The Creature’s Love

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 18

ازمیر عرشیہ کو لاک کرکے چلا گیا۔۔ساری رات کی جاگتی ہوئی عرشیہ اس وقت گہری نیند سو رہی تھی۔۔۔تقریباً ایک گھنٹے بعد ازمیر آیا اس کے ہاتھ میں کھانے کی اشیاء تھیں اس نے سائیڈ ٹیبل پہ چیزیں رکھی اور عرشیہ کو سوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔مجھے اسے سوتا ہوا چھوڑ کر نکل جانا چاہیے کیونکہ اگر یہ اٹھ گئی تو دوبارہ سے رونا شروع کر دے گی اور مجھے لے جانے کا بولے گی۔۔اور مجھے اس کے آنسو پگھلا دیں گے جو کہ میں نہیں چاہتا ابھی اسے کچھ دیر ادھر ہی رکھوں گا تاکہ دوبارہ مجھ سے الگ ہونے کا سوچنے سے بھی ڈرے۔۔یہ سوچتے ہوئے ازمیر جلدی سے وہاں سے چلا گیا۔۔جب گھر پہنچا تو سب جاگ رہے تھے۔۔کہاں سے آ رہے ہو بیٹا اتنی صبح صبح۔۔کہیں سے نہیں مام ادھر ہی تھا اور اپنے روم میں چلا جاتا ہے۔۔۔اور جاکر بیڈ پہ گر جانے کے انداز میں لیٹ جاتا ہے۔۔۔
💫💫💫
سب ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔عریشہ جاؤ عرشیہ کو بلا کر لاؤ ابھی تک اٹھی نہیں زارا نے کہا۔۔وہ نہیں ہے ادھر بیٹھ جاؤ عریشہ۔۔۔نہیں ہے مطلب عادل نے اچنبھے سے پوچھا۔۔مطلب میں نے اسے کہیں بھیجا ہے مصطفیٰ صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔۔۔لیکن بابا سائیں کہاں بھیجا ہے؟ اتنی دیر میں ازمیر بھی نیچے آتا ہے اسے پتا تھا کہ عرشیہ کی بات ہوگی اور اس کا وہاں ہونا ضروری ہے۔۔۔اس کا دماغ درست کرنے کے لیے مصطفیٰ صاحب کے اطمینان میں ابھی بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔۔۔یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہے بابا سائیں میری بیٹی ہے وہ کوئی راہ چلتی ہوئی چیز نہیں جسے آپ قید کروائیں یا کہیں بھجوائیں۔۔۔چھوٹے پاپا وہ محفوظ ہے آپ فکر نہ کریں ایک دو دن تک میں اسے لے آؤں گا۔۔۔کیا مطلب محفوظ ہے اور ایک دو دن تک لے آؤ گے تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بیٹی کے ساتھ زبردستی کرنے کی۔۔۔میں نے کہا تھا مصطفیٰ صاحب نے عادل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔آپ نے بابا سائیں آپ سے یہ امید نہیں تھی۔۔کیا وہ اس گھر کی بیٹی نہیں ہے؟ جس کے ساتھ آپ ایسا سلوک کر رہے ہیں۔۔۔مجھے میری بیٹی ابھی اور اسی وقت اپنے پاس چاہئے اور ہاں پہلے تو عرشیہ کہہ رہی تھی ناں کہ وہ ازمیر سے شادی نہیں کرنا چاہتی اب میں کہہ رہا ہوں کہ میں یہ رشتہ ابھی توڑتا ہوں۔۔۔مجھے اپنی بیٹی کے لیے طلاق چاہیئے۔۔۔۔سوچ لو عادل ہم تمہیں عاق کر دیں گے۔۔۔آپ کچھ بھی کریں میں اپنے فیصلے پہ اٹل ہوں اتنا کہہ کر وہ اپنے روم کی طرف جانے کے لیے مڑے۔۔۔آپ بھی پھر میری ایک بات دھیان سے سن لیں چھوٹے پاپا عرشیہ کو تو میں کسی صورت نہیں چھوڑوں گا اس کے لیے چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے اور ہاں پہلے تو میں نے اسے کل تک یہاں لے آنا تھا اب بھول جائیں آپ کہ آپ کی کوئی دوسری بیٹی بھی تھی۔۔۔ازمیر نے عادل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔میں تمہاری جان لے لوں گا بے غیرت انسان عادل نے اس کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔سب لوگ بھاگ کر ان کی طرف آۓ اور عادل کے ہاتھوں سے ازمیر کا گریبان چھڑوایا۔۔کیا کر رہے آپ لوگ یوں لڑ کر کوئی حل نہیں نکلے گا بیٹھ کر سکون سے سوچ سمجھ کر بات کریں۔۔۔کوئ حل نہیں ہے بس مجھے میری بیٹی واپس چاہئیے۔۔۔بابا سائیں آپ بھی سن لیں اسے کہیں میری بیٹی کو لے کر آۓ اور میں اپنی فیملی لے کر یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلا جاؤں گا۔۔۔نہیں ملے گی آپ کو آپ کی بیٹی اب وہ تا حیات قید رہے گی اتنا کہہ کر ازمیر باہر چلا گیا۔۔۔باہر نکل کر سب سے پہلے اپنا موبائل آف کیا کہ کوئی اسے ٹریس نہ کر لے۔۔پھر اپنے دوسرے فلیٹ پر گیا وہاں اپنا دوسرا سیل لیا جس کا نمبر بس کچھ خاص لوگوں کے پاس تھا۔۔۔اس نے ایک پرائیویٹ ہیلی کاپٹر منگوایا۔ اور پھر اپنا سامان پیک کر کے گاڑی میں رکھا اور عرشیہ کو لینے جنگل والے گھر گیا۔۔ازمیر نے دروازہ کھولا تو عرشیہ جاگ رہی تھی بھاگ کر ازمیر کے پاس آئ۔۔۔مجھے واپس لے جائیں میں آئندہ کبھی نہیں کہوں گی کہ آپ سے رشتہ نہیں رکھنا آپ جو کہو گے جیسا کہو گے میں کروں گی۔۔۔ابھی وہ بات کر ہی رہی ہوتی ہے ازمیر خاموشی سے اس کا ہاتھ پکڑتا باہر لے کر آیا اور اسے گاڑی میں بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے ریش ڈرائیونگ سے گاڑی دوڑانے لگا۔۔۔پلیز آہستہ چلائیں کیا کر رہے ہیں آپ اتنی تیز کیوں چلا رہے ہیں؟ عرشیہ نے گھبراتے ہوۓ ازمیر کو کہا لیکن ازمیر ہنوز چپ تھا اس نے نہ خود سے کوئی بات کی اور نہ ہی اس کی کسی بات کا جواب دیا گاڑی کو مخصوص جگہ لا کر روکا ارد گرد کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔یہ یہ کہاں لے کر آۓ ہیں آپ ہم تو گھر جا رہے تھے نہ۔۔۔لیکن ازمیر نے اس کی کسی بات پہ رسپانس نہیں دیا۔۔آپ بولتے کیوں نہیں۔۔۔ازمیر نے گاڑی سے باہر نکل کر دیکھا دور سے ایک گاڑی آتے ہوۓ دکھائی دی۔۔۔اسے پتا چل گیا کہ یہ اسی کے آدمیوں کی گاڑی ہے۔۔۔ازمیر کو دیکھ کر اس گاڑی سے دو آدمی نکلے اور اسے سلام کیا ازمیر نے سلام کا جواب دیتے ہوۓ انہیں گاڑی کی چابی پکڑائی اور خود پہلے اپنا سامان نکالا اور پھر عرشیہ کا بازو پکڑ کر باہر نکالا اور اور پیچھے کو ہو کر کھڑا ہو گیا یہ گاڑی میری خفیہ جگہ پہنچانی ہے اور ہاں کسی کو بھی میرے یا میری کسی بھی چیز کے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہیئے۔۔یہاں تک کے میرے گھر والوں کو بھی نہیں اسے انگلی کرکے وارن کرتے ہوۓ سمجھایا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی لے کر نکل گیا۔۔آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ میں نے گھر جانا ہے کہیں نہیں جانا میں نے پلیز مجھے گھر چھوڑ دیں عرشیہ نے روتے ہوئے کہا۔۔ششش اب ایک لفظ بھی تمہاری زبان سے نہ نکلے۔۔۔ورنہ تمہاری زبان کی سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکوں گا۔۔۔لیکن مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ کہیں بھی اور۔۔۔اس سے پہلے وہ اپنی بات پوری کرتی ازمیر نے پاکٹ سے چاقو نکالا اور اس کی طرف کیا جسے دیکھ کر عرشیہ کی زبان تالو سے چپک گئی اور بالکل خاموش ہو گئی۔۔ازمیر نے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ۔۔ہمم گڈ اب ایسے ہی چپ رہنا جب تک کہ میں نہ کہوں سمجھی اور چاقو اپنی جیب میں واپس رکھا۔۔تقریباً دس منٹ بعد ہیلی کاپٹر آگیا اور ازمیر اپنا سامان گارڈ کو دیا اور خود عرشیہ کا بازو پکڑ کر لے جانے لگا۔۔۔عرشیہ نے خود کو چھڑوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن ایسا کہاں ممکن تھا۔۔۔ازمیر نے اس کے بازو پہ دباؤ بڑھایا اور خود عرشیہ کو اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گیا عرشیہ مسلسل روۓ جا رہی تھی لیکن بول کچھ نہیں رہی تھی۔۔۔ہیلی کاپٹر نے پروان بھری اور اپنی منزل مقصود کی طرف اڑنے لگا۔۔۔عرشیہ کے مسلسل رونے سے اسے چڑ ہونے لگی ازمیر نے عرشیہ کینطرف دیکھا اور اس کی مخصوص رگ دبا کر بے ہوش کر دیا اور خود بھی سیٹ سے ٹیک لگاۓ سو گیا۔۔۔
💫💫💫
گھر میں سب پریشان تھے ازمیر اور عرشیہ کو ہر جگہ ڈھونڈ لیا تھا لیکن کچھ پتا نہیں چلا کہ کہاں گئے۔۔۔عرشیہ کو اس کے پاپا ڈھونڈ رہے تھے جبکہ ازمیر کو اس لیے ڈھونڈ رہے تھے کہ عرشیہ کا پتا چل سکے۔۔۔سارا دن ہو گیا ڈھونڈتے ہوۓ لیکن کچھ پتا نہ چل سکا۔۔رات کو گھر آکر بیٹھے تو زارا دوڑتے ہوئے آئی کچھ پتا چلا میری بیٹی کا تو عادل نے نفی میں سر ہلایا۔۔مجھے میری بچی چاہیے جہاں سے مرضی لے کر آئیں مجھے نہیں پتا زارا روتے ہوئے عادل سے کہنے لگی۔۔۔ارتضیٰ اور عائشہ الگ سے پریشان تھے اور عادل اور زارا سے شرمندہ تھے۔۔۔اب میں پولیس میں رپورٹ کرواؤں گا عادل نے اپنے مصطفیٰ صاحب اور ارتضیٰ کو دیکھتے ہوئے دھمکی دی۔۔۔کوئ فائدہ نہیں برخوردار کیونکہ کچھ بھی کر لو وہ لوگ نہیں ملیں گے۔۔مصطفٰی صاحب نے عادل کو کہا۔۔۔بابا سائیں کیا اس گھر میں صرف ازمیر ہی آپ کا سگا ہے ہم لوگ یا ہمارے بچے کچھ نہیں ہے آپ کے لیے عادل نے شکایتی لہجے میں کہا۔۔۔سب سے بڑھ کر ازمیر ہے اس سے بڑھ کر کوئی نہیں انہوں نے جواب دیا۔۔۔بابا سائیں آپ نے اسے بہت بگاڑ دیا ہے مجھے تو اسے اپنا بیٹا کہتے ہوۓ شرم آ رہی ہے۔۔۔تو نہ کہو بیٹا اسے میں ہوں نہ اس کا باپ بھی اور دادا بھی۔۔۔مصطفٰی صاحب کو کوئی فکر نہیں تھی کہ کون۔کیا سوچ رہا ہے کیا نہیں۔۔ان کی آنکھوں پہ صرف اپنے پوتے کے پیار کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔زارا اور عادل شکوہ بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ اپنے کمرے میں چلے گیۓ۔۔۔
💫💫💫
ہیلی کاپٹر لندن کی سر زمین پہ اترا۔۔۔ازمیر نے عرشیہ کو اٹھایا اور نیچے اترا جہاں اس کا ایک آدمی پہلے سے ہی کار لے کر کھڑا تھا۔۔جا کر عرشیہ کو ساتھ لے کر گاڑی میں بیٹھ گیا دوسرا آدمی جو کہ ہیلی کاپٹر میں ازمیر کے ساتھ تھا اس نے سامان گاڑی میں رکھا اور وہ بھی فرنٹ پہ بیٹھ گیا۔۔ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی اور اپنی منزل کی طرف چل پڑے عرشیہ ابھی بھی بے ہوش تھی ازمیر کا ارادہ اسے گھر لے جاکر ہوش میں لاۓ گا۔۔اور اس کے چہرے کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھے گیا۔۔۔باس کدھر جانا ہے؟ اس کے آدمی نے پوچھا۔۔۔میرے پرسنل گھر میں لے چلو۔۔اوکے باس اور کچھ ہی دیر میں وہ گھر پہنچ گئے ازمیر نے عرشیہ کو لے جا کر بیڈ روم میں لٹایا اور خود فریش ہونے چلا گیا۔

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial