قسط: 11
رات کو عرشیہ نے ساری تیاری کر لی لیکن ابھی بھی وہ ڈری ہوئی تھی اس کے دل سے ڈر نکل ہی نہیں رہا تھا اسے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی کبھی وہ کمرے میں ٹہل ے لگتی تو کبھی بیٹھ جاتی بیٹھے بیٹھے تھک جاتی تو پھر اٹھ کر ٹہلنے لگتی آخر تھک کر رونے لگی۔۔تھوڑی دیر رونے کے بعد اچانک اٹھی اور کمرے سے باہر نکل کر ازمیر کے روم کی طرف جانے لگی روم کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی۔۔دستک سن کر ازمیر جو ابھی اپنا کام نمٹا کر لیٹا ہی تھا ٹائم دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے اس وقت کون ہو سکتا ہے کہ دوبارہ سے دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔۔دروازہ کھولا تو سامنے عرشیہ کھڑی تھی۔۔عرشیہ تم اس وقت یہاں خیریت رو کیوں رہی ہو کسی نے کچھ کہا کیا ایک تو اس وقت اس کے روم میں آنا اور اوپر سے روتی ہوئی عرشیہ کو دیکھ اسے بہت فکر ہو رہی تھی اسے روم میں لا کر بیڈ پہ بٹھایا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بتاؤ کیا ہوا۔۔وہ وہ میں۔۔۔ریلیکس بے فکر ہو کر بتاؤ کیا بات ہے ڈرو نہیں۔۔میں ٹرپ پہ نہیں جانا چاہتی مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔عرشیہ کی بات سن کر ازمیر نے گہرا سانس بھرا۔۔بس اتنی سی بات پہ تم اتنا رو رہی ہو۔۔تمہیں پتا ہے کہ تمہاری آنکھوں کے یہ موتی کتنے انمول ہیں جو تم اسی طرح ضائع کرتی رہتی ہو۔۔ان آنسوؤں کو اتنا مت بہایا کرو تمہاری یہ پیاری سی آنکھیں مجھے بہت عزیز ہیں میں نہیں چاہتا کہ ان کو بلا وجہ تکلیف پہنچے۔۔اب میری بات دھیان سے سنو۔۔انسان کی زندگی میں اچھا اور برا وقت آتا جاتا رہتا اچھے وقت میں تو ہر کوئی جی لیتا ہے لیکن اصل بہادری یہ ہے جب انسان برے وقت کو مات دے بنا گھبراۓ بنا ڈرے۔۔اگر کبھی گھبرانے لگو تو اپنے اللّٰہ کو دل سے یاد کرو کیونکہ اللّٰہ کے سوا کسی کا کوئی کار ساز نہیں ہوتا وہی سب کی مدد کرتا ہے وہی ہر چیز پہ قادر ہے۔۔اور رہی بات تمہارے ڈر کی تو جب تک تم اپنے ڈر کا سامنا نہیں کرو گی تو تم آگے کیسے بڑھو گی میں چاہتا ہوں تم اس ڈر سے باہر نکلو ایک بار جو ہو گیا وہ بار بار ہو ایسا ضروری تو نہیں۔۔اور پھر ہم سب ہیں نا تمہارے ساتھ تو پھر کیوں ڈرتی ہو سب سے بڑھ کر وہ اللّٰہ جس نے تمہاری پہلے بھی حفاظت کی تو تم یہ کیسے گمان کر سکتی ہو کہ آئندہ وہ تم سے غافل رہے گا اس لیے ڈرنا بند کرو اور اپنے سب سے بڑے محافظ پہ یقین رکھو جو ہر چیز پہ غالب ہے سمجھی میری معصوم سی بیوی آخر پہ ازمیر نے اس کا ناک کھینچتے ہوئے کہا تو وہ مسکرانے لگی۔۔ٹھیک کہا آپ نے میں مقابلہ کروں گی آپ ے ڈر کا اور آگے بڑھوں گی انشاء اللّٰہ۔۔اس کی بات سن کر ازمیر مسکرایا ڈیٹس لائک آ مائ گرل۔۔چلیں اب میں چلتی ہوں۔۔ایک منٹ رکو۔۔ عرشیہ اٹھ کر جانے لگی تو ازمیر نے روکا تو عرشیہ نے مڑ کر ازمیر کو دیکھا جو اپنی الماری سے کچھ نکال کر لایا۔۔عرشیہ نے دیکھا اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت پینڈنٹ تھا۔۔یہ تمہارے لیے۔۔واؤ یہ تو بہت پیارا ہے۔۔ازمیر نے عرشیہ کا رخ موڑا اور عرشیہ کے بال ہٹا کر اسے پہنانے لگا عرشیہ کی سفید روئ جیسی گردن دیکھ کر ازمیر کا دل مچلا لیکن اپنے دل کو ڈانٹے ہوۓ۔۔شٹ اپ وہ بہت معصوم ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ابھی وہ اپنی معصومیت کھوۓ خود پہ ضبط کرتے ہوۓ ازمیر نے عرشیہ کو پینڈنٹ پہنا کر اس کے بال ٹھیک کرتے ہوۓ اس کا رخ اپنی طرف کیا عرشیہ پینڈنٹ ہاتھ میں پکڑے دیکھ رہی تھی۔۔یہ کسی بھی قیمت سے اترنا نہیں چاہیئے ازمیر نے وارن کیا تو عرشیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔ازمیر نے اسے پیار سے ہگ کیا اور اس کے بالوں میں بوسہ دیا ازمیر کی اس حرکت سے عرشیہ کو گھبراہٹ ہونے لگی۔۔می میں چلتی ہوں دیر ہو رہی ہے صبح جلدی اٹھنا بھی ہے اور وہ بھاگ گئی عرشیہ کی گھبراہٹ پر ازمیر گہرا مسکرایا اور لائٹ آف کرتا لیٹ گیا۔۔



فیروز آج پورے دس دن بعد واپس پاکستان آ رہا تھا لیکن گھر کے مردوں کے علاوہ یہ بات کسی نہیں پتا تھی۔۔رات کے تقریباً ایک بجے وہ گھر آیا تو گھر میں گہرا سناٹا تھا سب اپنے اپنے رومز میں سو رہے تھے فیروز نے بھی صبح ملنے کے ارادے سے کسی کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور اپنے روم کی طرف بڑھنے لگا لیکن راستے میں جب عائزہ کا روم دیکھا تو دل نے اکسایا کہ ایک دفعہ دیدار کر لے فیروز نے دل کو سمجھنے کی کوشش کی یہاں تک کہ ڈانٹا بھی لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں ( فلم ہے نہ دل ہے کہ مانتا ہی نہیں
) اور وہ ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے لیکن اندر سے کوئی رسپانس نہیں آتا۔۔یار سو رہی ہوگی کیوں ڈسٹرب کر رہا ہے دماغ نے ڈانٹا لیکن دل اسرار کر رہا تھا اور دماغ کی نفی کر رہا تھا۔۔دوسری دفعہ بھی ہلکے سے دستک کی لیکن عائزہ کچھ زیادہ ہی گہری نیند میں تھی۔۔فیروز خود کو سمجھاتے ہوئے اپنے روم کی طرف چلا گیا اور فریش ہو کر لیٹ گیا۔۔صبح معمول کے مطابق سب اٹھے اور اٹھ کر ناشتے کے لیے اکٹھے ہوئے۔۔سب بیٹھے ہوئے تھے۔۔اسلام و علیکم فیروز کی آواز پہ سب نے سر اٹھایا سائرہ اٹھ کر جلدی سے بیٹے کی طرف بڑھی اور اس کا ماتھا چومتے ہوئے اسے گلے سے لگایا۔۔کب آیا میرا بیٹا بتایا بھی نہیں۔۔میں رات کو آیا تھا ماما سب سو رہے تھے تو میں نے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔۔اپنی ماں کو تو جگا لیتے۔۔۔میں نے سوچا صبح مل لوں گا آپ سب سے۔۔اس کے بعد سب باری باری ملے۔۔۔آؤ میں ناشتہ دیتی ہوں تمہیں۔۔نہیں ماما آپ بیٹھے میں خود ہی لے لوں گا آپ بیٹھے ادھر کرسی گھسیٹتے ہوۓ اس نے اپنی ماں کو بٹھایا اور خود بھی اس کے پاس بیٹھ گیا۔۔بیٹھتے ہوۓ فیروز نے ایک نظر دشمنِ جان پہ ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔عائزہ کے دیکھنے پہ فیروز نے ایک آنکھ ونک کی تو عائزہ نے جلدی سے نظر پھیری اس کی اس حرکت پہ فیروز نے اپنی ہنسی دبائ۔۔سب بیٹھے آرام سے ناشتہ کر رہے تھے لیکن عرشیہ جلدی جلدی ناشتہ کر رہی تھی زارا نے اسے ٹوکا۔۔ماما لیٹ ہو رہی ہوں وہ سب چلے جائیں گے مجھے چھوڑ کر پھر میرے اتنے سارے پیسے ضائع ہو جائیں گے جس کی وجہ سے پورا سال مجھے نیند نہیں آۓ گی۔۔توبہ ہے لالچی لڑکی۔۔شایان نے اسے چھیڑا۔۔ہاں جی لالچی جیجو کی لالچی سالی عرشیہ نے دوبدو کہا تو ایک دفعہ پھر زارا نے ڈانٹا۔۔بڑوں سے تمیز سے بات کیا کرو کتنی بار تمہیں سمجھایا لیکن تمہیں سمجھ ہی نہیں آتی۔۔۔اوہ سوری ماما میں تو بھول ہی گئی کہ یہ میرے فیوچر بزرگ ہیں۔۔سوری بابا جی۔۔عرشیہ نے شرارت سے شایان کو کہا تو سب اسی کی بات پہ ہنسنے لگے جبکہ شایان اسے گھورنے لگا۔۔کیسی ہو عرشیہ تم؟ فیروز نے عرشیہ کو مخاطب کیا تو عرشیہ نے منہ پھلا کر جیسی بھی ہوں آپ کو کیا آپ بس اپنی والی کو آنکھیں ونک کریں مجھ سے ملنے کی کیا ضرورت ہے عرشیہ کی بات سن کر فیروز نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جبکہ عائزہ کو پانی پیتے ہوئے اچھی لگا۔۔ان دونوں کے تاثرات دیکھ کر سب دبی دبی سی ہنسی ہنسنے لگے۔۔جبکہ عرشیہ آنکھوں میں شرارت لیے فیروز کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی اور وہ بے چارہ دانت پیستا رہ گیا




عرشیہ تیار ہو کر میں تیار ہوں پاپا ساجد انکل (ڈرائیور)سے کہاں ہے مجھے چھوڑ آۓ..رکو میں تمہیں ڈراپ کرکے آتا ہوں ازمیر نے کہا اور اپنے روم سے گاڑی کی چابی لینے چلا گیا۔۔چلو آؤ اور عرشیہ سب سے مل کر باہر آتی ہے جہاں ازمیر گاڑی کے قریب اس کا ویٹ کر رہا ہوتا ہے۔۔ازمیر اس کے لیے فرنٹ ڈور اوپن کرتا ہے عرشیہ بیٹھ جاتی ہے تو وہ گیٹ بند کرتا ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا ہے۔۔گاڑی چلاتے ہوۓ بھی وہ عرشیہ کو سمجھا رہا ہوتا ہے۔۔دیکھو کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔کچھ بھی ہو جاۓ خود کو کبھی کمزور مت ہونے دینا۔۔خود کے دفاع کے لیے اگر کسی کا قتل بھی کرنا پڑے تو کر دینا لیکن پیچھے مت ہٹنا میں سب سنبھال لوں گا۔۔بس ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں زندگی کے ہر قدم ہر مشکل میں مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گی۔۔تو عرشیہ جو اس کی باتیں غور سے سن رہی ہوتی ہے اثبات میں سر ہلاتی ہے۔۔اتنی دیر میں اس کا سکول آجاتا ہے جہاں سب بس میں سوار ہونے کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں عرشیہ باہر نکلتی ہے ساتھ ہی ازمیر بھی نکلتا ہے اور اس کا سامان خود رکھواتا ہے۔۔کچھ چاہیئے تو نہیں عرشیہ نفی میں سر ہلاتی ہے۔۔ہمم سفر کافی زیادہ ہے کچھ کھانے کے لیے رکھا یا نہیں؟ ہاں جی لیز وغیرہ اور کولڈ ڈرنک ہے میرے پاس۔۔اچھا رکو ازمیر پاس والی دکان پہ جاتا ہے اور بہت سی چیزیں خرید کر عرشیہ کو تھما دیتا ہے یہ لو ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔تو وہ ہاں میں گردن ہلاتی اس کے ہاتھ سے چیزیں لیتی ہے۔۔اوکے اللّٰہ حافظ عرشیہ بس میں سوار ہوتے ازمیر کو کہتی ہے اور جا کر اپنی سیٹ منتخب کرکے بیٹھ جاتی ہے اور ازمیر اس وقت تک وہاں کھڑا رہتا ہے جب تک بس روانہ نہیں ہو گئی۔۔جیسے ہی بس چلتی ہے تو ازمیر وہاں سے واپس آ جاتا ہے۔۔



عائزہ اپنے روم میں کانوں میں ہینڈ فری لگا کر آنکھیں بند کیے گانے سن رہی ہوتی ہے جب فیروز چپکے سے اس کے روم میں آتا ہے لیکن کانوں میں ہینڈ فری اور آنکھیں بند ہونے کے باعث عائزہ کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کوئی اس کے روم میں آیا ہے فیروز اسے بے خبر دیکھ چپکے سے اس کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور اسے دیکھنے لگتے ہے۔۔پتا نہیں آنکھوں کی تپش تھی یا کوئی اور احساس تھا جسے محسوس کرکے عائزہ اپنی آنکھیں کھولتی ہے فیروز کو اپنے قریب بیٹھا دیکھ ایک دم سٹپٹا جاتی یے۔۔۔آپ۔۔آپ کب آۓ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔۔تبھی جب تم اتنی مگن ہو کر کچھ سن رہی تھی۔۔اوہ اچھا۔۔۔ملو گی نہیں مجھ سے؟ فیروز کے کہنے پہ عائزہ نے اس کی طرف دیکھا مل تو لیا تھا نیچے۔۔۔اسے ملنا کہتے ہیں۔۔فیروز نے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔تو؟ عائزہ نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔۔۔توووووو۔۔۔تو کو لمبا کرتے ہوئے اسے بغیر سمجھنے کا موقع دیے اسے خود سے لگاتا زور سے خود کے اندر بھینچتا ہے اسے کہتے ہیں ملنا۔۔اففف آپ کا ملنا میری پسلیاں توڑنے کا سبب ہوگا عائزہ نے بمشکل کہا۔۔اس کی سانس بند ہو رہی تھی۔۔۔پلیز بس کریں مجھے سانس نہیں آ رہی تو فیروز نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر پیچھے کیا۔۔۔ہاں تو بتاؤ مجھے کتنا مس کیا۔۔۔اتناااااا سا عائزہ نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان تھوڑا سا فاضلہ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔کیاااااا یہ بھی کوئی مس کرنا ہوتا ہے فیروز نے صدمے سے کہا۔۔۔میں وہاں پاگلوں کی طرح کام جلدی سے نمٹا رہا تھا کہ میری بیوی اداس ہوگی کہیں مجھے یاد کرکے راتوں کی نیند نہ خراب کر رہی ہو اور یہاں جناب کو کوئی فکر ہی نہیں۔۔۔ہیں۔۔میں کیوں جاگوں گی بھلا۔۔راتوں کو جاگ کر میں نے اپنی آنکھوں پہ ڈارک سرکلز بنانے ہیں توبہ توبہ کبھی نہیں۔۔۔فیروز صدمے سے اپنی منکوحہ کو دیکھ رہا تھا جسے اپنی آنکھوں کے ڈارک سرکلز کی فکر تھی۔۔۔فیروز کی نہیں۔۔فیروز کی حالت دیکھ عائزہ کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہی تھی کہ ایک دم سے کمرے میں قہقہہ گونجا اور فیروز خفگی سے اس دیکھنے لگا۔۔ٹھیک ہے چلو میں چلتا ہوں پھر تم رہو اپنی نیندوں کے ساتھ ۔۔۔وہ اٹھنے لگتا ہے کہ عائزہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے ارے مذاق کر رہی تھی یار۔۔۔ہونہہ مذاق بس رہنے دو مجھے پتا ہے میرے ہونے یا نہ ہونے سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔اوہو ایک تو آپ کی لڑکیوں کی طرح ناراض ہونے کی عادت کبھی نہیں جاۓ گی۔۔پتا مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ آپ میری بیوی ہو اور میں آپ کا ہسبینڈ فیروز گھور کر عائزہ کی طرف دیکھتا ہے جس کی آنکھوں میں شرارت واضح طور پر چمک رہی ہوتی ہے۔۔۔تو فیروز اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگاتا ہے بہت بگڑ تی جا رہی ہو کوئی علاج ڈھونڈنا پڑے گا عائزہ ہنسنے ہوۓ ایسا نہ ہو اپنے ساتھ آپ کو بھی بگاڑ دوں۔۔ہاں یہ بھی ٹھیک ہے دونوں بگڑ کر گھر والوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔۔ہاں اور پھر گھر والے ہمیں عاق کر دیں گے ہم دونوں دربدر کی ٹھوکریں کھائیں گے آپ کو کوئی جاب نہیں ملے گی گھر میں فاقے اور پھر ہماری لڑائیاں تنگ آکر ادھر جائیں گے اور پھر گھر والوں سے معافی مانگ کر دوبارہ ایڈجسٹ ہونے کی کوشش واؤ ۔۔۔عائزہ کی اتنی لمبی خطرناک پلاننگ سن کر فیروز کے کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہے۔۔۔توبہ کرو لڑکی کیسا الٹا سیدھا سوچتی رہتی ہو توبہ توبہ مجھے تو ان کر ہی ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے۔۔۔عائزہ اس کا دھواں دھواں ہوتا چہرہ دیکھ کھلکھلا کر ہنستی ہے۔۔۔پاگل چلو مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے میں چلتا ہوں اس کی رخسار پہ شدت بھری کس کرکے چلا جاتا ہے۔۔اور وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھے فیروز کا لمس محسوس کر رہی ہوتی یے۔۔



کب تک آۓ گی عرشیہ میرا تو بالکل بھی دل نہیں لگ رہا زارا بوکھلائے ہوئے پھر رہی ہوتی ہے سب اس کی حالت دیکھ مسکراتے ہیں۔۔دیکھا اب پتا چلا اس کے بغیر کیسے گھر کاٹنے کو دوڑ رہا تم جو ہر وقت اسے ڈانٹتی ہی رہتی ہو یہ نہ کرو وہ نہ کرو ایسے نہ کرو زیادہ نہ بولو اب جب گھر نہیں ہے تو تمہیں تو سکون ہونا چاہیے سائرہ اور عائشہ نے طنزیہ کہا تو زارا ان کی طرف دیکھنے لگی۔۔ہاں تو کیا ہر الٹی حرکت پہ اس کا ساتھ دوں۔۔۔اس کی انہی الٹی حرکتوں سے گھر میں رونق ہے اسے اتنا نہ ڈانٹا کرو۔۔اچھا بابا آپ لوگ جیتیں میں ہاری بس۔۔ہمم بس اچھا کال کرکے پوچھوں کیا کر رہی ہے؟ نہیں اسے انجوائے کرنے دو جب وہ فری ہوتی ہے تو کال کرتی ہے خود ہی تم اسے تنگ مت کرو۔۔۔توبہ ہے ایک تو اس گھر میں ہر کوئی اس کا حمایتی ہے جیسے میں ماں نہیں دشمن ہوں۔۔زارا بڑبڑاتے ہوۓ اپنے روم میں چلی جاتی ہے جبکہ سائرہ اور عائشہ دونوں اسے دیکھ کر مسکراتی ہیں۔۔



صنم شہیر کے روم میں جھانکتی ہے تو شہیر لیٹا ہوتا ہے۔۔۔آنکھوں پہ بازو ہونے کی وجہ سے صنم یہ اندازہ نہیں لگا پائی کہ وہ سو رہا ہے یا جاگ رہا ہے۔۔۔صنم اس کے بیڈ کے پاس آکر کھڑی ہوتی ہے۔۔۔شہیر۔۔شہیر سورہے ہیں آپ؟ شہیر جو کہ صنم کی موجودگی پہلے سے جان گیا تھا اب جان بوجھ کر سونے کا ناٹک کرتا ہے۔۔۔صنم کچھ دیر سوچتے ہوۓ اسے دیکھتی ہے پھر ہاتھ بڑھا کر اس کا بازو ہلاتی ہے شہیر۔۔۔صنم جیسے ہی ہاتھ بڑھا کر اس کے بازو پہ رکھتی ہے شہیر اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا اپنے اوپر گرا لیتا ہے اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھتا ہے۔۔۔بولو شہیر کی جان۔۔۔آپ جاگ رہے تھے؟ صنم گھورتے ہوۓ پوچھتی ہو۔۔۔ہاں میں تو پہلے سے ہی جاگ رہا ہوں۔۔تو سونے کا ڈرامہ کیوں کر رہے تھے۔۔۔ایویں تمہیں تنگ کرنے کو دل کر رہا تھا۔۔صنم اسے مصنوعی غصّے سے گھورتی ہے اور اس کے سینے پہ ہاتھ مارتے ہوۓ بہت بدتمیز ہیں آپ۔۔۔ہاں جیسا بھی ہوں تمہارا ہی ہوں اب تو ایسے ہی قبول کرنا پڑے گا۔۔۔اچھا بولو کیا بات ہے۔۔۔پہلے مجھے سیدھا ہو کر بیٹھنے دیں اور خود بھی بیٹھیں پھر بتاؤں گی۔۔۔نہیں ایسے ہی بتاؤ جائیں پھر رہنے دیں صنم ناراض ہوتے کہتی ہے۔۔اچھا بابا یہ لو چھوڑ دیا شہیر کے چھوڑنے پہ وہ جلدی سے سیدھی ہوتی ہے اور شہیر بھی اٹھ کے بیٹھتا ہے۔۔۔ہاں بولو۔۔۔وہ آج آپ میری اسائنمنٹ بنا دیں گے پلیز؟ صنم اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتی ہے۔۔۔کیوں تم خود کیا کر رہی ہو جو میں کروں۔۔۔وہ آج فاریہ کا برتھڈے ہے ناں تو میں نے وہاں جانا ہے پھر وہاں لیٹ ہو جاؤں گی گھر آتے ہوۓ کافی ٹائم ہو جاۓ گا اور پھر مجھے تھکاوٹ بھی ہوگی اور اسائنمنٹ بنانے کا موڈ نہیں ہوگا جس کی وجہ سے اسائنمنٹ بن نہیں سکے گی پھر صبح یونی میں سب کے سامنے انسلٹ ہوگی۔۔۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی معصوم بیوی کی سب کے سامنے انسلٹ ہو۔۔۔توبہ لڑکی بنا بریک کے کتنا بولتی ہو تم۔۔۔اور معصوم بیویاں تمہارے جیسی ہوتی ہیں تو ہم شوہر بے چارے تو دیواروں میں ٹکریں مارتے پھریں۔۔۔ہوگیا آپ کا؟ صنم نے غصے سے کہا تو شہیر کے لبوں پہ مسکراہٹ امڈتی ہے۔۔آپ اسائنمنٹ بنائیں گے یا نہیں؟ بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟ کبھی بنا رشوت کے بھی کام کر دیا کریں۔۔۔تمہارے معاملے میں کبھی نہیں ایسے موقعے روز روز تھوڑی ملتے ہیں۔۔۔صنم آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورتی ہے اور پھر شہیر کے گال پہ کس کرتی ہے پلیز اب تو کر دیں تو شہیر گہرا مسکراتے ہوۓ ٹھیک ہے دے جاؤ بک میں کر بنا دیتا ہوں۔۔۔اوہ تھینک یو تھینک یو آپ بہت اچھے ہیں صنم بے اختیار ہوتے لا علمی میں اسے زور سے ہگ کرتی ہے لیکن جب شہیر اس کے گرد بازوؤں کا حصار باندھتا ہے تو اسے اپنی حرکت کا پتا چلتا ہے اور جلدی سے پیچھے ہونے لگتی ہے۔۔۔لیکن شہیر اسے ٹائٹلی ہگ کر لیتا ہے ابھی ٹھہرو بیوی اب زرا فیل تو کرنے دو اپنا لمس۔۔مجھے دیر ہو رہی پلیز چھوڑ دیں تو وہ اسے زور سے بھینچ کر چھوڑ دیتا ہے۔۔صنم اس کی طرف دیکھے بنا بھاگ جاتی ہے اور شہیر دوبارہ سے بیڈ پہ گر جاتا ہے