ے پہ میں غلطی کر بیٹھا جنید نے شبینہ پہ ساری بات ڈالتے ہوئے کہا تو ازمیر کے چہرے پہ ایک پل کے لیے پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اگلے ہی پل غصّہ امڈ آیا۔۔کہا چاہے جس نے بھی ہو لیکن تم نے غلط تو کیا نا میری عرشیہ کے ساتھ ازمیر اتنی زور سے دھڑا کہ در و دیوار ہل گۓ اور جنید اور شبینہ اپنی جگہ سے ہل کے رہ گئے۔۔ازمیر نے ہاتھ پکڑ کر پہلے اس کی ایک انگلی کاٹی۔۔۔انگلی کاٹنے سے جنید کے ساتھ ساتھ شبینہ جو کہ سب دیکھ رہی تھی اس کی بھی چیخ نکلی۔۔تمہیں پتا ہے میرا سزا دینے کا طریقہ بہت الگ ہے میں ایسے کسی کو خود سے سزا کبھی نہیں دیتا اور ساتھ ہی اس کی دوسری انگلی کاٹی۔۔لیکن وہ کیا ہے نا تم نے میری کرسٹل ڈول کو چھوا اس لیے تمہیں میں خود سزا دوں گا اور ساتھ ہی اس کی تیسری انگلی بھی کاٹ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے جنید کی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کاٹ دی وہ زور زور سے چلا چلا کر رو رہا تھا اور ازمیر کی روح کے اندر تک سکون اتر رہا تھا ازمیر نے یہی پہ بس نہیں کی بلکہ اس نے جنید کے زخموں پہ نمک اور مرچیں ملا کر ان زخموں پہ زور زور سے مل دیا یہ سب دیکھ کر شبینہ تو بے ہوش ہو گئی جبکہ جنید تو اونچی آواز میں رو رہا تھا۔۔اب شبینہ کی باری تھی ازمیر شبینہ کی طرف آیا اسے پہلے ہوش میں لایا لیکن شبینہ ازمیر کو دیکھ تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔ازمیر اس کی حالت دیکھ مسکرا رہا تھا۔۔۔ویل مس شبینہ تمہیں تو میری قربت چاہئیے تھی نا ہے نا؟ شبینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔۔بولووو ازمیر نے دھاڑتے ہوئے کہا۔۔تو شبینہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔کیا اب بھی چاہتی ہو؟ شبینہ نے جلدی سے ناں میں گردن ہلائی۔۔ہاہاہاہا ازمیر نے زور سے قہقہہ لگایا۔۔یو نو وہاٹ۔۔شائد پہلے تمہیں میری قربت کے کچھ لمحے مل ہی جاتے لیکن جب سے عرشیہ میری زندگی میں آئی ہے نا میں کسی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا عرشیہ کے ملنے سے پہلے میں ہر اس لڑکی کو حاصل تھا جو مجھے حاصل کرکے اپنی رات رنگین کرنا چاہتی تھی لیکن صرف ایک دفعہ ہی دوسری دفعہ وہ میرے قابل نہیں رہتی تھی لیکن اب جبکہ تم نے تو میری دنیا کو ہی ختم کرنا چاہا تو تمہیں سزا دینا تو میرا فرض ہے نا۔۔نہ نہیں نہیں مجھے معاف کر دو پلیز پلیز مجھے معاف کر دو آئندہ میں تمہیں کبھی نظر ہی نہیں آؤں گی میں یہ ملک چھوڑ کر چلی جاؤں گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔تم نے ان ہاتھوں سے عرشیہ کو مارا ہے نا۔۔ازمیر نے شبینہ کے ہاتھ پکڑے اور پورے ہاتھ پہ کٹ لگانا شروع کردیے۔۔