قسط: 29
تین دن ہسپتال میں رہنے کے بعد عرشیہ کو ڈسچارج کردیا گیا تھا۔۔۔گھر آنے کے بعد وہ لوگ اب پاکستان واپس جانے کی تیاریوں میں تھے۔۔۔پاپا آپ نے ماما لوگوں کو بتایا تو نہیں ہے نا کہ میری آواز واپس آگئی ہے۔۔۔ارے میری بیٹی نے منع کیا تھا تو کیسے بتا دیتا۔۔۔مجھے لگا ماما کو اموشنل ہوتے دیکھ کہیں آپ نے بتا ہی نہ دیا ہو۔۔۔ازی آپ نے بھی نہیں بتایا نہ کسی کو۔۔۔ارے نہیں نہیں میں کیوں بتانے لگا۔۔۔ہمم گڈ بوگیمبو خوش ہوا۔۔۔ہاہاہا۔۔عرشیہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔بس بس زیادہ زور سے نہیں بولنا یا ہنسنا بوگیمبو جی۔۔ازمیر نے ٹوکتے ہوئے کہا تو عرشیہ نے فوراً منہ پہ انگلی رکھ لی۔۔۔ارے یہ ہانا کہاں ہے؟ سر وہ بازار گئی ہے۔۔۔ہمم ٹھیک ہے جاؤ میم کے لیے کچھ نرم سی غذا تیار کرو اور ہاں سوپ بھی بنا لینا۔۔۔جی سر۔۔میں نے نہیں بورنگ کھانا کھانا۔۔۔عرشیہ نے منہ بسورے کہا۔۔۔کھانا تو پڑے گا اگر تم چاہتی ہو کہ ہم ایک ماہ اور یہاں نہیں رہیں تو تمہیں ابھی سوپ وغیرہ سے ہی گزارا کرنا پڑے گا۔۔۔پاپا۔۔۔۔میں کچھ نہیں کر سکتا سوری میرے ہاتھ کھڑے اس معاملے میں۔۔۔یا اللّٰہ یا تو مجھے ان دونوں جیسا بنا دے یا انکا گلا میری طرح کردے تاکہ انہیں بھی پتا چلے کہ ایسا کھانا کیسے کھایا جاتا ہے آمین ثم آمیں یا رب العالمین عرشیہ نے دعا کرتے ہوۓ ان کی طرف دیکھتے ہوئے منہ پہ ہاتھ پھیرا۔۔۔توبہ عاشو کیسی بد دعائیں دے رہی ہو؟ عادل نے کہا۔۔۔لڑکی بہت بول رہی ہو چلو چپ کرکے روم میں جاؤ جب تمہارا اسپیشل کھانا تیار ہوگا تو تمہیں بلا لیں گے۔۔ازمیر نے اسپیشل پہ زور دیتے ہوئے کہا۔۔نہیں میں اکیلی کمرے میں بور ہو جاتی ہوں اور تو اور میرا موبائل بھی گم ہو گیا ہے پتا نہیں کہاں گیا۔۔۔اس نے افسردہ ہو کر بتایا۔۔۔کہیں گم نہیں ہوا میں لے کر آتا ہوں میرے پاس ہے۔۔۔ازی آپ کب سے چور ہو گئے آپ کو شرم نہیں آئ اپنی معصوم پلس پیاری پلس کیوٹ پلس سویٹ بیوی کا فون چراتے ہوئے۔۔پلس واکنگ ٹنگ بھی لگا لو کیونکہ زبان تمہاری ایک منٹ بھی نہیں رکتی چلتی جاتی ہے بنا بریک کے۔۔۔کتنا کہہ رہا ہوں کہ کم بولو کم بولو لیکن نہیں وہ عرشیہ ہی کیا جو بات مان لے۔۔۔ازی ادھر آنا عرشیہ نے تجسس سے کہا۔۔ تو وہ اس کے قریب آیا۔۔۔عرشیہ نے اس کا منہ پکڑ کر پہلے دائیں گھمایا پھر بائیں طرف گھمایا پھر اوپر کیا پھر سامنے کرکے کتنی دیر تک گھورتی رہی۔۔۔کچھ بھی تو چینج نہیں لگ رہا سب کچھ ویسے کا ویسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔کیا ہوا ایسے کیوں معائنہ کر رہی ہو؟ مجھے ایسا لگا جیسے آپ میں زارا ماما کی روح آگئی ہو کیونکہ آپ ان کی طرح مجھے بولنے سے باتیں سنا رہے ہیں۔۔۔تو ازمیر نے اسے زبردست گھوری سے نوازا اور عادل نے زور سے قہقہہ لگایا۔۔۔بس میں یہی باتیں اپنی بیٹی کی مس کر رہا تھا۔۔۔یا اللّٰہ تیرا شکر ہے تو نے میری بیٹی کو پھر سے پہلے جیسا کر دیا۔۔۔بس پاپا ایک آپ ہی میرے اپنے ہو۔۔باقی تو یہ ظالم معاشرہ بولنے بھی نہیں دیتا۔۔عرشیہ نے ازمیر کی طرف دیکھتے ہوۓ ٹھنڈی آہ بھر کر مصنوعی دکھ سے کہا۔۔۔تو وہ نفی میں سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتا ہانا آئ اور عرشیہ کی طرف بھاگی ارے میم آگئیں آپ؟ ہاں جی آگئی میں۔۔ہانا عرشیہ کے بولنے پہ حیرانگی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے دیکھتی ہے۔۔۔واؤ میم آپ بولنے لگ گئیں۔۔۔شکر ہے اب ہم بہت سی باتیں کیا کریں گے اب آپ کو لکھ کر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کتنا مزہ آئے گا۔۔۔یہ لو یک نہ شد دو شد ازمیر نے کہا۔۔ہانا میم کو زیادہ بولنے سے منع کیا ہے اس لیے تم بھی ذرا زبان پہ کنٹرول رکھنا۔۔۔جی جی سر ہانا نے گھبراتے ہوئے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔یا اللّٰہ یاد ہے نا میری دعا عرشیہ نے اوپر منہ اٹھا کر اللّٰہ کو مخاطب کیا۔۔تو ازمیر کی مسکراہٹ ابھری جسے وہ تیزی سے چھپا لیتا ہے۔۔۔ہانا جاؤ اسے کمرے میں لے جاؤ۔۔اور ہانا جلدی سے آگے بڑھتے ہوئے اسے کمرے میں لے کر جاتی ہے۔۔۔ہانا مجھے نا نیند آ رہی ہے میں سونا چاہتی ہوں۔۔ٹھیک ہے میم آپ فریش ہو جائیں اور پھر سو جائیں۔۔عرشیہ فریش ہو کر جلدی سے سو گئ جبکہ ہانا وہیں صوفے پہ بیٹھ کر اپنا موبائل یوز کرنے لگی۔۔ازمیر دروازہ ناک کرتے ہوئے اندر آیا۔۔۔عرشیہ سو گئ؟ یس سر میم کہہ رہی تھی کہ انہیں نیند آ رہی ہے۔۔۔اوہ ٹھیک ہے یہ موبائل رکھ کے جا رہا ہوں جب اٹھے تو دے دینا۔۔۔اوکے سر۔۔۔ازمیر سائیڈ ٹیبل پہ عرشیہ کا موبائل رکھ کے عرشیہ پہ ایک نظر ڈالتا چلا جاتا ہے۔۔۔



یہ لوگ پتا نہیں کب آئیں گے آپریشن کے بعد کا فون کیا ہوا ہے اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہو پایا اور انہوں نے خود بھی نہیں کیا زارا مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوۓ جا رہی تھی۔۔۔بیٹھ جاؤ زارا عادل اور ازمیر دونوں ہی ہیں ساتھ اللّٰہ تعالیٰ خیر کرے گا۔۔۔کیسے آرام سے بیٹھوں مجھے انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ میری بیٹی کیسی ہے ٹھیک تو ہے نہ اس کی آواز ٹھیک ہوئی۔۔۔وہ لوگ ایک دو دن میں آ رہے ہیں نا تو خود ہی دیکھ لینا۔۔۔تب تک میں کیسے رہوں گی بھابھی آپ خود بتائیں وہ تھکے ہوئے انداز میں بولتی ہے۔۔۔سائرہ بھابھی یہ شیراز لوگ کب تک آرہے ہیں زارا کو اچانک یاد آیا۔۔۔وہ لوگ شادی سے پندرہ دن پہلے آ جائیں گے۔۔اچھا چلیں گھر میں خوب رونق لگ جاۓ گی پھر تو ان کے بچوں سے تو ہاں کافی عرصہ ہو گیا گۓ ہوۓ ان کو پھر پلٹ کر نہیں آۓ بس فون پہ ہی رابطہ رکھا۔۔۔ہمم چلو شکر ہے بھائیوں کی شادی پہ تو آ رہے ہیں نا۔۔۔ہاں آئیں تو صحیح میں تو جوتے لگاؤں گی ان کے جو فیملی کو بھولے بیٹھے ہیں سائرہ نے کہا تو زارا اور عائشہ مسکرانے لگیں۔۔شیراز اور شہروز دونوں امریکہ گئے تھے بزنس کے سلسلے میں وہیں خود ہی شادیاں کر لی دونوں نے پھر دوبارہ پاکستان نہیں آۓ اب شہروز کے دو بیٹے اور شیراز کی ایک بیٹی تھی۔۔۔(اگر یہ لوگ یاد نہ ہوں تو فرسٹ ایپیسوڈ پڑھ لینا پتا چل جاۓ گا۔۔کیسا لگا سرپرائز؟
) آئیں زرا ان کی بھی زندگی دیکھ لیں




شیری پاکستان میں ساس جو ہوتی ہیں بہت ظالم قسم کی ہوتی ہیں اور اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی اور آپ کی ماما مجھے مارنے لگ گئی تو میں تو مر ہی جاؤں گی ابیہا نے روہانسی ہوتے ڈرتے ہوئے کہا۔۔۔ہاں بھئ یہ تو ہے ماما تو واقعی بہت سخت ہیں میری تبھی تو میں ادھر ہی رہا شادی کے بعد کہیں تم پہ ظلم کے پہاڑ نہ توڑیں اور ساتھ میں مجھے بھی تشدد کا نشانہ بنا کر تمہیں مجھ سے الگ کر دے اور تمہیں پتا شہروز بھائ بھی اسی لیے یہاں رہ رہے ہیں اور تو اور وہاں نندیں بھی بہت ظالم ہوتی ہیں بھابھیوں کو جینے نہیں دیتی ہر وقت کلیش ڈالے رکھتی ہیں شیراز نے آنکھوں میں شرارت لیے اسے اور زیادہ ڈراتے ہوئے کہا۔۔۔کیا سچ میں ابیہا تو رونے والی ہو گئی لیکن تم ٹینشن نہیں لو میں ہوں نا میں اپنی بیوی کے حصے کی مار میں خود کھا لیا کروں گا لیکن تمہیں ایک خراش تک نہیں آنے دوں گا۔۔۔سچی؟ مچی۔۔۔لیکن اگر آپ کو چوٹ آئی تو پھر بھی مجھے دکھ ہوگا۔۔۔اوووو سو سویٹ شیراز نے ابیہا کے سر پہ بوسہ دیا اور آپ ے ساتھ لگایا۔۔۔چلو بعد کی بعد میں دیکھیں گے ابھی تم ریلیکس کرو۔۔۔



شہروز کہاں ہو آپ دیکھو پاکستان جانے میں کتنے کم دن رہ گئے اور آپ نے مجھے شاپنگ بھی نہیں کروائی صالحہ نے کہا۔۔۔ارے بابا کر لیں گے شاپنگ بھی شاپنگ میں کون سا مہینوں لگنے ہیں۔۔۔میں ابیہا کو ساتھ لے کر چلی جاتی ہوں آپ تو ایسے ہی کہتے رہو گے اور پھر آخری دن کو جلدی جلدی مچا دیں گے۔۔اور ڈھنگ سے شاپنگ بھی نہیں کرنے دیں گے صالحہ نے منہ بسورتے ہوۓ کہا۔۔۔ہاں یہ بھی ٹھیک ہے تم ابیہا کے ساتھ ہی چلی جاؤ۔۔۔یہ میرا کریڈٹ کارڈ بھی لے لو۔۔۔آئ ہیو مائ اون۔۔۔صالحہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا تو شہروز ہنسی دباتے ہوۓ یس مائ لائف آئی نو ڈیٹ یو ہیو یور اون کارڈ لیکن مجھے یہ بھی پتا ہے کہ وہ کم پڑ جاۓ گا نا تمہارے لیے ڈئیر وائفی۔۔۔ہاں یہ بھی ہے صالحہ نے بھی شرارتاً کہا تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔۔چلو آپ کرو اپنا کام میں زرا ابیہا کو دیکھ لوں کہا کر رہی ہے؟ صالحہ ابیہا کے روم کا دروازہ ناک کرتی ہے۔۔۔کم ان۔۔۔کیا کر رہی ہو ابیہا؟ کچھ نہیں بھابھی سوچ رہی تھی کہ آہستہ آہستہ پیکنگ شروع کر دوں کہیں پھر کچھ بھول نہ جاؤں۔۔۔ہاں وہی تو میں اتنے دنوں سے شہروز کو کہہ رہی ہوں مجھے شاپنگ کروا دیں تاکہ آہستہ آہستہ تسلی سے ہو جاۓ لیکن مجال ہے جو میری بات سنتے ہو پھر میں نے سوچا میں اور آپ اکیلے ہی شاپنگ کر آتے ہیں۔۔۔ہاں ٹھیک ہے آپ تیار ہو جاؤ میں بھی تیار ہو جاتی ہوں پھر چلتے ہیں۔۔۔ہاں ٹھیک ہے۔۔اور وہ دونوں تیار ہو کر شاپنگ کرنے کے لیے چلی جاتی ہیں۔۔۔



کیا کر رہی ہو؟ فیروز جو کہ باہر جا رہا تھا راستے میں عائزہ کو دیکھ کر پوچھتا ہے۔۔۔عائزہ لان میں بیٹھی پھولوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی یعنی ان کی سیٹنگ چینج کر رہی تھی۔۔۔ڈانس کر رہی ہوں۔۔کرو گے؟ میوزک کے بنا ہی ڈانس کر لیتی ہو واٹ اے ٹیلنٹ۔۔۔فیروز نے طنزیہ کہا۔۔۔ہاں اسے silent mode ڈانس کہتے ہیں..اور رہی بات ٹیلنٹ کی تو آپ ابھی جانتے ہی کتنا ہو مجھے؟ عائزہ نے اتراتے ہوۓ کہا۔۔۔ہاں تو؟ نہیں جانتا تو جان لوں گا آخر دن ہی کتنے رہ گئے ہیں تمہارے میرے پاس آنے میں۔۔پھر فرصت سے اور تفصیل سے جانوں گا تمہارے ایک ایک ٹیلنٹ کے بارے میں۔۔فیروز کے معنی خیزی سے کہنے پر عائزہ جھینپ گئی پھر جلد ہی خود کو سنبھالتے ہوئے آپ تو کہیں کام سے نہیں جا رہے تھے بھلا۔۔۔ہاں لیکن اتنا بھی ضروری کام سے نہیں جا رہا تھا۔۔۔آؤ مل کر سیٹنگ کرتے ہیں فیروز نے عائزہ کے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ کر اس سے گملہ پکڑنا چاہا تو عائزہ نے اسے گملہ پکڑاتے ہوۓ جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور خود کیاری کی دوسری جانب چلی گئی۔۔۔فیروز نے اس کی جھجھک دیکھ کر اپنی مسکراہٹ دبائ۔۔۔کیا ہوا ادھر کیوں چلی گئی ادھر آؤ نا میرے پاس میں نے کہا ہے مل کر سیٹنگ چینج کرتے ہیں یہ نہیں کہا کہ تم ادھر چلی جاؤ۔۔۔نہیں میں ادھر ٹھیک ہوں۔۔۔عائزہ تمہیں سنائی نہیں دیا میں نے کیا کہا ہے فیروز نے سختی سے کہا تو عائزہ فوراً اس کے پاس آگئی۔۔۔ہمم ڈیٹس لائک اے مائ وائف اس کا گال کھینچتے ہوۓ فیروز نے کہا تو عائزہ اس کی اس حرکت سے شرما گئی اور منہ نیچے کر لیا۔۔۔او مائ شائ وائف چلو ٹھیک ہے اب نہیں تمہیں چھیڑتا اب صرف کام پہ فوکس کرتے ہیں ہمم؟ عائزہ نے ہاں میں گردن ہلائی اور دونوں پھر کام میں لگ گئے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوۓ لان۔کو ایک نیا رخ دے دیا جو کہ بہت پیارا لگنے لگا تھا۔۔۔لو جی ہو گیا کام۔۔۔ہمم اب پیارا لگ رہا ہے نا لان۔۔ہاں بالکل تمہاری طرح۔۔۔عائزہ مسکرانے لگی۔۔۔چلو اب میں چلتا ہوں باۓ۔۔۔اللّٰہ حافظ۔۔