قسط: 14
ازمیر چئیر پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھ گیا اور عرشیہ کے اکیلے ہونے کا انتظار کرنے لگا۔۔ازمیر اپنے دھیان میں موبائل یوز کر رہا تھا۔۔لیکن وہاں سے ہر گزرتی لڑکی کا دھیان ازمیر کی طرف جا رہا تھا۔۔وہ رک رک کے ازمیر کی طرف دیکھ رہی تھیں لیکن ازمیر کو کچھ پتا نہیں تھا کہ اسے دیکھ کیسے لڑکیاں ٹھنڈی آہیں بھر رہی ہیں…کچھ دیر بعد عادل اور زارا دونوں روم سے نکلے ازمیر ان کی طرف متوجہ ہوا۔۔چھوٹے پاپا کیسی ہے اب عرشیہ؟ ہاں کافی بہتر ہے۔۔تم ملے کیوں نہیں ابھی تک؟ وہ مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی بس اسی لیے تو عادل اور زارا کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔۔اب ٹھیک ہے وہ جاؤ مل لو۔۔میں شکرانے کے نفل ادا کرنے جا رہی ہوں زارا نے کہا۔۔چلو ٹھیک ہے میں بھی چاۓ لے کر آتا ہوں سب کے لیے اور گھر بھی انفارم کرتا ہوں اور دونوں اپنے اپنے راستے چلے گئے۔۔ازمیر جو کہ اسی ٹائم کے انتظار میں تھا ان دونوں کے جانے کے بعد فوراً روم میں گیا۔۔عرشیہ آنکھیں بند کرکے لیٹی ہوئی تھی۔۔ازمیر نے دیکھا زرد رنگت مرجھایا سا چہرہ ایک دن میں ہی وہ کتنی کمزور لگ رہی تھی۔۔ازمیر اس کے پاس گیا۔۔عرشیہ کیسی ہو؟ ازمیر کی آواز سن کر عرشیہ نے آنکھیں کھولیں اور اسے اپنے سامنے دیکھ کر گھبرائ۔۔ماما کہاں ہے آپ۔۔ماما پاپا۔۔وہ آوازیں دینے لگیں جب ازمیر نے اس کے ہونٹوں پہ انگلی رکھی اور خود کرسی گھسیٹ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔دیکھو میری بات زرا غور سے سننا۔۔میں جو بھی ہوں انسان یا پھر تمہارے کہنے کے مطابق کریچر جو بھی تم کہو۔۔تم صرف یہ سوچو کہ کبھی بھی تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی یا تمہارے ساتھ کوئی ظلم یا زیادتی کی ہو۔۔ہمیشہ تمہاری حفاظت کی۔۔ارے مجھے تو اس وقت بھی تمہیں محفوظ رکھنے کا خیال تھا جب میں خود کے بس میں نہیں ہوتا جب مجھے نہیں پتا ہوتا کہ مجھ سے اگلے پل کیا ہو جاۓ گا لیکن واحد تم ہو جس کو میں کچھ نہیں کہہ سکتا جسے میں کسی بھی طرح کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔۔تمہیں پتا ہے جب میری پاورز مجھ پہ حاوی ہوتی ہیں نا تو مجھے نہیں پتا ہوتا کہ میں خود بھی ژندہ رہوں گا کہ نہیں۔۔لیکن جب تم میرے ساتھ تھی تو مجھے ایک ہی فکر ستا رہی تھی کہ کہیں تمہیں نہ کچھ ہو جائے تم خود سوچو ایک ایسا انسان جس کا خود پہ کنٹرول نہ ہوتے ہوۓ بھی تمہارے لیے اتنا کئیرنگ ہو تو کیا وہ تمہیں کبھی نقصان پہنچانے کا سوچ سکتا ہے بتاؤ بھلا۔۔۔عرشیہ اس کے منہ کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اور اس کی باتیں سن کر چپ کر جاتی ہے کچھ بھی نہیں بولتی۔۔عرشیہ میں تم سے بہت زیادہ والا پیار کرتا ہوں میرے پیار کی کیا حدود ہیں یہ تو مجھے خود بھی نہیں پتا تم تو سوچ بھی نہیں سکتی۔۔اگر قیامت کے دن اللّٰہ مجھے ستر حوروں سے نوازے گا نا تو میں اللّٰہ سے یہی کہوں گا کہ مجھے یہ ستر حوریں نہیں چاہیئے مجھے بس ایک میری عرشیہ دے دیں میرے لیے ایک عرشیہ ہی ستر حوروں کے برابر ہے۔۔۔عرشیہ اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی۔۔تم ایک بار سکون سے ساری باتیں ایک طرف رکھ کر سوچو پھر فیصلہ کرنا۔۔اب میں چلتا ہوں کچھ چاہیئے ہو تو آواز دے دینا میں باہر ہی بیٹھا ہوں۔۔۔تھوڑی دیر میں زارا اور عادل بھی آجاتے ہیں۔۔میری ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے عرشیہ اب کافی بہتر ہے تو تھوڑی دیر تک ساری فارمیلٹیز پوری کرنے کے بعد ڈسچارج کر دیا جاۓ گا۔۔



سب لوگ عرشیہ لوگوں کا ویٹ کر رہے ہوتے ہیں۔۔جب ہی گاڑی رکنے کی آواز آتی ہے تو سب باہر کو بھاگتے ہیں عائشہ اور سائرہ جلدی سے عرشیہ کے پاس پہنچتی ہیں اور اسے گلے سے لگا کر بہت پیار کرتی ہیں۔۔کیسی ہے میری بچی؟ عائشہ پوچھتی ہے۔۔میں ٹھیک ہوں عرشیہ آہستہ سے جواب دیتی ہے۔۔ہماری عرشیہ کو نظر لگ گئی ہے تبھی بیمار پڑ گئی سائرہ کے کہنے پہ عرشیہ مسکرائی اور آگے کو بڑھنے لگی سب لوگ اس کے ساتھ اندر کی طرف آۓ۔۔۔زارا عرشیہ کو اس کے روم میں لے جاؤ یہاں نہ بٹھانا تھک جاۓ گی۔۔مصطفٰی صاحب نے کہا تو عرشیہ نے عجیب سی نظروں سے مصطفیٰ صاحب کو دیکھا کو کہ مصطفیٰ صاحب سمجھ تو نہیں پاۓ لیکن انہیں بے چینی سی ہونے لگی۔۔عرشیہ کو اس کے روم میں لے جا کر لٹا دیا گیا اور زارا خود باہر آگئی۔۔۔اور اس کے لیے سوپ وغیرہ تیار کرنے لگی۔۔ازمیر اور عادل بھی اپنے اپنے روم کی طرف بڑھے۔۔کچھ ہی دیر میں عائشہ اور ارتضیٰ عرشیہ کے روم میں آۓ جہاں مصطفیٰ صاحب عادل اور زارا پہلے سے موجود تھے۔۔اب کیسی ہے ہماری پرنسس؟ ارتضیٰ پوچھتا ہے۔۔ٹھیک ہوں میں۔۔۔اس کے سر پہ پیار کرتے ہوۓ کچھ چاہئیے تو نہیں میری بیٹی کو؟ چاہئیے ڈیڈ بہت ضروری چاہئیے۔۔عرشیہ نے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔کیا چاہیئے مجھے بتاؤ میں فوراً حاضر کر دوں گا۔۔۔کیا سچ میں ڈیڈ میں حاضر کر دیں گے۔۔ہاں نا تم حکم کرو بیٹا۔۔۔اپنے بیٹے سے آزادی دلوا دیں مجھے۔۔مجھے طل طلاق چاہیئے بتائیں دیں گے لا کر۔۔(کتنی ڈھیٹ ہے عرشیہ ازمیر کے اتنا سمجھانے کے باوجود بھی اپنی بات پہ اٹکی ہوئی ہے) سب لوگ اس کی طرف ایسے دیکھنے لگے جیسے وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی ہو۔۔کیا بکواس کر رہی ہو عرشیہ تم ہوش میں تو ہو۔۔۔تمہیں پتا ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟ زارا نے صدمے اور غصّے کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔۔دیکھا دیکھا آپ لوگوں نے اسی لیے میں کہتی تھی کہ اسے اتنا سر پہ نہ چڑھائیں اس کی حمایت نہ کریں اب بھگت لیں نتیجہ۔۔زارا باقاعدہ رونے لگی۔۔۔چپ تو کرو مجھے پوچھنے تو دو اس سے کہ کیا وجہ ہے جو اتنی بڑی بات کردی عادل نے زارا کو چپ کرواتے ہوۓ عرشیہ کی طرف دیکھا۔۔ہاں تو بتاؤ عرشیہ تم نے اتنی بڑی بات کیوں کی تم جانتی بھی ہو اس بات کا مطلب؟ ہاں میں اچھے سے جانتی ہوں۔۔بیٹا کوئی وجہ بھی تو ہوگی نا ارتضیٰ نے پوچھا۔۔۔وجہ آپ دادا جانی یا اپنے بیٹے سے پوچھیں۔۔تو وہ سب مصطفیٰ صاحب کی طرف دیکھنے لگے جو کہ کب سے چپ کرکے عرشیہ کی باتیں سن رہے تھے۔۔۔کیا بات ہے بابا سائیں جو آپ ہم سب سے چھپا رہے ہیں۔۔مجھے نہیں پتا یہ کیوں ایسا بول رہی ہے میں نے تو کچھ نہیں چھپایا۔۔کیا واقعی دادا جانی آپ کو پورا یقین ہے کہ آپ نے کچھ نہیں چھپایا ہم سب سے؟ عرشیہ کے کہنے پہ مصطفیٰ صاحب نے عرشیہ کی طرف غصّے سے دیکھا۔۔۔لیکن وہ نظر انداز کر گئی۔۔جاؤ ذرا ازمیر کو بلا کر لاؤ۔۔عائشہ اٹھی اور ازمیر کے روم میں گئی۔۔ازمیر آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹا ہوا تھا۔۔ازمیر بات سنو۔۔۔جی مام آئیں بیٹھیں۔۔۔نہیں بیٹا آپ کو بابا سائیں اور آپ کے ڈیڈ بلا رہے ہیں عرشیہ کے کمرے میں۔۔اپنی مام کی بات سن کر وہ سمجھ گیا کہ عرشیہ نے ہی کچھ کہا ہوگا یہ مجھے بلایا گیا ہے۔۔چلیں میں آ رہا ہوں۔۔تو عائشہ چپ کرکے واپس چلی گئی۔۔۔آرہا ہے وہ۔۔کچھ ہی دیر میں ازمیر آگیا۔۔جی دادا جانی کیا بات ہے آپ نے بلایا۔۔ہاں آؤ بیٹا۔۔ازمیر ادھر مصطفیٰ کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ہاں تو بتاؤ بیٹا عرشیہ اچانک سے تم سے آزادی کیوں چاہنے لگی۔۔کل تک تو سب ٹھیک تھا تو رات ہی رات میں ایسی کیا بات ہو گئی کہ یہ طلاق مانگنے لگ گئی۔۔۔اس کا دماغ خراب ہو گیا اور کچھ نہیں اسے اتنی دفعہ سمجھا دیا ہے کہ مجھ سے رہائی تمہیں کبھی نہیں مل سکتی لیکن لگتا ہے کہ اسے ایسے سمجھ نہیں آۓ گی میری بات ازمیر نے غصّے سے غراتے ہوئے کہا۔۔دیکھا پاپا آپ نے عرشیہ نے اس کے کڑے تیوروں سے گھبراتے ہوئے فوراً عادل کو مخاطب کیا۔۔وہ کیا دیکھیں گے دیکھ تو میں تمہیں رہا ہوں جو کچھ زیادہ ہی اڑنے کی کوشش کر رہی ہے وہ بھی دوسروں کے سہارے۔۔ازمیر یہ کیسے بیہیو کر رہے ہو؟ ارتضیٰ نے ازمیر کو ٹوکتے ہوئے کہا۔۔ڈیڈ یہ اسی کے لائق ہے پیار کی زبان اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔۔ازمیر مت بھولو کہ میری بیٹی سے بات کر رہے ہو۔۔چھوٹے پاپا آپ کی بیٹی اب میری بیوی ہے میں جیسے چاہے اس سے بات کر سکتا ہوں۔۔۔تم صرف اتنا بتاؤ کہ وہ کون سی بات ہے جس کی وجہ سے عرشیہ نے اتنی بڑی بات کی ہے۔۔بات جو بھی ہو لیکن جو یہ چاہتی ہے وہ تو میں مر کے بھی نہیں کروں گا چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے اتنا کہہ کر وہ اٹھ کر جانے لگا لیکن جاتے جاتے رکا۔۔چھوٹے پاپا سوری ٹو سے لیکن اگر ضرورت پڑی تو میں اسے زبردستی اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور پھر نہ تو اسے کبھی آپ لوگوں سے ملنے دوں گا اور نہ ہی بات کرواؤں گا۔۔جو بھی کرنا ہو سوچ سمجھ کر کرنا میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔۔اتنا کہہ کر ازمیر رکا نہیں اور چلا گیا۔۔ازمیر گاڑی لے کر یونہی بے وجہ سڑکوں پہ گھومتا رہا اسے کسی صوت سکون نہیں مل رہا تھا۔۔جب بھی وہ عرشیہ سے الگ ہونے کی بات سوچتا اس کا سانس رکنے لگتا۔۔نہیں میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔۔میں ایک ایک کو دیکھ لوں گا۔۔



اب لوگ آہستہ آہستہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے اور عرشیہ اکیلی رہ گئی لیکن اب اسے اکیلے رہنے میں ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں ازمیر آکر اسے لے ہی نہ جاۓ جو سب کے سامنے دھمکی دے سکتا ہے وہ پھر کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔لیکن وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی بالکل بے بس ہوگئ تھی۔۔اسے امید تھی کہ وہ اپنے اور ازمیر کے والدین کے سامنے اپنی بات رکھے گی تو شاید کوئی حل نکل آتا لیکن اب تو وہ بری طرح پھنس چکی تھی۔۔اسے رہ رہ کر ازمیر کا لہجہ اور غصّہ یاد آرہا تھا وہ جھرجھری لے کر رہ گئی۔۔اور سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن اب نیند کہاں آنی تھی۔۔بڑی مشکل سے اسے رات کے پتا نہیں کون سے پہر نیند کی دیوی اس پہ مہربان ہو گئی تھی اور وہ سو گئی۔۔۔دوسری طرف ازمیر بھی پتا نہیں کہاں کہاں سے سڑکیں چھان کر آتا ہے وہ آپ ے روم کی طرف جاتا ہے لیکن اچانک سے راستے میں عرشیہ کے روم کے آگے کر رک جاتا ہے اور دروازہ کھول کر کمرے میں جاکر دیکھتا ہے تو سامنے ہی دشمنِ جان سو رہی ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کی طرف جاتا ہے اور اس کے سرہانے ایک طرف کو ٹک کر بیٹھتا ہے اور عرشیہ کے چہرے کی طرف دیکھنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے بالوں کو سہلاتا ہے۔۔کیا ہو گیا ہے تمہیں عرشیہ تمہیں میری اتنی سی بات سمجھ نہیں آرہی کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں ارے زندگی ہو میری تم۔۔میں اپنی سانسوں سے نہیں جیتا بلکہ تمہاری سانسوں سے ہی میری زندگی چل رہی ہے۔۔مجھ میں جو یہ جان ہے نا وہ صرف اس لیے ہے کہ تم میری جان ہو۔۔جیسے ایک جادوگر کی جان طوطے میں ہوتی تھی نہ۔۔بالکل اسی طرح میری جان تم میں ہے۔۔تمہارے بنا جینے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔ارے میرا سانس بند ہو جاتا ہے جب تم کہتی ہو کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔۔اتنی سی بات تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔۔بات کرتے ہوۓ ازمیر کی آنکھ سے آنسو نکلتا ہے جو کہ عرشیہ کے بالوں میں جذب ہو جاتا ہے کافی دیر یونہی اس کے پاس بیٹھ کر اسے محسوس کرتا ہے اور پھر اپنے آنسو صاف کرکے چلا جاتا ہے۔۔



اگلے دن سب ڈائننگ ٹیبل پہ موجود ہوتے ہیں لیکن سب کے درمیان ایک گہری خاموشی ہوتی ہے کوئی کچھ نہیں بول رہا ہوتا۔۔۔ارتضٰی اور عادل کے درمیان ایک ان دیکھی سی دیوار آجاتی ہے جو کہ پتا نہیں کبھی گرے گی یا نہیں۔۔عرشیہ بھی ناشتے کی ٹیبل پہ آ جاتی ہے۔۔لیکن ازمیر نہیں آتا وہ اپنے کمرے میں بند ہو جاتا ہے۔۔کسی کے بلانے پہ بھی نہیں آتا۔۔عائشہ اس کے روم میں جاتی ہے۔۔دروازہ ناک کرتی ہے لیکن ازمیر اندر سے جانے کے لیے بول دیتا ہے۔۔ازمیر بیٹا میں ہوں۔۔۔ازمیر اپنی ماں کی آواز سن کر دروازہ کھولتا ہے اور واپس بیڈ پہ آکر بیٹھ جاتا ہے عائشہ بھی اس کے پاس آکر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔میرا بیٹا نیچے ناشتہ کرنے کیوں نہیں آیا۔۔مام مجھے بھوک نہیں ہے۔۔دیکھو بیٹا مجھے نہیں پتا تم دونوں کے بیچ کیا ہوا ہے لیکن اگر تم اس سے واقعی محبت کرتے ہو تو ایک دن وہ ضرور سمجھ جاۓ گی ابھی بچی ہے وہ ان سب باتوں کی اتنی سمجھ نہیں ہے لیکن تم دیکھنا آہستہ آہستہ اسے خود ہی احساس ہو جاۓ گا۔۔بس تم ہمت مت ہارنا ٹھیک ہے۔۔۔ازمیر اپنی ماں کے گلے لگ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے جیسے خود کو پر سکون کر رہا ہو۔۔چلو اب آؤ ناشتہ کریں۔۔نہیں مام میرا دل نہیں ہے۔۔آپ کھا لو مجھے جب بھوک ہوگی میں میں کھا لوں گا۔۔۔چلو میں جوس بھیجتی ہوں کم سے کم جوس تو پی لو مجھے تھوڑی تسلی ہو جاۓ گی۔۔ٹھیک ہے مام بھیج دیں۔۔ڈیٹس لائک آ مائ بواۓ۔۔اور وہ اٹھ کر نیچے جاکر اس کے لیے جوس بھجواتی ہے۔۔



مصطفیٰ صاحب اپنے روم میں ہوتے ہیں اور ازمیر کو بلاتے ہیں۔۔ازمیر آکر دروازہ ناک کرتے ہوئے دادا جانی آپ نے بلایا۔۔ہاں آؤ تم سے بات کرنی ہے۔۔۔ازمیر کو معلوم ہے کہ کیا بات کرنی ہے وہ آکر صوفے پہ بیٹھ جاتا ہے۔۔جی بولیں۔۔تمہیں اچھے سے پتا ہے کہ میں کیا پوچھنا چاہتا ہوں تو ازمیر گہرا سانس بھرتا ہے اور کل رات والی ساری روداد سنا دی جو جو کچھ ہوا سب ایک ایک لفظ بتاتا چلاگیا۔۔جاے سن کر مصطفیٰ صاحب پریشان ہو گئے۔۔۔اگر اس نے کسی کو بتا دیا تو یہ بات پھیل جاۓ گی اور اگر یہ بات پھیل گئی تو یہ دنیا تمہیں جینے نہیں دے گی۔۔فکر نہ کریں دادا جانی یہ بات وہ کسی کو نہیں بتاۓ گی۔۔یہ بات تم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہو؟ بس آپ مجھ پہ بھروسہ رکھیں۔۔ہمم ٹھیک ہے دیکھو کیا کرنا ہے تمہیں۔۔یہ حقیقت چھپانے کے لیے اگر اس کو قید بھی کرنا پڑے تو کر لینا میں ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔ٹھیک ہے دادا جانی اب میں جاؤں۔۔ہاں جاؤ لیکن خیال کرنا۔۔جی ٹھیک ہے۔۔اور ازمیر اٹھ کر چلا جاتا ہے