قسط: 17
اگلے دن سب لوگ صبح اٹھ کر پلان کر رہے تھے آج کہاں جایا جاۓ لیکن۔۔۔عرشیہ بالکل چپ بیٹھی تھی۔۔کیا ہوا عرشیہ چپ کیوں ہو تم بھی تو کچھ بولو۔۔۔فیروز کے کہنے پہ عرشیہ نے اس کی طرف دیکھا۔۔فیروز بھائی کیوں نہ آج ناران کا علاقہ گھوما جاۓ وہاں کے لوگوں سے بھی ملیں گے آپ کا کیا کہنا ہے؟ ہمم بالکل ٹھیک زبردست آئیڈیا چلو پھر جلدی سے تیاری پکڑو۔۔۔تو سب نے اپنا اپنا سامان گاڑی میں رکھا اور نکل پڑے۔۔ناران کا علاقہ پاس ہی تھا سب لوگ وہاں اترے تو وہاں کے رہائشی ایریا میں پہنچے۔۔۔سب انہیں دیکھ رہے تھے ہیلو ایوری ون۔۔ہیلو کیا ہوتا ہے ہیں۔۔وڈی تو انگریز دی اولاد عرشیہ نے عریشہ کو کہا تو وہ اسے گھورنے لگی۔۔۔اسلام و علیکم کیسے ہیں سب تو سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔آپ لوگ یہاں گھومنے کے لیے آۓ ہوۓ ہیں مطلب ہمارے علاقے کے مہمان ہوۓ تو سب نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔ارے آئیں پھر ہم آپ لوگوں کی خاطر داری تو ہمارا فرض ہوا وہاں کے کچھ لوگ انہیں اپنے ڈیرے پہ لے کر گۓ وہاں پہ بٹھایا اور ایک آدمی نے گھر سے کچھ عورتوں کو بلایا وہ پٹھان تھیں۔۔کیونکہ ساتھ صنم لوگ تھیں تو لڑکیوں کے لیے فیملیز کو بلایا گیا وہ انہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئیں۔۔سب نے مل کر کھانے کا اہتمام کیا۔۔۔اور ان کی کافی مہمان نوازی کی گئی۔۔۔لڑکیوں کو تو ان پٹھان لڑکیوں نے اپنے نۓ کپڑے پہناۓ جو کہ پیاری پیاری پٹھانی فراکس تھیں۔۔انہیں پہن کر چاروں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔۔عرشیہ تو بالکل گڑیا لگ رہی تھی۔۔ارے مجھے اپنے سٹائل میں سکارف بھی پہنائیں جیسے یہ آپ لوگوں نے لیے ہوۓ ہیں تو ان میں سے ایک لڑکی نے اس کے سر پہ سکارف باندھا تو وہ اور بھی پیاری لگنے لگی۔۔واؤ عرشیہ بہت پیاری لگ رہی ہو عائزہ نے دل کھول کر تعریف کرتے ہوئے کہا۔۔۔ہے نا مجھے بھی میں بہت پیاری لگی۔۔اس کی بات سن کر جہاں اس کی کزنز ہنسی وہیں پہ باقی بھی ہنسنے لگیں۔۔۔آپ بہت اچھی ہو سب سچی میں۔۔۔میں اگر دوبارہ آئ نا یہاں تو آپ لوگوں سے ضرور ملنے آؤں گی عرشیہ نے انہیں کہا۔۔۔تو سب بہت خوش ہوئیں۔۔آپ سب بھی بہت اچھی ہیں۔۔اور جب وہ چاروں جانے لگیں تو انہیں اور بھی بہت سے تحائف دیے ۔ارے ان سب کی کیا ضرورت ہے۔۔عریشہ نے کہا۔۔۔یہ سب ہماری طرف سے ہمارا پیار ہے رکھ لو نہیں تو ہمارا دل ٹوٹ جائے ایک لڑکی نے انہیں چیزیں پکڑاتے ہوۓ کہا۔۔اووو تھینک یو سو مچ۔۔۔ارے مجھے نا آپ کی وہ جو فینسی کیپ نہیں ہوتی وہ بھی دیں نا عرشیہ نے کہا۔۔۔ارے آپ بہت کیوٹ ہو۔۔میں ابھی لے کر آتی ہوں۔۔اور ایک لڑکی اندر کی جانب گئی اور اپنی کیپ لے کر آئ یہ لو میری پیاری سی پری۔۔تو عرشیہ کھلکھلا اٹھی۔۔وہ سب کے گلے لگ کر ازمیر لوگوں کی طرف جانے لگیں۔۔وہ لوگ باتوں میں مصروف تھے لیکن جب ان کی طرف نگاہیں اٹھیں تو پھر پلٹنا بھول گئی۔۔ان پٹھانی فراکوں میں وہ سب بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔۔اور عرشیہ تو سکارف لیے آسمان سے اتری کوئی پری لگ رہی تھی ازمیر کا تو دل کر رہا تھا کہ عرشیہ کو کہیں چھپالے باقی سب کا حال بھی کچھ الگ نہیں تھا وہ چاروں جب ان کے پاس آئیں تو چاروں لڑکے اٹھ گۓ۔۔۔چلیں اب عائزہ نے پوچھتے ہوئے کہا۔۔۔ہاں۔۔ہاں چلو اور وہ لوگ بھی سب سے مل کر جانے کے لیے تیار ہوگئے۔۔۔بہت شکریہ آپ سب کا۔۔سب کچھ بہت زبردست تھا کھانا تو بہت ہی مزیدار تھا۔۔ان سب شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔۔۔ایک منٹ آپ لوگ رکیں ہم ابھی آتے ہیں۔۔دو لوگ گھر گۓ اور ازمیر لوگوں کے لیے چادریں لے کر آۓ اور ان تینوں کو دیں۔۔یہ لے آپ لوگوں کے لیے ہماری طرف سے چھوٹا سا تحفہ۔۔ارے اس کی کیا ضرورت تھی آپ لوگوں نے پہلے ہی ہمارا اتنا خیال رکھا وہ ہی بہت تھا۔۔۔ارے نہیں ہم اپنے مہمانوں کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے تو انہوں نے شکریہ کہتے ہوۓ رکھ لیں۔۔۔اور سب ان سے مل کر واپس جانے لگے۔۔۔یار یہ لوگ کتنے اچھے ہیں نا کتنے مہمان نواز۔۔صنم نے کہا۔۔ہاں واقعی بہت مزہ آیا آج تو عائزہ اور عریشہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔۔ویسے آپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ آپ لوگوں کو میرا شکریہ کرنا چاہیئے عرشیہ نے کہا۔۔۔کیوں بھئ تمہارا شکریہ کیوں کرنا۔۔۔کیونکہ میں نے ہی مشورہ دیا تھا ادھر آنے کا اگر آپ لوگوں کو یاد ہو تو۔۔۔ہاں تو کیا ہوا کبھی کبھی انسان غلطی سے صحیح بات کر دیتا ہے اس میں اتنا اترانے کی کیا بات ہے۔۔شہیر نے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔۔عرشیہ نے اسے گھوری سے نوازا۔۔جائیں میں اب بولوں گی ہی نہیں عرشیہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔۔۔ایسے ہی ایک ہفتہ ان سب نے بہت انجوائے کیا اور بہت سی یادیں اکٹھی کرکے واپس آگئے۔۔۔



سب لوگ اپنی اپنی روٹین میں بزی تھے۔۔سب کی روٹین سے عرشیہ بور ہو گئ تھی۔۔۔دادا جانی کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟ مصطفیٰ صاحب جو کہ کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔۔۔ارے عرشیہ آؤ نا پوچھنے کی کیا ضرورت ہے تمہیں تم تو میری سب سے خاص بچی ہو۔۔۔ہاں تبھی تو مجھے قربان کر دیا اور اپنے خاص بچے کے حوالے کردیا۔۔عرشیہ کو ان کا خود کو خاص کہنا غصّہ دلا گیا۔۔ارے بیٹا آپ کو میرا ابھی یہ فیصلہ یک طرفہ اور برا لگ رہا ہے دیکھنا ایک دن تم خود مجھے شکریہ کہو گی۔۔۔ہونہہ وہ دن کبھی نہیں آۓ گا۔۔اچھا چلو چھوڑو یہ بتاؤ کیا کرنے آئی تھی کوئی کام تھا کیا مصطفیٰ صاحب نے بات بدلتے ہوۓ کہا۔۔۔دادا جان میں نہ بہت بور ہو رہی ہوں آج کل آپ ایسا کریں کہ شہیر بھائی کی شادی فکس کر دیں۔۔۔وہ مسکرانے لگے۔۔لیکن بیٹا میں نے صنم سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک اس کا لاسٹ سمیسٹر نہیں ہو جاتا تب تک میں شادی کا نہیں کہوں گا۔۔۔نیکسٹ منتھ اس کا لاسٹ سمیسٹر ہونے والا ہے تو اس سے اگلے ہی دن شادی کی تیاریاں شروع کروا دیں۔۔اچھا چلو سوچتے ہیں کچھ اب اگر ہماری پرنسس بور ہو رہی تھی تو کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔۔۔اگر میں آپ سے کچھ اور مانگوں تو۔۔؟ ہاں ہاں بولو نہ میری بیٹی کو کیا چاہیے؟ چھٹکارا۔۔چھٹکارا لیکن کس سے؟ مصطفیٰ صاحب سمجھ تو گئے تھے لیکن پھر بھی وہ اس سے سننا چاہتے تھے۔۔آپ کے کریچر سے۔۔وہ کبھی نہیں ہو سکتا اور آئندہ سوچنا بھی مت مصطفیٰ صاحب نے غصّے کو بمشکل قابو کرتے ہوئے کہا لیکن لہجہ پھر بھی سخت ہو گیا۔۔۔میں ڈرتی نہیں ہوں دیکھنا میں کوئی نہ کوئی انتظام کرکے بھاگ جاؤں گی یہاں سے آپ لوگوں کو ملوں گی بھی نہیں۔۔بھول ہے یہ تمہاری تم چاہے پاتال میں بھی چھپ جاؤ ازمیر تمہیں وہاں سے بھی نکال لے گا۔۔۔ہاں کریچر جو ہوا۔۔۔بسسسسس بہت کرلی بکواس اب اگر تم نے ایک اور دفعہ اسے کریچر کہا تو زبان کاٹ دوں گا میں تمہاری میرے پیار کا نا جائز فائدہ نہ اٹھاؤ۔۔وہ دھاڑے۔۔ارے کون سا پیار کیسا پیار یہ جھوٹا پیار آپ مجھے مت جتائیں پیار تو آپ صرف اپنے پوتے سے کرے ہیں بس ۔اور کیا کہا آپ نے اسے کریچر نہ کہوں۔۔ارے کریچر کو کریچر نہ بولوں تو اور کیا بولوں۔۔میں ایک دفعہ کیا سو مرتبہ بولوں گی کریچر کریچر کریچر۔۔عرشیہ کا اتنا کہنا تھا کہ مصطفیٰ صاحب کا غصّہ حد سے سوا ہو گیا۔۔۔انہوں۔نے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا لیکن خود پہ قابو پاتے ہوۓ چلی جاؤ یہاں سے اس سے پہلے میرے ہاتھوں کچھ غلط ہو جائے جاؤ یہاں سے۔۔انہوں نے منہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔واہ واہ کیا پیار ہے۔۔۔دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ آپ کو صرف اپنے پوتے سے پیار ہے مجھ سے تو صرف اس لیے تھوڑا بہت لگاؤ ہے کہ میں اس کی منکوحہ ہوں لیکن فکر نہ کریں بہت جلد یہ رشتہ اور آپ کا یہ سو کالڈ جو پیار ہے نا میرے لیے دونوں ختم ہو جائیں گے دیکھنا آپ اور سمجھا دینا اپنے کریچر ازمیر کو بھی عرشیہ جاتے ہوئے بھی باز نہیں آئ اور ازمیر کو کریچر کہہ کر انہیں چڑا کر باہر آگئی۔۔۔مصطفٰی صاحب غصے میں ادھر سے ادھر ٹہلنے لگے۔۔اس کا کچھ کرنا پڑے گا نہیں تو ابھی تو میرے سامنے کہا ہے کہیں ضد میں آکر سب کے سامنے ہی نہ کہنے لگ جاۓ نہیں تو بہت مصیبت ہو جاۓ گی۔۔



رات کو سب کھانا کھا رہے تھے لیکن مصطفیٰ صاحب پریشان بیٹھے ہوئے تھے اور کھانا بھی نہیں کھا رہے تھے۔۔۔کیا بات ہے بابا سائیں آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے کوئی پریشانی ہے کیا؟ ارتضیٰ نے پوچھا۔۔۔ہوں۔۔نہیں مجھے بھوک نہیں ہے کہہ کر اٹھ کر چلے گئے۔۔انہیں کیا ہوا ہے؟ آج سے پہلے تو انہوں نے کبھی ایسے نہیں کیا۔۔مرتضٰی بھی پریشان ہوتا کہنے لگا۔۔آپ لوگ کھانا کھائیں میں دیکھتا ہوں ازمیر نے اٹھتے ہوۓ کہا تو سب نے ہاں میں سر ہلایا اور کھانا کھانے لگے اور ازمیر مصطفیٰ صاحب کے کمرے کی طرف گیا۔۔دروازہ ناک کیا تو مصطفیٰ صاحب نے اجازت دی۔۔آ جاؤ۔۔ازمیر اندر آیا تو مصطفیٰ صاحب نے اس کی طرف دیکھا آؤ آؤ مجھے پتا تھا تم۔ضرور آؤ گے۔۔کیا بات ہے آپ اتنا ٹینس کیوں ہیں۔۔۔تمہاری بیوی کی وجہ سے۔۔میری بیوی کی وجہ سے کیا مطلب؟۔۔مطلب اس کی عقل ٹھکانے نہیں آئی۔۔اور تمہیں یہ کام۔کرنا ہے۔۔لیکن دادا جانی ہوا کیا ہے؟ مصطفیٰ صاحب نے آج دوپہر کی ہونے والی ساری بات ازمیر کو بتا دی۔۔۔ان کی بات سن کر ازمیر کی آنکھوں میں خون اترا اور رگیں تن گئیں۔۔آپ فکر نہیں کرے اسے میں بھگاتا ہوں اچھے طریقے سے کہ آج کے بعد بھاگنے یا مجھ سے چھٹکارا پانے کا سوچے گی بھی نہیں۔۔۔ہاں اس کے دماغ سے یہ بات نکال دو کہ تم کریچر ہو۔۔اوکے دادا جانی آپ فکر نہ۔کریں اس کے دماغ میں کچھ بھی نہیں رہے گا ایسا علاج کروں گا کہ پ کو اس کی میموری لاس کا احساس ہوگا۔۔ہوں۔۔ازمیر اٹھ کر روم میں آگیا۔۔



سب لوگ اپنے اپنے روم میں سونے کے لیے چلے گئے۔۔ازمیر ان کے سونے کا ہی ویٹ کر رہا تھا تقریباً رات کے گیارہ بجے کے قریب وہ عرشیہ کے روم میں آیا اور دروازہ کھول کر دیکھا وہ سو رہی تھی اس کی خاص رگ دبا کر اسے بے ہوش کیا اور پھر اسے اپنے خاص مقام یعنی جو جنگل میں گھر بنایا ہے وہاں لے گیا وہاں لے جاکر اسے ہوش میں لا کر اٹھایا۔۔عرشیہ نے اپنے پاس ازمیر کو دیکھا تو جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔ادھر ادھر دیکھنے کے بعد پتا چلا وہ تو اپنے روم کی بجائے کہیں اور ہی ہے۔۔اب صحیح سے اس کے ہوش ٹھکانے آۓ تھے۔۔۔ک کہاں لے کر آۓ ہیں پ مجھے۔۔اٹھو اور میرے ساتھ آؤ دکھاتا ہوں تمہیں کہ کہاں ہو تم۔۔عرشیہ آنکھیں پھیلاۓ اس کی طرف دیکھ رہی تھی ازمیر نے ہاتھ سے پکڑ کر اسے اٹھایا اور اپنے ساتھ باہر لے کر آیا تو عرشیہ نے جب اردگرد دیکھا تو گھنے جنگل کے سوا کچھ نہ تھا۔۔۔یہ یہ آ آپ مجھے یہاں کیوں لے کر آۓ ہیں۔۔میں نے سوچا کیوں نہ تمہاری رخصتی کر لی جاۓ بس اسی لیے تمہیں یہاں لے آیا تم اب ہمیشہ ادھر ہی رہو گی۔۔۔نہیں نہیں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔کیوں میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ کیونکہ۔میں میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔۔۔تم تو اور بھی بہت کچھ نہیں چاہتی۔۔۔اب یہ دنیا تمہارے چاہنے نا چاہنے سے تو چلنے سے رہی۔۔مجھے واپس لے کر جائیں گھر میں نے ادھر نہی رہنا۔۔۔اوں ہوں اب یہی تمہارا مستقل گھر ہے ادھر ہی رہنا پڑے گا۔۔۔چلو آؤ تمہیں تمہارا کمرہ دکھاؤں اور پھر میں نے واپس بھی جانا ہے۔۔۔نہیں آپ مجھے یہاں اکیلی کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے مجھے بھی ساتھ لے کر جائیں عرشیہ نے جلدی سے ازمیر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔چھوڑو میرا ہاتھ اور رہو ادھر تم مجھ سے چھٹکارا چاہتی تھی نا یہ لو سب سے ہی چھٹکارا دلوا دیا۔۔اب تم ادھر ہی رہو گی اکیلی۔۔اور ہاں اگر یہاں سے بھاگنے کے لیے ایک قدم بھی باہر نکالا تو جنگلی جانور تمہارا دروازے پہ ہی استقبال کریں گے سمجھی۔۔۔نہیں نہیں میں نہیں رہوں گی ادھر پلیز مجھے بھی ساتھ لے کر جاؤ ازمیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صوفے کی طرف دھکیلا اور خود باہر نکل گیا۔۔عرشیہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے آئ لیکن اس وقت تک وہ باہر نکل چکا تھا عرشیہ نے دیکھا دور دور تک کچھ بھی نہیں ہے اندھیرے کے سوا تو وہ بہت ڈر گئی۔۔۔اس نے جلدی سے دروازہ لاک کیا اور وہیں روتے ہوئے بیٹھ گئی وہ اکیلی مسلسل کانپ رہی تھی۔۔۔اور بڑبڑا رہی تھی۔۔پلیز مجھے لے جاؤ یہاں سے پلیز مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میں نہیں رہ سکتی ادھر ماما پاپا مجھے بچائیں پلیز اپنی بیٹی کو بچا لیں۔۔وہ ساری رات روتی رہی۔۔دوسری طرف ازمیر بھی نہ سو سکا اسے پتا تھا عرشیہ ڈر رہی ہوگی اسے بالکل بھی سکون نہیں آ رہا تھا۔۔ساری رات وہ صوفے پہ بیٹھا سرخ آنکھوں سے عرشیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ صبح کے پانچ بجے اٹھا اور عرشیہ کے پاس پہنچا دروازہ لاک تھا۔۔۔اس نے چابی سے لاک کھولا تو عرشیہ ادھر ہی فرش پہ لیٹی ہوئی تھی مسلسل سے رونے سے آنکھیں سوج گئی تھیں چہرے پہ آنسوؤں کے نشان ابھی بھی ویسے کے ویسے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ روتے ہوۓ ابھی ابھی سوئی ہے۔۔چہرے سے بال ہٹا کر اسے آواز دی۔۔عرشیہ۔۔اس کی آواز سن کر عرشیہ جلدی سے اٹھی۔۔۔آپ آگۓ۔۔پلیز مجھے گھر جانا ہے مجھے لے جائیں یہاں سے پلیز۔۔۔نہیں میں تمہیں گھر لے جانے نہیں آیا۔۔نہیں آپ مجھے گھر گھر لے جائیں۔۔میں یہاں یہاں نہیں رہ سکتی۔۔مجھے مجھے گھر جانا ہے۔۔عرشیہ کی ہچکیاں بندھ گئی۔۔ازمیر کو اس پر بہت ترس آیا۔۔۔اور اٹھ کر اسے بانہوں میں اٹھا کر کمرے میں بیڈ پر لٹایا۔۔لیلن عرشیہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔نہیں میں نے نہیں لیٹنا ادھر آپ مجھے گھر لے کر چلیں۔۔۔ششش چپ بالکل چپ ازمیر نے اسے لٹا کر خود کراؤن سے تھوڑا لیٹتے ہوۓ ٹیک لگا کر اسے اپنے بازو کے حصار میں لیا اور اس کے بال سہلانے لگا۔۔۔اور آہستہ آہستہ اسے سمجھانے لگا دیکھو اگر تم اپنی ضد پہ قائم رہی تو میں تمہیں ہمیشہ کے لیے ادھر قید کر لوں گا تم نہ تو کسی سے مل سکو گی اور نہ ہی کسی سے بات کر سکو گی۔۔انفیکٹ میں بھی کبھی کبھار آیا کروں گا تم سے ملنے تم ادھر اکیلی ہی رہ جاؤ گی سب سے دور تن تنہا اور اگر تم اپنی ضد چھوڑ دو تو میں تمہیں واپس اس گھر میں لے جاؤں گا سب کے ساتھ۔۔۔سوچ لو اچھی طرح سے تمہیں کیا کرنا ہے ٹھیک ہے پھر مجھے بتا دینا اور ہاں بار بار مجھے کریچر کہنا بھی چھوڑ دو ورنہ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زبان سے ہاتھ دھو بیٹھو ہمم۔۔عرشیہ سہمے ہوۓ اس کی باتیں سن رہی تھی لیکن بولی کچھ نہیں۔۔ازمیر ابھی بھی اس کے بال سہلا رہا تھا۔۔کچھ ساری رات کے جاگنے اور کچھ رونے کی وجہ سے آنکھیں بھاری ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے ازمیر کے حصار میں بالوں کو سہلانے سے آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور پھر کچھ ہی دیر میں سو گئ۔۔ازمیر نے اس کی سانسیں بھاری ہوتی محسوس کیں تو اس کی طرف دیکھا جو سو چکی تھی ازمیر کے لبوں پہ مسکراہٹ آئی۔۔۔سکون۔بھی میرے پہلو میں اور خوف بھی مجھ سے۔۔کافی دیر تک وہ اسے یونہی لے کر بیٹھا رہا پھر اسے سیدھا کرکے اس پہ کمفرٹر دے کر خود دروازہ لاک کرکے چلا گیا۔