The Creature’s Love

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 31

شادی کے دن۔قریب آ رہے تھے اب عرشیہ بھی گھر والوں کی محنت اور تھراپسٹ کے کوششوں سے اب پہلے سے کافی بہتر ہو گئی تھی اب وہ سہارے سے آہستہ آہستہ چلنے لگی تھی۔۔۔آج شہروز اور شیراز لوگ آرہے تھے۔۔سائرہ کے تو خوشی سے پاؤں زمین پہ نہیں لگ رہے تھے وہ جلے پاؤں کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھیں ارتضیٰ بھی بہت خوش تھا اب لوگ تیاریوں میں تھے۔۔۔اب کی بار آۓ تو میں جانے ہی نہیں دوں گی جانے کا نام تو لیں ایک دفعہ جوتے لگاؤں گی دونوں کے سائرہ ارتضیٰ سے مخاطب تھی اگر آپ نے کوئی مداخلت کی تو آپ سے بھی رشتہ ختم بس بہت ہوئی آپ لوگوں کی منمانیاں وہ کبھی غصّہ ہو جاتی تو اگلے ہی پل وہ نارمل ہو جاتیں۔۔۔بھابھی بس کریں اب ادھر سکون سے بیٹھ جائیں جب وہ لوگ آئیں گے تو مل کر پٹائی کریں گے ٹھیک ہے زارا اور عائشہ انہیں پکڑ کر بٹھاتی ہیں تو وہ ہنسنے لگیں اور نم آواز سے کیا کرو میرا بس نہیں چل رہا کہ چھڑی گھماؤں اور انہیں اپنے سامنے لے آؤں۔۔ایسا کریں آپ سو جائیں آپ کا ٹائم گزر جاۓ گا عائشہ نے مشورہ دیا۔۔۔ارے نیند کہاں آۓ گی مجھے میں تو رات بھی نہ سو سکی۔۔۔سب لوگ اس کی بے چینی دیکھ ہنس رہے تھے۔۔۔بڑی ماما عرشیہ نے انہیں بلایا۔۔۔جی بیٹا۔۔۔آپ مسور اور مونگ کی دال مکس کرکے انہیں الگ الگ کرنا شروع کردیں آپ کا ٹائم گزر جاۓ گا۔۔۔عرشیہ کی بات سن کر سب کھل کر ہنسنے لگے۔۔۔ویسے میری بیٹی نے مشورہ تو زبردست دیا ہے اس پہ عمل بھی کر لو ارتضیٰ نے ہنسنے کے دوران کہا۔۔۔ٹھہر تجھے میں بتاتی ہوں ہمیشہ الٹے مشورے ہی تمہارے پاس ہوتے ہیں کبھی کوئی ڈھنگ کی بات نہ کرنا زارا معمول کے مطابق عرشیہ کو ڈانٹنے لگیں۔۔۔دیکھ لیں بڑے پاپا ایک تو آپ کی پیاری وائف کو مصروفیت کے لیے اتنا اعلیٰ مشورہ دیا اوپر سے میرے پاپا کی وائف مجھے ڈانٹ رہی ہیں اور سب انجوائے بھی کر رہے ہیں بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے عرشیہ نے مصنوعی دکھی لہجہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔تمہیں کس نے کہا کہ اپنے قیمتی مشورے بانٹتی پھرو فیروز نے کہا۔۔۔آپ تو چپ ہی رہیں دیکھنا آج آپ طعنے دے رہے ہیں کل میرے پاس ہی آئیں گے مشوروں کے لیے جب عائزہ آپی لڑ کر اپنے میکے جایا کریں گی۔۔۔توبہ ہے ابھی گھر بسا نہیں کہ تم پہلے ہی اجاڑنے پہ تلی ہو فیروز نے کہا تو سب اس کی ایکٹنگ دیکھ ہنسنے لگے۔۔۔چلو بھئ لڑکوں جلدی سے تیار ہو جاؤ ان کی فلائٹ لینڈ کرنے میں دو گھنٹے رہ گئے ہیں تیاری شکاری کرو تاکہ ان سے پہلے ہی ائیرپورٹ پہنچ جائیں مصطفیٰ صاحب نے سب کو کہا تو سب لڑکے اور مرد حضرات تیاری کرنے چلے گئے۔۔۔دادا جانی میں بھی جاؤں گی۔۔۔