قسط: 24
عائزہ جیسے ہی یونی میں داخل ہوتی ہے تو اس کی دوست فوراً اس کی طرف لپکتی۔۔اہمم اہمم۔۔ہاں کیا ہوا گلے میں خراش ہے کیا؟ عائزہ نے اسے چھیڑا۔۔نہیں میں تو یہ دیکھ رہی ہوں کہ اگر ہبی کس کرے تو رنگ اتنا گلابی کیوں ہو جاتا ہے اور چہرے سے سمائل بھی نہیں جاتی۔۔۔اس کی بات سن کر عائزہ گھبرا کر منہ کھولے اس کی طرف دیکھتی ہے دیکھو مہوش ایک ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔اچھااااا مطلب میری آنکھوں نے جو بھی دیکھا وہ خواب تھا جھوٹ تھا سب ہے نا؟ تمہیں مجھ پہ نظر رکھ ے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے کیا؟ عائزہ اس پہ چڑھ دوڑی۔۔۔نہیں میں کہاں تم پہ نظر رکھ رہی تھی میں تو تمہاری طرف آ رہی تھی کہ اکٹھے یونی میں چلیں گے جب جیجو کو دیکھا کہ وہ تم سے رومانس کرنے میں بزی ہیں تو میں اپنی آنکھیں بند کرکے واپس آگئ۔۔۔ہاں سب کچھ دیکھ کہ تو آنکھیں بند کرلیں کتنی معصوم ہو نا تم۔۔۔نہیں سب کچھ نہیں بس رخسار پہ کس کرتے دیکھا میں نے۔۔کہیں اور بھی کیا کیا جیسے ہونٹ۔۔۔نہیں بس رخسار پہ عائزہ جلدی سے بولی وہ مہوش کے سوالوں سے بہت گھبرا رہی تھی اس کی حالت دیکھ مہوش کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔کم آن یار ہسبنڈ ہے تمہارا تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے تجھے میں نے بواۓ فرینڈ کے ساتھ پکڑ لیا ہو۔۔۔اس نے اپنی ہنسی کے بیچ کہا۔۔تمہیں تو میں کچا چبا جاؤں گی مہوش کی بچی۔۔۔عائزہ اس کے پیچھے بھاگی لیکن وہ اس کے ہاتھ نہیں آئ اور سیدھا کلاس روم میں جا کر رکی۔۔۔



عریشہ۔۔۔زارا عریشہ کو آواز دیتی ہے۔۔۔جی ماما۔۔بیٹا ذرا اپنے پاپا کو چاۓ بنادو میرا یہ تھوڑا سا کام رہ گیا ہے وہ میں پورا کرلوں۔۔زارا آج سارا کباڑ نکال کر بیٹھی تھی جو چیزیں بے کار تھیں وہ الگ کر رہی تھی اور کار آمد چیزیں الگ سے رکھ رہی تھی۔۔۔جی ماما ابھی بنا دیتی ہوں عریشہ آٹھ کر کچن میں چلی گئی۔۔۔شایان اپنے کمرے میں آفس کے کام میں مصروف تھا کہ اچانک اسے پیاس کا احساس ہوتا ہے۔۔۔وہ پانی پینے کے لیے ٹیبل پہ پڑے جگ کی طرف بڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کینوہ خالی ہے شایان گہری سانس لے کر نیچے کچن کی طرف جاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ کچن میں داخل ہوتا ہے تو اس کی نظر سیدھی دُشمنِ جان پر پڑتی ہے۔۔۔کیا ہو رہا ہے وہ جا کر پی ھے سے ہگ کرتا اس کے گال پہ کس کرتا ہے۔۔۔عریشہ اس کے اچانک بولنے اور ہگ کرنے سے ڈر جاتی ہے۔۔۔ارے آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔۔۔اووو تو تم ڈرتی بھی ہو مجھے تو لگا تم صرف ڈراتی ہی ہو۔۔۔اچھا کب ڈرایا میں نے آپ کو؟ ہاہاہا اچھا یہ بتاؤ چاۓ کا کے لیے بنا رہی ہو؟ اپنے اور پاپا کے لیے۔۔۔ہمم ایک کپ مجھے بھی بنا دو یار بڑی طلب ہو رہی ہے۔۔۔ٹھیک ہے یہ لیں آپ میرے والا کپ لے لیں میں اپنے لیے دوبارہ بنا لوں گی۔۔۔ہاؤ سویٹ آف یو اس کا گال کھینچتے ہوۓ کہا تو عریشہ جھینپ گئی۔۔۔بلین میں یہ چاۓ پاپا کو دے آؤں۔۔ہمم ٹھیک ہے جاؤ میں بھی اپنے روم میں جا رہا ہوں شایان پانی پی کر چاۓ کا کپ اٹھاتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔



مصطفیٰ صاحب ایک بار پھر ازمیر کو کال کرتے ہیں۔۔۔دو بیل جانے کے بعد کال اٹینڈ ہو جاتی ہے۔۔اسلام و علیکم دادا جانی کیسے ہیں آپ؟ تمہیں اس سے کیا میں جیسا بھی ہوں تم تو وہاں جا کر بھول ہی گۓ نہ کوئی کال نہ کوئی میسج تمہیں پتا ہے میں کتنا پریشان ہو گیا تھا کہ پتا نہیں کیوں نہیں رابطہ ہو رہا پتا نہیں ٹھیک بھی ہوگا کہ نہیں کہیں عرشیہ کو نہ کچھ ہو گیا ہو تمہارے اور عرشیہ کے والدین الگ سے پریشان تھے لیکن تمہیں کوئی فکر ہو تب نا تمہیں تو ہم میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔تمہیں پتا ہے تمہاری وجہ سے میں ہارٹ پیشنٹ بن گیا ہوں۔۔۔ازمیر کے کال اٹینڈ کرکے سلام کرنے کی دیر تھی کہ مصطفیٰ صاحب بنا سانس لیے شروع ہو گۓ۔۔۔کیااااا؟ دادا جانی آپ ہارٹ پیشنٹ یہ کیسے ہوا؟ اب تمہیں کیوں فکر ہونے لگی۔۔رہو تم ادھر ہی رہنے دو ہم سب کو۔۔۔ارے نہیں دادا جانی آپ نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا؟۔۔۔ک کیا ہوا بیٹا تم ٹھیک تو ہو نا؟ ایک منٹ میں مصطفیٰ صاحب کا غصّہ فکر میں بدل گیا۔۔۔جی دادا جانی ٹھیک ہوں میں ازمیر نے اداس لہجے میں کہا جو مصطفیٰ صاحب نے بخوبی محسوس کرلیا۔۔۔کیا بات ہے بیٹا عرشیہ تو ٹھیک ہے نا؟ جی دادا جانی سب ٹھیک ہے میں سب پ کو بعد میں بتاؤں گا ابھی مجھے ایک بہت ضروری میٹنگ میں جانا ہے میں آپ سے شام کو بات کرتا ہوں۔۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا اپنا اور عرشیہ کا خیال رکھنا۔۔۔جی دادا جانی اللّٰہ حافظ اور ازمیر فون بند کر دیتا ہے اس نے جان بوجھ کر بات ٹالی تھی کیونکہ وہ اپنے دادا کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ازمیر گہری سانس لیتا مینجر کو بلاتا ہے اور اسے سب ہدایت کرتا خود گھر کے لیے روانہ ہو جاتا ہے…گھر جاتے ہی وہ سب سے پہلے عرشیہ کے روم میں جاتا ہے۔۔۔ہئی بےبی کیسی ہو؟ وہ سر سے اشارہ کرتی ہے کہ میں ٹھیک ہوں ۔۔ہانا تمہارا اچھے سے خیال رکھ رہی ہے نا تو عرشیہ پھر سے سر اثبات میں ہلا کر جواب دیتی ہے۔۔۔کچھ چاہئیے۔۔۔عرشیہ نفی میں سر ہلاتی ہے۔۔۔اچھا۔۔لیکن میں تو آئسکریم لایا تھا چلو میں یہ جونسن اور ہانا کو دے دیتا ہوں وہ کھا لیں گے۔۔۔تو عرشیہ ازمیر کو آنکھیں دکھاتے ہوۓ ہاتھ کے اشارے سے اس سے آئسکریم مانگتی ہے۔۔۔ہاہاہا۔۔۔یہ لو ازمیر عرشیہ کی طرف آئسکریم بڑھاتا ہے۔۔۔اور وہ خوشی سے اس سے چھین کر کھانے لگتی ہے۔۔۔اچانک سے ازمیر کو کچھ ہونے لگتا ہے۔۔۔اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔۔۔وہ دل میں سوچتے ہوئے۔۔لگتا ہے کہ آج پھر سے پاورز حاوی ہو رہی ہیں اس سے پہلے عرشیہ کو کچھ پتا چلے اور وہ ڈر جاۓ مجھے جلدی سے یہاں سے چلے جانا چاہئے۔۔۔میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں کچھ کام ہے مجھے۔۔۔وہ جلدی سے اٹھ کر گھر کے بیسمنٹ میں جا کر خود کو بند کر لیتا ہے اور ادھر جاکر خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کر نہیں پاتا پھر زور سے چلاتا ہے اور ادھر ہی بے چینی سے ادھر ادھر گھومنے لگتا ہے۔۔۔اسے اتنی سردی میں بھی گرمی محسوس ہو رہی ہوتی ہے اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول دیے اور اتار کر دور پھینکی اپنی vest بھی اتار کے پھینک دی اور خود کو پر سکون کرنے لگا۔۔۔تقریباً دو سے تین گھنٹے خود سے لڑتا رہا پھر آخر کار آہستہ آہستہ وہ پر سکون ہونے لگا اور اپنی اصل حالت میں آنے لگا۔۔۔ٹھیک ہونے کے کچھ دیر بعد اس نے اپنی شرٹ اٹھائ اور باہر آکر اپنے روم میں آیا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔فریش ہو کر وہ باہر جانے لگا لیکن جاتے جاتے وہ عرشیہ کے روم میں گیا۔۔۔اس نے دیکھا عرشیہ کچھ لکھ رہی ہے۔۔۔کیا لکھ رہی ہو عاشو تو عرشیہ اس کی طرف دیکھتی ہے اور ڈرتے ہوئے پیپر اس کی طرف بڑھاتی ہے۔۔۔اس نے عرشیہ کی لکھی تحریر پڑھیں اور اس کی طرف دیکھنے لگا عرشیہ نے ڈر کے مارے آنکھیں نیچی کیں اور اپنے ہاتھ ملنے لگی۔۔۔میں واپس آکر بتاتا ہوں ازمیر اتنا کہہ کر باہر چلا گیا۔۔۔عرشیہ نے لکھا تھا کہ ماما لوگوں کے پاس جانا چاہتی ہوں پلیز مجھے لے جائیں۔۔۔اب عرشیہ ڈر رہی تھی کی ازمیر پتا نہیں کیسا ردعمل دکھاۓ گا۔۔۔چلیں عرشیہ میم لیٹ جائیں آپ اور تھوڑی دیر کے لیے سو جائیں۔۔لیکن اب اسے نیند کہاں آنے والی تھی اسے بس ایک ہی ڈر تھا کہ ازمیر پتا نہیں کیا کرے گا اس کے ساتھ وہ چپکے سے آنسو بہانے لگی اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگی کہ ازمیر اسے کچھ نہ کہے۔۔۔ازمیر اس وقت کا گیا ہوا رات کو گھر میں آیا جیسے ہی عرشیہ کو پتا چلا کہ ازمیر گھر آگیا ہے تو اس نے بلینکٹ منہ تک تان لیا۔۔۔ازمیر کافی دیر اپنے روم میں بیٹھا سوچتا رہا پھر ایک فیصلہ کرتے ہوۓ عرشیہ کے روم میں آیا۔۔۔عرشیہ۔۔۔اس نے عرشیہ کو آواز دی۔۔لیکن عرشیہ نے آواز سنی ان سنی کر دی اور سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔۔عرشیہ مجھے پتا ہے تم جاگ رہی ہو کمبل ہٹاؤ منہ سے تو عرشیہ نے آہستہ سے کمبل منہ سے ہٹایا لیکن ازمیر کی طرف نہیں دیکھا۔۔ازمیر نے آگے بڑھ کر عرشیہ کو پکڑ کر بٹھایا لیکن عرشیہ کی آنکھیں ہنوز نیچے تھی۔۔۔تو تم پاکستان جانا چاہتی ہو؟ تو عرشیہ نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔ہمم ٹھیک ہے ایک شرط پہ لے کر جاؤں گا اتنا سننا تھا کہ عرشیہ نے جلدی سے ازمیر کی طرف دیکھا۔۔۔کہ وہاں جا کر تم بدل نہیں جاؤ گی ہمیشہ میرا ساتھ دوگی مجھ سے دور ہونے کا نام بھی نہیں لو گی۔۔۔اگر یہ ساری باتیں ماننے کا وعدہ کرتی ہو تو میں تمہیں لے جاؤں گا اگر ان میں سے ایک بات سے بھی انکار کرتی ہو تو پھر تم ادھر ہی رہو گی۔۔۔عرشیہ نے جلدی سے پین اور پیپر اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا جو کہ ازمیر نے اسے تھما دیا۔۔۔عرشیہ نے جلدی جلدی لکھنا شروع کیا۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گی کبھی الگ ہونے کا نام بھی نہیں لوں گی جیسا آپ کہو گے ویسا ہی کروں گی اگر ان میں سے ایک بھی بات نہ مانوں تو آپ مجھے زبردستی ادھر لے کر آ سکتے ہیں از قلم عرشیہ ساتھ میں عرشیہ نے سائن بھی کر دیے اور پیپر ازمیر کی طرف کر دیا جسے پڑھ کر ازمیر کے لبوں کو مسکراہٹ چھو جاتی ہے۔۔۔ازمیر نے بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کیونکہ اسے لگا کہ شاید وہاں سب کے بیچ جا کر وہ جلدی ٹھیک ہو جاۓ۔۔۔ازمیر عرشیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ سوچتا ہے کہ آئ سویر عرشیہ اگر تمہاری حالت کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہیں کبھی یہاں سے نہ لے کر جاتا لیکن اب مجھے تمہارے ٹھیک ہونے کی زیادہ فکر ہے۔۔مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ جب تمہیں سب گھر والے اس حالت میں دیکھیں گے تو ان پہ کیا بیتے گی۔۔عرشیہ نے اسے کافی دیر سے آپ ی طرف دیکھتے ہوۓ اور کچھ سوچتے ہوۓ دیکھا تو اس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا اور اشارے سے پوچھا کہ کیا ہوا تو ازمیر نے مسکراتے ہوۓ اسے اپنے ساتھ لگایا اور نفی میں سر ہلایا کہ کچھ نہیں۔۔آج منڈے ہے تو ہم کمنگ سنڈے کو پاکستان کے لیے نکلیں گے اوکے تو عرشیہ خوش ہوتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتی ہے…کھانا کھا لیا میری جان نے تو عرشیہ نفی میں سر ہلاتی ہے اور ازمیر کو اشارے سے بتاتی ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاۓ ازمیر اس کی بات سمجھتے ہوۓ گہرا مسکراتا ہے اور ہانا کو آواز دے کر وہیں کمرے میں کھانا منگوا لیتا ہے اور پھر خود بھی کھاتا ہے ساتھ ساتھ عرشیہ کو بھی کھلاتا ہے۔۔۔کھانا کھانے کے بعد اسے میڈیسن دے کر اس کو سلانے لگتا ہے۔۔کچھ ہی دیر گزرتی ہے کہ عرشیہ کی ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز سن کر اس کی طرف دیکھتا ہے اور مسکرا کر اس کا کمبل ٹھیک کر کے ادھر ہی صوفے پہ سو جاتا ہے۔۔۔ازمیر رات کو عرشیہ کے روم میں ہی سوتا ہے کیونکہ اکثر عرشیہ رات کو ڈر جاتی ہے اور پھر بہت مشکل سے سو پاتی ہے۔۔



دادا جانی ہم سنڈے کو پاکستان آ رہے ہیں۔۔۔کیا سچ میں تم سچ بول رہے ہو مصطفیٰ صاحب خوشی سے پوچھتے ہیں۔۔۔جی دادا جانی میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔عرشیہ کو بھی لے کر آؤ گے ساتھ؟ جی وہ بھی میرے ساتھ ہی ہوگی۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا خیال رکھنا اپنا۔۔جی اللّٰہ حافظ۔۔۔ازمیر نے عرشیہ کی حالت نہیں بتائی کہ اتنے دن وہ لوگ پریشان ہی رہیں گے جب وہاں پہنچیں گے تو سب کے سامنے بیٹھ کر بتاؤں گا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔۔۔مصطفٰی صاحب نے سب کو آوازیں دیں اور انہیں بتایا کہ ازمیر اور عرشیہ سنڈے کو آئیں گے زارا اور عائشہ کا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا باقی سب بھی بہت خوش تھے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے اس خوشی کے پیچھے کتنا بڑا غم چھپا ہوا ہے۔۔۔یہ تو جب وہ لوگ آئیں گے تو پتا چلے گا سب۔۔۔اور اسی بات کی فکر ازمیر کو ہے کہ سب کو کتنا دکھ ہوگا سب سے بڑھ کر عادل پاپا کیا سوچیں گے کہ دعوے تو بہت کر رہا تھا لیکن ان کی بیٹی کا ذرا بھی خیال نہیں رکھ پایا۔۔ اس بات کا ملال مجھے خود بھی ساری زندگی رہے گا کہ میں عرشیہ کا خیال نہیں رکھ پایا۔۔۔میرے ہوتے ہوۓ وہ اتنے بڑے سانحہ سے گزر رہی ہے۔۔۔کیوں آخر کیوں ایسا ہوا وہ غصّے سے ہر چیز اٹھا اٹھا پٹخ رہا تھا۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیا کرے کہ جو عرشیہ جلدی سے ٹھیک ہو جاۓ۔۔۔کاش میں وقت کو پیچھے لے جا سکتا اور یہ سب ہونے سے روک سکتا۔۔۔یہی سب سوچتے وہ بیڈ پہ ڈھے گیا اور آنکھیں موندے لیٹ گیا۔۔