قسط: 23
ازمیر جلدی سے برش اور پیسٹ لے کر آتا ہے لیکن جب وہ آتا ہے تو عرشیہ پہ غنودگی طاری ہوتی ہے۔۔سسٹر ابھی تو یہ جاگیر تھی پھر سے سو رہی ہے۔۔۔جی سر ابھی ابھی انہیں میڈیسن دی ہے نا تو اس لیے یہ سو رہی ہیں اور ویسے بھی یہ جتنا زیادہ سکون۔میں رہیں گی اتنی ہی جلدی ٹھیک ہونے کے چانسز زیادہ ہیں۔۔۔اووو ہمم اوکے۔۔سسٹر مسکراتے ہوئے چلی جاتی ہے۔۔۔ازمیر ادھر ہی کاؤچ پہ نیم دراز ہو جاتا ہے نا جانے کتنی ہی راتوں سے جاگے ہوۓ ازمیر پہ تھوڑی ہی دیر میں نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ بھی سو جاتا ہے۔۔لیکن وہ زیادہ دیر سو نہیں پاتا جلد ہی وہ گھبرا کر اٹھ جاتا ہے اور ادھر ادھر دیکھتا ہے فوراً اٹھ کر عرشیہ کے پاس جاتا ہے۔۔۔اوہ گاڈ عرشیہ کو کھونے کا ڈر شاید مجھے کبھی سونے نہیں دے گا۔۔۔نہیں میں اب اس کو کھونے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔۔وہ ادھر ہی اس کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔۔۔آج کی ساری رات بھی اس کی آنکھوں میں ہی گزری تھی۔۔۔صبح ڈاکٹر آیا اور عرشیہ کا چیک اپ کرنے لگا جیسے ہی ڈاکٹر عرشیہ کو چیک کرکے فارغ ہوا تو ازمیر ڈاکٹر سے عرشیہ کے ڈسچارج ہونے کی بات کرنے لگا۔۔۔یس مسٹر ازمیر آپ ساری فارمیلٹیز پوری کر دیں ہم آپ کی وائف کو ڈسچارج کر دیں گے۔۔ٹھیک ہے میں ابھی ساری فارمیلٹیز پوری کر دیتا ہوں آپ پیپرز بھجوا دیں۔۔۔ڈاکٹر ہاں میں گردن ہلاتا چلا گیا کچھ ہی دیر میں نرس سارے پیپرز لے کر آگئ۔۔۔ازمیر نے اس کے ہاتھوں سے پیپرز لے کر فل اپ کر دیا یہ لیں سسٹر۔۔نرس نے اس کے ہاتھوں پیپرز لیے اور عرشیہ کو گریٹنگ کرتی چلی گئی۔۔۔عرشیہ جیسے ہی کھڑی ہونے لگی لیکن اس سے بالکل بھی ہلا نہ گیا۔۔۔وہ ازمیر کی طرف صدمے سے دیکھنے لگی۔۔۔عرشیہ کی آنکھوں میں کرب دیکھ ازمیر کے دل کو کچھ ہوا اس کا دل کیا عرشیہ کے سارے دکھ خود میں سمیٹ لے۔۔۔لیکن ایسا کیسے ممکن تھا جو دکھ عرشیہ کے حصّے کے تھے وہ ازمیر کیونکر لے سکتا تھا۔۔۔اس نے عرشیہ کے پاس ہو کر اس کے آنسو صاف کیے اور اسے اپنی بانہوں میں بھرتا باہر لے آیا اور گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آیا۔۔۔اسے روم میں لٹا کر خود باہر آیا اور جونسن کو کھانے کا مینیو بتانے لگا۔۔۔اور خود اپنے روم میں فریش ہونے چلا گیا۔۔۔تھوڑی دیر بعد جب وہ عرشیہ کے پاس آیا تو وہ رونے میں بزی تھی۔۔۔Hey.. why are you crying my little doll کیا وہ روتے ہوئے ازمیر کی طرف دیکھتی ہے۔۔۔ازمیر کا دل اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں میں ہی ڈوب جاتا ہے۔۔۔لیکن فوراً خود کو سنبھالتے ہوۓ بتاؤ کیوں رو رہی ہو۔۔۔عرشیہ کچھ کہنے لگتی ہے لیکن جب دیکھتی ہے کہ وہ بول بھی نہیں سکتی تو اس کے رونے میں اور بھی شدت آجاتی ہے وہ کانپنے لگتی ہے۔۔ازمیر جلدی سے آگے بڑھ کر اسے اپنے سینے میں چھپاتا ہے۔۔شش چپ میری عرشیہ تو بہت بہادر ہے دیکھنا یہ اپنی بیماری کا بھی بہت بہادری سے مقابلہ کرے گی اور جیت جاۓ گی دیکھنا یہ سب بیماریاں شماریاں ہار کے بھاگ جائیں گی اور میری عرشیہ بالکل پہلے کی طرح ہو جاۓ گی۔۔۔اسے پیچھے کرتا اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اس ہے نا ایسا ہی ہوگا نا؟ اس سے اپنی بات کی تصدیق چاہتا ہے تو وہ نفی میں سر ہلانے لگتی ہے۔۔۔سب سے پہلے تو تم چپ کرو۔۔۔لیکن عرشیہ کے رونے میں کوئی کمی نہیں آتی۔۔۔بس میری جان چپ کر جاؤ اتنا نہیں روتے۔۔اسے بمشکل چپ کرواتے ہوئے۔۔اب بالکل نہیں رونا اوکے تو وہ منہ نیچے کر لیتی ہے۔۔ہمم گڈ۔۔میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔۔ازمیر اٹھ کر باہر جاتا ہے اور لمبے لمبے سانس لینا شروع کر دیتا ہے۔۔۔یا اللّٰہ مجھے بھی ہمت دینا یہ سب کچھ برداشت کرنے میں اگر عرشیہ کو دیکھ میری ہمت جواب دینے لگے تو مجھے سنبھال لینا اور میری ہمت ٹوٹنے مت دینا۔۔اوپر دیکھ وہ دعا کرتا کچن کی طرف بڑھتا ہے اور باؤل میں سوپ لے کر عرشیہ کے پاس آتا ہے اور اسے اپنے ہاتھوں سے سوپ پلاتا ہے اور پھر میڈیسن دیتا ہے۔۔اسے لٹاتے ہوئے چلو اب سو جاؤ اوکے میں ادھر ہی صوفے پہ ہوں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا عرشیہ ہاں میں سر ہلاتی آنکھیں بند کرلیتی ہے۔۔ازمیر اس کا کمبل ٹھیک کرکے خود صوفے پہ آکر لیٹ جاتا ہے۔۔۔کچھ ہی دیر میں عرشیہ سوجاتی ہے اور ازمیر تسلی کرتا خود بھی سوجاتا ہے۔۔۔



آپ نے ازمیر اور عرشیہ کو ڈھونڈا نہیں۔۔۔عائشہ نے ارتضیٰ سے کہا پوچھا۔۔۔ہاں میں نے ایک پرائیویٹ ڈیٹیکٹو ہائیر کیا ہوا ہے جیسے ہی کچھ پتا چلتا ہے تو بتاۓ گا مجھے۔۔۔پورے چار ماہ ہونے کو ہے ابھی تک آپ کو کچھ پتا نہیں چل رہا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی پتا نہیں کیسے ہوں گے میرے بچے؟ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی اس دنیا ہی میں ہے نا کسی اور دنیا میں تو جانے سے رہے۔۔۔آپ نے لندن پتا کیا؟ میں نے سارے ایئرپورٹس سارے بحری جہاز سے جانے والی جگہوں ہر جگہ پتا کیا لیکن کہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا۔۔یہاں تک کہ میں خود کئی کئی دن تک اس کے آفس جا کر بیٹھا رہا ہوں اس کے گارڈز اس کے اب آدمیوں سے پتا کیا لیکن کوئی منہ کھولنے کو تیار ہی نہیں ہر طرح سے کوشش کر لی ہے۔۔۔جب تک وہ خود نہیں چاہے گا اس سی کوئی بھی رابطہ کرنا ناممکن ہی لگ رہا ہے۔۔ویسے بھی اسے خود شرم ہونی چاہیے کہ رابطہ کرکے بتا دے لیکن نہیں اسے تو احساس ہی نہیں کسی کا ارتضیٰ آخر میں غصّہ ہوتے بولے تو عائشہ بھی چپ کر گئی۔۔۔آپ نے بابا سائیں سے پوچھنے کی کوشش کی۔۔۔ان سے جب بھی پوچھو بس ایک ہی جواب ملتا ہے کہ فکر نہیں کرو وہ ٹھیک ہے یہاں تک کہ میں نے ان کا نمبر بھی ٹریس کروایا کہ جب بھی ازمیر ان سے رابطہ کرے گا تو ہمیں پتا چل جاۓ گا۔۔۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ بابا سائیں کسی اور طریقے سے اس سے رابطہ رکھے ہوۓ ہیں۔۔۔میں ابھی بابا سائیں سے بات کرتی ہوں عائشہ اٹھ کر جانے لگی۔۔ارتضٰی نے روکنا چاہا لیکن ایک ماں کیسے رک سکتی ہے عائشہ سنی ان سنی کرتی مصطفیٰ صاحب کے روم میں چلی گئی۔۔۔ناک کرکے اندر بڑھی تو دیکھا زارا بھی سامنے ہی بیٹھی ہوئی ہے۔۔آؤ عائشہ یقیناً تم بھی اپنے بیٹے کا ہی پتا کرنے آئی ہوگی۔۔۔جی بابا سائیں پلیز آپ ہمیں بتا کیوں نہیں دیتے کہ ہمارے بچے کہاں ہیں؟ دیکھو وہ ٹھیک ہیں جہاں بھی ہیں اور ازمیر نے مجھے اپنی قسم دے کر وعدہ لیا ہے کہ میں کسی بھی حالت میں تم لوگوں کو نہ بتاؤں۔۔۔بابا سائیں پلیز رحم کریں ہم پر اور ہمیں ان سے ملوا دیں یا کم سے کم بات ہی کروا دیں۔۔۔ٹھیک ہے لیکن تم لوگ پہلے مجھ سے وعدہ کرو کہ تم لوگ عرشیہ کو ازمیر سے الگ کرنے کی بات نہیں کرو گے۔۔۔ٹھیک ہے بابا سائیں ہم وعدہ کرتے ہیں۔۔۔ہمم ٹھیک ہے میں ایک دو دن تک کچھ کرتا ہوں۔۔۔شکریہ بابا سائیں دونوں مصطفیٰ صاحب کا شکریہ ادا کرتی خوش ہوتی چلی جاتی ہیں۔۔۔لیکن مصطفیٰ صاحب ٹینشن میں ہوتے ہیں پچھلے تقریباً تین ماہ سے ان کا ازمیر سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا تھا۔۔۔انہوں نے ہر ممکن کوشش کی اس سے رابطہ کرنے کی لیکن نہیں ہو پایا تھا۔۔بہت سے میسجز بھی چھوڑے لیکن ایک کا بھی ریپلائے نہیں ملا اسی وجہ سے مصطفیٰ صاحب بہت بیمار بھی ہو گئے تھے تقریباً روز ہی ہاسپٹل میں آنا جانا لگا رہا کسی بھی صورت انہیں سکون نہیں مل رہا تھا جس کی وجہ سے وہ ہارٹ پیشنٹ بنتے جارہے تھے ایک دن یونہی سوچتے ہوۓ اچانک سے ان کے دل میں درد شروع ہوا اور وہ بے ہوش ہوگۓ۔۔۔سب پریشان ہو کر انہیں ہاسپٹل لے کر گۓ ڈاکٹر نے سبب ٹینشن بتایا اور سفر سے بھی منع کر دیا۔۔۔لیکن اب بس بہت ہو گیا اب اور نہیں یہ سب سوچتے ہوۓ انہوں نے بیٹھے بیٹھے ایک فیصلہ کر ڈالا کہ اگر اگلے دو دن تک بھی کوئی رابطہ نہ ہو سکا تو وہ خود چلے جائیں گے ازمیر کے پاس۔۔۔اور پھر لیٹ گۓ۔۔



ادھر عرشیہ سو رہی تھی لیکن آدھی رات کو وہ سوتے ہوئے ڈر گئی اپنا سر ادھر ادھر تکیے پہ مارنے لگی۔۔۔چیخنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن آواز نکل نہیں رہی تھی کوشش کرکے ہاتھ سائیڈ ٹیبل پہ مارنے لگی ابھی دو دفعہ ہی ہاتھ مارا کہ ازمیر جلدی سے اٹھا اور جلدی سے عرشیہ کے پاس آیا اسے بٹھایا اپنے ساتھ لگا کر اسے چپ کروایا۔۔۔ازمیر نے بہت مشکل سے عرشیہ کو سنبھالا۔۔۔عرشیہ کی سانس تک اکھڑ رہی تھی۔۔۔جیسے تیسے کرکے ازمیر نے عرشیہ کو پر سکون کیا اور اس کے پاس ہی کراؤن سے ٹیک لگاۓ نیم دراز ہو کر عرشیہ کو سلانے لگا۔۔۔۔تقریباً دو سے تین گھنٹے باتوں میں لگا کر اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بڑی جہدوجہد کے بعد عرشیہ کو سلایا اور خود ساری رات اس کے پاس ایسے ہی بیٹھا رہا۔۔۔صبح ہوئی تو ازمیر نے ایک دفعہ پھر تسلی کی کہ عرشیہ گہری نیند سو رہی ہے۔۔۔ازمیر باہر آیا اور سب سے پہلے اس نے ایک بیل کا ارینج کیا اس کے بعد اس نے ایک فیمیل میڈ کا ارینج کیا۔۔۔اس میڈ کو ساری انسٹرکشن دیتے ہوئے سمجھایا۔۔۔اگر کسی بھی قسم کی کوئی غلطی یا لاپرواہی ہوئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔تمہیں زمین میں گاڑ دوں گا سمجھی تو میڈ گھبراتے ہوئے نہیں سر ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ہمم گڈ۔۔۔اسے سمجھانے کے بعد ازمیر عرشیہ کے کمرے میں آیا دیکھا تو وہ جاگ رہی تھی آکر اس کے پاس بیٹھا اور اس کو بیل دکھائی۔۔۔یہ بیل تمہارے لیے جب بھی کسی کو بلانا ہو تو یہ بیل بجا دینا اوکے اور اگر کسی سے کچھ کہنا ہو تو یہ پین اور پیپر ہے اس پہ لکھ دیا کرنا۔۔۔یہ سب دیکھ کر عرشیہ کی آنکھیں نم ہوئ اور سوچنے لگی کہ یہ دن بھی آنے تھے زندگی میں۔۔۔کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر تم بالکل پہلے جیسی ہو جاؤ گی پھر ان جیسی کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں پڑے گی تمہیں انشاء اللّٰہ۔۔۔چلو اب جلدی سے فریش ہو جاؤ میں میڈ کو بلاتا ہوں اس سے تمہارا انٹروڈکشن بھی کرواتا ہوں اور وہ تمہیں فریش ہونے میں ہیلپ کرے گی اور تمہیں چینج بھی کروا دے گی اوکے۔۔عرشیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔ازمیر نے میڈ کو آواز دی۔۔ہانا۔۔ہانا فوراً ہی حاضر ہو گئ۔۔۔ہانا یہ ہے میری وائف عرشیہ جس کا تم نے بہت زیادہ اچھے سے خیال رکھنا ہے اور یہ ہے ہانا جو سارا دن تمہارے پاس رہے گی کوئی بھی کام ہو اس سے کہ دیا کرنا۔۔تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائیں۔۔چلو ہانا اب انہیں جلدی سے فریش ہونے میں ہیلپ کرو پھر اس کو چینج کروا کر باہر لے کر آؤ میں ناشتہ لگواتا ہوں کہہ کر ازمیر باہر چلا گیا اور ہانا جلدی سے آگے بڑھی اور عرشیہ کو وہیل چئیر پہ بیٹھنے میں مدد کی اور اسے واشروم میں لے گئ۔۔۔ہانا نے عرشیہ کو چینج کروا کر باہر لائ جہاں ازمیر پہلے سے ہی ان کا ویٹ کر رہا تھا۔۔۔ازمیر نے عرشیہ کو دیکھا اور وہیل چئیر سے اٹھا کر اپنے پاس والی چئیر پہ بٹھا کر اس کی پلیٹ میں پراٹھا رکھا جاے عرشیہ آہستہ آہستہ کھانے لگی جب اس کا پراٹھا ختم ہوا ازمیر نے کپ میں چاۓ ڈال کر دی عرشیہ نے چاۓ ختم کرکے ازمیر کی طرف دیکھا۔۔ازمیر نے جب عرشیہ کو خود کی طرف دیکھتے پایا تو اس کی طرف مڑا اب اور کیا چاہئے میری پرنسس کو اس کا ناک چھوتے ہوئے پوچھا تو عرشیہ نے چاۓ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔وہاٹ۔۔۔اور چاۓ تو عرشیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔نو عاشو بس ایک کپ کافی ہے یہ سن کر عرشیہ نے منہ پھلا کر دوسری طرف کر لیا جس کا صاف صاف مطلب تھا کہ وہ ناراض ہو گئ ہے اب بات مت کرنا۔۔۔ازمیر نے مسکرا کر گہری سانس بھری اور کپ میں چاۓ انڈیلنے لگا عرشیہ کن اکھیوں سے سب دیکھ رہی تھی۔۔یہ لو میری چاۓ کی دیوانی پرنسس تو عرشیہ فوراً سیدھی ہو کر بیٹھی اور مسکراتے ہوئے کپ پکڑ لیا۔۔۔ازمیر نے مسکرا کر اس کے سر پہ چپت لگاتا ہے پاگل تو عرشیہ اسے گھورنے لگتی ہے۔۔چلو میرا ناشتہ ہوگیا میں اب کسی کام سے باہر جا رہا ہوں جلدی سے میں کام نمٹا کر آیا اوکے وہ عرشیہ کے ماتھے پہ بوسہ دیتا اور پھر ہانا کی طرف آتا ہے دیکھو میں کسی کام سے ایک گھنٹے تک باہر جا رہا ہوں عرشیہ کا اچھے سے خیال رکھ ا کسی بھی قسم کی لا پرواہی نہیں ہونی چاہئے۔۔۔یس سر میں پورا خیال رکھوں گی میم کا۔۔ہمم گڈ۔ اور ازمیر گاڑی کی چابی لیتا چلا جاتا ہے۔۔



عائزہ کا آج پیپر ہوتا ہے وہ جلدی جلدی تیار ہو رہی ہوتی ہے۔۔۔نیچے آکر سب کو سلام کرتی کھڑی کھڑی جوس پیتی ہے کہ سائرہ اسے ٹوکتی ہے۔۔عائزہ یہ کیا طریقہ ہوا۔۔۔ماما مجھے دیر ہو رہی ہے میرا پہلا پیپر ہے تو یونی جلدی پہنچنا ہے۔۔۔ہاں تو ناشتہ تو ٹھیک سے کرو ایسے بھوکے پیٹ پیپر لیا خاک اچھا ہوگا۔۔نہیں ماما میں ادھر سے کچھ کھا لوں گی ۔۔روکو سائرہ اٹھتی دو تین بریڈ پہ جیم لگا کر ایک باکس میں ڈال کر پکڑاتی ہے یہ لو راستے میں کھا لینا ۔۔او ماما تھینک یو وہ بریڈ پکڑ کر جانے لگتی ہے کہ فیروز روک لیتا ہے۔۔رکو میرا بھی ناشتہ ہو گیا چلو تمہیں میں چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔آجاؤ پھر جلدی سے فیروز جلدی سے کھڑا ہوتا سب کو خدا حافظ بولتا ہے اور جلدی سے گاڑی باہر نکالتا ہے گیٹ کے پاس عائزہ اس کا پہلے سے ویٹ کر رہی ہوتی ہے۔۔۔آؤ مادام عائزہ جلدی سے بیٹھتی ہے تو فیروز جلدی سے گاڑی چلاتے ہوۓ عائزہ سے باتیں کرنے لگتا ہے۔۔۔کیسی تیاری ہے میری مسز کی؟ بہت اچھی۔۔ہمم گڈ چلو یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔فیروز یونی کے آگے گاڑی روکتا یہ لو آگئی تمہاری یونی۔۔عائزہ تھینکس کہتی جانے لگتی ہے کہ فیروز اسے روکتا ہے بیسٹ آف لک کہتا اس کے گال پہ سوفٹ کس کرتا ہے۔۔۔فیروز کی اس حرکت پہ عائزہ کا چہرہ شرم سے لال ہو جاتا ہے اور وہ ارد گرد دیکھتی ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔۔۔اس کی اس حرکت پہ فیروز گہرا مسکراتا ہے۔۔کوئ نہیں دیکھتا ویسے بھی بیوی ہو تم میری۔۔تو وہ مسکراتے ہوئے گاڑی سے نکلتی ہے اور فیروز کو باۓ بولتی یونی کی طرف بڑھتی ہے۔۔۔فیروز وہاں تب تک کھڑا رہتا ہے جب تک عائزہ یونی میں داخل نہیں ہو جاتی اس کے بعد وہ گاڑی چلاتا اپنے آفس کے لیے نکل جاتا ہے۔