The Creature’s Love

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 19

ازمیر فریش ہو کر باہر نکلا تو نظر سیدھی عرشیہ کے چہرے پہ گئی۔۔۔کتنی معصوم ہے یہ لیکن ضدی بھی۔۔ازمیر نے اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوۓ سوچا اور اس کے پاس بیٹھ کر اسے ہوش میں لانے لگا کچھ ہی دیر میں عرشیہ کو ہوش آگیا وہ مندی مندی آنکھیں کھولے ارد گرد کا جائزہ لیا۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں ہے۔۔دماغ جیسے سویا ہوا ہو۔۔۔ذہن۔پہ زور دینے سے آہستہ آہستہ سب یاد آرہا تھا جیسے جیسے ہوش حواس بحال ہو رہے تھے اتنی ہی تیزی سے وہ حواس باختہ ہو رہی تھی۔۔۔آ پ مجھے کہاں لے کر آئیں ہیں میں نے آپ کو کہا تھا کہ میں نے گھر جانا ہے۔۔۔تو تمہیں تمہارے گھر ہی تو لے کر آیا ہوں میری جان اب یہ ہی تمہارا گھر ہے ازمیر نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔عرشیہ نے ازمیر کا ہاتھ جھٹکا اور بیڈ سے کھڑے ہوتے میں نے نہیں رہنا یہاں۔۔میں نے اپنے گھر جانا ہے۔۔وہ دروازے کا ناب گھمانے لگی لیکن دروازہ لاکڈ تھا۔۔ازمیر کھڑا سینے پہ بازو باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ہوگیا تمہارا چلو اب جلدی سے فریش ہو کر آؤ ازمیر نے بیگ سے اس کے لیے ایک ٹراؤزر اور ایک ڈھیلی ڈھالی سی شرٹ نکالی یہ لو اور فٹا فٹ فریش ہو کر آؤ۔۔عرشیہ نے اس کے ہاتھ سے ڈریس لیا اور اٹھا کر دور پھینکا۔۔۔نہیں ہونا میں نے فریش۔۔ازمیر کا غصّہ ضبط کرتے ہوۓ رگیں تن گئیں تھیں اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔لمبی سی سانس خارج کرتے ہوئے۔۔۔دیکھو عرشیہ میرا ضبط مت آزماؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کچھ غلط کر بیٹھوں۔۔کیا کریں گے آپ مجھے ماریں گے یا مجھے جان سے مار دیں گے یا پھر کسی اندھیرے کمرے میں بند کر دیں گے اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔۔۔عرشیہ نے چلاتے ہوئے کہا۔۔میں اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں لیکن ابھی تم اس کے لیے بہت چھوٹی ہو اس لیے تمہیں کچھ کہتا نہیں ہوں یہ نہ ہو کسی دن میں سب کچھ بھول کر ہر حد بھول جاؤں اس سے اچھا ہے جیسا میں کہتا ہوں ویسا کرو۔۔۔کیا مطلب آپ کا میں سمجھی نہیں ویسے بھی جو کرنا ہیں کریں میں آپ کی کوئی بھی بات نہیں مانوں گی بھوکی پیاسی رہ کر اپنی جان دے دوں گی لیکن آپ کی نہ کوئی بات مانو گی اور نہ ہی آپ کے ساتھ رہوں گی سنا آپ نے۔۔۔ہمم ٹھیک ہے رہو پھر بھی بھوکی پیاسی جیسے مرضی۔۔۔لیکن ایک بات اپنے ذہن میں بٹھا لو کہ رہو گی تو تم ادھر ہی میرے ساتھ وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔اگر تم نے زیادہ چون چرا کی تو یہیں پہ تمہارا مقبرہ بنادوں گا اتنا کہہ کر ازمیر کمرے سے نکل گیا اور وہ وہیں بیٹھی رونے لگی۔۔یا اللّٰہ پلیز میری مدد کریں مجھے اس ظالم درندے سے بچانے اللّٰہ پلیز ہیلپ می پلیز اللّٰہ جی۔۔عرشیہ روتے ہوۓ اللّٰہ کو مخاطب کر رہی تھی۔۔۔
💫💫💫
بابا سائیں پلیز بتا دیں مجھے میری بیٹی کہاں ہے؟ عادل بے بس ہو کر پوچھ رہا تھا۔۔اپنے ہسبینڈ کے ساتھ ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔۔عادل کیا تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے۔۔بابا سائیں ایسی بات نہیں ہے لیکن وہ بہت چھوٹی ہے۔۔جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی ہم اسے سمجھاتے تو وہ سمجھ جاتی اور ازمیر کے ساتھ اپنا رشتہ بھی تسلیم کر لیتی۔۔نہیں بیٹا اس عمر میں اگر کوئی بات ذہن میں بیٹھ جاتی ہوے تو عمر کے ساتھ ساتھ اپنی جڑیں مضبوط کر لیتی ہے اور پختگی پکڑ لیتی ہے۔۔۔دیکھو بیٹا میں دشمن نہیں ہوں تمہاری بیٹی کا۔۔مجھ پہ ایک دفعہ بھروسہ تو کر کے دیکھو۔۔عادل ہاں میں سر ہلا کر کمرے سے باہر گیا اور دروازے پہ ہی زارا مل گئی دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو عادل نے آنکھوں سے اسے تسلی دی اور دونوں کمرے میں چلے گئے
💫💫💫
کیا سوچا جارہا بیوی؟ شایان نے عریشہ کو ٹی وی لاؤنج میں گم سم سی بیٹھی دیکھا تو اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔عریشہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔کچھ نہیں بس عرشیہ کی فکر ہو رہی ہے۔۔۔ارے ٹھیک ہوگی وہ تم فکر مت کرو ازمیر اس کا بہت خیال رکھ رہا ہوگا تمہیں پتا تو ہے وہ عرشیہ کو کتنا چاہتا ہے؟ وہ تو ٹھیک ہے لیکن عرشیہ کو ایسے زبردستی لے کر جانا اور سب سے دور رکھنا وہ بہت رو رہی ہوگی اور ڈر بھی رہی ہوگی۔۔ہاں ڈر تو رہی ہوگی لیکن ازمیر اس کے ساتھ ساتھ ہی ہوگا۔۔۔دیکھنا کچھ ہی دنوں میں وہ ہمارے پاس ہوگی۔۔۔اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو عریشہ نے کہا تو شایان اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔ٹینشن مت لو اللّٰہ پاک سب ٹھیک کرے گا اس پہ بھروسہ رکھو ۔۔آج کل سب ہی عرشیہ کے بارے میں فکر مند تھے۔۔۔
💫💫💫
صبح سے شام ہوگئی تھی لیکن عرشیہ نے نہ کچھ کھایا تھا نہ ہی پیا تھا۔۔جب وہ پاکستان میں قید تھی تب جو کھانا ازمیر اس کے لیے کے کر آیا تھا وہ بھی نہیں کھایا تھا۔۔۔ازمیر کو رہ رہ کر اس پہ غصّہ آ رہا تھا خود کو بھوکی رکھ کر اگر اسے یہ لگتا ہے نا کہ میں اسے واپس لے جاؤں گا تو یہ بھول ہے اس کی۔۔۔عرشیہ نے اگر کچھ نہیں کھایا تھا تو ازمیر نے بھی پانی تک حلق سے نہیں اتارا تھا۔۔وہ ایک دفعہ پھر عرشیہ کے پاس گیا تو اسے ہنوز نیچے صوفے کے ساتھ ٹیک لگاۓ بیٹھی دیکھا اور ازمیر کے ماتھے پہ بے شمار سلوٹیں ابھریں۔۔۔عرشیہ کے پاس جاکر اس کا بازو دبوچا یہ ماتم کس لیے ہاں کوئی مر گیا ہے جو ایسے ماتم کرتی ٹسوے بہا رہی ہو؟ بتاؤ مجھے کس کی میت پہ رو رہی ہو۔۔۔ازمیر سے مزید اس کا رونا برداشت نہیں ہوا۔۔جلدی سے اٹھو اور فریش ہو کر چینج کرکے آؤ چلو اٹھو۔۔ازمیر نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا لیکن وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلی اچھی بھی اپنی ضد پہ قائم تھی۔۔۔ازمیر اسے کھینچتے ہوۓ واشروم میں لے کر گیا اور شاور کے نیچے کھڑا کرکے شاور آن کر دیا۔۔عرشیہ نے سبکی لی۔۔۔اب دس منٹ کے اندر مجھے تم فریش ہو کر باہر ملو ورنہ میں تمہارا حشر بگاڑ دوں گا وارن کرتا باہر نکل کر واشروم کا دروازہ بند کرتا صوفے پہ بیٹھ گیا اور اپنا سر مسلنے لگا۔۔۔کل سے کتنا روئ ہے یہ آنکھیں درد کر رہی ہوں گی۔۔رونے سے سر میں الگ سے درد ہونے لگتا ہے لیکن اسے کوئی اثر ہی نہیں ہے مجال ہے جو آنسو تھمے ہوں اس کے۔۔آنکھیں بند کیے وہ عرشیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔کہ واشروم کا دروازہ کھلنے پہ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا عرشیہ اب فریش ہو کر باہر نکلی اور وہیں کھڑی ہو گئی۔۔۔ادھر آؤ۔۔لیکن عرشیہ نہ ہلی۔۔تمہیں سنائی نہیں دیتا میں نے کیا کہا ہے۔۔ازمیر اس کی ڈھٹائی پہ اتنی زور سے دھاڑا کہ عرشیہ سہم گئی اور سانس روکے ازمیر کے پاس آکر صوفے پہ اس سے تھوڑا فاصلے پہ ٹک گئی۔۔ازمیر نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔۔۔بھوک لگی؟ تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔ازمیر نے اسے گھور کر دیکھا تو اس نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔ہمم بیٹھو میں کھانا لے کر آتا ہوں۔۔ازمیر جلدی سے کھانا لے کر آیا اور اسے اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگا۔۔۔میں کھا لوں گی خود ہی عرشیہ نے خفگی سے کہا تو ازمیر کے ہونٹوں پہ مبہم سی مسکراہٹ آکر معدوم ہوئی۔۔ٹھیک ہے چلو دونوں مل کر کھاتے ہیں مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے ازمیر نے دوستانہ رویہ اپناتے ہوئے کہا۔۔۔کھانے کے دوران دونوں کے درمیان بالکل خاموشی تھی۔۔جب عرشیہ کھانا کھا چکی تو ازمیر نے برتن سائیڈ پہ کر کے اٹھا اور ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر عرشیہ کی طرف بڑھا آؤ تمہارے بال بنا دوں۔۔۔نہیں میں خود بنا لوں گی۔۔اچھا لیکن تمہیں تو بنانے آتے ہی نہیں تم تو زارا ماما سے بنواتی ہوتی تھی ہمیشہ۔۔اپنی ماما کے ذکر پہ عرشیہ کی آنکھیں ایک بار پھر سے چھلکنے کو تیار تھیں۔۔ازمیر نے جب اسے رونے کی تیاری پکڑتے تو دیکھا تو اسے آنکھیں دکھاتے ہوۓ کہا اگر اب تم روئ تو تمہاری آنکھیں نکال دوں گا میں اور تمہیں پتا ہے جو میں کہتا ہوں وہ کرتا بھی ہوں سمجھی۔۔ازمیر نے جارحانہ تیوروں سے اسے کہا تو ازمیر کی دھمکی کارآمد ثابت ہوئی اور عرشیہ نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے۔۔۔ہمم گڈ اب ازمیر عرشیہ کے بالوں میں برش کرنے لگا بال گیلے ہونے کی وجہ سے ہالف بالوں میں کیچر لگا دیا۔۔کل تمہارے لیے ڈرائیر لے کر آؤں گا اس طرح زیادہ دیر بال گیلے رہنے سے تم بیمار ہی نہ ہو جاؤ ازمیر کو فکر ہوئی لیکن عرشیہ خاموش رہی۔۔چلو آؤ گھومنے چلتے ہیں ازمیر نے اس کے لیے وارڈروب سے ایک اپر کیپ اور مفلر نکالا اور ساتھ ہی گلوز بھی نکال لیے۔۔پہلے اسے اپر پہنائ پھر سر پہ کیپ دے کر گلے میں مفلر لپیٹا اور پھر اسے گلوز پہنانے لگا اس کے بعد سنیکرز نکالے اور بیٹھ کر پہ آنے لگا لیکن عرشیہ نے پاؤں پیچھے کرلیے۔۔اذمیر نے اس کی طرف دیکھا۔۔میں پہن لوں گی خود آپ رہنے دیں۔۔لہکن ازمیر نے اس کا پاؤں پکڑ کر آگے کیا اور اسے سنیکرز پہنا کر اٹھا اور اب خود کی تیاری کرنے لگا کوٹ پہن کر مفلر پہنا اور خود بھی سنیکرز پہن کر اس کا ہاتھ پکڑا اور باہر گاڑی کی جانب بڑھا۔۔۔اسے گاڑی میں بٹھاتے ہوۓ خود بھی بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور گھومنے لگے پہلے وہ اسے آئسکریم کھلانے لے گیا پھر تھوڑی دیر یونہی سڑکوں پہ گھومتے رہے پھر اسے مال لے کر گیا وہاں سے تھوڑی بہت شاپنگ کی اور پھر یونہی سڑکوں رات گئے تک گھومتے رہے اور پھر رات کو ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا تقریباً رات دس بجے کے قریب گھر آۓ۔۔۔ازمیر ہی زیادہ باتیں کرتا رہا عرشیہ نے بس ہوں ہاں اچھا میں ہی جواب دیے اور بیزار سی ہو کر بیٹھی رہی۔۔ازمیر یہ سب محسوس کرتے ہوۓ بھی اگنور کرتا رہا۔۔اور اپنی باتوں سے اس کا دل بہلاتا رہا۔۔۔جب وہ لوگ گھر آۓ تو عرشیہ تھک گئی تھی وہ فوراً کمرے میں جاکر اپنا اپر وغیرہ اتار کر لیٹ گئی اور کچھ ہی دیر میں سو گئ۔۔۔ازمیر اس کے روم میں آیا اسے ایک نظر دیکھتا اس کے ماتھے پہ بوسہ کرتے ہوۓ اس پہ کمبل ٹھیک کیا اور اپنے روم میں چلا گیا۔۔ازمیر نے اپنے لیے الگ روم ہی چنا کیونکہ وہ سوچتا تھا کہ مرد جتنا مرضی مضبوط کیوں نہ ہو کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں بہک ہی جاتا ہے۔۔اور وہ اپنی کرسٹل ڈول کو توڑنا نہیں چاہتا اس کا اعتبار نہیں کھونا چاہتا۔۔جب تک وہ اسے پورے دل سے اپنا نہیں لیتی۔۔ازمیر بھی دو دن سے سویا ہوا نہیں تھا کچھ سفر کی بھی تھکاوٹ تھی سو وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔۔۔ابھی اسے سوۓ ہوۓ کچھ ہی ٹائم گزرا کہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھا اور اپنے ارد گرد دیکھا لندن کے ٹھنڈے موسم بھی اس کی پیشانی عرق آلود ہو رہی تھی۔۔وہ فوراً اٹھا اور عرشیہ کے روم کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ سو رہی تھی۔۔اس نے گہرا سانس لیا اور پھر سے دروازہ بند کرکے اپنے روم میں۔۔یا اللّٰہ یہ کیسا خواب تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے عرشیہ مجھ سے دور ہو رہی ہے مجھ سے چھن رہی ہے۔۔وہ سینے پہ ہاتھ رکھے لمبے لمبے سانس لینے لگا یہ سب سوچتے ہوئے ہی اس کا سانس بند ہو رہا تھا۔۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا یہ صرف ایک خواب تھا محض ایک خواب حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہوا بھی تو میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔۔میں اسے خود میں چھپا لوں گا۔۔ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رکھوں گا ایک منٹ بھی اوجھل نہیں ہونے دوں گا اپنی نظروں سے وہ سوچے جا رہا تھا۔۔اگر خواب سچ ہو گیا تو۔۔؟ ذہن میں ایک خیال گونجا۔۔۔نہیں اس سچ کو جھوٹ میں بدل دوں گا۔۔۔لیکن اللّٰہ کے فیصلے کو کون ٹال سکتا ہے۔۔جو اس رب نے تقدیر میں لکھ دیا تو اسے کون۔مٹا سکتا ہے۔۔۔انسان ہر ایک کا مقابلہ کر سکتا ہے۔۔لیکن اس مالک کا کون مقابلہ کرے وہ تو قادر ہے ہر چیز پہ قدرت رکھتا ہے۔۔وہ جسے چاہے ملا دے جسے چاہے جدا کر دے ناممکن کو ممکن اور ممکن کو ناممکن کردے۔۔بس ہمیں اس کے فیصلے پہ راضی رہنا چاہئے تاکہ وہ ہمیں ہماری خواہش کے مطابق راضی کردے۔۔ازمیر اس خواب کے بعد بہت ڈر گیا۔۔کیا وہ بھی ڈرتا ہے؟ ہاں وہ بھی ڈرتا ہے۔۔وہ عرشیہ کی جدائی سے ڈرتا ہے۔۔۔وہ عرشیہ کے دور جانے سے ڈرتا ہے۔۔۔وہ عرشیہ کو کھونے سے ڈرتا ہے۔۔ازمیر کی سانسیں ہی عرشیہ کے ساتھ چلتی ہیں عرشیہ ہے تو ازمیر ہے نہیں تو اگر ازمیر کی زندگی میں عرشیہ نہیں رہی تو ازمیر کی زندگی بھی باقی نہیں رہے گا۔۔ میں تمہارے بغیر خود کو فنا کر دوں گا لیکن تم سے الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔وہ ساری رات نیم دراز ہو کر عرشیہ کے سرہانے بیٹھا رہا اس خواب کے بعد وہ دوبارہ سو نہ سکا۔۔۔وہ تو دوبارہ آنکھیں بند بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔اسے لگتا تھا کہ اگر وہ آنکھیں بند کرے گا تو دوبارہ سے وہی خواب آنا شروع ہو جاۓ گا جو کہ کم سے کم اب تو وہ بالکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial