قسط: 16
سب لوگ اپنے اپنے ٹینٹ سیٹ کرکے سونے کے لیے چلے گئے۔۔۔ازمیر نے اپنا ٹینٹ بالکل عرشیہ کے ساتھ سیٹ کیا تھا تاکہ وہ رات ڈر نہ جاۓ اکیلے میں۔۔۔سب سوۓ ہوۓ تھے لیکن عرشیہ کو نیند نہیں آ رہی تھی کہ اچانک اسے ایک شرارت سوجھی۔۔اس نے اپنے ٹینٹ سے سر باہر نکالا اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔باہر نکل کر صنم کے ٹینٹ کے پیچھے گئی اور ایک چھڑی لے کر زور سے ٹینٹ پہ ماری اور جلدی سے اپنے ٹینٹ کے پیچھے چھپ گئی۔ صنم آواز سن کر ہڑبڑا کر اٹھی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔جب کچھ نظر نہیں آیا تو اپنا وہم جان کر پھر سے سو گئ۔۔ابھی اسے دوبارہ سے سوۓ پانچ منٹ ہی ہوۓ ہوں گے کہ عرشیہ نے ایک دفعہ پھر ویسے ہی کیا اور پھر سے چھپ گئ۔۔صنم نے اب باہر جھانک کر دیکھا تو اسے کوئی بھی نظر نہیں آیا وہ ڈر گئی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔وہ اپنے بستر پہ منہ تک چادر لے کر آنکھیں زور سے بند کرکے سمٹ کے لیٹ گئی۔۔۔عرشیہ کچھ دیر بعد آئ اور اس دفعہ تھوڑی دور کھڑی ہوکر چھڑی ٹینٹ پہ ماری جس سے صنم جلدی سے ڈر کے اٹھی اور عرشیہ بھاگ کر اپنے ٹینٹ میں جا کر اپنے ٹینٹ سے تھوڑی سی زپ ہٹا کر دیکھنے لگی۔۔صنم نے جلدی سے شہیر کو کال ملائی۔۔۔شہیر جو کہ سو رہا تھا فون کی آواز پہ اٹھا اور اس نے صنم کی کال دیکھی تو کال اٹینڈ کرکے کیا ہوا صنم تم اس وقت کال کر رہی ہو خیریت۔۔۔شہیر وہ وہ میرے ٹینٹ سے کچھ آوازیں آ رہی ہیں جیسے میرے ٹینٹ پہ کوئی زور زور سے کچھ مار رہا ہو۔۔صنم بہت گھبرائے ہوئی تھی۔۔۔ارے تمہارا وہم ہوگا۔۔بھلا ادھر کیا مارے گا کوئی۔۔۔نہ نہیں میرا وہم نہیں ہے ایسا ایک دفعہ نہیں ہوا تین سے چار دفعہ ہوا ہے۔۔پہلی دفعہ مجھے بھی لگا کہ میرا وہم ہے میں دوبارہ سے سو گئ۔۔ابھی سوئی ہی تھی کہ دوبارہ سے وہی ہوا اور پھر لیٹی ابھی جاگ رہی تھی کہ دوبارہ سے آواز آئی۔۔شہیر مجھے بہت ڈر لگ رہا یے۔۔رکو میں دیکھتا ہوں تم پریشان مت ہو۔۔اتنا کہتا شہیر فوراً اپنے ٹینٹ سے باہر آیا ادھر ادھر دیکھا لیکن کچھ نہیں تھا شہیر صنم کے ٹینٹ کی طرف آیا۔۔صنم۔۔۔صنم کو آواز دی تو وہ بھی باہر آگئی اور شہیر کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے سویٹ ہارٹ۔۔نہیں کچھ تو ہے جو نظر نہیں آ رہا۔۔۔کہیں کوئی بھوت تو نہیں۔۔صنم کی ڈری ہوئی آواز اور بھوت کی آواز سن کر عرشیہ کو بہت ہنسی آ رہی تھی۔۔جاؤ سوجاؤ دیکھو میں نے تمہارے سامنے ہر جگہ چیک کی کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ایسا کرتی ہوں میں عائزہ کے ساتھ سو جاتی ہوں مجھے اکیلی کو نیند نہیں آۓ گی۔۔۔میرے ٹینٹ میں آ جاؤ آئی سوئیر کوئی شرارت نہیں کروں گا ۔شہیر نے ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا۔۔نی نہیں میں عائزہ کو جگاتی ہوں تو شہیر ہنسنے لگا۔۔جاؤ عائزہ کو جگاؤ اتنی دیر میں ادھر ہی کھڑا ہوں۔۔ٹھیک ہے۔۔۔عائزہ عائزہ۔۔عائزہ نے آواز سن کر مندی مندی آنکھیں کھولیں اور صنم کی آواز سن کر جلدی سے اٹھی اور باہر نکلی کیا ہوا صنم؟ عائزہ میں تمہارے ٹینٹ میں سوؤں گی۔۔لیکن کیوں کیا ہوا؟ عائزہ کے پوچھنے پہ صنم نے سارا واقعہ بتایا اچھا چلو آؤ اندر جیسے ہی دونوں اندر گئیں تو شہیر بھی اپنے ٹینٹ میں جا کر لیٹ گیا۔۔عرشیہ کو بہت مزہ آ رہا تھا اب اس نے ڈیسائیڈ کیا کہ اب عائزہ اور صنم دونوں کو ڈرایا جاۓ لیکن پہلے وہ اچھے سے سو جائیں۔۔۔تقریباً پندرہ سے بیس منٹ بعد عرشیہ باہر آئ اور عائزہ کے ٹینٹ کی طرف گئی ادھر ادھر دیکھا اور زوووور سے چھڑی ماڑی اور بھاگ گئ اور وہ دونوں ہڑبڑا کر اٹھیں ۔۔دیکھا دیکھا میں نے بولا تھا نہ کہ یہاں کچھ ہے صنم نے عائزہ کا ہاتھ پکڑ کر گھبراتے ہوۓ کہا اور وہ دونوں ٹینٹ سے باہر آکر سب کو آوازیں دینے لگیں۔۔سب ان کی آواز سن کر جلدی سے باہر آۓ۔۔۔کیا ہوا کیوں چلا رہی ہو؟ شایان نے پوچھا وہ وہ ادھر کوئی ہے ہمارے ٹینٹ پہ کسی نے زور سے کچھ مارا۔۔۔وہاٹ آر یو میڈ؟ یہاں بھلا کیا ہوسکتا ہے لگتا ہے تم نے کوئی خواب دیکھا ہوگا۔۔۔فیروز نے کہا نہیں نہیں خواب نہیں ہے ایک ہی خواب کیا ہم دونوں کو آۓ گا بھلا اور وہم بھی دونوں کو ہوگا ہے نا۔۔۔عائزہ نے تلخی سے کہا۔۔۔اچھا ریلیکس پہلے چپ کرو تم دونوں ازمیر نے آگے ہو کر انہیں چپ کروایا۔۔اب ڈیٹیل سے بتاؤ۔۔تو صنم نے سب کچھ بتایا عرشیہ کچھ فاصلے پہ کھڑی اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس پہ ابھی کسی کا دھیان نہیں تھا۔۔۔ہاں مجھے لگتا ہے یہ صحیح بول رہی ہیں کوئی انہیں تنگ کر رہا ہے کیونکہ کچھ دیر پہلے مجھے صنم نے جگا کر کہا کہ اس کے ساتھ ایسا سب ہوا ہے تو میں بھی نہیں مان رہا تھا پھر یہ ڈر کی وجہ سے عائزہ کے ٹینٹ میں چلی گئی اور اب دونوں ہی وہی بات بتا رہی ہیں ۔۔یہ کوئی وہم یا خواب تو ہو نہیں سکتا نا۔۔شہیر نے سب کو بتایا تو سب ہی سوچنے لگے۔۔کہیں کوئی جن چڑیل تو نہیں ہے ادھر ۔۔عریشہ نے کہا تو عرشیہ ہاں ان دونوں سے ملنے آئ ہوں گی لیکن تم سے نہیں ملنے آئ کیا کیونکہ آپ تینوں انہیں کی کیٹیگری کی لگتی ہو نا۔۔عرشیہ نے ان کا مذاق بنایا۔۔ہاں تم تو جیسے پرستان کی پری ہو نا عریشہ نے جلتے ہوۓ کہا۔۔۔شکر ہے اللّٰہ کا کبھی غرور نہیں کیا۔۔ازمیر اسے غور سے دیکھ رہا تھا کہ یہ تو ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ پریشان ہو جاتی ہے لیکن اب سب پریشان ہے لیکن یہ اتنی ریلیکس کیسے اور پھر ان کا مذاق بھی بنا رہی ہے کہیں اس کی شرارت تو نہیں۔۔۔کیا بات ہے عرشیہ تمہیں ڈر نہیں لگ رہا ان کی باتوں سے بڑی بریو ہو گئی ہو۔۔۔ازمیر نے اس کی طرف بغور دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ہاں ہاں بس کرم کرم ہے اللّٰہ کا عرشیہ نے تھوڑا گھبرا کر کہا تو ازمیر سمجھ گیا کہ اس کی ہی شرارت ہے۔۔چلو فائن سب سو جاؤ میں ادھر باہر ہی بیٹھا ہوں میں دیکھتا ہوں کہ کون تنگ کر رہا ہے آخری بات ازمیر نے عرشیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہی تو عرشیہ نے جلدی سے منہ دوسری طرف گھما لیا اور اپنے ٹینٹ کی طرف چلی گئی۔۔۔اور ازمیر باہر ہی اپنے ٹینٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔اور ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن اب کسی کے ساتھ کوئی شرارت نہیں ہوئی تقریباً ایک گھنٹے بعد ازمیر بھی وہیں ٹیک لگائے ہوئے سو گیا اور صبح کی پہلی کرن جب اس کے چہرے پہ پڑی تو آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا اور اپنے ٹینٹ میں جا کر سو گیا۔۔تقریباً دس بجے کے قریب سب اٹھے اور انہوں نے ادھر ہی آگ جلا کر ناشتہ تیار کیا اور ناشتہ کرکے یہ ڈیسائیڈ کرنے لگے کہ پہلے گھومنے کہا جایا جاۓ۔۔۔انہوں نے اپنا سٹے شاران فاریسٹ کے قریب کیا ہوا تھا جو کہ بہت پر سکون تھا اب وہ لوگ جھیل سیف الملوک جانے کا سوچ رہے تھے لیکن رات کو واپس اسی جگہ سٹے کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ہاں جھیل سیف الملوک کو پریوں کی شہزادی بھی کہتے ہیں نا۔۔۔عرشیہ نے آکسائیڈ ہو کر کہا تو سب اس کی بات پہ مسکرانے لگے ہاں بالکل وہ وادی ہے ہی اتنی پیاری۔۔شہیر نے کہا۔۔چلو اب ٹائم ضائع کیے بغیر چلتے ہیں۔۔سب لوگ تیار ہو کر کھانے کا سامان لے کر نکل پڑے اور کچھ ہی دیر میں جھیل پہ پہنچ گئے۔۔۔وہ سب وہاں بہت انجوائے کر رہے تھے عرشیہ تو بہت زیادہ والا آکسائیڈ ہو رہی تھی۔۔۔واؤ کتنا پیارا ہے یہاں سب کچھ ۔۔وہ ادھر سے ادھر بھاگ رہی تھی۔۔پیارے پیارے بھائیو ادھر پہاڑوں پہ چلیں۔۔پلیززززز۔۔۔اوکے اوکے چلتے ہیں تھوڑا صبر تو کرو۔۔انہوں نے ادھر کافی انجوائے کیا۔۔۔اور پھر پہاڑوں کی طرف نکل پڑے۔۔۔پہاڑ کے اوپر چلیں اتنی اوپر نہ جانا تھک جاؤ گی بس نیچے رہنا۔۔لیکن وہ سب سنی ان سنی کرکے پہاڑوں کی اوڑھ چلی گئیں ۔۔۔ان کے پیچھے ہی لڑکے بھی چڑھنے لگے کہ کہیں یہ پھنس ہی نہ جاۓ کافی اونچا جا کر بیٹھ گئیں۔۔۔بس اب اور نہیں چڑھا جاتا انہوں نے ہانپتے ہوئے کہا۔۔۔سب ادھر ہی بیٹھ گئے۔۔۔عرشیہ اٹھی اور زور سے اپنا نام پکارنے لگی اور اس کی آواز بیک ہو کر آنے لگی۔۔۔ارے میں نے یہ صرف فلموں ڈراموں میں سنا تھا ایسا واقعی میں ہوتا ہے اور پھر سب باری باری ایسا کرنے لگے۔۔۔کچھ دیر بعد اپنی سیلفیاں بنا کر واپس جانے لگے۔۔اور جھیل پہ پہنچ کر کھانا کھایا۔۔کھانا کھاتے ہوئے عائزہ کو گھوڑے نظر آۓ۔۔۔صنم وہ دیکھو آج ہارس رائیٹنگ کریں گے۔۔ہاں چلو چلو جلدی۔۔سب کھانا کھا کر ہارس رائڈنگ کے لیے چل پڑے۔۔لیکن لڑکیاں اکیلے بیٹھنے میں ڈر رہی تھیں پھر ڈیسائڈ ہوا کہ شہر صنم کے ساتھ، فیروز عائزہ کے ساتھ،شایان عریشہ کے ساتھ بیٹھے گا اور جب عرشیہ کی باری آئی تو اس نے انکار کردیا کیونکہ وہ ازمیر کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔۔ارے تمہیں تو بہت شوق ہے نا ہارس رائڈنگ کا۔۔ہاں ہے لیکن اکیلے میں۔۔۔میں اکیلی بیٹھوں گی۔۔لیکن اکیلی تم گر جاؤ گی چندہ ایسے ضد نہیں کرتے۔۔نہیں میں اکیلی ہی بیٹھوں گی۔۔۔چلو بیٹھو پھر ازمیر نے سنجیدہ ہوتے کہا اسے بٹھا کر دوسرے گھوڑے پہ خود بیٹھ کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔۔۔یوں سب نے ہارس رائڈنگ کو بہت انجوائے کیا۔۔۔رات کو ادھر ہی جھیل کے کنارے بیٹھ گئے ٹھنڈ بڑھ رہی تھی سب نے اپنے اپنے سویٹرز پہن لیے اور شال بھی اوڑھ لی۔۔۔جب عرشیہ نے اپنا اپر نکالنا چاہا تو وہ پریشان سی ہوگئی۔۔۔عریشہ آپی بات سنیں۔۔۔ہاں کیا ہوا؟ پتا تو اسے تھا لیکن انجان بننے کی ایکٹنگ کرنے لگی ۔۔آپی میری اپر نہیں مل رہی اور نہ ہی کوئی شال۔۔۔سب ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے دیکھنے لگے۔۔۔تم نے رکھی بھی تھی۔۔۔ہاں نہ آپو مجھے اچھے سے یاد ہے کہ میں نے اپنی شال بھی رکھی تھی اور اپر بھی رکھا تھا۔۔۔عریشہ سب کی طرف مڑتے ہوئے آپ میں سے کسی کے پاس کوئی ایکسٹرا شال یا اپر ہے تو سب نے نہ میں گردن ہلائی۔۔۔لیکن ازمیر کے پاس موجود تھی تو وہ اپنے بیگ میں سے اپر نکال کر عرشیہ کی طرف آیا یہ لو اور پہن لو۔۔۔نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔۔عریشہ۔۔ہاں۔۔۔زرا سائیڈ پہ ہونا ازمیر نے کڑے تیور لیتے ہوۓ عرشیہ کو گھورتے ہوئے عریشہ سے کہا تو وہ تھوڑا دور سب کے پاس چلی گئ۔۔۔ازمیر نے عرشیہ کو بازو زور سے پکڑ کر تنبیہہ کرتے ہوۓ اگر زرا سی بھی چوں چرا کی نا تو ادھر جھیل میں ہی ڈبو دوں گا سمجھی اور خود ہی اسے اپر پہنانے لگا۔۔عرشیہ ڈر گئی اور چپ کرکے کھڑی رہی اپر چونکہ ازمیر کی تھی تو عرشیہ اس میں چھپ ہی گئ اسے دیکھ کر ازمیر کے لبوں پہ مسکراہٹ آئ اور پھر خود ہی اپر کے بازو فولڈ کیے نیچے سے فولڈ کرنے کو رہنے دو ایسے سردی سے بچی رہو گی سر پہ ہوڈی دینے لگا تو اس کا تو چہرہ بھی چھپ گیا۔۔ہاہاہا ہاؤ کیوٹ ازمیر نے کھل کر ہنستے ہوۓ کہا اور ہوڈی کو تھوڑا سا فولڈ کرنے لگا۔۔۔ایک منٹ عرشیہ نے اسے روکا۔۔اب کیا ہوا وہ ایک ہڈن فیس والی تصویر تو بنا دیں پلیز۔۔۔ازمیر نے موبائل نکالا اور اس کی کئی تصویریں بنا ڈالی۔۔۔پھر ہوڈی کو بھی فولڈ کرکے اسے سیٹ کیا باقی سب انہیں چہرے پہ مسکراہٹ سجاۓ دیکھ رہے تھے۔۔۔ہاؤ سویٹ نا ازمیر بھائی عرشیہ کا کتنا خیال رکھتے ہیں بالکل بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں وہ بچی ہی تو ہے فیروز نے کہا ۔۔اس کے سارے کام خود کرتے ہیں عائزہ نے کہا۔۔۔ہاں نا ادھر کیا ہوا کام بھی بگاڑ دیتے ہیں صنم نے کہا اور تو اور اپنے کام بھی ہم سے کرواتے ہیں عریشہ نے بھی حصہ ملایا۔۔۔ان کی باتیں سن کر تینوں انہیں گھورنے لگے اچھا بچو ہم اپنے کام تم لوگوں سے کرواتے ہیں رکو زرا بتاتے ہیں ہم تم لوگوں کو تینوں لڑکیاں اپنے اپنے ہبیز کے تیور دیکھ کر بھاگنے لگیں آگے آگے وہ تھیں پیچھے پیچھے لڑکے جب عرشیہ نے دیکھا تو۔۔۔ہیں۔۔۔انہیں کیا ہو گیا رات کو پکڑ پکڑائی کھیلنے لگے حد ہے۔۔۔جب تھک گۓ تو پھر سے واپس آکر بیٹھ گۓ اور کھانا کھانے کے بعد سب ادھر ہی بیٹھے باتیں کر رہے ہوتے ہیں عائزہ چلو سب گیم کھیلتے ہیں۔۔کیا گیم کھیلنی ہیں بس بور ہی ہونا ہے Antakshri کھیل کر یا True or Dare..اور کوئ گیم ہے اس کے علاوہ مجھے تو بالکل بھی پسند نہیں یہ بورنگ گیمز۔۔عرشیہ نے منہ بنا کر کہا۔۔۔تو سب مسکرانے لگے۔۔۔ازمیر یار تم گٹار لاۓ ہو شہیر کے پوچھنے پہ ازمیر نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔چلو پھر اچھا سا سونگ ہو جاۓ ٹھیک ہے میں گٹار لے کر آتا ہوں۔۔کچھ ہی دیر میں ازمیر گٹار لے کر آگیا۔۔۔اور گٹار کو بجاتے ہوۓ یہ گانا میں اپنی کرسٹل ڈول کو ڈیڈیکیٹ کرتا ہوں۔۔اوووووو سب نے یک زبان ہوتے کہا تو ازمیر مسکرانے لگا اور گانا شروع کیا۔۔۔ازمیر کی نظر عرشیہ پہ ٹکی ہوئ تھی
جس دن سے دیکھا ہے تم کو صنم
بے چین رہتے ہیں اس دن سے ہم
لگتا ہے ایسا خدا کی قسم
تممم میرے ہو تممم میرے ہو
تممم میرے ہو
ساون ہے برسات ہوتی نہیں
کھل کر کوئی بات ہوتی نہیں
کیسے بتائیں یہ تم کو صنم
تمم میرے ہو تمممم میرے ہو
تمممم میرے ہو
شاعر جو پتا میں تیرے لیے
کہتا غزل میں کوئی پیار کی
ہوتا مصور تو اپنے لیے
مورت بناتا اٹھے یار کی
تصویر تیری بناتا میں
سارے جہاں کو دکھاتا میں
میں کیا کروں کہ مصور نہیں
ہے بد نصیبی کہ شاعر نہیں
کیسے بتائیں یہ تم کو صنم
تم میرے ہو تمممم میرے ہو
تمام میرے ہو
راتوں کو کروٹ بدلتے ہیں ہم
شمع کی مانند جلتے ہیں ہم
تم ہی بتاؤ کہ ہم کیا کریں
چاروں طرف دیکھتے ہیں تمہیں
اس میں خطا کیا ہماری ہے
ہر شے میں صورت تمہاری ہے
کلیوں میں تم ہو بہاروں میں تم
اس دل میں تم ہو نظاروں میں تم
کیسے بتائیں یہ تم کو صنم
تمم میرے ہو تمممم میرے ہو
تمممم میرے ہو
جس دن سے دیکھا ہے تم کو صنم
بے چین رہتے ہیں اس دن سے ہم
لگتا ہے ایسا خدا کی قسم
تمم میرے ہو تمممم میرے ہو
تمممم میرے ہو
(فائز یہ میرا موسٹ فیورٹ گانا ہے جو میرے لیے ایور گرین ہے آپ لوگ بھی لازمی سننا۔۔۔تم میرے ہو۔۔پاکستانی۔سونگ ہے) سب نے گانا بہت انجوائے کیا واؤ ازمیر بھائی آپ تو بہت اچھا گاتے ہیں آواز بھی کتنی پیاری ہے آپ کو تو سنگر ہونا چاہیے تھا۔۔اچھا کیا ایسا ہی عرشیہ تم بتاؤ ذرا گانا کیسا لگا۔۔۔وہ چپ رہی کچھ نہیں بولی کیونکہ اسے بھی گانا بہت پسند آیا تھا ازمیر کی آواز بھی۔۔چلو اب واپس چلیں مجھے نیند آ رہی ہے۔۔عرشیہ نے بنا کوئی جواب دیے بات کو بدلتے ہوۓ کہا تو سب ہی سر نفی میں ہلاتے ہوۓ اٹھ کھڑے ہوئے کچھ نہیں ہو سکتا اس لڑکی کا۔۔۔فیروز نے افسوس سے کہا اور گاڑی کی طرف چل دیا۔۔ایک منٹ سارا سامان تو پاس ہی ہے کیوں نہ ادھر ہی رات گزار کی جاۓ ازمیر کی بات پہ سب متفق ہوۓ اور پھر ادھر ہی ٹینٹ لگانا شروع کردیے۔۔اتنے میں عرشیہ نے صنم اور عائزہ کو چھیڑتے ہوۓ۔۔صنم آپی اور عائزہ آپی دھیان سے دیکھنا کہیں آپ کی رات والی فرینڈز ادھر بھی نہ آگئی ہوں آپ لوگوں سے ملنے۔۔۔تم نا آرام سے رہو مار وار نہ کھا لینا ہم سے ارے میں تو آپ کو الرٹ رہنے کے لیے کہہ رہی ہوں۔۔نہیں تو نہ صحیح مینوں کی۔۔اور اپنے ٹینٹ کی طرف بڑھ گئی جو کہ آج بھی ازمیر نے ہی سیٹ کرکے دیا تھا۔۔۔باقی سب بھی سونے کے لیے چلے گئے۔۔۔لیکن عائزہ اور صنم کو نیند نہیں آ رہی تھی عائزہ نے صنم میسج کیا۔۔۔صنم سو گئ کیا۔۔۔نہیں یار نیند نہیں آ رہی۔۔مجھے بھی نہیں آ رہی۔۔۔سب تو سو گۓ ہیں ایسا کرتے ہیں ہم ایک ہی ٹینٹ میں سو جاتے ہیں صبح ان کے اٹھنے سے پہلے اپنے اپنے ٹینٹ میں ہو جائیں گے۔۔۔ہاں یہ ٹھیک رہے گا ایسے ان کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ ہمیں ڈر لگ رہا ہے نہیں تو سب ہمارا مذاق بنائیں گے۔۔۔ہاں آجاؤ پھر صنم نے عائزہ کو کہا تو عائزہ نے ادھر ادھر دیکھا راستہ صاف تھا تو وہ جلدی سے صنم کے ٹینٹ میں آ گئی اور پھر کچھ ہی دیر میں نیند کی دیوی ان پہ بھی مہربان ہو ہی گئی۔۔