شبینہ چیختی رہی چلاتی رہی لیکن اس کی چیخوں سے ازمیر کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ سکون ہی حاصل ہوتا تھا جب دونوں ہاتھوں پہ کٹ لگا چکا پھر اس نے شبینہ کا پاؤں پکڑا اس پہ بھی اتنے کٹ لگاۓ کہ کوئی بھی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں پہ کوئی زخم نہ ہو دوسرا پاؤں پکڑا پہلے کٹ لگانے لگا لیکن کچھ یاد آنے پہ رکا اور شبینہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا اس کی مسکراہٹ بہت خطرناک تھی۔۔ازمیر نے اس کا پاؤں پکڑا اور مروڑ دیا اور اتنی زور سے مروڑا کہ اس کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔اور شبینہ کی دل دہلانے والی چیخیں نکل رہی تھی۔۔ازمیر نے ان دونوں کو گاڑی میں ڈالا اور ان کے گھروں کے سامنے پھینک کر چلا گیا۔۔پہلے اپنے سیکریٹ ہاؤس جو اس نے سب سے چوری خریدا تھا وہاں پہنچا۔۔وہاں جاکر فریش ہوا چینج کیا اور اپنی حالت درست کرکے گھر پہنچا۔۔کہاں چلے گئے تھے ازمیر بیٹا ہم سب تمہیں کال بھی کر رہے تھے لیکن فون سوئچ آف تھا۔۔ڈونٹ وری ماما میں ایک ضروری کام نمٹانے گیا تھا بس وہی نمٹا کر آ رہا ہوں۔۔اب عرشیہ کیسی ہے؟ ہاں اب ٹھیک ہے زارا نے جواب دیا۔۔۔پھر نکاح کی رسم کر لی جاۓ اس کے بعد عرشیہ نے ٹرپ کی بھی تیاری کرنی ہے۔۔سب حیران ہوتے ازمیر کے منہ کی طرف ایسے دیکھنے لگے جیسے اس نے کوئی انوکھی بات کہہ دی ہو۔۔۔بیٹا ابھی تو وہ پوری طرح سے نارمل بھی نہیں ہوئی اور تم نکاح کی بات کر رہے ہو ارتضیٰ کو اپنے بیٹے کی دماغی حالت پہ شک ہوا۔۔ڈیڈ کیا میں ایک دفعہ عرشیہ سے مل سکتا ہوں۔۔۔ہاں ہاں کیوں نہیں جاؤ وہ اپنے روم میں ہے عادل نے کہا تو ازمیر عرشیہ کے روم کی طرف گیا دروازہ ناک کرکے وہ کمرے میں داخل ہوا تو عرشیہ لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ازمیر نے اس کے بیڈ کی سائیڈ پہ بیٹھ کر عرشیہ کو پیار سے پکارا۔۔عرشیہ۔۔عرشیہ نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور جلدی سے اٹھ کر بیٹھی۔۔تم ٹھیک ہو؟ اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔۔ہمم میں چاہتا ہوں کہ ابھی اسی وقت ہمارا نکاح ہو جاۓ۔۔لیکن میں کیسے مطلب عرشیہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہے۔۔دیکھو جو ہونا تھا وہ ہو گیا جس نے کیا ان کو سزا بھی مل گئی ازمیر کی اس بات پہ عرشیہ نے چونک کر ازمیر کی طرف دیکھا۔۔ازمیر نے ہاں میں سر ہلایا۔۔عرشیہ نے فوراً منہ نیچے کر لیا۔۔بتاؤ بلاؤں قاری صاحب کو میں چاہتا ہوں کہ تمہیں جلدی سے اپنے نام کر لوں تمہیں میرے نام کے ساتھ پکارا جاۓ تمہارے نام کے ساتھ میرا نام لیا جاۓ صرف اور صرف میرا نام کوئی بھی تمہارا تعارف کرواۓ تو میرا حوالہ دے کر کرواۓ کہ یہ عرشیہ ہے ازمیر کی Better half ازمیر کی دنیا ازمیر کی جینے کی وجہ ازمیر کی سانسیں ازمیر کے لیے آکسیجن کا باعث اگر عرشیہ ہے تو ازمیر ہے اگر عرشیہ نہیں ازمیر کا وجود بھی خاک ہے۔۔ازمیر کے اتنی شدت سے کھل کر اظہار کرنے پہ عرشیہ کچھ بھی بول نہ سکی مانا کہ وہ بچی ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ ازمیر کی باتوں کو سمجھ نہ سکے۔۔۔ازمیر کے ایسے اظہار پہ عرشیہ کو لگ رہا تھا کہ وہ اگلا سانس نہیں لے پاۓ گی وہ اپنا سانس روکے بیٹھی تھی جب ازمیر نے محسوس کرکے اسے بازوں سے پکڑ کر اسے ہلایا عرشیہ سانس لو تو عرشیہ نے جلدی سے گہرا سانس لیا۔۔جلدی سے فریش ہو جاؤ میں قاری صاحب کو بلانے جارہا ہوں تو عرشیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔ازمیر نے اس کی ہاں پہ مسکراتے ہوۓ اس کا گال تھپتھپایا اور اس کے کمرے سے نکل گیا ۔۔نیچے جا کر سب کو عرشیہ کی رضامندی کے بارے میں بتایا تو سب ہی حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوۓ۔۔۔زارا اور عادل عرشیہ کے روم میں بھاگے جب اس کے کمرے میں پہنچے تو عرشیہ باتھروم سے فریش ہو کر نکل رہی تھی۔۔بیٹا تم ٹھیک ہو ازمیر نے زبردستی تو نہیں کی۔۔نہیں پاپا ایسی کوئی بات نہیں میں ٹھیک ہوں اور اذی نے بھی کوئی زبردستی نہیں کی انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں مان گئی کہ آج نکاح ہونا تھا تو ہو کر ہی رہے ویسے بھی میری وجہ سے عریشہ آپی اور شان بھائی کا نکاح بھی رک گیا میں نے سوچا کر ہی لیتی ہوں یہ نہ ہو کہ شان بھائی مجھے بد دعائیں دیتے رہیں عرشیہ نے شایان۔کو آتے ہوے دیکھ اونچی آواز میں کہا جسے سن کر شایان۔مسکراتا ہوا آیا اور اس کے سر پہ چپت لگا کر بہت بگڑتی جارہی ہو صحیح علاج ہوگا اب تمہارا جب ازمیر کے پلے پڑو گی۔۔۔وہ مجھے کچھ نہیں کہتے بلکہ اگر کوئی مجھے کچھ کہے تو اس کی حالت بگاڑ دیتے ہیں اس لیے آپ بھی بچ کے رہنا عرشیہ نے شوخ لہجے میں فل کانفیڈنس سے کہا۔۔۔اوووو اتنا بھروسہ۔۔ہاں تو اور کیا۔۔۔عرشیہ کی اس بات پہ عادل اور زارا حیران اور خوشی کے ملے جلے تاثر سے عرشیہ دیکھنے لگے اور اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے ہمیشہ خوش رہو ایسے ہی مسکراتی رہو دوائیں دے کر عریشہ کے روم میں چلے گئے عریشہ بیڈ پہ بیٹھی موبائل پہ مصروف تھی جب اس کے ماما پاپا دروازہ ناک کرتے ہوئے داخل ہوئے عریشہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو اپنا سیل ایک طرف رکھ کر اٹھ کر کھڑی ہو گئی ماما آپ لوگ آئیں نا تو دونوں اس کے پاس بیٹھ گئے۔۔تیار ہو جاؤ بیٹا کچھ ہی دیر میں تمہارا اور شایان کا نکاح ہے۔۔۔کیا؟ عریشہ ایک دم شاکڈ ہوئی۔۔لیکن ماما عرشیہ وہ اب ٹھیک ہے ہم اس کے روم سے ہی آ رہے ہیں تو وہ سر جھکا کر ٹھیک ہے ماما میں ہو جاتی ہوں تیار۔۔تو وہ عریشہ کے سر پہ بوسہ دیتے اور دعائیں دیتے باہر چلے گئے اور عریشہ خوشی کے مارے فٹافٹ تیار ہونے لگی۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ازمیر قاری صاحب کو لے کر آگیا۔۔پہلے شایان اور عریشہ کا نکاح پڑھوایا گیا اس کے بعد عرشیہ اور ازمیر کا نکاح پڑھوایا گیا۔۔یوں کچھ ہی دیر میں عریشہ عادل بن گئی عریشہ شایان اور عرشیہ عادل بن گئی عرشیہ ازمیر۔۔ازمیر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا وہ بہت خوش تھا عرشیہ کو اپنے نام کرکے۔۔دوسری طرف شایان کے چہرے سے بھی مسکراہٹ ایک پل کے لیے جدا نہیں ہو رہی تھی۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد ازمیر عرشیہ سے مخاطب ہوا۔۔عرشیہ تم نے ٹرپ کی تیاری کر لی تو عرشیہ ایک دم سہم گئی۔۔م می میں نہیں جاؤں گی کہیں بھی۔۔کیوں ازمیر نے ماتھے پہ بل ڈالے پوچھا۔۔تو عرشیہ نے ڈرتے ہوئے بولا پھر سے اگر کوئی مجھے پکڑ کے لے گیا پھر اس بار تو آپ پہنچ گئے اگلی دفعہ نہ پہنچ سکے تو۔۔نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گی۔۔تم بے فکر ہو کر ٹرپ کی تیاری کرو کچھ نہیں ہوتا تمہیں جب کبھی تم کسی پرابلم میں پھنسو گی اس پرابلم لے آگے ہمیشہ مجھے پاؤ گی۔۔میں تم تک آتی ہو پرابلم کو جڑ سے ختم کر دوں گا۔۔تمہیں کچھ نہیں ہوگا یہ وعدہ ہے میرا۔۔۔سب حیران نظروں سے ازمیر کو دیکھ رہے تھے جبکہ ینگ پارٹی معنی خیزی سے مسکرا رہی تھی اور ہوٹنگ کرنے لگے اووووو واہ بھئی کیا بات ہے؟ تو ازمیر نے ان سب کو گھوری سے نوازا اور پھر سے عرشیہ کی طرف متوجہ ہوا جاؤ جا کر تیاری کرو تو عرشیہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی اور اپنے ٹرپ کی تیاری کرنے لگی۔۔ازمیر کیا تمہیں لگتا ہے کہ عرشیہ کو بھیجنا ٹھیک رہے گا مصطفیٰ صاحب جو کب سے خاموش تھے پوچھنے لگے۔۔۔دادا جانی اگر آج اسے روک لیا تو یہ ڈر ساری زندگی کے لیے اس کے دل میں بیٹھ جاۓ گا اور بوجود کوشش کے نہیں نکال پائیں گے۔۔اگر یہ کل ٹرپ پہ جاتی ہے تو وہاں سے آ کر یہ دوبارہ سے نارمل ہو جاۓ گی اور اس کے دل سے ڈر بھی نکل جاۓ گا یہی وجہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ ٹرپ پہ جاۓ اور اس ڈر کو ہمیشہ کے لیے اپنے سے دور کر دے تو سب ہی گھر والے ازمیر کی بات سے متفق ہوۓ ۔۔۔
💫💫💫
عریشہ عرشیہ کے روم میں آئی۔۔۔کر لی پیکنگ؟ نہیں آپو میرا دل نہیں کر رہا مجھے ڈر لگ رہا ہے ابھی بھی۔۔کچھ نہیں ہوگا ہم سب ہیں نا اور سب سے بڑھ کر ازمیر بھائی جو تمہیں ہر مصیبت سے بچاتے ہیں وہ تمہیں کبھی کچھ نہیں ہونے دیں گے چلو اٹھو شاباش آؤ میں تمہاری مدد کرتی ہوں تم اپنا سارا سامان جو جو لے کر جانا ہے نکال کر ادھر بیڈ پہ رکھ دو میں پیک کر دیتی ہوں تو عرشیہ جلدی سے اٹھی اور اپنا سامان نکالنے لگی عریشہ ساتھ ساتھ پیک کیے جا رہی تھی۔۔
💫💫💫
شایان عریشہ کے روم میں گیا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا خالی روم نے اسے منہ چڑایا۔۔یہ کہاں چلی گئی۔۔کال کرکے پوچھتا ہوں جیسے ہی شایان نے جیب سے موبائل نکالا کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی مڑ کر دیکھنے پہ اسے اپنی منکوحہ آتے ہوۓ نظر آئ عریشہ اسے اپنے روم میں دیکھ کر حیران نظروں سے دیکھنے لگی۔۔آپ یہاں خیریت؟ کیوں میں یہاں نہیں آ سکتا کیا؟ اب تو ویسے بھی آفیشل سرٹیفیکیٹ بھی مل چکا ہے مجھے کہ میں جب چاہوں تمہارے روم میں آ سکتا ہوں شایان نے عریشہ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔۔عریشہ اس کو اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھ اپنے قدم پیچھے کی طرف لے جا رہی تھی کہ آخر وہ دروازے کے ساتھ جا لگی تو شایان کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ابھری اور نچلا ہونٹ دباتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ اب کہاں جاؤ گی۔۔اس کے قریب جا کر اپنا ایک ہاتھ دروازے پہ رکھتے ہوۓ دوسرا ہاتھ اس کی رخسار پہ رکھ کے انگوٹھا اس کی رخسار پہ پھیرنے لگا۔۔عریشہ نے نظریں جھکا لیں اس کی دل کی دھڑکن سو کی رفتار پہ تھی۔۔کیا ہوا تمہاری دھڑکن کیوں اتنی تیز ہو رہی ہے؟ ن نہ نہیں تو آ آپ کو کس کس نے کہا؟ میں تمہاری دھڑکن یہاں تک سن رہا ہوں تمہارا دل مجھے میرے کانوں میں دھڑکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ۔۔وہ آپ زرا پیچھے ہو کر کھڑے ہو جائیں ایسے مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔۔عریشہ کے کہنے پہ شایان اس کے اور قریب ہو گیا اب اس کے اور عریشہ کے درمیان صرف ایک انچ کا فیصلہ رہ گیا تھا۔۔عریشہ کی گردن مزید جھکی شایان نے اسے تھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا لیکن عریشہ اپنی آنکھیں نہ اٹھا پائ۔۔میری طرف دیکھو عریشہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔میں نے بولا نا میری طرف دیکھو اس بار شایان نے اس کی ٹھوڑی پہ دباؤ بڑھا کر تھوڑا سختی سے کہا تو عریشہ نے آنکھیں اٹھائیں لیکن زیادہ دیر شایان کی طرف نہ دیکھ پائ اور پھر سے جھکا لیں۔۔اس کی اس حرکت پہ شایان کو ٹوٹ کے پیار آیا اور مسکراتے ہوۓ اس پہ جھکا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کر گیا اس اچانک افتاد پہ عریشہ کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔۔اور شایان کو پیچھے دھکیلنے لگی لیکن شایان نے اس کے ہاتھ پکڑتے ہوۓ اس کی کوشش کو نا کام بنا دیا اور جی بھر کے اس کے ہونٹوں کا جام پیا اور کچھ دیر بعد پی ھے کو ہوتا مسکرا کر بہت میٹھے ہیں تمہارے ہونٹ ایک دفعہ پھر ٹرائی کروں تو عریشہ جلدی سے نا میں سر ہلانے لگی نہیں بس پہلے ہی آپ نے میرا سانس بند کر دیا اس کی بات پہ شایان نے قہقہہ لگایا۔۔اور اسے خود میں بھینچ کر آئی لو یو سو مچ تو اس کے اظہار پہ عریشہ اندر تک سرشاری ہوئی۔۔شایان کچھ دیر یونہی اسے خود سے لگاۓ کھڑا رہا پھر کچھ دیر بعد اسے نرمی سے الگ کرتے ہوئے چلو اب تم آرام کرو میں چلتا ہوں اور ہاں تمہارے کمرے میں میرا آنا جانا لگا رہے گا جب تک رخصتی نہیں ہو جاتی اوکے تو عریشہ نے اثبات میں سر ہلایا شایان۔مسکراتے ہوے اس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر چلا گیا

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial