Skip to content
قسط: 20
اگلے دن صبح عرشیہ اٹھی تو دیکھا ازمیر اس کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔آپ ادھر کیوں بیٹھے ہیں؟ اور اتنی جلدی اٹھ گۓ۔۔ہاں تمہی۔ اٹھانے آیا تھا ناشتہ کر لیں پھر تمہارے لیے کوئی اچھا سا سکول بھی ڈھونڈنا ہے۔۔۔کیا سکول وہ بھی ادھر؟ عرشیہ کچھ حیران اور کچھ صدمے سے بولی۔۔۔ہاں اب جب رہنا ادھر ہے تو سکول میں ایڈمیشن بھی تو لینا ہے نا سٹڈی کونٹینیو نہیں کرنی کیا۔۔اصر ویسے بھی تمہارا خوب ہے نا ڈاکٹر بننا تو اس کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔۔۔چلو اٹھو جلدی سے اب فریش ہو کر آؤ۔۔۔نہیں میں نے نہیں ادھر ایڈمشن لینا میں نے پاکستان میں ہی پڑھنا ہے۔۔اور ادھر ہی واپس جانا ہے۔۔۔واپس تو نہیں اب ہم جانے والے یہ بات جتنی جلدی تم ایکسپٹ کر لو تمہارے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔۔۔ازمیر نے اسے سرد لہجے میں کہا۔۔۔یہاں تو نہیں میں رہنے والی آپ بھی یہ بات جتنی جلدی ایکسپٹ کرلیں آپ کے لیے اتنا ہی بہتر ہے عرشیہ نے دوبدو کہا تو ازمیر کے ماتھے پہ سلوٹیں ابھریں اور عرشیہ کا منہ دبوچتے ہوۓ اپنی زبان کو سنبھال کے رکھو ایسا نہ ہو کہ میں کاٹ کے رکھ دوں سمجھی آئندہ اگر اس قسم کی زبان درازی کی تو مجھے ایک منٹ نہیں لگے گا کاٹنے میں اور ایک جھٹکے سے اس کا منہ چھوڑا۔۔۔چلو اب جلدی سے فریش ہو کر باہر آؤ۔۔۔ازمیر نے باہر جاتے ہوئے کہا اور عرشیہ آنکھیں رگڑتے ہوۓ واشروم میں گھس گئی۔۔۔فریش ہو کر باہر آئ بے اور ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھی ازمیر نے بریڈ پہ جام لگا کہ اسے دیا پھر جوس کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔۔۔میں نے پراٹھا کھانا ہے۔۔پراٹھے کے بنا میرا ناشتہ نہیں ہوتا اور ساتھ میں چاۓ کا کپ بھی چاہئے۔۔میں نے نہیں کھانا یہ ناشتہ۔۔۔عرشیہ نے منہ پھلائے ہوۓ کہا تو ازمیر کے چہرے پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔کک کو بلایا اور ایک پراٹھا اور چاۓ بنانے کا کہا خود ازمیر وہی بریڈ کھانے لگا جو وہ عرشیہ کو دے رہا تھا۔۔کک جلدی سے پراٹھا اور چاۓ لے کر آیا ازمیر نے اس سے لیکر عرشیہ کو دیا عرشیہ نے پیٹ بھر کے ناشتہ کیا اور پھر چاۓ پینے لگی جب وہ ناشتہ کر چکی تو ازمیر نے نیپکن سے اپنے بھی ہاتھ صاف کیے اور عرشیہ کا منہ بھی صاف کیا چلو اب جلدی سے تمہارا ایڈمشن کروانے چلیں۔۔۔لیکن میرے ڈاکومنٹس؟ عرشیہ نے پوچھا تو ازمیر نے مسکرا کر کہا سب ہیں میرے پاس۔۔ازمیر کی بات سن کر عرشیہ نے حیران ہوتے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے اس نے کوئی انوکھی بات کہہ دی ہو۔۔۔کیسے مطلب کہاں سے لیے؟ وہ سب چھوڑو جیسے بھی لیے بس یہی کافی ہے کہ میرے پاس ڈاکومنٹس ہیں۔۔۔وہ ازی آج آرام کر لیں پلیز میری نا تھکاوٹ نہیں اتر رہی کل چلے جائیں گے پلیز پلیز پلیز۔۔۔نہیں آج ہی جائیں گے یہ جو تم میرے ساتھ ہوشیاری کر رہی ہو نا بہانے بنا رہی ہو کہ تھکاوٹ ہو رہی ہے یا سر میں درد وغیرہ یہ نہیں چلیں گے چلو جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ باہر کی طرف لے جاکر گاڑی میں بٹھایا اور ایڈمشن۔کے لیے چلے گئے۔۔ازمیر نے سکول تو پہلے سے ہی سلیکٹ کیا ہوا تھا بس اس کا ایڈمشن ہی کروانا تھا۔۔سکول میں جا کر اس کے ڈاکومنٹس سبمٹ کرواۓ اور فیس وغیرہ پے کروائی۔۔Well, Mr. Azmir, Arshiya can join the school from tomorrow, Ok, ma’am, now we are going. From tomorrow, in sha Allah, Arshiya will come to school اور ازمیر عرشیہ کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ واپس آنے لگے۔۔۔ازی عرشیہ نے پکارا۔۔ہاں بولو۔۔ازی مجھے تو انگلش بھی نہیں آتی تو میں کیسے ایڈجسٹ کروں گی ادھر عرشیہ نے روہانسی ہوتے کہا۔۔نو پرابلم میں نے سب کچھ ارینج کردیا ہے تمہیں کسی بھی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی ازمیر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔۔۔عرشیہ چپ کرکے بیٹھ گئ۔۔آ جاؤ آئسکریم کھائیں تو عرشیہ بھی ازمیر کے ساتھ چل۔پڑی آئسکریم کھا کر ازمیر نے عرشیہ کے لیے پیک بھی کروالی اور پھر گھر چلے گئے۔۔۔یہ لو اپنی آئسکریم سنبھال لو۔۔آئسکریم عرشیہ کو پکڑاتے ہوۓ کہا عرشیہ آئسکریم فریزر میں رکھتے ہوۓ خود کمرے میں چلی گئی ازمیر بھی اپنے کمرے میں گیا اور وہاں سے کچھ ڈاکومنٹس لیتے ہوۓ باہر جانے لگا۔۔۔عرشیہ کے روم کی طرف آتے ہوۓ۔۔عرشیہ۔۔جی۔۔میں کچھ دیر کے لیے کہیں کام جا رہا ہوں تم پورے گھر میں کہیں بھی آ جا سکتی ہو لیکن گھر سے باہر نہیں نکلنا اوکے۔۔۔جی۔۔ہمم گڈ چلو اب میں چلتا ہوں۔۔
ارتضیٰ اور عائشہ عادل کے روم میں آۓ۔۔ناک کیا تو عادل نے دروازہ کھولا۔۔ارے بھائی آپ آئیں نا۔۔ارتضٰی اندر آکر۔۔۔وہ عادل میں اور عائشہ تم سے اور زارا سے معافی مانگنے آۓ ہیں۔۔۔کیااااا عادل ایک دم صدمے سے بولا زارا بھی جلدی سے کھڑی ہو کر پاس آئ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں چھوٹا ہوں آپ سے آپ چاہے تو میرا کان پکڑتے ہوۓ میری پٹائی کردیں میں آف بھی نہیں بولوں گا اور ویسے بھی آپ معافی مانگ کس چیز کی رہے ہیں؟ وہ یار میرے بیٹے نے جو حرکت کی اس کے لیے میں بہت شرمندہ ہوں۔۔۔ارے بھائی شرمندہ نہ ہو میں نے اللّٰہ کے حوالے کردی اپنی بیٹی اور ویسے بھی اس بات کی تسلی ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی ہے کسی نا محرم کے ساتھ نہیں۔۔۔شکریہ یار میرے دل پہ بہت بوجھ تھا۔۔عادل نے اپنے بھائی کو گلے سے لگا لیا اور عائشہ نے امید بھری نظروں سے زارا کی طرف دیکھا تو زارا بھی آگے بڑھ کر عائشہ کے گلے لگ گئی۔۔شکریہ زارا۔۔اٹس اوکے ویسے بھی ازمیر عرشیہ کو بہت چاہتا ہے مجھے اتنا تو یقین ہے وہ اسے کوئی تکلیف نہیں دے گا بلکہ وہ تو خود اس کی تکلیف پہ تڑپ جاتا ہے۔۔۔تو وہ دونوں ان کی طرف مشکور نظروں سے دیکھنے لگے اور پھر چلے گئے۔۔۔
ازمیر دوپہر کا گیا ہوا تھا رات ہو گئی تھی لیکن ابھی تک نہیں آیا عرشیہ نے سارا گھر بھی دیکھ لیا۔۔ٹی وی پہ اپنے فیورٹ شو بھی دیکھ لیے۔۔لیکن ازمیر نہیں آیا۔۔پھر وہ تھک کر اپنے روم میں گئ اور سو گئ۔۔۔ازمیر تقریباً رات گیارہ بجے تک گھر آیا اور آکر سب سے پہلے عرشیہ کے روم میں گیا اسے سوتے ہوۓ دیکھا تو کچن کی طرف آیا اپنے لیے کھانا نکال کر گرم کیا اور کھانے لگا ابھی ایک نوالہ توڑ کر منہ میں ڈالنے لگا کہ اسے عرشیہ کا خیال آیا کہ پتا نہیں اس نے کچھ کھایا کہ نہیں اس نے اسی وقت سرونٹ کو بلایا جو ان کے گھر میں ہی کوارٹر تھا جس میں رہتا تھا۔۔وہ جلدی سے آیا تو اس سے پوچھنے لگا۔۔عرشیہ نے کھانا کھایا؟ نو سر اس نے دوپہر میں بھی بس جوس ہی لیا بس۔۔وہاٹ مطلب اس نے صبح سے صرف ناشتہ ہی کیا ہے سرونٹ منہ نیچے کیے اثبات میں سر ہلاتا ہے جی سر۔۔۔آر یو میڈ تم اسے کھانا نہیں دے سکتے تھے۔۔ازمیر نے دھاڑتے ہوۓ کہا۔۔۔سر میں نے میم کو دو تین مرتبہ کہا لیکن وہ نہیں مانیں اور پھر جا کر سو گئیں۔۔ازمیر اپنا ماتھا مسلنے لگا۔۔۔ٹھیک ہی جاؤ تم میں خود ہی دیکھ لیتا ہوں۔۔وہ چلا گیا۔۔ازمیر عرشیہ کے روم میں آیا۔۔عرشیہ عرشیہ۔۔۔لیکن عرشیہ نہیں اٹھی۔۔اب کی بار ازمیر نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا تو عرشیہ نے آنکھیں کھولیں جو ابھی بھی نیند سے بھری ہوئی تھیں۔۔جی کیا ہوا؟ آ جاؤ کھانا کھالو۔۔۔نہیں مجھے بھوک نہیں میں نے سونا ہے۔۔۔نہیں پہلے کھانا کھانا ہے تم سونا نہیں میں ابھی لے کر آتا ہوں۔۔۔ازمیر جلدی سے باہر گیا اور کھانا گرم کرکے لے کر آیا۔۔۔چلو اٹھو شاباش ازمیر نے ٹیبل پہ کھانا رکھ کر عرشیہ کو پکڑ کر صوفے تک لایا اور خود کے ساتھ لگا کر بیٹھ گیا۔۔عرشیہ کا نیند سے برا حال تھا۔۔۔وہ بہت کم کم کھا رہی تھی کہ ازمیر اسے خود کھلانے لگا۔۔۔جب ازمیر نے دیکھا کہ کہ اب کافی کھا چکی ہے تو اس نے عرشیہ کو بانہوں میں اٹھایا اور اس پہ بلینکٹ دے کر خود اپنا کھانا مکمل کرکے برتن اٹھا کر کچن میں رکھ کر سو گیا
عرشیہ کو سکول جاتے ہوئے ایک ماہ سے اوپر ہو گیا تھا اب وہ بھی ایڈجسٹ ہو رہی تھی۔۔ازمیر خود اسے سکول ڈراپ کرتا اور خود ہی پک کرتا تھا عرشیہ کے معاملے میں اسے ڈرائیور پہ بھی بھروسہ نہیں تھا۔۔۔ازمیر نے ادھر بھی اپنا آفس بنا لیا تھا اور ادھر سے ہی پاکستان کے آفس کو بھی ہینڈل کر رہا تھا ازمیر کی دن رات کی محنت اور لگن سے کچھ ہی عرصے میں اس نے بزنس کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا جس کی وجہ سے جتنے اس کے دوست بنے اس سے کئی گنا زیادہ اس کے دشمن بن گئے تھے جو ہر وقت اس کی کمزوری ڈھونڈنے میں لگے رہتے اور اسے نیچے گرانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے لیکن ازمیر کو کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔دشمنوں کے بارے میں اس کی ایک ہی بات ہوتی۔۔۔کتے بھونکتے ہیں اور بھونک کر بیٹھ جاتے ہیں بلکہ ان کے بھونکنے سے چلنے والوں کی منزل قریب آ جاتی ہے اور کتے اپنی وہیں کے وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں زندگی یونہی اپنی ڈگر پہ چل رہی تھی۔۔۔آج جب ازمیر عرشیہ کو سکول چھوڑ کر واپس آیا تو آفس جانے کی بجاۓ سیدھا گھر آیا۔۔اور عرشیہ کو سرپرائز دینے کی تیاری کرنے لگا کیونکہ آج عرشیہ کی برتھڈے تھی۔۔اس نے پورے گھر کو ڈیکوریٹ کیا اس کی پسندیدہ کھانے بنواۓ اور پھر چاکلیٹ کیک آرڈر کر دیا۔۔۔ایک گھنٹے میں کیک بھی ڈیلیور ہوگیا اب بس عرشیہ کے آنے کی دیر تھی۔۔ اس نے ٹائم دیکھا تو ابھی عرشیہ کو چھٹی ہونے میں دو گھنٹے باقی تھے لیکن ازمیر کے لیے یہ دو گھنٹے گزارنا دو سال کے برابر تھا۔۔۔جیسے تیسے ٹائم پورا ہوا اور ازمیر آدھا گھنٹہ پہلے ہی اس کے سکول کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔۔اور جب چھٹی ہوئی تو ازمیر جلدی سے گاڑی سے نکلا اور عرشیہ کی طرف بڑھا۔۔ابھی ازمیر نے عرشیہ کا ہاتھ پکڑا ہی تھا کہ اچانک کہیں سے فائرنگ ہوئی اور ازمیر کے ایک ساتھ کئی گولیاں لگیں..۔ازمیر نیچے گر گیا عرشیہ یہ سب دیکھتے ہوئے چلانے لگی۔۔۔ازیییییییی۔۔ازی اٹھو نہ پلیز ازی آپ کو کچھ نہیں ہو سکتا پلیز اٹھیں دیکھیں میں اکیلی ہوں۔۔عرشیہ ازمیر کو اٹھا رہی ہوتی ہے کہ کوئی پیچھے سے آتا ہے اور عرشیہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگتا ہے۔۔۔عرشیہ کا دوسرا ہاتھ ازمیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو کہ ابھی بھی اس نے مضبوطی سے پکڑا ہوتا ہے۔۔چھ چھو چھوڑ دو اسے ور ورنہ میں میں تمہی تمہیں جان سے مار دوں گا۔۔۔ازمیر اس آدمی کو دیکھتے ہوۓ کہتا ہے۔۔۔ہاہاہاہا پہلے خود کی جان تو بچا لو پھر مجھے بھی مار دینا اتنا کہہ کر وہ عرشیہ کو زور سے کھینچتا ازمیر سے ہاتھ چھڑواتا ہے ازمیر زخمی ہونے کی وجہ سے اٹھ نہیں پاتا اور جیسے ہی عرشیہ کا ہاتھ ازمیر کے ہاتھ سے نکلتا ہے ساتھ ہی ازمیر کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور ہوش و حواس کھوتے ہوۓ ساری آوازیں بند ہو جاتی ہیں بس کانوں میں ایک ہی آواز گونج رہی ہوتی ہے۔۔ازی مجھے بچاؤ مجھے بچا لو ازی پلیز اٹھیں نا۔۔اور پھر یہ آواز بھی کہیں دور چلی جاتی ہے۔۔۔کچھ ہی دیر میں وہاں پولیس آ جاتی ہے جو کہ ازمیر کو جلدی سے ایمبولینس میں ڈال کر ہاسپٹل لے جاتے ہیں.. ڈاکٹر جلدی سے ازمیر کا چیک اپ کرکے اسے آپریشن تھیٹر میں لے جاتے ہیں۔۔تقریباً تین گھنٹے کے بعد ڈاکٹر باہر نکلتے ہیں اور پولیس کو بتاتے ہیں کہ ازمیر کوما میں چلا گیا ہے۔۔۔پولیس ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے گھر والوں سے رابطہ ہو جاۓ لیکن کہیں کوئی فون نمبر یا ایڈریس نہیں ملتا کیونکہ عرشیہ کو کھونے کے ڈر سے ازمیر نے اپنا سیل۔۔نمبر گھر وغیرہ سب کچھ چینج کر دیا تھا اور اس ایک ماہ میں کسی سے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔۔۔
نہیں میرا بچہ میرا ازمیر بچاؤ اسے عائشہ خواب دیکھ رہی ہوتی ہے اور چلانے لگتی ہے۔۔ارتضٰی جلدی سے اٹھتا ہے اور عائزہ کو جھنجھوڑتے ہے۔۔۔عائشہ اٹھو کیا ہوا ہے؟ عائشہ ہڑبڑا کر اٹھتی ہے۔۔۔وہ میرا بیٹا میرا ازمیر ایسا لگا جیسے کسی پرابلم میں وہ مجھ سے دور جا رہا تھا لیکن مجھے پکار رہا تھا اسے فون کریں کسی طرح بھی اس سے رابطہ کریں مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے۔۔۔ارے کچھ نہیں تمہارا وہم ہے کچھ بھی نہیں ہوگا ہمارے بیٹے کو۔۔لیکن میں کہہ رہی ہوں نا میری بات کروائیں وہ روتے ہوئے کہتی ہے۔۔اچھا صبح میں کوشش کروں گا کہیں سے اس کا نمبر ڈھونڈنے کی اب سکون سے سو جاؤ اور یہ لو پانی پیو۔۔عائشہ پانی پی کر لیٹ جاتی ہے لیکن اسے بے چینی رہتی ہے اور اسی بے چینی میں نیند بھی نہیں آ رہی ہوتی
عادل میرا نا دل بہت گھبرا رہا ہے جیسے کچھ برا ہونے والا ہے میری عرشیہ تو ٹھیک ہوگی نا۔۔۔کچھ نہیں ویسے ہی ہو رہا ہوگا کافی دنوں سے عرشیہ کو دیکھا نہیں نا اس لیے اداسی اور گھبراہٹ ہو رہی ہوگی۔۔نہیں عادل میرا دل کہہ رہا ہے کہ کچھ تو غلط ہوا ہے کہیں تو کچھ ہوا ہے۔۔۔ارے پریشان نہ ہو اللّٰہ پہ بھروسہ رکھو سب ٹھیک ہوگا عادل زارا کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی گھبراہٹ کم نہیں ہوتی۔۔یا اللّٰہ میری بچی اور ازمیر کی حفاظت کرنا زارا نے دل ہی دل میں دعا کی۔۔
ان لوگوں نے عرشیہ کو گاڑی میں بٹھایا اور اس کی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی اور سیدھا اپنے باس کے پاس لے گئے۔۔یہ لیں باس اس کمینے کی بیوی۔۔۔ویلیم نے منہ اوپر کرکے دیکھا تو کمینگی سے ہنستے ہوۓ ارے واہ بیوی تو بہت کم سن اور خوبصورت رکھی ہوئی ہے بالکل موم کی گڑیا جیسی۔۔لیکن افسوس اب یہ اس کے ہاتھ نہیں آۓ گی۔۔جاؤ اسے نیچے اندھیری کوٹھری میں بند کرو اور ہاں اسے نشے کی ڈرگز پھر سے دے دینا مجھے اس کے چلانے کی آواز نہ آۓ کیونکہ ایسی نازک لڑکیاں ہوش میں آتے ہی چیخنے چلانے لگ جاتی ہیں اور پتا کرو اس کے ہسبنڈ کا کہ وہ مر گیا ہے یا تڑپنے کے لیے بچ گیا اگر تو وہ بچ گیا پھر تو بہت مزہ آۓ گا میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔یس باس اور اس کے آدمی نے عرشیہ کو لے جا کر بند کردیا اور اسے ڈرگز دے کر نکل گۓ