قسط: 13
عرشیہ اپنے روم میں بند ہو کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی اسے بار بار ازمیر کا وہ روپ یاد آ رہا تھا جو اس نے آج دیکھا۔۔۔مطلب ازمیر ایک کریچر ہے میرا نکاح ایک کریچر سے ہو گیا کیا۔۔نہیں میں ماما پاپا سے بات کروں گی میں ان سے آزاد ہو کر رہوں گی بلکہ ابھی جاتی ہوں ماما لوگوں کے پاس۔۔وہ جلدی سے آنسو صاف کرتی اٹھی اور عادل کے روم کی طرف جانے لگی وہ تیز تیز قدموں سے جا رہی تھی کہ راستے میں کسی سے ٹکرائی جب منہ اوپر کرکے دیکھا تو ازمیر تھا جو کہ اب آ رہا تھا باہر سے اور اس کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز تھے جو کہ عرشیہ کے تھے۔۔کہاں جارہی ہو اتنی جلدی میں۔۔وہ وہ میں نا کچ کچن میں جا رہی تھی پا پانی پینے۔۔۔پکا۔۔۔تو عرشیہ نے ہاں میں سر ہلایا ٹھیک ہے جاؤ میں تمہاری چیزیں تمہارے روم میں رکھ دیتا ہوں۔۔۔نہیں۔۔نہیں آپ میرے روم میں نہیں جانا۔۔می میں خود خود رکھ لوں گی آپ ان بیگز کو ادھر ہی رکھ دیں ہمت کرکے عرشیہ ازمیر کو کہتی ہے۔۔۔عرشیہ کی بات سن کر ازمیر اسے غصے سے گھورتا ہے۔۔جاؤ پانی پی کر آؤ تو وہ جلدی سے نیچے جاتی ہے زارا اور عادل سے بات کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے وہ کچن میں جاتی ہے اس کا گلہ خشک ہو رہا تھا اب اسے واقعی ہی پانی کی ضرورت تھی پانی پی کر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اپنے روم کی طرف جاتی ہے لیکن دروازے پہ جا کے رک جاتی ہے۔۔اندر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی ہوتی۔۔اب آؤ گی یا اٹھا کر لاؤں ازمیر نے باہر کسی کی موجودگی محسوس کرکے دروازہ کھولتے ہوۓ کہا۔۔تو وہ سر اٹھا کر آنکھوں میں خوف لیے اسے دیکھتی ہے۔۔آؤ اندر تو عرشیہ دھیرے سے کمرے میں آتی ہے اور ازمیر دروازہ بند کر دیتا ہے۔۔۔ہاں اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھی تمہارے کہنے کا مطلب کیا تھا کہ میں تمہارے کمرے میں نہ آؤں ہے نا؟ تو وہ گردن نیچے جھکاۓ چپ کرکے کھڑی ہوتی ہے۔۔میری ایک بات دھیان سے سنو۔۔تم جتنا مجھ سے دور بھاگو گی اتنا ہی اپنے قریب پاؤ گی۔۔عرشیہ کچھ نہیں بولتی بس نیچے منہ کر کے کھڑی رہتی ہے۔۔ازمیر اسے دیکھتا ایک لمبی سانس کھینچتا ہے اور اسے بازوؤں سے پکڑ کر بیڈ آرام سے بیڈ پہ بٹھاتا ہے اور خود بھی اس کے قریب بیٹھ جاتا ہے۔۔۔دیکھو میں مانتا مجھ میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ایک انسان میں نہیں ہوتی لیکن یہ چیزیں اللّٰہ کی طرف سے عطا کردہ ہیں جو پیدا ہونے کے ساتھ عطا کی گئی ہیں اور اسی وجہ سے دادا جانی مجھے لندن لے کر گۓ تھے۔۔عرشیہ اس کی آخری بات سن کر جھٹکے سے سر اٹھاتی ہے اور ازمیر کی آنکھوں میں دیکھتی ہے۔۔۔مطلب دادا جانی کو سب پتا ہے تو ازمیر ہاں میں سر ہلاتا ہے۔۔۔مطلب دادا جانی بھی تمہارے ساتھ ملے ہوۓ ہیں مجھے ان سے یہ امید نہیں تھی۔۔۔دیکھو ایسی بات نہیں ہے تم حالات کو سمجھنے کی۔کوشش کرو۔۔کچھ نہیں سمجھنا مجھے میں ابھی پاپا کے پاس جاکر انہیں سب بتا دوں گی اور کہوں گی کہ مجھے آپ سے آزاد کرواۓ۔۔۔اس کی بات سن کر ازمیر کی آنکھوں۔میں خون اترتا ہے اور عرشیہ کا بازو زور سے پکڑتا ہے۔۔۔کیا کہا تم نے زرا پھر سے بکواس کرنا۔۔ہاں میں نے نہیں رہنا آپ کے ساتھ۔۔۔ازمیر اس کے بالوں کو مٹھی سے پکڑتا ہے۔۔ آہ درد ہو رہا مجھے چھوڑیں میرے بال۔۔لگتا ہے تمہیں سبق سکھانا پڑے گا۔۔میری بات کان کھول کر سنو اگر تم نے میرے بارے میں کسی سے کچھ کہا بھی تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑنے والا جاکر چاہے ساری دنیا کو بتا دو کہ میں کیا ہوں لیکن اگر تم نے مجھ سے الگ ہونے کی بات کی تو میں تمہیں ہمیشہ کے لیے یہاں سے اتنی دور لے جاؤں گا کہ تم ان سے ملنا یا بات کرنا تو دور دیکھنے کو بھی ترسو گی۔۔میں قید کرکے رکھ لوں گا تمہیں سمجھی ایک جھٹکے سے چھوڑتے ہوۓ وہ عرشیہ کو دھمکاتا ہے۔۔اور تمہیں اچھے سے پتا ہے کہ میں کیا کیا کر سکتا ہوں۔۔اور ہاں تمہیں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں ایک گھر جنگل میں ان جانوروں کے بیچ میں ہے تمہیں وہیں قید کروں گا۔۔اتنا کہہ کر وہ چلا گیا لیکن عرشیہ کی نیندیں اڑا لے گیا۔۔وہ سونے کی کوشش کرتی لیکن جیسے ہی آنکھیں بند کرتی تو اس کے سامنے سارے منظر گھومنے لگتے۔۔وہ ساری رات سو نہ سکی۔۔۔



صبح ہوئی تو سب لوگ ناشتے کے لیے اکٹھے تھے سوائے عرشیہ کے۔۔عریشہ بیٹا جاؤ عرشیہ کو بلا کر لاؤ زارا عریشہ سے کہتی ہے تو وہ فوراً اٹھ کر عرشیہ کے روم میں جاتی ہے۔۔عرشیہ عرشیہ اٹھو تمہیں نیچے سب بلا رہے ہیں ناشتے کے لیے لیکن عرشیہ ٹس سے مس نہیں ہوتی عریشہ جب آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ ہلاتی ہے تو پریشان ہو جاتی ہے کیونکہ عرشیہ کو بہت تیز بخار ہو رہا ہوتا ہے.. عریشہ بھاگ کر نیچے آتی ہے اور زارا سے کہتی ہے ماما ماما وہ عرشیہ کو بہت تیز بخار ہو رہا ہے اور بے ہوش ہے یہ سن کر سب اٹھ کر عرشیہ کے روم کی طرف جاتے ہیں جبکہ ازمیر ادھر ہی بیٹھا لب بھینچ کر اپنے ہاتھ پہ مکا مارتا ہے۔۔۔تھوڑی دیر بعد آٹھ کر وہ بھی عرشیہ کے روم کی طرف جاتا ہے۔۔عرشیہ عرشیہ بیٹا آنکھیں کھولو کیا ہوا تمہیں عادل اس کا چہرہ تھپتھپا رہا ہوتا ہے۔۔۔ارتضٰی جلدی سے ڈاکٹر کو کال کرتا ہے۔۔ازمیر پیچھے کھڑا ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست کیے بازو سینے پہ باندھے کھڑا عرشیہ کی طرف ہی دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر آتا ہے وہ عرشیہ کا چیک اپ کرتا ہے اور انجیکشن لگا کر دوائ لکھ دیتا ہے۔۔دیکھیں ایک تو یہ ڈر گئی ہے بہت زیادہ دوسرا اس ڈر کی وجہ سے اس نے کوئی ٹینشن لی ہوئی ہے۔۔آپ پلیز اس کا اچھے سے خیال کریں اور اس کے دل سے ڈر نکالنے کی کوشش کریں اور یہ دوائی اسے صبح شام دینی ہے۔۔اب میں چلتا ہوں ارتضیٰ ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑ کر آتا ہے۔۔۔اور ازمیر اپنے روم میں چلا جاتا ہے۔۔۔آپ سب جا کر ناشتہ کریں میں ادھر ہی رکتی ہوں اس کے پاس۔۔سب چلے جاتے ہیں۔۔عریشہ اپنا اور زارا کا ناشتہ لے کر اوپر ہی آ جاتی ہے۔۔یہ لیں ماما پ بھی ناشتہ کر لیں۔۔نہیں بیٹا آپ کھاؤ مجھے بھوک نہیں یے۔۔ایسے کیسے بھوک نہیں ہے آپ کو کھانا ہی پڑے گا اگر آپ نے کچھ کھایا نہیں تو عرشیہ کو کیسے سنبھالیں گی ہمم۔۔تو عریشہ کی بات پہ مسکراتے ہوئے ٹھیک ہے میری ماں آجاؤ اکٹھے ہی کھاتے ہیں اور زارا بھی زبردستی ناشتہ کرنے لگتی ہے۔۔۔



عرشیہ کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا سب پریشان ہوتے ہیں۔۔۔ازمیر کو بھی بے چینی ہو رہی ہوتی ہے وہ عرشیہ کے روم میں جاتا ہے عادل اور سے کہتا ہے چھوٹے پاپا اسے ہاسپٹل لے کر چلتے ہیں ایسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر اس کے ہوش میں آنے کا انتظار تو نہیں کر سکتے نا۔۔عادل بھی اس کی بات سے متفق ہوتا ہے۔۔میں گاڑی نکالتا ہوں آپ اسے اٹھا کر لے کر آئیں۔۔ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ازمیر جلدی سے نیچے گیا اور گاڑی نکال کر کھڑا ہو گیا عادل عرشیہ کو بانہوں میں اٹھاۓ لے کر آ رہے تھے اور اس کے پیچھے ہی زارا بھی تھی۔۔ازمیر نے جلدی سے بیک سائیڈ کا دروازہ کھولا زارا بیک سائیڈ بیٹھ گئ اور عرشیہ کا سر اپنی گود میں رکھ کر اسے لٹایا عادل فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ازمیر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔۔۔ازمیر ریش ڈرائیونگ کرتے ہوۓ جلدی سے ہسپتال پہنچا اور سب لوگ اندر کی جانب بڑھے۔۔۔ڈاکٹر ڈاکٹر ازمیر اونچی آواز میں ڈاکٹر کو بلانے لگا۔۔کہ ایک ڈاکٹر جلدی سے اپنے آفس سے نکل کر باہر آیا ساتھ میں کچھ نرسز اور سٹاف کے لوگ بھی اکٹھے ہوگئے۔۔کیا بات ہے کیوں اتنا چلا رہے ہو یہ ہاسپٹل ہے برخوردار ڈاکٹر نے سختی سے کہا تو ازمیر نے ماتھے پہ بل ڈال کر ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔۔۔ڈاکٹر اگر اگلے دو سیکنڈ میں میری بیوی کا علاج شروع نہ ہوا نا تو اگلے تیسرے منٹ میں اس پورے ہاسپٹل کو راکھ بنادوں گا سمجھے۔۔ازمیر کے کڑے تیور دیکھ کر ڈاکٹر گھبرا گیا اور وہاں پہ جتنے بھی لوگ کھڑے تھے سب سہم گئے۔۔۔ڈاکٹر نے سٹاف بواۓ سے سٹریچر لانے کو کہا وی جلدی سے سٹریچر لے کر آیا اور عرشیہ کو روم میں لے کر گئے۔۔زارا عادل اور ازمیر بھی جانے لگے تو ڈاکٹر نے انہیں باہر ہی روک دیا۔۔پلیز ہمیں ہمارا کام کرنے دیں آپ لوگ ادھر ہی رکیں تو وہ سب باہر کھڑے ہو کر ویٹ کرنے لگے۔۔۔ڈاکٹر نے چیک اپ کرکے نرس کو انسٹرکشن دیتے ہوئے باہر آیا۔۔جیسے ہی ڈاکٹر باہر آیا تو تینوں ڈاکٹر کی طرف بڑھے۔۔کیا ہوا ڈاکٹر میری بیٹی ٹھیک تو ہگ نا زارا نے روتے ہوۓ پوچھا۔۔جی ہم نے میڈیسن انجیکٹ کر دی ہے ابھی تھوڑی دیر میں اسے ہوش آ جاۓ گا آپ فکر نہ کریں۔۔۔کچھ ہی دیر میں نرس نے ڈرپ لگادی اور چلی گئی۔۔اب روم میں زارا اور عادل تھے ازمیر روم میں نہین گیا کہ کہیں اسے دیکھ کر عرشیہ کی طبیعت پھر سے نہ بگڑ جاۓ وہ باہر بیٹھ کر ہی انتظار کرنے لگا…کچھ ہی دیر میں عرشیہ کو ہوش آگئی زارا اور عادل عرشیہ کی طرف لپکے۔۔تم ٹھیک ہو بیٹا۔۔عرشیہ پہلے ٹکڑ ٹکڑ ان کی طرف دیکھتی رہی لیکن پھر جیسے ہی دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو اسے سب یاد آیا اور وہ اپنی ماں کے گلے لگ کے رونے لگی۔۔ارے کیا ہوا میری بچی کو ایسے کیوں رو رہی ہو۔۔سب ٹھیک تو ہے نا زارا اور عادل دونوں پریشان ہوگئے۔۔عادل بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا کر لایا ڈاکٹر نے اسے چیک کیا۔۔دیکھیں عادل صاحب آپ کی بیٹی کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہے اس لیے اس کی یہ حالت ہے۔۔۔ازمیر جو کہ باہر کھڑا کھلے دروازے سے سب سن رہا تھا مٹھیاں بھینچے لگا۔۔ایک دفعہ تم اکیلی ملو پھر تمہارا سارا ذہنی دباؤ نکالتا ہوں ازمیر نے دل میں کہا اور ادھر ہی کرسی پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھ گیا۔۔اور انتظار کرنے لگا کہ۔کب زارا اور عادل اس کے روم سے باہر نکلتے ہیں تو وہ جا کر اس کا دماغ درست کرے۔