قسط: 22
ازمیر وہیں ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا اور اندر عرشیہ کا علاج چل رہا تھا تقریباً پانچ گھنٹے کے لمبے انتظار کے بعد ڈاکٹر باہر آۓ۔۔۔ازمیر ڈاکٹر کو دیکھ کر جلدی سے کھڑا ہوا۔ ۔۔۔ڈاکٹر میری بیوی کیسی ہے اب؟ ازمیر نے بے چینی سے پوچھا۔۔دیکھیں ہم نے جان تو ان کی بچا لی ہے لیکن۔۔۔ڈاکٹر نے بات اُدھوری چھوڑی۔۔۔لیکن کیا ڈاکٹر۔۔جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ ڈرگز نے ان کے دماغ کو بالکل ڈیمیج کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ نہ تو بول سکتی ہیں اور نہ ہی چل پھر سکتی ہے۔۔۔یہ سب ٹھیک ہونے میں جانے کتنا ٹائم لگے۔۔۔ایک ماہ ایک سال یا پھر کبھی نہیں۔۔۔آپ دعا کریں باقی سب تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔۔۔آپ دوا کے ساتھ دعا کرتے رہیں کیا پتا کب معجزہ ہو جاۓ ڈاکٹر ازمیر کو بتا کر اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ازمیر کتنی ہی دیر وہ اسی جگہ کھڑا رہا پھر آہستہ سے عرشیہ کے کمرے کی طرف قدم بڑھاۓ۔۔۔دروازہ کھول کر اندر کی جانب بڑھا سامنے عرشیہ آنکھیں بند کیے دوائیوں کے زیرِاثر سو رہی تھی ازمیر اس کے پاس جا کر اس کے سر کی طرف کھڑا ہوکر اس کے چہرے کو چھو کر محسوس کرنے لگا۔۔کافی دیر یونہی گزر گئی۔۔۔ازمیر ڈاکٹر کے پاس گیا۔۔۔ڈاکٹر اسے ڈسچارج کب کریں گے آپ؟ ویل مسٹر ازمیر جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ آپ کی وائف کی جان تو اب خطرے سے باہر ہے لیکن انہیں انٹرنل ویکنس بہت ہے اگر آپ چاہیں تو کل لے جا سکتے ہیں کیونکہ آج کا دن ہم انہیں انڈر آبزرویشن رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ہمم ٹھیک ہے ازمیر ایک دفعہ پھر عرشیہ کے پاس آگیا۔۔۔اور اس کے بیڈ کے پاس ہی سٹول گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور عرشیہ کے چہرے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا۔۔۔کچھ دیر گزری کہ عرشیہ کی آنکھوں کے پپوٹوں میں حرکت ہوئی۔۔۔ازمیر جو کہ عرشیہ کو ہی دیکھ رہا تھا عرشیہ کی آنکھوں کی حرکت پہ فوراً اٹھا اور اس کے بالکل پاس آگیا۔۔۔کیسی ہو میری جان؟ عرشیہ پہلے اس کی طرف دیکھتی سچویشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔لیکن پھر یکدم ہی اس کی طبیعت خراب ہونے لگی اس کا سانس اکھڑنے لگا اور وہ ادھر ادھر سر مارنے لگی ازمیر نے جلدی سے ڈاکٹر کو بلایا۔۔۔ڈاکٹر نے آکر چیک کیا اسے سکون کا انجیکشن لگایا جس سے وہ دوبارہ سے سو گئ۔۔کیا ہوا ڈاکٹر اسے۔۔۔؟ اصل میں جب اسے ہوش آیا تو اس کو سب یاد آگیا کہ اس کے ساتھ کیا کیا ہوا ہے اس لیے اتنا پینک ہو گئی۔۔۔ڈاکٹر آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ اس کی یادداشت بالکل ٹھیک ہے۔۔یس مسٹر ازمیر اور یہ ایک پوزیٹو پوائنٹ ہے۔۔یہ سن کر ازمیر کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔۔۔یا اللّٰہ تیرا شکر ہے۔۔چلو اب اس کو ٹھیک کرنا اور بھی آسان ہوگا۔۔۔مسٹر ازمیر جتنا ایزی آپ سوچ رہے ہیں اتنا ایزی ہے نہیں۔۔۔لوگوں کی زندگی بیت جاتی ہے ایسے لوگوں کو ٹھیک کرنے میں۔۔۔ڈاکٹر جس کی زندگی ہی یہ خود ہے تو اسے ٹھیک کرنے میں ایک کیا ہزاروں زندگیاں قربان۔۔۔ڈاکٹر حیرانگی سے ازمیر کی طرف دیکھنے لگا۔۔یہ کیسا دیوانہ ہے؟ مجھے تو پاگل ہی لگتا ہے ڈاکٹر دل میں سوچنے لگا۔۔کیا سوچ رہے ہیں؟یہی نہ کہ یہ پاگل ہے۔۔ہاں ڈاکٹر میں ہوں پاگل اور میرا پاگل پن ہے میری وائف میری کرسٹل ڈول۔۔۔بیسٹ آف لک ینگ مین۔۔ڈاکٹر اس کا کندھا تھپتھپا کر بیسٹ وشز کرتا چلا گیا۔۔۔اور ازمیر مسکراتے ہوئے عرشیہ کے پاس آیا اور اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بیٹھ گیا۔۔



صنم کہاں ہو یار؟ شہیر صنم کو آوازیں دے رہا تھا۔۔۔کیا ہوگیا ہے کہیں زلزلہ آگیا یا طوفان آگیا ہے؟ صنم نے کہا۔۔۔نہیں یار یہ بتاؤ ماما لوگ کدھر گۓ ہیں کوئی نظر ہی نہیں آرہا میری ماما تو سو رہی ہے آپ کی ماما اور زارا ماما بازار گئی ہوئی ہیں۔۔۔لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں خیریت؟ ہاں یار سر میں بہت درد ہو رہا ہے چاۓ بنادو پلیز۔۔۔اوکے میں ابھی بنا کر لاتی ہوں۔۔۔میرے روم میں لے آنا۔۔ٹھیک ہے۔۔۔صنم چاۓ بنانے کچن میں چلی گئی تقریباً پانچ سے دس منٹ میں وہ چاۓ اور ساتھ میں پیناڈول ٹیبلیٹ لے کر شہیر کے روم میں گئی۔۔یہ لیں چاۓ شہیر سیدھا ہو کر بیٹھا جو کہ آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا۔۔صنم نے پہلے اسے پانی کے ساتھ پیناڈول دی پھر اس کی طرف چاۓ بڑھائی۔۔تھینک یو یار۔۔خیریت یہ اچانک آپ کے سر میں درد کیوں ہونے لگا؟ صنم نے فکرمندی سے پوچھا۔۔پتا نہیں یار آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا پہلے تھوڑا کم ہو رہا تھا کہ اچانک پھر درد بڑھنے لگا۔۔جب برداشت نہیں ہوا تو پاپا کو بتا کر گھر آگیا۔۔ہمم کوئی ٹینشن ہے کیا؟ نہیں یار ٹینشن کیا ہونی ہے بس ایسے ہی درد ہونے لگا گیا۔۔شہیر نے چاۓ ختم کر کے کہ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔چلیں میں لائٹ آف کر دیتی ہوں آپ تھوڑی دیر سو جائیں پھر ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ہمم ٹھیک ہے شہیر کمفرٹر لے کر لیٹ گیا اور صنم ٹیبل سے کپ اٹھا کر لائٹ آف کرتی چلی گئی۔۔۔



عرشیہ کو رات میں دوبارہ سے ہوش آیا اس دفعہ وہ پینک ہوئی تو ازمیر نے جلدی سے اسے اپنے ساتھ لگایا اور اس کو خود میں بھینچ کر اس کے بالوں کو سہلانے لگا۔۔شش چپ میری جان میں ہوں نا تمہارے پاس میں کبھی تمہی کچھ نہیں ہونے دوں گا چپ بس اب پینک نہیں ہونا میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں تمہارے پاس ہوں۔۔کبھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ازمیر عرشیہ کو آہستہ آہستہ بہلا رہا تھا اور وہ سکون میں آ رہی تھی۔۔ازمیر نے جب دیکھا کہ عرشیہ اب پر سکون ہے تو اسے نرمی سے الگ کرتے ہوئے اپنے سامنے کیا۔۔۔اوہو میری ڈول کے تو بال بکھرے رہے ہیں چلو میں سمیٹ دوں۔۔ازمیر نے اس کا بینڈ اتار کر اپنے ہاتھوں ہی سے اس کے بال سلجھا کر اس کو بینڈ میں کور کر دیا۔۔۔اب چلو میں تمہارا منہ بھی دھو دیتا ہوں۔۔ازمیر واشروم سے ایک گلاس میں پانی لے کر آیا اور آہستہ آہستہ ٹشو سے اس کا منہ صاف کرنے لگا اور پیچھے ہو کر عرشیہ کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ہمم اب ٹھیک ہے۔۔۔تو عرشیہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔ہیں نہیں ٹھیک۔۔تو عرشیہ نے نہ میں سر ہلایا۔۔۔اچھا تو پھر بتاؤ میری گڑیا کو اب کیا چاہیئے؟ ازمیر نے خوش ہوتے ہوۓ پوچھا کیونکہ عرشیہ اس کی باتوں پہ رسپانس کر رہی تھی۔۔۔ازمیر کے پوچھنے پہ جیسے ہی عرشیہ نے بولنے کے لیے منہ کھولا تو اس سے بولا نہ گیا اس نے کئی بار کوشش کی لیکن ندارو۔۔۔عرشیہ آنکھوں میں آنسو لیے رونے لگ گئی۔۔۔اوں ہوں رونا نہیں میری زندگی نے۔۔یہ سب عارضی ہے تھوڑے سے علاج کے بعد تم پھر سے پہلے جیسی ہو جاؤ گی پھر مل کر سب کو تنگ کریں گے ٹھیک ہے عرشیہ کے آنسو صاف کرتے ہوۓ ازمیر نے اسے پیار سے سمجھایا تو عرشیہ نے ہاں میں گردن ہلائی۔۔چلو اب مجھے بتاؤ کہ کیا چاہئے؟ تو عرشیہ نے اپنے دانت دکھاتے ہوۓ برا سا منہ بنایا۔۔۔ازمیر ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسنے لگا۔۔۔ٹھیک ہے میں برش اور پیسٹ لے کر آتا ہوں۔۔۔تو عرشیہ نے فوراً نہ میں سر ہلایا۔۔اور ڈرنے لگی ازمیر کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔۔ازمیر سمجھ گیا کہ یہ اکیلے رہنے سے ڈرتی ہے اس لیے اسے جانے نہیں دے رہی۔۔۔ایک منٹ۔۔ازمیر نے بیل بجائ ایک نرس فوراً حاضر ہوئی۔۔۔یس سر کیا ہوا؟ آپ تھوڑی دیر کے لیے ادھر عرشیہ کے پاس رکیں میں ابھی آتا ہوں۔۔اوکے سر۔۔لیکن عرشیہ نے ازمیر کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔۔۔ڈونٹ وری میری جان میں یوں گیا اور یوں آیا ازمیر نرس کو پاس بٹھا کر چلا گیا۔۔