قسط: 25
ازمیر کتنی ہی دیر یونہی لیٹا رہا پھر اٹھ کر باہر کی طرف چلا گیا۔۔۔آج وہ اپنی پرانی جگہ آیا تھا یعنی کلب میں۔۔کلب میں آکر اس نے کتنی ہی ڈرنک کرلی لیکن اسے کسی طور سکون نہیں مل رہا تھا وہ ڈرنک پہ ڈرنک کیے جا رہا تھا۔۔۔ایک لڑکی کب سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔آخر اٹھ کر اس کے پاس آئ۔۔ہاۓ۔۔ازمیر نے اس کی طرف ایک نظر دیکھا اور اگنور کر دیا حالانکہ وہ لڑکی اگنور ہونے والی نہیں تھی بہت خوبصورت تھی۔۔۔hey handsome are you upset? just stay away from me ازمیر نے کہا۔۔۔
Take a few moments
of your precious time in my name and tell me if that time did not make your life memorable and then change my name
اس نے مسکراتے ہوئے کہا
Just go to hell۔۔۔
ازمیر اتنا کہتا اٹھ گیا اور لڑکھڑاتے ہوئے گاڑی تک پہنچا اور گاڑی کو گھر کی طرف لے جانے لگا۔۔۔اور وہ۔لڑکی ادھر غصے سے ڈرنک کرنے لگی۔۔۔
His taste is bad, otherwise there’s no one who’s rejected me, bloody bastard
وہ لڑکی ڈرنک کرنے کے ساتھ ساتھ اسے گالیوں سے بھی نواز رہی تھی۔۔۔اسے ازمیر کا ریجیکٹ کرنا ہضم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
ازمیر گھر پہنچا اور عرشیہ کے روم میں چلا گیا۔۔۔عرشیہ سو رہی تھی۔۔۔عرشیہ اٹھو اور میری بات سنو۔۔۔لیکن عرشیہ سوئی رہی۔۔۔عرشیہ وہ اتنی زور سے چلایا کہ عرشیہ سوتے ہوۓ ڈر گئی اور آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھنے لگی جیسے نظر سامنے کھڑے ازمیر پہ گئی تو فوراً اٹھنے لگی لیکن اٹھا نہ گیا۔۔۔اٹھو۔۔۔عرشیہ نے نفی میں سر ہلایا کہ مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا۔۔۔میں نے کہا اٹھو ازمیر زور سے دھاڑا۔۔۔اس کی آواز سن کر ہانا بھاگ کر عرشیہ کے روم میں آئی۔۔۔سر ک کیا ہوا؟ اسے کہو اٹھو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں۔۔۔میں اٹھا کر بٹھاتی ہوں۔۔۔ہانا آگے کو بڑھنے لگی کہ ازمیر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔تم کیوں اٹھاؤ گی یہ خود اٹھے۔۔۔عرشیہ ازمیر کو دیکھ بہت زیادہ سہم گئی تھی۔۔۔لیکن سر یہ خود نہیں اٹھ سکتی۔۔۔دیکھیں سر آپ اس وقت ہوش میں نہیں ہیں پلیز آپ اپنے روم میں جا کر سو جائیں شٹ اپ بکواس بند کرو اپنی ازمیر نے ہانا کو چلاتے ہوۓ کہا اب وہ بھی ڈر رہی تھی اس نے آگے بڑھ کر عرشیہ کو سہارا دیا اور بٹھا دیا۔۔۔کھڑی ہو۔۔۔اس کی اس ڈیمانڈ پہ عرشیہ بری طرح خوفزدہ ہوئی۔۔۔عرشیہ مسلسل نفی میں گردن ہلا رہی تھی اور اس نے بیڈ کی چادر کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔سر۔۔۔تم چپ نہیں کرو گی ہے نا۔۔۔رکو تمہیں میں بتاتا ہوں ازمیر نے ہانا کا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے باہر نکال کر لاک کر دیا۔۔۔ازمیر کی اس حرکت سے عرشیہ کو سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔۔۔باہر ہانا کھڑی دروازہ بجا رہی تھی لیکن ازمیر کسی کی نہیں سن رہا تھا۔۔۔ازمیر نے اتنی شراب پی رکھی تھی کہ اسے بالکل بھی ہوش نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے اگر اسے ذرا سا بھی اندازہ ہو جاتا کہ وہ کس کے ساتھ کیا کر ہا ہے وہ بھی اس حالت میں تو شاید خود کو شوٹ کر لیتا۔۔۔چلو کھڑی ہو میں نے تمہیں کہیں لے کر جانا ہے۔۔۔عرشیہ بے بس ہو کر رونے لگی۔۔۔کتنی بے بس تھی وہ اس وقت نہ تو وہ اسے بول کر کچھ بتا سکتی تھی اور نہ ہی کھڑی ہو سکتی تھی۔۔۔اٹھو چلو۔۔عرشیہ نے ادھر ادھر دیکھا تو اسے وہیل چئیر نظر آئ۔۔اس نے ازمیر کی طرف دیکھ کر وہیل چئیر کی طرف اشارہ کیا اور اپنی ٹانگوں کی طرف کہ میں آٹھ نہیں سکتی۔۔۔تم یہ اشارے کیا کر رہی ہو سیدھی طرح بولو کیا کہنا چاہتی ہو وہ اس کا منہ دبوچ کر کہا۔۔۔عرشیہ کے آنسو اور تیزی سے نکلنے لگے۔۔۔ازمیر نے اسے بازو سے پکڑا اور جھٹکے سے کھڑا کرکے چھوڑا جس سے عرشیہ بری طرح منہ کے بل گری اور وہ سسکنے لگی۔۔۔ازمیر اسے گری ہوئی کو دیکھ رہا تھا اب کیا ادھر ہی پڑے رہنے کا ارادہ ہے ساری رات۔۔۔وہ غصّے سے پھنکارا۔۔۔اور بیڈ پہ نیم دراز ہوا۔۔۔ادھر آؤ اور میری بات سنو میں۔۔۔۔تم تمہیں کہ کہی کہیں لے کر جانا چاہتا ہوں۔۔۔وہ وقفے وقفے سے بولتا سو گیا۔۔۔اور عرشیہ ادھر ہی گری پڑی تھی۔۔۔اس سے بیچاری سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا وہ کوشش کرکے سیدھی ہو کر بیٹھی لیکن اب اٹھ کر صوفے یا بیڈ تک کیسے جاۓ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ مسلسل روۓ جا رہی تھی۔۔۔ہانا باہر الگ سے پریشان کھڑی تھی۔۔۔وہ اسے بول کر یہ بھی نہ کہہ سکی کہ تم اپنے روم میں چلی جاؤ ازمیر سو گیا ہے۔۔۔آج اسے اپنی بے بسی پہ شدت سے رونا آ رہا تھا۔۔۔اس وقت اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ مر جاۓ وہ ساری رات وہیں بیٹھی رہی اور پھر ادھر ہی لیٹ کر سو گئ۔۔۔یہ نیند بھی کیسی عجیب چیز ہے نا کبھی بھی کہیں بھی آ جاتی ہے اور انسان کتنی بھی تکلیف میں کیوں نہ ہو لیکن نیند اس پہ حاوی ہو کر کچھ دیر کے لیے ہی سہی اس کے سارے غموں کو بھلا کر پر سکون کر دیتی ہے۔۔۔ایسا ہی عرشیہ کے ساتھ بھی ہوا اس پہ بھی نیند کا غلبہ آگیا اور وہ ادھر ہی سو گئی۔۔پھر کونسی بے بسی اور کونسا غم تھوڑی دیر کے لیے اسے کچھ بھی پتا نہیں تھا۔۔۔باہر ہانا بھی دروازہ بجاتے بجاتے تھک گئی اور وہیں پہ بیٹھ گئی اور وہ بے چارہ بھی دروازے میں ہی سو گئی۔۔۔۔صبح سب سے پہلے ازمیر ہی کی آنکھ کھلی جب وہ اٹھا تو اس کا سر بھاری ہو رہا تھا۔۔۔اس نے سر پکڑ کر زور سے آنکھیں میچ کر کھولی۔۔۔ادھر ادھر دیکھا۔۔جیسے ہی نظر سامنے نیچے لیٹی عرشیہ پہ پڑی تو وہ بھاگ کر اس کے پاس گیا اسے سیدھا کیا۔۔۔عرشیہ۔۔عرشیہ کیا ہوا تمہیں ازمیر نے اسے گود میں لے کر اس کا چہرہ تھپتھپایا۔۔۔عرشیہ نے اپنی منڈی مندی آنکھیں کھولیں لیکن جیسے ہی اس نے ازمیر کو خود پہ جھکا پایا تو وہ فوراً ڈر گئی۔۔۔اس کے چہرے پہ خوف دیکھ کر ازمیر حیران ہوا۔۔۔کیا ہوا تم ایسے ڈر کیوں رہی ہو؟ کیا ہوا ہے۔۔۔لیکن عرشیہ خوف سے کپکپا رہی تھی۔۔۔اس نے فوراً عرشیہ کو اٹھایا اور بیڈ پہ لٹایا۔۔۔میں بیڈ پہ اور عرشیہ نیچے زمین پہ کیسے اور یہ اتنا ڈر کیوں رہی ہے؟ ازمیر نے دل میں سوچا۔۔۔ذہن پہ زور دینے سے اسے رات کی ہر بات یاد آنے لگی۔۔۔اوہ شٹ شٹ شٹ۔۔یہ سب کیسے ہو گیا؟ یہ میں نے کیا کردیا؟ اس نے مڑ کر عرشیہ کی طرف دیکھا جو ابھی بھی خائف تھی۔۔۔عاشو میری گڑیا۔۔۔ازمیر اس کی طرف بڑھا۔۔۔لیکن ازمیر کے پاس آنے سے عرشیہ خود میں سمٹی اور خوفزدہ نظروں سے ازمیر کی طرف دیکھتے ہوۓ نہ میں سر ہلانے لگی۔۔۔جس کا مطلب صاف تھا کہ میرے پاس مت آنا۔۔لیکن ازمیر نے آگے بڑھ کر اسے خود میں بھینچ لیا۔۔۔آئ ایم سوری میری جان مجھے بالکل ہی نہیں اندازہ ہوا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔اگر زرا سا بھی اندازہ ہوتا تو میں خود کو ہی ختم کر دیتا۔۔۔پلیز میری جان مجھے معاف کر دو پلیز اپنے ازی کو معاف کر دو۔۔۔وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوۓ بولا لیکن عرشیہ اس کی طرف بالکل بھی نہیں دیکھ رہی تھی وہ آنکھیں نیچے کیے ہوۓ تھی۔۔۔پلیز میری طرف دیکھو نا۔۔۔پلیز نا یار ایک دفعہ دیکھو تو سہی۔۔عرشیہ نے ایک پل کے لیے اس کی طرف دیکھا عرشیہ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر ازمیر کے ہاتھوں پہ پھسلے۔۔۔چلو میں ہانا کو بھیجتا ہوں تمہیں فریش ہونے میں ہیلپ کرے اور باہر لے کر آۓ تاکہ ناشتہ کریں۔۔۔عرشیہ ابھی بھی کچھ نہیں بولی۔۔۔ازمیر گہری سانس بھرتا ہے اور اٹھ کر باہر کی طرف آتا ہے۔۔۔لیکن جیسے ہی وہ دروازہ کھول کر آگے بڑھنے لگتا ہے تو اسے دروازے میں ہانا لیٹی نظر آتی ہے۔۔۔او گاڈ یہ میں نے کیا کردیا رات۔۔۔میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں۔۔۔اس نے نیچے بیٹھ کر ہانا کو آوازیں دیں۔۔۔ہانا اٹھو ۔۔۔ہانا اس نے زور سے آواز دی ہانا ہڑبڑا کر اٹھی۔۔۔ی یس سر یس سر کیا ہوا؟ کچھ نہیں ہوا جاؤ عرشیہ کو فریش ہونے میں ہیلپ کرو اور اسے ناشتے کے لیے لے کر آؤ۔۔۔یس سر۔۔وہ جلدی سے روم میں گئی اور عرشیہ کے پاس بیٹھی۔۔عرشیہ میم آپ ٹھیک ہیں؟ ہانا نے پریشانی سے پوچھا تو عرشیہ نے اثبات میں سر ہلا دیا سر نے کچھ کہا تو نہیں۔۔۔عرشیہ نے ایک بار پھر ندی میں سر ہلایا۔۔۔چلیں میں آپ کو فریش کروا دوں کہیں سر غصّہ ہی نہ ہو جائیں اور وہ عرشیہ کو جلدی سے باتھ روم میں لے کر گئی اور فریش کروا کر اسے ڈائننگ ہال میں لے آئی۔۔۔ازمیر اس کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔لیکن اس نے ہانا کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر ندی میں سر ہلانے لگی۔۔۔لیکن وہ ازمیر ہی کیا جو پیچھے ہٹ جاۓ۔۔۔وہ عرشیہ کے پاس آیا۔۔دیکھو عرشیہ مانا کہ۔مجھ سے غلطی ہوئی میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا۔۔۔آئ ایم رئیلی سوری اس کے لیے مجھے بہت افسوس بھی ہے لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ شراب پینا تو دور کی بات کبھی دیکھوں گا بھی نہیں آئی پرامس۔۔۔ازمیر نے عرشیہ سے وعدہ کیا اور تم ایک بات یاد رکھنا کہ ازمیر عرشیہ سے جو وعدہ کر لے پھر مر تو سکتا ہے لیکن تم سے کیا ہو ا وعدہ توڑ نہیں سکتا۔۔۔چلو اب آؤ ناشتہ کریں۔۔۔عرشیہ نے ازمیر کی کسی بھی بات کا کوئی رسپانس نہیں دیا اور چپ چاپ ناشتہ کرنے لگی۔۔لیکن ایک نوالہ بھی اس کے حلق سے نیچے اتر نہیں رہا تھا اس نے اپنے پراٹھے والی پلیٹ کو پرے دھکیل دیا اور چاۓ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔لیکن عرشیہ کا بڑھایا ہوا ہاتھ تھام لیا۔۔۔اوں ہوں پہلے اپنا پراٹھا ختم کرو۔۔لیکن عرشیہ نے ناں میں گردن ہلائی۔۔۔اور اشارے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔نو کوئی بہانا نہیں چلے گا پراٹھا تو تمہیں ختم کرنا ہی پڑے گا۔۔۔عرشیہ نے پھر سے انکار کیا تو ازمیر اسے گھورنے لگا۔۔خبردار اگر انکار کیا تو بہت بری طرح سے پیش آؤں گا۔۔۔عرشیہ نے ازمیر کے تیور دیکھ کر جلدی سے پراٹھے والی پلیٹ اپنی طرف کی اور جلدی سے نوالے توڑ توڑ کر کھانے لگی۔۔۔ازمیر کو اماس کی طرف دیکھتے ہوئے ہنسی آئ لیکن وہ چھپا گیا اسے پتا تھا کہ عرشیہ ایسے نہیں مانے گی اس لیے اس نے چہرے پہ غصّے والے تاثرات لا کر عرشیہ کو دھمکایا اور دھمکی کار آمد ثابت ہوئی۔۔۔۔



عریشہ۔۔۔زارا نے عریشہ کو بلایا۔۔۔جی ماما۔۔۔ادھر آؤ۔۔آئ ماما ایک منٹ عریشہ زارا کے پاس آئ جی ماما۔۔بیٹا آجاؤ مجھے کچھ سامان خریدنا ہے عرشیہ آنے والی ہے نا تو میں نے سوچا کچھ اس کے لیے ضرورت کی چیزیں بھی خرید لوں گی اس میں تم بھی کچھ مدد کر دینا۔۔۔شاپنگ کرنے میں آسانی ہو جاۓ گی۔۔۔اوکے ماما لیکن مجھے کیا لے کر دیں گی آپ۔۔۔اگر مجھے بھی شاپنگ کروائیں گی تو ہی میں آؤں گی ورنہ۔۔۔ٹھہر جا پہلے تجھے ہی شاپنگ کرو دیتی ہوں مجھے جو دھمکیاں لگا رہی ہو۔۔زارا نے چپل اٹھائ تو عریشہ بھاگنے لگی اور زارا اس کے پیچھے تھی۔۔۔رک جاؤ عریشہ ورنہ بہت پیٹوں گی۔۔۔عریشہ کھڑی ہوئی اور کانوں کو ہاتھ لگا کر سوری کہنے لگی۔۔۔سوری ماما چلیں اب میں حجاب کر کے آتی ہوں آپ ڈرائیور سے کہہ کر گاڑی نکلوائیں میں ابھی آتی ہوں۔۔۔عریشہ کہتی اپنے روم کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی کہ اچانک سے کسی سے ٹکرائی اور گرنے لگی۔۔۔ارے ارے سنبھل کر طوفان میل بنی کہاں جارہی ہو؟ وہ ماما کے ساتھ شاپنگ پہ جا رہی تھی ماما کہتی جلدی آؤ اور اس لیے جلدی میں جا رہی تھی کہ کہیں پرنسپل صاحبہ کو غصّہ آگیا تو میری یہیں پہ چھتر پریڈ کرنے لگ جائیں۔۔شایان اس کی بات سن کر زور سے ہنسنے لگا۔۔۔اوکے اوکے جاؤ پاگل اس کے سر پہ چپت لگاتے ہوۓ شایان نے کہا تو وہ بھی ہنستی ہوئی بھاگ گئی۔۔۔زارا شاپنگ کے لیے نکل ہی رہی ہوتی ہے کہ عائشہ اسے دیکھ کر آواز دیتی ہے۔۔زارا کہاں جا رہی ہو؟ بھابھی وہ میں شاپنگ کرنے جا رہی ہوں اچھا مجھے بھی لے چلو میں نے بھی کچھ چیزیں لینی ہیں۔۔اچھا یہ تو اور بھی اچھا ہوگیا چلیں پھر چلتے ہیں۔۔۔وہ دونوں بازار کے لیے نکلتی ہیں۔۔عریشہ نیچے آتی ہے اور باہر کی جانب بڑھتی ہے لیکن وہاں نہ تو زارا ہوتی ہے اور نہ ہی گاڑی۔۔ہیں یہ ماما ابھی تک آئی۔ نہیں باہر ایسا کرتی ہوں ان کے روم میں جا کر دیکھتی ہوں عریشہ اندر کی طرف بڑھی کہ راستے میں عائزہ اور صنم بیٹھی اپنے اپنے پیپرز کی ڈسکشن کر رہی ہوتی ہیں۔۔۔کیا ہوا عریشہ کہاں جا رہی ہو؟ دیکھنا ماما نے خود بازار کے لیے اتنی جلدی مچائی ہوئی تھی اور خود ابھی تک باہر نہیں آئیں۔۔میں انہیں ان کے روم سے لینے جا رہی ہوں۔۔۔لیکن وہ تو چلی گئیں۔۔۔ہیں چلی گئیں اکیلی ہی۔۔۔نہیں اکیلی نہیں عائشہ ماما کے ساتھ گئ ہیں۔۔۔کیااااا اتنا بڑا دھوکہ وہ بھی اپنی سگی ماں نے اب تو مائیں بھی دھوکے باز نکلنے لگی ہیں وہ دہائیاں دینے لگی۔۔۔سائرہ جو کہ کچن کی طرف جا رہی تھیں عریشہ کی دہائیاں دیتی سنا تو رک گئیں۔۔ارے کیا ہوا میری بچی کو اتنی افسردہ کیوں ہو رہی ہو۔۔۔کیا بتاؤں بڑی ماما مجھے تو آج اپنی ہی ماما نے دھوکا دے دیا تو آپ کو کیا بتانا۔۔عریشہ نے لہجے میں مصنوعی دکھ سماتے ہوۓ کہا تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔بس بھی اردو عریشہ یہ تھرڈ کلاس ایکٹنگ بند کرو۔۔۔صنم نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔کیااااا تھرڈ کلاس ایکٹنگ میرا دکھ تمہیں ایکٹنگ لگ رہا ہے وہ بھی تھرڈ کلاس۔۔۔یا اللّٰہ دیکھ لو کتنی ظالم دنیا ہو گئ ہے اب تو اپنے بھی اپنے نہ رہے ان کا بھی خون سفید ہو گیا ہے۔۔۔بس کرو چلو میں تم سب کے لیے چاۓ کے ساتھ اسنیکس بنا کر لاتی ہوں سائرہ نے کہا۔۔۔یاہوووو سائرہ ماما از ڈی بیسٹ ماما۔۔۔اوماااااا عریشہ نے فلائنگ کس سائرہ کی طرف اچھالتے ہوۓ کہا تو سائرہ ہنستے ہوۓ کچن میں چلی گئی اور وہ تینوں ادھر ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گئیں ۔۔



عرشیہ آؤ گھومنے چلیں اب تو بس دو چار دن ہیں یہاں پھر تو ہم پاکستان جا رہے ہیں تو کیوں نہ یہ جو دن ہیں انجوائے کر لیا جاۓ۔۔۔لیکن عرشیہ نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔جب ازمیر نے دیکھا عرشیہ کوئی جواب نہیں دے رہی تو خود ہی ہانا کو آوز دیتے ہوۓ بلایا۔۔یس سر۔۔۔عرشیہ کو فٹافٹ تیار کردو ہم باہر گھومنے جا رہے ہیں۔۔جی سر۔۔۔اور ازمیر خود بھی تیار ہونے چلا جاتا ہے ٹھیک دس منٹ بعد ازمیر عرشیہ کے روم میں آتا ہے جو کہ تیار بیٹھی تھی ازمیر خود اس کی وہیل چئیر دھکیلتے ہوئے گاڑی تک لاتا ہے اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اٹھا کر بٹھاتا ہے اور پھر خود بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا گھومنے کے لیے نکل جاتے ہیں۔۔۔پہلے ازمیر اسے یونہی بہت سی خوبصورت اور تاریخی جگہیں دکھاتا ہے پھر اسے شاپنگ کرواتا ہے اور خود بھی کرتا اس کے بعد گھر والوں کے لیے شاپنگ کرتا ہے۔۔۔میں تو تھک گیا تم بھی یقیناً تھک گئی ہوگی۔۔۔چلو اب کھانا کھا کر گھر چلتے ہیں ویسے بھی تمہارے لیے اتنا بے بیٹھنا اور تھکنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔وہ لوگ ایک ریسٹورنٹ میں آتے ہیں۔۔ازمیر کھانا آرڈر کرتا ہے اور عرشیہ کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ کرنے لگتا ہے کہ اچانک سے اس کے کانوں میں آواز پڑتی ہے۔۔۔
Oh, so you rejected me for this handicap
وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو وہ کلب والی لڑکی اس کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے
Shut up Beware, if you take out even one word from your mouth, I will pull your tongue out of your throat
ازمیر غصے سے دھاڑا۔۔۔ایک پل کے لیے تو لڑکی سہم گئ اور عرشیہ بھی ڈر گئی
You know what? You deserve it.
اس لڑکی نے کہا تو ازمیر مسکرایا
Yes, this is my princess, and for a prince, a princess is a princess, not a slobbering girl
اتنی انسلٹ لڑکی سے برداشت نہیں ہوئی اور وہ لاجواب ہوکر پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی
ازمیر نے سر جھٹک کر عرشیہ کی طرف دیکھا جو ابھی بھی ادھر دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ لڑکی گئ تھی۔۔۔عرشیہ ادھر دیکھو تو عرشیہ نے ازمیر کی طرف دیکھا۔۔۔چھوڑو اسے ایسی لڑکیاں صرف بکواس کرنا جانتی ہیں بس اور کچھ نہیں کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے کھانا کھاؤ اور عرشیہ چپ کرکے بے دلی سے کھانا کھانے لگتی ہے لیکن اس کا ذہن ابھی بھی خود کو اپاہج کہنے پہ اٹکا ہوا تھا اور یہ بات ازمیر اچھے سے جانتا تھا۔۔۔کھانا کھا کر وہ سیدھا گھر گۓ۔۔۔ازمیر نے عرشیہ کو کمرے لا کر میڈیسن کھلائ۔۔چلو اب سو جاؤ میں ذرا آفس کا کام نمٹا لوں۔۔۔اور ازمیر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔۔