قسط: 32
سب نیچے بیٹھے گپ شپ کرنے رہے تھے۔۔۔عرشیہ کمرے میں بیٹھی نیچے جانے کو بے چین تھی۔۔۔پھر اسے ایک آئیڈیا آیا اس نے ازمیر کو ٹیکسٹ کیا۔۔۔ازی مجھے بھی لے جاؤ۔۔۔ازمیر نے میسج دیکھا فوراً سے اٹھ کر اوپر آیا۔۔۔جیسے ہی روم میں انٹر ہوا۔۔۔سب وہاں بیٹھے ہیں میرا تو کسی کو خیال ہی نہیں آتا کہ اوپر ایک معصوم لڑکی بیٹھی ہے اسے بھی ساتھ ملا لیں لیکن کسی کو میری یاد آۓ تب نا وہ بنا بریک شروع ہوگئی تھی۔۔۔سورے بے بی سب ابھی آۓ تھے اور ابھی ملن ملاپ چل رہا تھا تو اس لیے نہیں لینے آیا اپنی ڈول کو۔۔اچھا بس بس ٹھیک ہے زیادہ بہانے بنانے کی ضرورت نہیں چلیں مجھے نیچے لے جائیں۔۔۔چلو آؤ ازمیر اسے سب کے درمیان لے آیا۔۔۔شہروز اور شیراز نے جیسے ہی عرشیہ کی طرف دیکھا تو پریشان ہو کر جلدی سے کھڑے ہوئے ارے یہ ہماری پرنسس کو کیا ہوا؟ کچھ نہیں بھائی میرا سب لوگوں سے خدمت کروانے کا دل کر رہا تھا تو سوچا ایک چھوٹا سا ایکسیڈنٹ کروا لوں عرشیہ نے ان کی پریشانی دیکھ کر مذاق میں بات ٹالی۔۔۔عرشیہ۔۔۔سدھر جاؤ ازمیر نے ٹوکا تو اس نے ازمیر کی طرف دیکھا۔۔۔اب میں نے کیا کیا۔۔۔اچھا چلو آؤ تمہاری بھابھیوں سے ملواؤں شہروز نے آگے ہوکر اسے ابیہا اور صالحہ سے ملوایا۔۔۔اسلام و علیکم بھابھیوں میں ہوں آپ کی چاروں نندوں میں سے سب سے پیاری معصوم سی نند یہ باقی سب تو ایویں ہی ہیں۔۔۔ایک تو یہ لڑکی کہیں بھی شروع ہو جاتی ہے زارا نے کہا۔۔ماما کبھی تو آپ مجھے بخش دیا کریں…ہم آپ سب کے لیے گفٹ لے کر آئ ہیں۔۔چلو اب آپ سب آرام کرلو تھک گۓ ہوں گے سب۔۔۔آؤ بچوں میں آپ لوگوں کو آپ کے رومز دکھا دوں۔۔۔سائرہ ان کو لے کر ان کے رومز میں چھوڑنے چلی گئیں اور باقی سب بھی بزی ہو گۓ۔۔۔



ڈیڈ میں آج آؤٹ آف سٹی جا رہا ہوں میٹنگ کے سلسلے میں کل تک واپس آؤں گا ازمیر نے مرتضیٰ صاحب سے کہا۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا اپنا خیال رکھنا۔۔۔مام کہاں ہیں؟ وہ کچن میں ہوں گی۔۔۔اوکے میں ان سے بھی مل لوں ٹھیک ہے۔۔۔مام۔۔۔جی بیٹا۔۔۔مام میں لاہور جا رہا ہوں بزنس میٹنگ ہے کل تک واپس آؤں گا۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا فی امان اللّٰہ۔۔۔وہ ان سے اور دادا سائیں سے مل کر میٹنگ کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔۔۔عرشیہ کے پاس گیا تو وہ سو رہی تھی اسے سوتا ہوا دیکھ وہ واپس چلا آیا۔۔۔



شادی کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی تھیں ہر کوئی شاپنگ میں مصروف تھا اور مرد سارے ارینجمنٹ دیکھ رہے تھے۔۔۔عرشیہ ابھی اب خود سے بنا سہارے آہستہ آہستہ چلنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔سائرہ ماما اور عائشہ ماما میری بات سنیں عرشیہ نے انہیں بلایا۔۔۔جی بیٹا جی سنائیں کیا بات ہے؟ ماما شادی میں صرف دس دن۔رہ گۓ ہیں تو کیوں نہ ڈھولکی رکھ لی جاۓ۔۔۔نہیں دو سے تین دن تک اور انتظار کر لو۔۔۔نہیں نا ابھی رکھ لیتے ہیں پلیز نا۔۔۔کیا ہوا بھئ کیا کہہ رہی ہے ہماری بیٹی۔۔۔پاپا دیکھیں نا میں بول رہی ہوں کہ ڈھولکی رکھ لیتے ہیں اور آپ لوگوں کی مسز نہیں مان رہیں۔۔۔بھئ یہ تو تم لوگوں کا معاملہ ہے ہم اس میں نہیں انوالو ہو رہے۔۔۔تم جانو یا تمہاری یہ مائیں۔۔۔عادل اٹھ کر اپنے روم میں چلے گئے۔۔۔عرشیہ بھی چپ کر کے بیٹھ گئی کہ اب کیا ہو سکتا ہے۔۔۔وہ اٹھی اور سیدھی ازمیر کے پاس چلی گئی۔۔۔ازی۔۔۔ازمیر جو کہ اپنے لیپ ٹاپ پہ بزی تھا عرشیہ کی آواز سن کر چہرہ اوپر کیا۔۔ارے عرشیہ آؤ نا وہیں کیوں کھڑی ہو؟ ازی میں بور ہو رہی ہوں کہیں چلیں باہر۔۔۔اچھا پانچ منٹ رکو میں بس یہ تھوڑا سا کام نمٹا لوں پھر چلتے ہیں۔۔۔اوکے وہ اٹھ کر ادھر ادھر کمرے کا جائزہ لینے لگی۔۔۔ڈریسنگ روم کے پاس گئی اور چیزیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی کہ اچانک سے اس کے ہاتھوں سے ازمیر کا آئ پیڈ نیچے گرتا ہے اور اس کا پینل ٹوٹ جاتا ہے عرشیہ یہ سب دیکھ بہت ڈر جاتی ہے اور ڈرتے ہوئے ازمیر کی طرف دیکھتی ہے جو ٹوٹا ہوا آئی پیڈ دیکھ رہا ہوتا ہے وہ اٹھتا ہے اور اس کی طرف قدم بڑھاتا ہے عرشیہ ازمیر کو اپنی اوڑھ بڑھتا دیکھ اور بھی ڈر جاتی ہے۔۔۔وہ ازی می میں نے جان بوجھ کر نہیں توڑا یہ تو میرے ہاتھ ہاتھ سے پتا نہیں کیسے چھوٹ گیا میں تو اسے سائیڈ پہ کرنے لگی تھی۔۔۔ازمیر سینے پہ ہاتھ باندھے اس کی بات سن رہا ہوتا ہے۔۔۔ٹوٹ گیا تو ٹوٹ گیا اس میں اتنا ڈرنے والی کون سی بات ہے میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یوں بات بے بات ڈرنا چھوڑ دو اور خود جھک کر آئی پیڈ اٹھا کر دراڑ میں رکھ دیا۔۔۔چلو آؤ چلیں آئسکریم کھانے۔۔۔لیکن آپ کا کام۔۔۔ہوتا رہے گا کام تم آؤ۔۔۔لیکن ازی میں چینج تو کر لوں۔۔۔کیوں ان کپڑوں کو کیا ہوا بالکل ٹھیک ہیں چلو آؤ چلیں وہ عرشیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے کر آتا ہے۔۔۔وہ ہال سے گزر کر جا رہے ہوتے ہیں کہ عزہ آواز دیتے ہوۓ۔۔۔چاچو کہاں جا رہے ہیں آپ لوگ۔۔۔ہم آئسکریم کھانے جاؤ گی کیا اتنا سننا تھا کہ تینوں بچے کھڑے ہوگئے ہم سب جائیں گے۔۔۔ازی میں نے نہیں ان کو لے کر جانا عرشیہ منہ بناتے ہوۓ بولی۔۔۔کیوں نہیں لے کر آجانا آپ نے؟ ڈیڈ دیکھ رہے ہیں آپ اپنی بہن کو؟ اولیاء شیراز کو مخاطب کرتا ہے۔۔۔شیری بھائی آپ لوگوں کے بچے بہت بدتمیز ہیں زرا تمیز نہیں سکھائ آپ لوگوں نے انہیں۔۔۔یہ میرے ساتھ بہت بدتمیزی کرتے ہیں اس کی بات سن کے تینوں بچوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے اور شیراز لوگ بھی اپنی منہ پھٹ کزن کو حیرانگی سے دیکھتے ہیں جبکہ زارا کی چپل اڑتی ہوئی آتی ہے جسے ازمیر بروقت کیچ کر لیتا ہے۔۔۔نو زارا ماما یہ بہت غلط ہے۔۔۔ایک تو اس لڑکے نے اسے بہت سر پہ چڑھا لیا ہے زارا ازمیر کو دیکھ کر کہتی ہے۔۔۔ہم بھی جائیں گی ازمیر بھائی کبھی ہمیں بھی لے جایا کریں اپنی بہنوں کا بھی خیال رکھ لیا کریں لیکن بیوی کے ناز نخرے اٹھانے سے فرصت ملے تب نا۔۔۔عائزہ نے دہائی دی۔۔۔ہاں پتا نہیں اس عرشیہ کی بچی نے کیسا جادو کر رکھا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نظر ہی نہیں آتا ازمیر بھائی کو۔۔۔یہ صنم تھی۔۔ہاں وہی تو بس میری کرسٹل ڈول کرسٹل ڈول ہی ہوتی رہتی ہے عریشہ نے بھی اپنا حصہ ملایا۔۔۔ازمیر تین دفعہ تھو تھو کریں ان کی طرف تاکہ ان کی گندی نظر سے ہم بچ سکیں۔۔۔اور ویسے بھی جلنے والے کا منہ کالا۔۔۔عرشیہ نے انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔بس ہوگیا تم لوگوں کا۔۔۔چلو کس کس نے جانا ہے وہ فٹا فٹ آ جاۓ ورنہ میں چلا اپنی کرسٹل ڈول کو لے کر ازمیر نے انہیں دھمکی دی جو کافی کار آمد ثابت ہوئی وہ سب پانچ منٹ میں گاڑی کے پاس تھے۔۔۔عرشیہ نے ان کی تیاری دیکھی اور ازمیر کی طرف جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوۓ۔۔۔ازی۔۔ہمم آپ انہیں دیکھیں سب کتنا اچھا تیار ہوئی ہیں اور مجھے دیکھیں آپ ایسے ہی لے آئیں مجھے۔۔۔میری ڈول کو تیار ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ ایسے بھی ان سب سے بہت پیاری ہے وہ بھی سرگوشانہ انداز میں کہتا ہے۔۔۔سچی بول رہے ہیں نہ؟ بالکل سچی۔۔ہمم ٹھیک ہے۔۔۔وہ ابھی آرام سے سیدھی ہو کر بیٹھتی ہے لیکن اگلے ہی پل کچھ یاد آنے پہ ایک دفعہ پھر ازمیر کے کان۔میں گھستی ہے۔۔۔ازی۔۔۔ہاں بولو۔۔۔میں نے الگ سے آئسکریم کی بکٹ لینی ہے ٹھیک ہے۔۔۔اوکے میری جان۔تم دو بکٹس لے لینا اور کچھ؟ ازمیر نے پیار سے کہا۔۔۔چاکلیٹس۔۔اوکے ڈن۔۔۔اور۔۔نہیں ابھی کچھ نہیں جب یاد آۓ گا تب صحیح۔۔۔اوکے میری جان۔۔۔عاشو کیا کھسر پھسر کر رہی ہو۔۔۔کون۔سی پٹیاں پڑھائی جا رہی ہیں۔۔۔وہ تینوں اسے دیکھ بول پڑیں۔۔۔آپ لوگوں کو کیا میں جو مرضی کہوں۔۔۔کبھی میں نے آپ لوگوں سے پوچھا کہ پ لوگ شہیر بھائی وغیرہ سے کیا باتیں کرتی ہیں یا بقول آپ لوگوں کے پٹیاں پڑھاتی ہیں۔۔ہم تو نہیں پڑھاتی کوئی بھی پٹیاں۔۔۔پڑھاتی ہوں گی تو کہا نہیں تو ایسے کیسے کسی کو خیال آۓ گا۔۔۔پھوپھو آہ لوگ کتنا لڑتی ہو یار؟ شہسوار نے تنگ آ کر کہا۔۔میں کہاں لڑتی ہوں یہی میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔۔۔کیا ہم؟ وہ تینوں صدمے سے بولی اس سے پہلے وہ لوگ کوئی جوابی کارروائی کرتے۔۔۔چلو بس آئسکریم پارلر آگیا آجاؤ سب ازمیر نے گاڑی پارک کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے یہاں جنگ عظیم شروع ہوتی ازمیر نے فوراً اترنے کا کہا۔۔تو وہ سب آہستہ آہستہ گاڑی سے نیچے اترے اور آئسکریم پارلر کی طرف بڑھے سب نے اپنی اپنی پسند کے فلیور منگواۓ اور انجوائے کرتے ہوئے کھانے لگے۔۔۔



آج مہندی کا فنکشن تھا سب لوگ تیاریوں میں لگے ہوۓ تھے صنم اور عائزہ نے ایک جیسے ڈریس بنواۓ تھے کیپری کے ساتھ لانگ شرٹ وہ دونوں بہت ہی پیاری لگ رہی تھیں۔۔اور شہیر اور فیروز بھی سفید کرتا شلوار میں شہزادوں سے کم نہیں لگ رہے تھے وہ چاروں سٹیج پہ بیٹھے ہوئے تھے درمیان میں فیروز اور شہیر اور ان کی سائیڈز پہ دلہنوں کو بٹھایا ہوا تھا۔۔۔چلیں بھئ مہندی کی رسم شروع کریں۔۔۔عریشہ نے کہا۔۔تمہین بہت جلدی ہے عرشیہ نے کہا۔۔ہاں رسم مکمل ہوگی تو ہی ہم بھی انجوائے کر سکیں گی نہیں تو رہنا ساری رات ادھر رسمیں نبھاتے ہوئے عریشہ نے جواب دیا۔۔۔عرشیہ نے پنک ڈارک گرین کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی جس پہ لائٹ پنک کلر کی کڑھائی ہوئی تھی اور لائٹ پنک ہی ڈوپٹہ لیا ہوا تھا وہ سولہ سالہ جوبن اپنے حسن کی آب و تاب بکھیرے بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی جس کی ایک بار نگاہ اٹھتی پلٹنا بھول جاتی۔۔۔زارا کو تو ڈر تھا کہ میری بیٹی کو کہیں نظر ہی نہ لگ جاۓ وہ بار بار اس کی بلائیں لے رہی تھیں۔۔بس کریں ماما کہیں نہیں مرنے لگی میں۔۔بکواس بند کرو اپنی جب دیکھو الٹا سیدھا بولتی رہتی ہو۔۔۔ابھی زارا کچھ کہتی پیچھے سے ازمیر غرایا۔۔۔عرشیہ ازمیر کی آواز سن کر وہیں چپ کر گئی۔۔۔اب ٹھیک رہی ہو زارا نے طنزیہ کہا تو عرشیہ نے منہ بنا لیا۔۔چلو پیچھے ہو میں مہندی لگا کر آؤں زارا نے عرشیہ کو پیچھے کرکے خود سٹیج کی طرف بڑھی۔۔۔دوسری طرف عریشہ بھی پنک اور بلیو کے کنٹراسٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔دونوں بہنوں کا ایک سا ڈریس تھا بس کلر مختلف تھا۔۔۔شایان نے جب عریشہ کو دیکھا تو اس کے پیچھے قریب ہوتے ہوۓ عریشہ آج تم اتنی پیاری لگ رہی ہو دل کر رہا ہے تمہیں کھا جاؤں اس کے کان۔کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔۔۔شایان۔کی بات پر عریشہ کان کی لو تک سرخ پڑی۔۔۔کیا ہوا اتنی لال ٹماٹر کیوں ہو رہی ہو شایان مسکراہٹ دبا کر پوچھتا ہے لیکن عریشہ کوئی جواب نہیں دیتی۔۔۔سوچ رہا ہوں کہ دادا جانی سے کہہ کر میں بھی کل ہی رخصتی لے لوں۔۔۔نہیں بالکل نہیں عریشہ ایک دم بولتی ہے تو شایان کا بے ساختہ قہقہہ گونجتا ہے۔۔۔عریشہ اس کی شرارت سمجھ کر مسکرانے لگتی ہے۔۔۔مہندی کی رسم ختم ہوتی ہے تو ینگ پارٹی ڈانس شروع کر دیتی ہے سب کپل کپل ہو کر ڈانس کرتے ہیں سب مل کر دلہوں اور دلہنوں کو بھی اٹھا لاتے ہیں۔۔یوں مہندی کا فنکشن اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔۔۔سب لوگ تھک ہار کر اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔۔۔صنم بھی اپنے کمرے میں ہوتی ہے وہ ابھی چینج کرنے کے لیے کھڑی ہوتی ہے کہ دروازہ بجتا ہے وہ مڑ کر دروازہ کھولتی ہے تو سامنے ہی شہیر کھڑا ہوتا ہے۔۔۔آپ یہاں؟ وہ حیران ہو کر دیکھتی ہے۔۔۔ہاں کیوں نہیں آ سکتا؟ میں نے ایسے تو نہیں کہا۔۔کوئ کام تھا کیا؟ ہاں میں نے سوچا تمہیں اور مجھے سب نے مہندی لگائی لیکن جن کی مہندی تھی انہوں نے ایک دوسرے کو مہندی لگائی ہی نہیں تو کیوں نا ہم بھی ایک دوسرے کو مہندی لگائیں۔۔صنم نے شہیر کی طرف دیکھا جس کے ہاتھ میں مہندی پکڑی ہوئی تھی صنم نے ہاتھ آگے بڑھایا تو شہیر نے مہندی سے ایس لکھ دیا تم نہیں لگاؤ گی مجھے؟ صنم شہیر سے مہندی پکڑ کر لگانے لگتی ہے کہ شہیر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔۔اوں ہوں ادھر نہیں۔۔۔صنم اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے تو شہیر اپنے سینے سے شرٹ ایک طرف کرتا ہے ادھر ایس لکھو میرے دل پہ تو صنم شرم سے نظریں جھکا لیتی ہے۔۔۔سنا نہیں تم نے میں نے کیا کہا شہیر لہجے کو سخت کرتے ہوئے کہتا ہے تو صنم کانپتے ہاتھوں سے اس کے دل کے مقام۔پہ ایس لکھتی ہے۔۔۔ہمم یہ ہوئی نا بات۔۔چلو اب سو جاؤ کل تو ویسے بھی ساری رات جاگنا ہی ہے
شہیر معنی خیزی سے کہتا اس کے رخسار پہ لب رکھتا ہے۔۔۔اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوۓ صنم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑتی ہے۔۔اس کی حالت دیکھ کر شہیر گہرا مسکراتا ہے اور اسے اپنے حصار میں لیتا ہے۔۔۔بہت شرماتی ہو یار پتا نہیں کیا بنے گا میرا۔۔۔چلو اب میں چلتا ہوں تم بھی آرام کرو وہ اس کے لبوں پہ سوفٹ کس کرتا چلا جاتا ہے۔۔۔




عائزہ سو گئ کیا؟ فیروز اسے میسج کرتا ہے۔۔۔نہیں ابھی نہیں۔۔۔چینج تو نہیں کیا؟ فیروز ایک دفعہ پھر میسج کرتا ہے۔۔۔نہیں کرنے لگی ہوں۔۔۔ابھی مت کرنا میں تمہیں خراج پیش کرنے آ رہا ہوں دروازہ کھولو۔۔۔نہیں مجھے نیند آ رہی ہے آپ بھی سو جاؤ۔۔۔آئ سیڈ اوپن دی ڈور ساتھ میں غصّے والا ایموجی سینڈ کرتا ہے تو عائزہ اسے اوکے کا ریپلائے کرتی ہے۔۔۔وہ اٹھ کر دروازہ ان لاک کر دیتی ہے۔۔۔دو ہی منٹ بعد فیروز اس کے روم میں ہوتا ہے۔۔۔کچھ زیادہ ہی نیند نہیں آرہی تمہیں ہاں۔۔۔ہاں تو سارا دن کی تھکی ہوئی ہوں اور اب بھی بیٹھ بیٹھ کے کمر اکڑ گئ۔۔۔اوہ تو میری بیوی تھک گئی ہے۔۔۔اگر کہتی ہو تو دبا دیتا ہوں۔۔۔نہ نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔۔اچھا لیکن ابھی تو کچھ لوگ بہت تھکے ہوۓ تھے۔۔عائزہ چپ کر جاتی ہے۔۔۔بہت پیاری لگ رہی تھی تو سوچا پرسنلی جا کر تمہارے حسن۔کو خراج پیش کروں۔۔۔وہ اس کے ماتھے پہ لب رکھتا ہے اور عائزہ اس کا نرم لمس محسوس کرتے ہوۓ اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔۔۔میں کیا سوچ رہا تھا کہ نکل تک میں کیسے انتظار کروں گا بھئ مجھ سے تو نہیں ہوتا یہ انتظار تو کیوں نہ میں آج تمہارے ساتھ تمہارا روم اور تمہارا بیڈ شئیر کر لوں کل کو تم نے بھی میرے ساتھ میرا بیڈ اور روم شئیر کرنا ہی ہے فیروز آنکھوں میں شرارت لیے اسے کہتا ہے۔۔۔اور فیروز کی بات سن کر عائزہ کی آنکھیں پھیلتی ہیں اور زبان لڑکھڑانے لگی۔۔نہ نہی نہیں آپ جا جائیں یہاں سے۔۔۔فیروز عائزہ کی گھبراہٹ دیکھ محفوظ ہوتا ہے۔۔نہیں بھئ میں تو لگا سونے وہ بیڈ پہ گرنے والے انداز میں لیٹتے ہوۓ عائزہ کو تنگ کرتے ہوئے کہتا ہے تو وہ رونے والی ہو جاتی ہے اور بھاگ کر اس کی طرف آتی ہے۔۔پلیز فیروز جائیں یہاں سے اگر کوئی آگیا تو کیا سوچے گا پلیز نا۔۔۔اوں ہوں بیوی تنگ نہیں کرو مجھے بہت نیند آ رہی ہے۔۔۔تمہیں بھی آ رہی ہوتی نا چلو آؤ ادھر بیڈ شئیر کر لیتے ہیں ادھر ایک سائیڈ تم سو جاؤ ایک سائیڈ پہ میں سو جاؤں گا۔۔۔عائزہ جب دیکھتی ہے کہ وہ نہیں اٹھ رہا تو وہ باقاعدہ رونا شروع کر دیتی ہے۔۔فیروز جب اسے روتے ہوئے دیکھتا ہے تو جھٹکے سے اٹھتا ہے اور عائزہ کے پاس جاکر اسے سینے سے لگاتا ہے۔۔۔پاگل میں تو مذاق کر رہا تھا تم تو سیریس ہی لے گئی۔۔۔چلو اب بس چپ کرو میں تمہیں تنگ کر رہا تھا اس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہتا ہے۔۔۔اور وہ بھی سوں سوں کرتی چپ کر جاتی ہے۔۔۔ہمم گڈ چلو سو جاؤ گڈ نائٹ۔۔گڈ نائٹ اور فیروز کے جانے کے بعد عائزہ جلدی سے دروازہ لاک کرتی ہے اور اپنا موبائل اٹھا کر فیروز کو میسج کرتی ہے۔۔مجھے پتا تھا کہ آپ مجھے تنگ کر رہے ہیں میں بھی جھوٹ موٹ کا رو رہی تھی اور ہنسنے والا ایموجی سینڈ کرتی ہے۔۔۔تمہیں تو میں کل بتاؤں گا فیروز کا ریپلائے آتا ہے اور وہ موبائل رکھ کے مسکراتے ہوۓ سو جاتی ہے