ارے بیٹا نہیں تم اس حالت میں نہ جانا زارا نے کہا۔۔۔اوکے ماما چلیں میں اپنے روم میں جا رہی ہوں جب بھائی لوگ آجائیں تو مجھے بتا دینا۔۔۔عرشیہ اپنی وہیل چئیر خود ہی دھکیلتی ہوئی جانے لگی جب ازمیر سامنے سے تیار ہو کر نیچے آرہا تھا۔۔۔کیا ہوا اتنی اپ سیٹ کیوں لگ رہی ہو؟ نہیں تو میں کیوں اپ سیٹ ہونے لگی۔۔۔ہمم تمہیں پتا ہے تم مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بول سکتی..۔بتاؤ کیا ہوا؟ ارے کچھ نہیں ہوا آپ ایویں نہ میرے پیچھے پڑ جایا کریں عرشیہ جھنجھلا کر کہتی ہے تو ازمیر چپ کر جاتا ہے۔۔۔چلو میں تمہیں تمہارے روم تک چھوڑ آتا ہوں ازمیر اسے اوپر لے جاتا ہے اور اس کے روم میں چھوڑ دیتا ہے۔۔۔اب جائیں آپ۔۔۔ازمیر چپ چاپ چلا جاتا ہے یہ سوچ کر کہ جب وہ واپس آۓ گا تو پھر بات کرے گا۔۔۔ابھی اگر زور دیا تو وہ لڑ پڑے گی۔۔۔عرشیہ بیڈ کا سہارا لے کر اٹھتی ہے اور ہاتھ چھوڑ کر خود ہی چلنے کی پریکٹس کرنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔لیکن وہ ہاتھ چھوڑ کر بس دو سے تین قدم اٹھاتی ہے پھر لڑکھڑا جاتی ہے لیکن وہ ضد میں آکر کوشش نہیں چھوڑتی ابھی وہ دوبارہ سے کوشش کر رہی ہوتی ہے کہ اچانک سے ازمیر دروازہ کھول کر کمرے میں آتا ہے جیسے ہی ازمیر داخل ہوتا ہے عرشیہ کا دھیان دروازے کی طرف جاتا ہے لڑکھڑا کر گرنے لگتی ہے لیکن ازمیر جلدی سے آگے آکر اسے تھام لیتا ہے۔۔۔پاگل ہو گئ ہو کیا ایسی بھی کیا آفت آن پڑی ہو کہ یہاں اکیلی ہی تجربے کرتی پھر رہی ہو اگر ابھی گر کر چوٹ لگ جاتی تو یہ جو تھوڑا بہت چلنے کے قابل ہوئ ہو نا اس سے بھی جاتی رہو گی ازمیر غصّے سے دھاڑا۔۔۔ازمیر کے دھرنے سے عرشیہ سہم جاتی ہے۔۔ازمیر نے ابھی بھی عرشیہ کو بانہوں سے پکڑا ہوتا ہے۔۔۔ازمیر نے عرشیہ کو ڈرتے ہوئے دیکھا تو آنکھیں بند کرتے ہوۓ غصّے کو کنٹرول کرنے لگا۔۔۔بیٹھو ادھر عرشیہ کو بیڈ پہ بٹھاتے ہوۓ خود پنجوں کے بل نیچے اس کے سامنے بیٹھ گیا اس کے بال پیچھے کرتے ہوئے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اب بتاؤ کیا بات ہوئی ہے جو تم یوں اکیلے میں ہی شروع ہو گئی۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ میں پہلے کی طرح دوڑنے بھاگنے لگ جاؤں مجھ سے یہ دوسروں کے سہارے نہیں کیا جاتا میں چاہتی ہوں جہاں میرا دل کرے وہاں میں بغیر کسی رکاوٹ یا بنا کسی کے آسرے خود ہی چلی جاؤں۔۔۔اس حالت میں تو کوئی مجھے باہر بھی نہیں جانے دیتا۔۔۔اگر کہیں جانے کا نام بھی لوں تو سب کہنے لگ جاتے ہیں۔۔۔نہ اس حالت میں کہیں نہیں جانا وہاں کیسے تم جا سکتی ہو وغیرہ وغیرہ تنگ آگئ ہوں میں یہ سب سنتے سنتے۔۔۔عرشیہ نے آنکھوں میں آنسو لیتے ہوۓ کہا۔۔بات کرتے ہوئے اس کی آواز بھی بھرا گئی۔۔۔تو تم کسی سے کہتی کیوں ہو اگر تمہیں کچھ چاہیئے یا کہیں آنا جانا ہو کوئ بھی کسی بھی قسم کا کام ہو تو تم سیدھا بنا کسی ہچکچاہٹ کے میرے پاس آؤ اور مجھ سے بولو۔۔۔میں چلنے کے لیے تمہارے پاؤں بنوں گا۔۔سننے کے لیے تمہارے کان۔بنوں گا۔۔۔دیکھنے کے لیے تمہاری آنکھیں بنوں گا۔۔۔۔بولنے کے لیے تمہاری زبان بنوں گا۔۔۔جب میں ہوں تمہارا سب کچھ تو تمہیں کسی اور کی کیا ضرورت بتاؤ مجھے۔۔۔چلو پرامس کرو مجھ سے کہ آئندہ کچھ بھی چاہئے یا کہیں جانا ہو تو تم صرف اور صرف میرے پاس آؤ گی پرامس می ازمیر نے اپنی چوڑی ہتھیلی عرشیہ کے آگے کی تو عرشیہ نے ہاں میں گردن ہلاتے ہوۓ اپنا نازک ہاتھ اس کے مضبوط ہاتھ پہ رکھ دیا پرامس۔۔۔ازمیر مسکراتے ہوۓ یہ ہوئی نا بات چلو اب اپنے آنسو صاف کرو اور ایک پیاری سی سمائل دو تو عرشیہ نم ہوتی آنکھوں سے ہنس پڑی۔۔۔کتنا دلکش نظارہ ہے ازمیر تو اس دھوپ چھاؤں کے منظر میں ہی کھو گیا۔۔۔جب عرشیہ نے اس کے کندھے سے ہلا کر کہا ازی آپ کو ائیرپورٹ نہیں جانا کیا؟ اوہ ہاں یاد ہی نہیں رہا۔۔ایک تو تم نہ مجھے سب کچھ ہی بھلا دیتی ہو اس کے سر پہ چپت لگاتے ہوۓ بولا۔۔۔کیااااا؟ میں۔۔میں نے کب آپ کو بھلایا عرشیہ نے صدمے سے کہا۔۔۔اور کیا ہمیشہ خود میں الجھا دیتی ہو چلو اللّٰہ حافظ میں آتا ہو ں پھر باتیں کریں گے وہ عرشیہ کے بالوں پہ بوسہ دیتے ہوئے جلدی سے چلا جاتا ہے اور عرشیہ پیچھے سے مسکراتے ہوۓ لیٹ جاتی ہے۔۔۔
💫💫💫
سب مرد حضرات ائیرپورٹ پہ ویٹنگ ایریا میں بیٹھے ہوتے ہیں ابھی فلائٹ آنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔۔۔ازمیر کچھ کھانے پینے کو ہی لے آؤ کب سے بور ہو رہے ہیں۔۔شایان نے کہا۔۔۔کیوں میں کیوں جاؤں خود ہی جا کر لے آؤ ازمیر ڈھٹائی سے بولا۔۔۔کیسا بھائی ہے تو شرم نہیں آتی اپنے بھائی کو انکار کرتے ہوئے کیا یہی سکھایا دادا جی نے تمہیں نالائق سپوت۔۔۔آپ کو تو مام ڈیڈ نے سب کچھ سکھایا ہے نا تو آپ ہی ان کی تربیت کی پاسداری رکھ لیں ازمیر کہا چپ رہنے والا تھا۔۔۔یہ تم دونوں اپنی اپنی لڑائی میں بڑوں کو کیوں گھسیٹ رہے ہو شہیر نے کہا۔۔۔تو بڑے بھیا آپ ہی چلے جاؤ اس بدتمیز سے تو کوئی بھی امید رکھنا فضول ہے شایان نے شہیر سے کہا۔۔۔آپ کی کون سا ٹانگوں میں کیل ٹھونکے ہیں جو آٹھ نہیں سکتے ازمیر نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔جا رہا ہوں میں دیکھنا سب کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آؤں گا ایک سواۓ تمہارے۔۔ہاں ہاں جاؤ کبھی اپنی جیب بھی ہلکی کر لیا کریں ہمیشہ دوسروں کی جیبوں پہ ہی نظر رہتی ہے آپ کی ازمیر نے کہا تو شایان گھورتے ہوۓ ہاں تو تیرا تو خود کا اتنا بڑا انٹر پرائز ز ہے ایک اس میں سے کچھ ہم غریب مزدوروں کو بھی کھلا دوگے تو برکت ہی ہو گی کمی نہیں ہونے لگی۔۔۔ویسے بھی اتنے پیسے کا تم کرو گے کیا ہاں۔۔۔کیوں میری بیوی ہے اسے عیش کرواؤں گا پھر میرے بچے بھی ہوں گے ان پہ بھی تو خرچ کرنے پڑیں گے ورنہ وہ کیا کہیں گے کہ ہمارے ڈیڈ نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بچایا۔۔۔تف ہے تم پہ بھائی بے چارے معصوم بھوکے رہیں اور تمہیں فیوچر کڈز کی پڑ گئی ہے ۔۔بھائ کون سا نہیں کماتے جو ان کی فکر کروں۔۔۔ہم تو مزدور بندے ہیں وہ بھی ڈیڈ لوگوں کے آفس میں ان کا دل کرے سیلری دے دیں نہیں تو کہہ دیں کہ ہم خود ہی خرچہ کر لیں گے جو چاہئیے ہو بتا دینا شایان۔مصنوعی آنسو پونچھتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔باقی سب ان کی نوک جھونک انجواۓ کر رہے تھے کہ آخری بات پہ مرتضیٰ صاحب نے اس کو کان سے پکڑا اوۓ کھوتے کے پتر کب تجھے ایسے کہا اور کب سیلری نہیں ملی ہاں بتا مجھے ہمیشہ کام سے زیادہ معاوضہ لے لیتے ہو اور ابھی بھی غریبی کا رونا روتے ہو شرم نہیں آتی۔۔۔آہ ڈیڈ سوری میں تو مذاق کر رہا تھا پلیز میرا کان چھوڑیں کچھ تو ترس کھائیں شادی بھی نہیں ہوئی ابھی آپ کے بیٹے کی کیسا لگے گا ایک کان والا دلہا۔۔۔نہیں بھئ مجھے تو بالکل بھی نہیں قبول ایک کان والا داماد عادل نے جھٹ سے کہا۔۔۔دیکھا آپ کا سگا بھائی مجھے اپنا داماد بنانے سے انکار کر رہا ہے کچھ تو رحم کریں۔۔۔وہاں بیٹھے سب ہنسنے لگے اور اتنی دیر میں فلائٹ بھی پہنچ گئی۔۔۔لو بھئ جوانوں ڈھونڈو اپنے بندوں کو۔۔۔سب ایگزٹ پہ کھڑے ہوگئے اور ان کا انتظار کرنے لگے کچھ ہی دیر میں ان کو شیراز اور شہروز اپنی اپنی فیملی کے ساتھ آتے دکھائی دیے۔۔۔فیروز نے انہیں ہاتھ ہلایا تو وہ فوراً ان کی طرف لپکے وہ سب ایک دوسرے کو گلے مل رہے تھے۔۔۔ان سے فارغ ہونے تو ابیہا اور صالحہ کی طرف متوجہ ہوئے۔۔عزہ اور اولیاء مجھے لگتا ہے ہمیں واپس چلے جانا چاہیے یہاں ہمیں تو کوئی نہ مل رہا ہے اور نہ ہی بلا رہا ہے ہماری کوئی ویلیو ہی نہیں ہے شہسوار نے ان دونوں کو مخاطب کیا عزہ جو کہ شہروز کی بیٹی تھی جبکہ شہسوار اور اولیاء شیراز کے بیٹے تھے۔۔۔ہاں شاہو بھائی مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے عزہ نے بھی اس کی تائید کی۔۔ارے تم لوگ ہی تو انکے انٹری پاس ہو ورنہ تمہیں پتا ہے یہ گرینڈ فادر اور یہ گرینڈسٹ فادر (مصطفیٰ صاحب) اور گھر میں گرینڈ مدر آپ کے ڈیڈ لوگوں کو گھسنے بھی نہ دیں تو پھر آپ نے کیسے سوچ لیا کہ آپ کی ویلیو نہیں ہے سب سے زیادہ ویلیو ہی آپ کی ہے۔۔۔فیروز نے عزہ کو اٹھاتے ہوۓ شہسوار اور اولیاء سے کہا تو ابیہا جو پہلے ہی ڈری ہوئی تھی اس نے شیراز کا بازو زور سے پکڑا۔۔شیراز نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے اسے آنکھوں سے تسلی دی۔۔۔چلو بھئ آؤ باتیں بعد میں کرنا گھر میں تمہاری ماں انتظار کر رہی ہے مصطفیٰ صاحب نے کہا اور سب گاڑی کی طرف بڑھے۔۔۔تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ لوگ گھر پہنچ گئے تھے سب سے ملنے کے بعد شیراز اور شہروز سائرہ کی طرف بڑھے۔۔۔ماما۔۔۔سائرہ منہ پھیر کر کھڑی تھی۔۔۔ماما اپنے بیٹوں کو معاف نہیں کریں گی۔۔۔کیسے کروں اتنے عرصے سے تم لوگوں نے ایک بار بھی پلٹ کر دیکھا دس سال ہوگئے تم لوگوں کو کبھی بھی خیال آیا کہ اپنی ماں یا باپ سے ملنے کا بتاؤ مجھے سائرہ رندھی ہوئی آواز میں بولی تو وہ دونوں شرمندہ ہو گئے۔۔۔وی آر سوری ماما انہوں نے سائرہ کا منہ اپنی طرف کرتے ہوئے ان کے آنسو صاف کیے اور گلے سے لگ گئے۔۔۔سائرہ تو ماں تھی اور ماں کا دل ہمیشہ سے نرم ہی ہوتا ہے تو ان دونوں اپنے اندر بھینچ لیا۔۔۔دادو ہم بھی ہیں ایک دفع پھر سے ننھے مہمانوں نے مداخلت کی۔۔۔ارے میرے بچے ادھر آؤ نا اور تم دونوں چلو چھٹی کرو اب مجھے تم لوگوں کی ضرورت نہیں ہے میرے پاس میرے یہ تینوں بچے ہیں اب سائرہ نے ان سے ملتے ہوۓ کہا جس سے وہ لوگ اور بھی اکڑ گئے۔۔۔شیراز اور شہروز نے ابیہا اور صالحہ کو اشارہ کیا تو وہ دونوں بھی آگے ہوئی۔۔۔ماما کیا آپ ہمیں نہیں ملیں گی؟ صالحہ نے کہا تو سائرہ نے ان دونوں کو گلے سے لگاتے ہوئے کیوں نہیں ملوں گی اپنی بیٹیوں سے ہاں۔۔۔مطلب آپ ہم سے ناراض نہیں ہیں؟ ابیہا نے کہا تو سائرہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔مطلب آپ ہمیں ماریں گی بھی نہیں تو ابیہا کی بات پہ جہاں سب حیران ہوۓ وہیں صالحہ نے بھی اسے حیران نظروں سے دیکھا۔۔۔ماما کیوں ماریں گی ہمیں۔۔۔وہ صالحہ بھابھی میری فرینڈ بتا رہی تھی کہ پاکستان کی ساس بہت ظالم ہوتی ہیں اور اپنی بہوؤں کو چھوٹی چھوٹی بات پہ مارنے لگتی ہیں اور اگر بیٹے نے اپنی مرضی سے شادی کی ہو تو وہ پھر نکال بس کرتی ہیں۔۔۔یہ سب تمہیں شزہ نے کہا ہے نا صالحہ نے پوچھا تو ابیہا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔صالحہ نے اپنا سر پیٹ لیا کرنی مرتبہ کہا ہے کہ اس سے دوستی ختم کردو وہ ایسے ہی خناس تمہارے دماغ میں بھرتی رہتی ہے۔۔۔لیکن بھابھی شیری نے بھی کہا تھا کہ ایسا ہی ہوتا ہے اور تو اور انہوں نے کہا کہ یہاں نندیں بھی جینا حرام۔کر دیتی ہیں تو سائرہ سمیت سب لوگ شیراز کو گھورنے لگے اور وہ اپنا قہقہہ ضبط کرنے میں سرخ ہوۓ جا رہا تھا۔۔۔جب کنٹرول نہیں ہوا تو چھت پھاڑ قہقہہ لگاتا ہے۔۔۔ٹھہر تجھے میں بتاتی ہوں تو جو میری معصوم بہو کو ڈراتا ہے نا تیری تو میں مرمت کرتی ہوں۔۔۔ابیہا کی بات پہ سب ہی ہنس رہے تھے۔۔۔چلو آؤ بیٹھتے ہیں پاگل نہ ہو تو آئندہ تم شزہ سے بالکل بات نہیں کرو گی اوکے تو وہ بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلاتی ہے۔۔۔عائزہ عریشہ اور صنم کو اپنی یہ معصوم۔سی بھابھی بہت پسند آتی ہے
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial