قسط: 12
آج عرشیہ کو گیۓ ہوۓ تیسرا دن تھا سب گھر والے اس کے بنا اداس سے تھے۔۔بھئ کب تک آ رہی ہے عرشیہ پتا کرو گھر میں ذرا بھی رونق نہیں ہے مصطفیٰ صاحب نے عادل کو مخاطب کیا۔۔بابا سائیں کل تک آ جاۓ گی۔۔اچھا۔۔۔زکر ہے میں نے اس کا نکاح ازمیر سے کروا دیا اور وہ اسی گھر میں رہے گی نہیں تو یہ گھر تو بالکل سونا ہو جانا تھا۔۔میں کونسا شادی کے بعد اسے ادھر رکھوں گا میں تو اسے یہاں سے کہیں دور لے جاؤں گا ازمیر کی بات سن کر سب لوگ اسے دیکھنے لگے۔۔۔کیا مطلب کہیں دور لے جاؤں گا مصطفیٰ نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا۔۔بھئ یہاں میری بیوی کو زارا ماما ہر وقت ڈانٹتی اور ہر کام سے ٹوکتی رہتی ہیں اور کبھی کبھی سب ان کے ساتھ مل جاتے ہیں اس لیے میں اسے یہاں سے کہیں دور لے جاؤں گا تاکہ وہ اپنی مرضی سے بنا کسی روک ٹوک کے کھل کے اپنی زندگی گزارے۔۔یہ سن کر زارا نے اسے گھورتے ہوئے بس تمہاری کمی رہ گئی تھی مجھے باتیں سنانے کی اتنا بھی سر پہ نہ چڑھانا کہ سر پہ چڑھ کر ناچنے لگ جاۓ۔۔کوئ بات نہیں میرا سر اس کے ناچنے کے لیے قائم ہے۔۔زارا کے ایکسپریشنز دیکھ عائشہ کی بے ساختہ ہنسی نکلتی ہے اور وہ ہنستی ہی چلی جاتی ہے۔۔۔۔بھابی آپ کا بیٹا آپ کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور آپ خوش ہو رہی ہیں یہی نہیں یہ تو میری بیٹی کو بھی ہاتھوں سے نکال رہا ہے۔۔۔میری بیٹی آپ کی بہو ہے بہو اور اگر بیٹا بہو کی زیادہ کئیر کرے تو ساس کو جیلس ہونا چاہیئے نا کہ آپ کی طرح ہنسنا چاہئیے۔۔۔بھئ جیلس تو میں تب ہوں گی نا جب میرا بیٹا صرف بیوی کی پرواہ کرے اور مجھے پوچھے بھی نا اسے میری بھی بہت فکر ہے بلکہ شائد دگنی کئیر ہی کرتا ہوگا میری اور رہی بات عرشیہ کی تو وہ تو مجھے شروع سے ہی عزیز ہے بہو تو وہ اب بنی ہے۔۔۔میں دشمن تو نہیں ہوں اپنی بیٹی کی بس اسے ذرا تمیز سکھانے کی کوشش کرتی ہوں جو آپ لوگ نا کام بنا دیتے ہیں۔۔اور اب رہی سہی کسر ازمیر پوری کر رہا ہے۔۔۔رہنے دو وہ جیسی ہے ویسی ہی اچھی ہے اسے ضرورت نہیں کچھ بھی سکھانے کی جب بڑی ہوگی تب خود ہی سب سمجھ جاۓ گی۔۔مجھے تو نہیں لگتا کہ ایسا معجزہ کبھی ہو گا زارا کہتی اٹھ جاتی ہے اور اپنے روم میں چلی جاتی ہے۔۔اوکے میں بھی چلتا ہوں مجھے کچھ ضروری کام ہے۔۔ازمیر کہتا اٹھ کر چلا جاتا ہے۔۔۔تھینک یو بابا سائیں آپ نے میری عرشیہ کے لیے اتنا کئیرنگ انسان چنا عادل نے مصطفیٰ صاحب کو سرشاری سے کہا تو وہ مسکرانے لگے۔۔



اگلے دن عرشیہ لوگ واپس آ رہے تھے سب بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے تھے عادل اسے لینے کے لیے وقت سے پہلے ہی سکول پہنچ گیا کہ کہیں اسے پریشانی نہ ہو۔۔۔لیکن کافی ٹائم گزر جانے کے بعد بھی جب وہ لوگ نہیں آۓ تو عادل کو پریشانی ہونے لگی اس نے عرشیہ کا نمبر ڈائل کیا تو وہ بند جارہا تھا۔۔اب تو عادل کو اور بھی فکر کا حق ہوگئ۔۔اس نے اس کے ٹیچر کا نمبر ڈائل کیا تو ان کا بھی فون ناٹ ریچ ایبل آ رہا تھا وہ پریشانی سے ٹہلنے لگے۔۔اتنی دیر میں گھر سے فون آگیا کہ ابھی تک عرشیہ کو لے کر گھر کیوں نہیں پہنچے۔۔جب ازمیر کی کال آئی تو عادل پریشانی بتانے لگا۔۔ازمیر بیٹا ابھی تک وہ لوگ آۓ نہیں ہیں عرشیہ جا سیل فون بھی بند ہے اور اس کے ٹیچر کا بھی موبائل not reachable آ رہا ہے۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں میں آتا ہوں ابھی اور ازمیر عرشیہ کے سکول جانے کے لیے بھاگا۔۔وہاں جا کر دیکھا تو عادل پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے۔۔۔ازمیر جلدی سے ان کے پاس گیا آہ پریشان نہ ہو میں دیکھتا ہوں ازمیر نے اپنا سیل فون نکالا اور لوکیشن ٹریس کرنے لگا۔۔۔ازمیر نے عرشیہ کو جو پینڈنٹ پہنایا تھا اس میں ٹریکر فکس کیا ہوا تھا۔۔۔لوکیشن تو چینج ہو ہی نہیں رہی ایک ہی جگہ کی شو ہو رہی ہے اور ہے بھی کافی دور کی۔۔۔چھوٹے پاپا آپ رکیں ادھر میں آتا ہوں ابھی ازمیر نے ایک جگہ ڈھونڈی جہاں کافی اندھیرا تھا اور وہاں کسی کا آنا جانا بھی نہیں تھا ادھر کھڑے ہو کر آنکھیں بند کرکے عرشیہ اور لوکیشن کو فوکس میں لا کر کچھ پڑھا تو سب کچھ واضح ہو رہا تھا۔۔کچھ دیر سب کچھ سمجھ جانے کے بعد گہرا سانس بھرا اور واپس عادل کے پاس آیا۔۔۔اور ان کے پاس کھڑے ہو کر دوبارہ سے عرشیہ کے ٹیچر کا سیل فون ٹرائی کیا لیکن اب بھی آؤٹ آف کوریج تھا لیکن عادل کو دیکھتے ہوئے بات ہونے کا دکھاوا کرنے لگا۔۔۔ہیلو اسلام و علیکم سر۔۔جی میں عرشیہ کا کزن بات کر رہا ہوں وہ میں نے پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ لوگ ابھی آۓ کیوں نہیں۔۔کبھ دیر کے توقف کے بعد اوہ اچھا گاڑی خراب ہو گئی چلیں جیسے ہی آپ لوگ وہاں سے چلنے لگیں تو بتا دینا اوکے اللّٰہ حافظ۔۔عادل کے سامنے ساری بات کمپلیٹ کرتے ہوئے فون جیب میں ڈال کر دیکھا چھوٹے پاپا بس خراب ہو گئی ہے راستے میں آپ ایسے ہی پریشان ہو رہے ہیں۔۔آپ ایسا کریں گھر چلے جائیں میں ادھر ہی ہوں جب تک عرشیہ آ نہیں جاتی۔۔۔نہیں بیٹا میں بھی ادھر ہی رہوں گا مجھے گھر سکون نہیں آئے گا میری بیٹی راستے میں پریشانی میں ہے تو میں گھر جا کر آرام کیسے کر سکتا ہوں۔۔۔تقریباَ تین گھنٹے کے انتظار کے بعد انہیں گاڑی آتے ہوۓ دکھائی دی باقی سٹوڈنٹس کے گھر والے بھی کچھ دیر پہلے آۓ تھے جب بس آکر رکی تو عادل جلدی سے بس کی طرف لپکا اور عرشیہ کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔عرشیہ جیسے ہی باہر نکلی عادل جلدی سے اس کے پاس پہنچ کر اسے خود میں بھینچا کیسی ہو میری جان اتنی دیر لگا دی پتا میں کتنا پریشان ہو گیا تھا۔۔کہ۔میری پرنسس پتا نہیں کہاں رہ گئ۔۔اوہو پاپا آپ پریشان نہ ہوں میں ٹھیک ہوں۔۔راستے میں گاڑی خراب ہوگئی جس کی وجہ سے ہم لوگ لیٹ ہو گئے۔۔۔عرشیہ نے اپنے پاپا کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔تمہارا سیل کیوں آف تھا ازمیر نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔وہ بیٹری لو ہو گئ تھی مجھے چارج کرنے کا یاد نہیں رہا عرشیہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔۔ہمم لیکن آئندہ خیال رکھنا کہیں آنا جانا ہو تو موبائل فون پہلے چارج کرتے ہیں۔۔۔ازمیر نے اس کے چہرے پہ ڈر دیکھا تو نرمی سے اسے سمجھایا تو وہ ہاں میں سر ہلانے لگی۔۔عرشیہ بیٹا اپنا سامان لے لو سکول کے پیون نے کہا تو ازمیر نے آگے بڑھ کر اس کا سامان اٹھایا اور گاڑی میں رکھا چلو اب جلدی سے گھر چلیں دس بج چکے ہیں گھر والے بھی پریشان ہو رہے ہوں گے۔۔عرشیہ عادل کے ساتھ ان کی ہی گاڑی میں بیٹھ گئی جبکہ ازمیر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا آگے آگے عادل کی گاڑی تھی اور ان پیچھے ازمیر تھا۔۔۔جاتے ہوۓ عرشیہ نے آئسکریم پارلر دیکھا۔۔۔پاپا رکیں رکیں عرشیہ کے کہنے پہ عادل نے گھبرا کر گاڑی روکی کیا ہوا عرشیہ آر یو اوکے؟ ان کی گاڑی رکتی دیکھ ازمیر نے بھی گاڑی روکی۔۔۔پاپا وہ دیکھیں سامنے عادل نے جب سامنے دیکھا تو عرشیہ کو گھورنے لگے اور عرشیہ کھلکھلائ۔۔ پیچھے ازمیر پریشان نہیں ہوا۔۔۔کیونکہ اس نے آئسکریم کی شاپ پہلے ہی دیکھ لی تھی اور ہونٹوں پہ مبہم سی مسکراہٹ آئی۔۔اور گاڑی سے اتر کر عادل کی سائیڈ پہ آیا۔۔۔چھوٹے پاپا آجائیں اکٹھے ہی کھاتے ہیں ازمیر کی بات سن کر عادل اسے بھی گھورنے لگا۔۔۔ازمیر مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی وہ تو پاگل ہے لیکن تم تو سمجھداری سے کام لو پہلے ہی اتنا لیٹ ہو گیا اور اوپر سے تم کہہ رہے ہو آجاؤ ادھر۔۔۔ارے چھوٹے پاپا میں نے گھر میں انفارم کر دیا ہے کہ عرشیہ آگئی ہے اور ہمارے ساتھ ہی ہے۔۔۔عادل ندی میں سر ہلا کر رہ گۓ اور عرشیہ خوش ہوتے ہوۓ گاڑی سے نیچے اتری ساتھ ہی عادل بھی اتر گیا اور گاڑی لاک کرتے ہوۓ ان کے ساتھ چل پڑا۔۔بہت بگاڑ رہے ہو تم اپنی بیوی کو۔۔۔کوئ بات نہیں چھوٹے پاپا یہ بگڑی ہوئی اچھی لگتی ہے۔۔کل کو اگر تنگ آکر تم نے اس پہ پابندیاں لگائیں تو یہ جینا بھول جاۓ گی اور مرجھا کر رہ جاۓ گی یہ بات یاد رکھنا۔۔چھوٹے پاپا آپ فکر ہی نہ کریں جب تک میری سانسیں ہیں میں کبھی مرجھانے نہیں دوں گا اسے۔۔۔بس شرط اتنی ہے کہ یہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے اگر کبھی اس نے غلطی سے بھی مجھے چھوڑنے کی بات کی تو میں اسی وقت اس کی سانسیں چھین لوں گا یہ بات آپ بھی یاد رکھنا۔۔۔ازمیر کی محبت کی شدت دیکھ کر عادل کو گھبراہٹ ہوئی۔۔وہ لوگ انٹر ہوۓ جہاں ایک ٹیبل سلیکٹ کیے عرشیہ پہلے ہی بیٹھی تھی۔۔پاپا ادھر آئیں عرشیہ نے ہاتھ ہلاتے ہوئے ان دونوں کو متوجہ کیا تو دونوں اس کی طرف بڑھے۔۔۔ازمیر نے ویٹر کو آواز دینی چاہی لیکن عرشیہ پہلے ہی بول پڑی اذی میں نے آرڈر کر دیا ہے ابھی آتی ہوگی آپ لوگ اتنی آہستہ چل رہے تھے مجھ سے صبر نہیں ہوا۔۔توبہ ہے میری بے صبری بھوکی بیٹی سے۔۔کوئ بات نہیں پاپا میں ایسی ہی ٹھیک ہوں۔۔۔اتنی دیر میں آئسکریم آگئی دو چاکلیٹ فلیور تھے ایک ونیلا اور پستہ مکس تھی۔۔۔پاپا یہ ونیلا والی آپ کی ہے اور یہ چاکلیٹ والی میری اور اذی کی۔۔۔اور تمہیں کیسے پتا کہ اذی کو چاکلیٹ فلیور کھانی یے؟ عادل نے پوچھا وہ پاپا ایک دن پہلے بھی اذی مجھے لے کر آئسکریم کھلانے گۓ تھے تو انہوں نے اپنے لیے چاکلیٹ فلیور منگوایا تھا تو ازمیر کے چہرے پہ بھرپور قسم کی مسکراہٹ ابھری۔۔۔اوکے چلو جلدی کھاؤ پھر گھر چلتے ہیں۔۔عرشیہ آئسکریم کھا رہی تھی کہ عرشیہ ازمیر کی طرف جھکی۔۔۔ازی سرگوشی میں پکارا گیا۔۔۔اس نے مزید اس کی طرف جھک کر پوچھا ہمم کیا ہوا؟ ایک اور منگوائیں نہ۔۔۔اوکے ازمیر نے بھی سرگوشی میں کہا۔۔۔ویٹر۔۔۔ازمیر نے ویٹر کو آواز دی تو عادل اس کی طرف دیکھنے لگے ابھی کیا کھسر پھسر ہوئی جو ویٹر کو بلایا جا رہا ہے۔۔۔چھوٹے پاپا بل نہیں ہے کرنا کیا خود ہی کہہ رہے ہیں کہ جلدی کرو۔۔۔جی سر ویٹر نے آکر مؤدبانہ انداز میں کہا۔۔یار کتنا بل ہوا تو ویٹر نے بل پکڑایا ہمم یہ لو ازمیر نے پیمنٹ کرتے ہوئے اس کو دیکھا اور ٹپ کے ساتھ ساتھ کچھ اور رقم تھمائی یہ ایک اور چاکلیٹ فلیور لادو تو عادل غصّے سے گھورنے لگا۔۔۔سور پاپا وہ کیا ہے نا ایک سے تو مجھے سکون ہی نہیں ملتا ایسا لگتا ہے کہ کسی نے ایک چمچ چکھنے کے لیے دی ہے۔۔تو وہ چپ کر گئے۔۔۔ازمیر اور عادل نے اپنی آئسکریم ختم کر لی تھی اب صرف عرشیہ کا ویٹ کر رہے تھے۔۔عرشیہ بچے آجاؤ راستے میں جاتے ہوۓ کھا لینا تو وہ اٹھ گئی اور تینوں اب گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔گھر پہنچ کر عرشیہ سب سے ملی اور زارا نے اس کو خود میں بھینچا۔۔اتنی دیر لگا دی میں کتنا پریشان ہو گئ تھی۔۔۔ماما میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا مجھے بس راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی۔۔۔اس نے اپنی ماں کے ہاتھ پکڑ کر انہیں تسلی دی۔۔۔چلو اب میری بیٹی فریش ہو جاؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔۔۔نہیں ماما مجھے بھوک نہیں ہے اب میں سونا چاہتی ہوں بس۔۔۔ٹھیک ہے جاؤ جا کر سو جاؤ۔۔



عرشیہ کمرے میں گئی اور جلدی سے فریش ہو کر کمفرٹر اوڑھ کر لیٹ گئی اور جلدی ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔۔کچھ دیر بعد ازمیر اٹھا اور چپکے سے عرشیہ کے روم میں داخل ہوا۔۔اسے سوتے ہوئے دیکھا تو جا کر اس کے پاس بیڈ پہ نیم دراز ہوا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا اور آہستہ اس کے ایک ایک نقش کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھونے لگا۔۔اتنے دنوں سے اپنی پیاسی آنکھوں کی پیاس بجھا رہا تھا۔۔کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ازمیر جھکا اور نرمی سے اس نے عرشیہ کے ہونٹوں کو چوما اور جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔۔



ڈیڈ کل اگر سب کوئی میٹنگ یا کسی بھی قسم کا کوئی کام ہو تو اسے پوسٹ پون کردیں کیونکہ کل میرے آفس کی اوپننگ ہیں اور آپ سب کا وہاں ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔سب بہت خوش ہوئے ٹھیک ہے بیٹا ہم سب چلیں گے انشاء اللّٰہ۔۔ہمم اور گھر کی سب خواتین بھی میں چاہتا ہوں کہ میری کامیابی میں میری پوری فیملی میرے ساتھ ہو۔۔۔ٹھیک ہے جیسا تم کہو گے ویسا ہی ہوگا مصطفیٰ صاحب نے اسے کہا تو اس نے سر کو ہلکا سا خم کیا۔۔۔اے جی سنتے ہو؟ عرشیہ کے پکارنے کے انداز پہ سب لوگ متوجہ ہوئے اور ازمیر نے اس کی طرف دیکھا۔۔یہ اوپننگ وغیرہ تو سب ٹھیک ہے سب چلے بھی جائیں گے سب کی دعائیں بھی مل جائیں گی۔۔۔لیکنننن۔۔۔لیکن کو لمبا کرتے ہوئے چپ ہوئی۔۔۔لیکن کیا؟ اس نے پوچھا۔۔۔ہم لوگ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے آپ کو۔۔۔مطلب؟ مطلب یہ کہ ہمیں کسی اچھے سے مہنگے سے ریسٹورنٹ میں کھانا بھی کھلانا پڑے گا۔۔تو ینگ پارٹی نے بھر پور طریقے سے عرشیہ کا ساتھ دیا۔۔۔واہ واہ کزن ہو تو ایسی ہمیں تو دھیان ہی نہیں آیا۔۔۔ہاں کیونکہ ہم میں سے سب سے بھوکی یہی تو ہے شہیر نے چھیڑا۔۔۔ازی شہیر بھائی کو ٹریٹ نہیں دینی آپ نے اوکے۔۔۔ارے بھائی ہے وہ میرا ایسے کیسے نہیں دے گا ٹریٹ مجھے کیوں ازمیر ٹھیک بولا نا؟ ازمیر جو کہ رب سے چپ تھا۔۔۔آپ سب کو الگ سے ٹریٹ دے دوں گا شہیر کو الگ سے دے دوں گا۔۔ہاں ویسے بھی یہ بابا جی ہمارے بزرگ ہم میں صحیح نہیں لگتے۔۔عرشیہ کی بات پہ صنم نے اسے گھورا لیکن کہا کچھ نہیں کیونکہ سب بڑے بیٹھے ہوۓ تھے۔۔باقی سب عرشیہ کی باتوں پہ ہنس رہے تھے پاگل ہو بالکل تم۔۔۔



اگلے دن سب لوگ ازمیر کے آفس پہنچے ازمیر نے مصطفیٰ صاحب کو قینچی تھمائی کہ وہ ربن کاٹیں۔۔ابھی مصطفیٰ صاحب ربن کاٹنے ہی لگے تھے کہ عرشیہ جلدی سے بولی ایک منٹ بادشاہ سلامت۔۔تو سب لوگ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگے اور زارا نے گھورتے ہوئے ایک تو اس لڑکی کا ہر کام میں ٹانگ اٹکانا ضروری ہوتا ہے۔۔۔وہ مصطفیٰ صاحب کے پاس آئ بادشاہ سلامت اپنی پرنسس کو ساتھ لینا بھول گئے آپ منہ پھلائے ہوۓ بولی ارے نہیں نہیں ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے تمہارے بغیر میں کیسے کوئی کام کر سکتا آؤ نا۔۔وہ قینچی لے کر کاٹنے لگے رکیں ایسے نہیں قینچی کی ایک سائیڈ آپ پکڑیں ایک میں تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے توبہ ہے لڑکی تمہارے ڈرامے ہی نہیں ختم ہوتے اور جیسا اس نے کہا ویسے پکڑ کر دونوں نے ربن کاٹا باقی سب لوگ تالی بجانے لگے۔۔۔چلیں آئیں سب لوگ میرا آفس بھی دیکھ لیں۔۔۔وہ سب اندر کی طرف بڑھے۔۔واؤ کتنا پیارا آفس بنایا ہے آپ نے ازمیر بھائی صنم ستائشی نظروں سے دیکھ رہی تھی واقعی ازمیر بھائی بہت پیارا ہے آپ کا آفس عائزہ نے بھی صنم کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔ازمیر بھائی مجھے عائزہ اور عریشہ کو بھی اپنے آفس میں جاب پہ رکھ لیں صنم نے کہا اس سے پہلے کہ ازمیر کچھ بولتا عرشیہ فوراً بولی یہ لو مانگنے والے پہلے ہی آگۓ۔۔تو وہ تینوں اس کے پیچھے بھاگیں رک تجھے ہم بتاتے ہیں۔۔بس بس بیٹھ جاؤ آرام سے عادل نے ٹوکا۔۔۔ویسے بات تو صحیح ہے تم تینوں کو ادھر جاب دے دوں تو میرے لیے بھی فائدہ ہے۔۔۔ہاں ازی ایک کو صفائی کے لیے رکھ لیں ایک کو چاۓ وغیرہ سرو کرنے کے لیے رکھ لیں اور ایک کو لوگوں کو ہاۓ اور باۓ بولنے کے لیے رکھ لیں۔۔۔تو باز نہیں آۓ گی۔۔سب لوگ ہنسنے لگے۔۔ازمیر نے سب کے لیے کھانا منگوایا وہیں پہ سب نے کھانا کھایا اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرکے گھر کے لیے روانہ ہوۓ لیکن ازمیر نے روکا کہ کسی ریسٹورنٹ میں لے جانے کے لیے بڑے تو سب منع کرتے گھر چلے گئے لیکن باقی سب کھانے کے لیے نکل گئے۔۔۔اچھا سا کھانا کھانے کے بعد سب لوگ گھر کی طرف روانہ ہونے لگے۔۔تم لوگ جاؤ میں عرشیہ کو لے کر بعد میں آتا ہوں۔۔۔اوووووو خیریت؟ ہمم جاؤ سب۔۔۔وہ سب لوگ چلے گئے جبکہ ازمیر عرشیہ کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی میں بٹھاتے ہوۓ۔۔کہاں جا رہے ہیں ہم؟ شاپنگ کرنے۔۔۔کیاااااا؟ واقعی ہاں میں نے سوچا تمہیں کوئی گفٹ ہی دلا دوں۔۔۔لیکن گفٹ تو میری طرف سے بنتا ہے نا؟ میں تمہیں دلاؤں یا تم مجھے بات تو ایک ہی ہے نا۔۔۔باتیں کرتے ہوۓ وہ ایک مال کے سامنے رکتے ہیں۔۔آ جاؤ ازمیر اسے لے کر مال کی طرف بڑھتا ہے۔۔۔ازی وہ دیکھیں وہ ڈریس کتنا پیارا ہے۔۔عرشیہ نے ایک ڈریس کی جانب ہاتھ بڑھایا جو کہ لیمن کلر کا ٹاپ اور بلیو جینز تھی۔۔۔ہمم تمہیں پسند آیا؟ ہاں بہت ازمیر نے وہ ڈریس پیک کروایا اس کے بعد اور بھی ڈریسز لیے جس میں زیادہ تر ازمیر کی پسند شامل تھیں ساتھ میں میچنگ جیولری شوز سب کچھ خریدا اور واپس جانے لگے۔۔۔ہاۓ بیوٹیفل بے بی کبھی ہمیں بھی تو موقع دو شاپنگ کا ایسی شاپنگ کروائیں گے کہ ہمیشہ یاد رکھوں گی دو لڑکے مال میں کھڑے عرشیہ کو چھیڑ کر انجانے میں اپنی موت کو گلے لگا بیٹھے۔۔ازمیر نے ان دونوں کی طرف دیکھا اور عرشیہ کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف لے کر آیا اسے گاڑی میں بٹھا کر گاڑی کو لاک کیا میں ابھی آتا ہوں۔۔۔ازمیر کے تیور دیکھ کر عرشیہ کو خوف آیا۔۔۔ازمیر واپس مال میں گیا ادھر سے ایک تیز دھار والا چاقو خریدا پھر ان دونوں لڑکوں کو ڈھونڈا اور انہیں ایک انسان جگہ پہ لے کر گیا انہیں ان کی شرٹ اتار کر باندھا پھر پہلے ایک کی زبان پکڑ کر کاٹی وہ چلانے لگا دوسرا لڑکا دیکھ کر خوفزدہ ہوا پھر دوسرے کو پکڑا اور اس کی زبان بھی کاٹ ڈالی۔۔۔میری بیوی کے بارے میں غلط بولنے والوں کو میں کبھی بولنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔۔۔وہ دونوں تڑپ رہے تھے ازمیر نے وہیں پہ چاقو پھینکا اور اپنی گاڑی کی طرف آیا ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا۔۔۔یہ یہ خون خون کہاں سے لگا آپ کی شرٹ پہ عرشیہ نے خوفزدہ ہوتے ازمیر کی شرٹ کو دیکھا۔۔کچھ نہیں ازمیر نے شرٹ اتار کر گاڑی کی بیک سائیڈ پہ پھینک دی۔۔۔جب اس نے ازمیر کی طرف دیکھا تو اس کی سرخ آنکھیں اور چہرے کے سخت تیور دیکھ کر بہت ڈر گئی اور چپ کرکے نیچے منہ کرکے بیٹھ گئی۔۔۔ازمیر گاڑی چلا رہا تھا کہ نا جانے کیوں اس کی پاورز حاوی ہونے لگی جسکی وجہ سے اسے بہت بے چینی ہونے لگی۔۔عرشیہ نیچے منہ کرکے بیٹھی تھی لیکن اس کے چہرے پہ ڈر دیکھ کر اسے بہت غصّہ آ رہا تھا اور یہ صرف اس کی پاورز حاوی ہونے کی وجہ سے آ رہا تھا یک دم اس کے تاثر بدلنے لگے۔۔ازمیر خود پہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا وہ زور سے چیخنا چاہتا تھا لیکن عرشیہ کی وجہ سے اور باہر سڑک پہ ہجوم کی وجہ سے کنٹرول کر رہا تھا جو کہ بہت مشکل تھا اس کی سانس بھاری ہو رہی تھی وہ غرانے کی آواز میں سانس لینے لگا۔۔اس کی ایسی آوازیں سن کر عرشیہ نے بہرہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو اس کو دیکھ کر چیخنے لگی اور ڈر کے مارے گاڑی کے دروازے کے ساتھ چپک گئی اس کے چیخنے پہ ازمیر نے اسے گھور کر دیکھا شش خبردار اگر چیخی یا چلائی تو یہیں دفنا دوں گا۔۔۔ازمیر کی آواز بھی چینج ہو رہی تھی اس کی خون چھلکتی آنکھیں بدلی ہوئی آواز چہرہ دیکھ کر عرشیہ کے اوسان خطا ہوۓ وہ باقاعدہ کانپ رہی تھی۔۔۔ازمیر جتنی کوشش کرتا خود کو روکنے کی اتنا زیادہ وہ آؤٹ آف کنٹرول ہو رہا تھا۔۔۔جب دیکھا کہ نہیں کنٹرول ہو رہا تو اس نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی گاڑی سے اترا عرشیہ کو وہ کسی قیمت پہ بھی بیچ راستے اکیلی نہیں چھوڑ سکتا تھا وہ عرشیہ کی سائیڈ آیا دروازہ کھولا۔۔عرشیہ جو کہ دروازے کے ساتھ لگی ہوئی تھی دروازہ کھلنے پہ گرنے لگی لیکن ازمیر نے اسے پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں اسے اٹھایا اور خود میں بھینچ کر بھاگنے لگا۔۔اس کی رفتا ر اتنی تیز تھی کہ وہ کسی کو نظر بھی نہیں آ رہا تھا سب کو لگتا کہ کوئی ہوا کا جھونکا آکر گزر گیا ہو۔۔۔جبکہ عرشیہ جس کو ازمیر نے خود میں بھینچا ہوا تھا اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اڑ رہی ہو وہ خوف سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھی۔۔۔ازمیر بھاگتا ہوا جنگل میں آتا ہے اور جنگل کے بیچ میں جا کر عرشیہ کو نیچے اتارتا ہے اس کا جسم ایسے کانپ رہا ہوتا ہے جیسے اسے کسی نے وائبریشن پہ لگایا ہو ازمیر نے اس کی حالت دیکھی تو اس کو ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بٹھایا۔۔اور خود پر سے ضبط کھوتے ہوۓ اتنی زور سے چلایا کہ عرشیہ اور بھی سہم گئ اور ازمیر کے چلانے کی آواز جب جانوروں نے سنی تو سب بھاگتے ہوۓ اس کے گرد اکٹھے ہو کر بیٹھ گئے اور غرانے لگے جیسے ازمیر سے کچھ کہہ رہے ہوں۔۔۔ازمیر ایک دفعہ دوبارہ زور دار آواز میں چلایا اور اس کے ساتھ ہی بھیڑیے بھی چلاۓ۔۔۔عرشیہ سارا منظر پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اس کو ایسے فیل ہو رہا تھا کہ ابھی اس کا سانس بند ہو جاۓ گا۔۔۔ازمیر نے ان جانوروں کو کچھ سمجھایا انہوں نے ہاں میں سر کو حرکت دی اور وہیں بیٹھ گئے۔۔ازمیر نے عرشیہ کی طرف دیکھا اس کے قریب آ کر میں ابھی آتا ہوں یہ جانور تمہاری حفاظت کرینگے ڈرنا نہیں ان سے یہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے اوکے۔۔۔عرشیہ کچھ نہ بولی۔۔۔میں نے کہا ٹھیک ہے؟ ازمیر غرایا تو عرشیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔میں نے گھر جانا ہے۔۔۔ششش اس کے ہونٹوں پہ اپنی شہادت کی انگلی رکھتا ہے چپ بالکل چپ خبردار اگر تم روئ نہیں تو بہت برا ہوگا ازمیر کے تیور دیکھ اس نے اپنی آواز گلے میں ہی دبا لی۔۔۔ہمم گڈ گرل اس کا گال تھپتھپاتے ہوۓ اٹھا اور تیزی سے بھاگتا ہوا اور جنگل کے بیچ بھاگ گیا عرشیہ وہیں بیٹھی جانوروں کو خوفزدہ ہو کر دیکھ رہی تھی اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ اس کی آخری رات ہے۔۔۔تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ازمیر واپس آتا ہے اور بالکل نارمل ہوتا ہے وہ مسکرا کر جانوروں کو وہاں سے بھیجتا ہے۔۔اور خود عرشیہ کے قریب آتا ہے عرشیہ جو کہ تھک کر منہ گھٹنوں پہ رکھ کہ بیٹھی ہوتی ہے اس کو پکارتا ہے۔۔عرشیہ۔۔۔عرشیہ سر اٹھا کر اسے دیکھتی ہے لیکن چپ رہتی ہے۔۔۔چلو گھر چلیں۔۔عرشیہ دیکھتی ہے کہ اب وہ نارمل ہے۔۔۔وہ اسے صرف اتنا ہی کہہ پاتی کہ آپ Creature ہیں۔۔نہیں میں Creature نہیں ہوں۔۔نہیں آپ Creature ہیں میں سب کو بتاؤں گی آپ کے بارے میں۔۔خبردار اگر تم نے کسی کو کچھ بتایا تو نہیں تو میرا آج دوسرا روپ تو دیکھ ہی لیا ہے میرا اور یہ بھی اچھی طرح جان گئ ہو کہ میں کیا کچھ کر سکتا ہوں۔۔اور تمہیں ایک اور بات بتاتا چلوں یہ جو جانور آج تمہاری حفاظت کر رہے تھے نا میرے ایک اشارے پہ تمہاری ایک ہڈی تک نہیں ملے گی۔۔Now choice is your کہ کیا کرنا ہے تمہیں۔۔۔اگر تمہاری وجہ سے کسی کو بھنک بھی پڑ گئی نا میرے بارے میں تو آئ سویر میں تمہیں اسی جنگل میں چھوڑ دوں گا۔۔۔عرشیہ سانس بند کرکے اس کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔سانس لو لیکن عرشیہ دم سادھے بیٹھی رہی۔۔سنا نہیں تم نے میں نے بولا سانس لو ازمیر نے غراتے ہوۓ سخت لہجے میں کہا تو عرشیہ جلدی سے سانس لینے لگی۔۔چکو اب گھر چلیں۔۔عرشیہ اٹھی اور ساتھ چلنے لگی ازمیر نے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔لیکن عرشیہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔۔ازمیر نے اس کی مزاحمت دیکھ کر اس کا ہاتھ کو اور مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔می میں آپ سے شادی نہیں کروں گی میں پاپا سے کہہ کر آپ سے ڈائیوورس۔۔۔چٹاخ۔۔اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتی ازمیر نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پہ رسید کیا۔۔اور اس کا گلہ پکڑ کر اگر دوبارہ تمہارے منہ سے مجھ سے الگ ہونے کی بات سنی تو جان لے لوں گا تمہاری سمجھی۔۔بات کرتے ہوۓ ازمیر کے ہاتھ کا دباؤ بے اختیار ہی عرشیہ کے گلے پہ بڑھا عرشیہ کا سانس بند ہونے لگا چہرہ سرخ پڑ گیا۔۔ازمیر نے ایک جھٹکے سے اس کا گلہ چھوڑا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے جانے لگا اور گاڑی دور ہونے کی وجہ سے ازمیر نے ٹیکسی کروائی اور گاڑی تک گۓ اور وہاں سے گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے۔۔گھر پہنچے تو عرشیہ جلدی سے اترنے لگی لیکن ازمیر نے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔یاد رہے میرا Secret۔۔Secret ہی رہنا چاہئے سختی سے تنبیہ کرتے ہوۓ کہا تو عرشیہ نے ہاں میں گردن ہلائی ہمم گڈ اور اس کے قریب ہوتے اس کے گال پہ بوسہ دینے لگا تو عرشیہ ایک دم پیچھے ہوئی۔۔ازمیر نے اسے گردن سے دبوچا اور قریب کرتے ہوۓ اس کے رخسار پہ کس کیا۔۔مجھ سے الگ ہونے کا سوچنا بھی مت نہیں تو تمہیں زندگی سے الگ کر دوں گا۔۔اس کے کان میں برف سے سرد لہجے میں کہتا اس کی طرف دیکھتا ہے۔۔اور جیسے ہی اس کی نظر عرشیہ کے کپکپاتے ہونٹوں پہ پڑتی ہے تو اس کے جزباتوں میں ہلچل ہوتی ہے۔۔۔لیکن خود پہ ضبط کرتے ہوئے اسے جھٹکے سے چھوڑتا ہے۔۔جاؤ۔۔اور عرشیہ جلدی سے گاڑی سے نکلتی اندر کی طرف بھاگتی ہے اور اپنے روم میں آکر بند ہو جاتی ہے۔