The Creature’s Love

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 33

آج بارات کا دن تھا سب لوگ تیاریوں میں لگے ہوۓ تھے کوئی اپنا ڈریس نکال رہا تھا تو کوئی ڈریس کے ساتھ کی میچنگ جیولری سب مگن تھے اپنے اپنے کام میں مرد حضرات سب انتظام دیکھ رہے تھے کیونکہ سارے ارینجمنٹس مینشن میں ہی تھے۔۔۔دلہنوں کو پارلر میں لے جایا جارہا تھا ان کے ساتھ ابیہا اور صالحہ گئیں تھی عریشہ بھی ساتھ گئی تھی کیونکہ اس نے بھی تیار ہونا تھا۔۔۔عرشیہ ازمیر کے روم میں گئی۔۔۔ازی۔۔ازی کہاں ہیں آپ؟ اس نے آوازیں دیں لیکن کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔۔۔ازی کہاں گئے؟ نیچے بھی نہیں ہے عرشیہ نے خود سے ہی سوال کیا۔۔۔کال کر کے پوچھتی ہوں۔۔۔عرشیہ کال کرنے لگی۔۔۔ہیلو ازی کہاں ہیں آپ؟ میں آپ کے روم میں آئی لیکن آپ وہاں تھے ہی نہیں۔۔۔میں باہر کچھ کام سے آیا ہوں۔۔۔دوسری طرف سے آواز آئی۔۔۔اچھا کب تک آئیں گے واپس؟ گھنٹے دو گھنٹے لگ جائیں گے خیریت۔۔۔ہاں آپ نے پرامس کیا تھا کہ جب ان لوگوں کی رخصتی ہو گی تو آپ مجھے پارلر لے کر جائیں گے وہ بھی الگ سے اچھے والے۔۔۔ہاں کیا تو تھا وعدہ۔۔۔اچھا میں کوشش کرتا ہوں جلدی کام نمٹانے کی اور پھر آتا ہوں۔۔۔نہیں کوئی بات نہیں میں آج بھی خود ہی گھر میں تیار ہو جاؤں گی۔۔۔عرشیہ نے کہہ کر بے دلی سے کال کاٹ دی۔۔۔ازمیر جانتا تھا کہ اب عرشیہ اپ سیٹ ہو گئ ہوگی۔۔۔ازمیر کی اب کوشش تھی کہ جو بھی کام ہے وہ جلدی سے ہو جاۓ تاکہ وہ عرشیہ کو سیلون لے جا سکے۔۔۔
💫💫💫
ماما۔۔۔میرا ڈریس نہیں مل رہا آپ کو پتا ہے کہاں ہے؟ عرشیہ اپنی ماما سے کہتی ہے۔۔۔نہیں عرشیہ تم نے خود ہی اپنے روم میں رکھا تھا۔۔۔لیکن ماما ادھر نہیں ہے۔۔میں نے پورا کمرہ چھان مارا ہے۔۔۔ایسے کیسے ممکن ہے۔۔۔جاؤ ایک دفعہ پھر دیکھو وہیں ہوگا ویسے بھی ایک دفعہ میں تمہیں کوئی چیز نہیں ملتی۔۔۔ماما آپ خود آکر دیکھ لیں۔۔۔ایک تو اس لڑکی نے بہت تنگ کرتی ہے۔۔چلو آؤ اگر وہاں سے ملا تو تمہاری پٹائی کروں گی زارا نے جھلاتے ہوۓ کہا۔۔۔ماما ملے گا تو نا۔۔۔زارا نے اس کے کمرے میں جا کر سارا کمرا چھان مارا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔ہیں ڈریس کہاں جا سکتا ہے یہاں تو تھا۔۔۔چلو جی اب میں کیا کروں پہلے ازی نہیں آ رہے مجھے پارلر لے جانے کا کہا تھا اب ڈریس بھی نہیں مل رہا یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے وہ رونے والی ہو گئی۔۔۔نہین میری جان رونا نہیں میں دیکھتی ہوں ادھر ہی کہیں ہوگا زارا اسے چپ کرواتے ہوئے بولی۔۔۔
زارا اپنے روم میں گئی کہ کہیں ادھر نہ رکھ دیا ہو انہوں نے اپنا بھی سارا کمرہ چھان لیکن عرشیہ کا سوٹ کہیں نہیں ملا۔۔۔زارا نے عریشہ کو کال کر کے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے نہیں پتا۔۔۔وہ ایسے ہی پریشانی میں ٹہلنے لگی۔۔۔ازمیر نے آتے ہوئے انہیں دیکھا۔۔۔کیا ہوا زارا ماما آپ پریشان کیوں ہیں؟ کیا ہوا؟ بیٹا عرشیہ نے جو آج ڈریس پہننا تھا وہ پتا نہیں کہاں گیا مل۔ہی نہیں رہا وہ کمرے میں پریشان بیٹھی ہے۔۔۔آپ ریلیکس کریں میں دیکھتا ہوں ٹینشن نہ لیں۔۔۔وہ بھاگ کر عرشیہ کے روم میں جاتا ہے۔۔۔ عرشیہ بیٹھی اپنے ناخن چبا رہی ہوتی ہے۔۔کیا ہوا میری جان کو ایسے کیوں بیٹھی ہو؟ ازمیر نے جلدی سے اس کے پاس آکر پوچھا تو اس نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور ازمیر کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔عرشیہ رونا نہیں بالکل بھی چپ کرو اور مجھے بتاؤ کہ کیا کیا چاہئیے تمہیں ہم ابھی لے کر آئیں گے۔۔۔وہ اس کے سینے سے منہ نکال کر ڈبڈبائ آنکھوں سے ازمیر کی طرف دیکھتی ہے۔۔۔ازی آپ کو پتا میں نے ڈریس یہاں رکھا تھا استری کروا کر اور ساتھ میں جیولری وغیرہ بھی تاکہ بعد میں کوئی چیز ڈھونڈنی نہ پڑے اور اب کوئی بھی چیز نہیں مل رہی۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ یہ آپ کے بھتیجوں کا کام ہے۔۔اب کوئی مانے چاہے نہ مانے وہ تینوں ہی مجھے اتنا تنگ کرتے ہیں نہیں تو آج تک ایسا کبھی ہوا بھلا۔۔۔اچھا چلو چپ کرو آؤ بازار چلیں ازمیر نے عرشیہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے آیا۔۔۔زارا ماما ہم بازار جا رہے ہیں ابھی آجائیں گے۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا ٹائم سے آ جانا۔۔جی ماما۔۔۔ازمیر ایسے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی تک لایا اسے بٹھا کر خود بھی بیٹھ گیا اور بازار بلے گئے۔۔۔ازمیر نے خود ہی عرشیہ کے لیے ایک ڈریس چوز کیا گرے بلیو اور گرین کے کنٹراسٹ میں اور پھر عرشیہ نے اس کے ساتھ سینڈل جیولری سب کچھ میچ کی چلو آؤ اب جلدی سے سیلون چلیں۔۔وہیں چینج کرکے تیار بھی ہو جانا۔۔اوکے عرشیہ مسکراتے ہوۓ بولی۔۔ازمیر اب جلدی سے گاڑی پارلر کی طرف لے کر جا رہا تھا۔۔چلو جاؤ میں ادھر ہی کھڑا ہوں تم جا کر جلدی سے تیار ہو کر آؤ۔۔۔عرشیہ جلدی سے اندر کی طرف بڑھی اور وہاں بیوٹیشن سے پوچھ کر بینکنگ روم میں گئی چینج کرکے باہر آئی۔۔۔آپ وہاں بیٹھیں۔۔۔ںس پانچ منٹ ویٹ کریں پھر آپ کو تیار کرتی ہوں۔۔۔عرشیہ ہاں میں گردن ہلاتی وہاں ایک چئیر پہ ٹک گئی۔۔۔پانچ منٹ بعد بیوٹیشن نے اسے بلایا اور اسے تیار کرنے لگی پھر اسے جیولری پہنا کر آخری ٹچ اپ دیا۔۔۔یہ لیں میم آپ تیار ہیں عرشیہ نے خود کو آئینے میں دیکھا تو پر جوش ہوتے ہوۓ ارے یہ میں ہوں کتنی پیاری لگ رہی ہوں میں واؤ۔۔۔وہاں موجود سب لڑکیاں ہنسنے لگیں۔۔۔پ ہیں ہی پیاری ماشاءاللّٰہ اور اس پہ کمال آپ کے میک اوور نے کر دیا تو وہ ہنسنے لگی۔۔عرشیہ اسے پیمنٹ کرتی باہر آگئی۔۔۔ازمیر نے اسے آتے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔ازی میں آگئی۔۔واؤ ازمیر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔کیا ہوا ازی پیاری لگ رہی ہوں نا میں۔۔۔نہیں۔۔کیااااا۔۔بہت پیاری لگ رہی ہو بالکل آسمان اسے اتری ہوئی کوئی پری لگ رہی ہو۔۔۔ہے نا میں نے بھی بیوٹیشن کو یہی کہا اور کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور اسے دیکھ کر ازمیر کھل اٹھا۔۔۔بس اپنی یہ ہنسی نہ کھونے دینا کبھی ایسے ہی کھلکھلاتی رہا کرو۔۔باقی سب میں سنبھال لوں گا گوٹ اٹ تو عرشیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔چلو چلیں ورنہ لیٹ ہو جائیں گے۔۔ہاں جی جلدی جلدی چلیں جا کر عریشہ لوگوں کو بھی تو جلانا ہے نا تو ازمیر نفی میں سر ہلاتا ہنسنے لگا۔۔۔ازی یہ ڈریس تو میرے پہلے ڈریس سے بھی پیارا ہے مجھے بہت پسند آیا وہ اپنے گاؤن کو ایک دفعہ پھر دیکھتے ہوۓ بولی۔۔اچھا چلو آئندہ سے تمہارے لیے ہر ڈریس میں ہی چوز کروں گا۔۔۔نہیں کبھی کبھی بس عرشیہ نے فوراً کہا۔۔۔چلو اکٹھے ایک دوسرے کے مشورے سے لیا کریں گے۔۔۔ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔۔یونہی باتوں باتوں میں وہ لوگ گھر پہنچ گئے جہاں دلہنیں پہلے سے آگئی تھیں۔۔۔وہ دونوں اندر کی طرف بڑھے تو زارا ان کے ہی انتظار میں بیٹھی تھی۔۔۔ہیلو ماما میں کیسی لگ رہی ہوں؟ عرشیہ نے چہکتے ہوۓ کہا تو وہاں موجود سب لوگ ہی متوجہ ہوۓ اب کے زارا کے منہ سے بے ساختہ ماشاءاللّٰہ نکلا۔۔۔بہت پیاری لگ رہی ہو اللّٰہ تعالیٰ بری نظر سے بچاۓ میری بیٹی کو۔۔۔ازمیر پیچھے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔۔۔زارا کی نظر اس کے پیچھے کھڑے ازمیر پہ گئی۔۔۔زارا مسکراتے ہوئے اس کی طرف آئ۔۔تھینک یو بیٹا اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوۓ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے ہوۓ بولی تو ازمیر سر کو خم دیتے ہوۓ اٹس مائ پلیژر ماما۔۔۔چلو اب جلدی سے تم بھی تیار ہو جاؤ پھر فنکشنز شروع ہو جائیں گے۔۔اوکے اور وہ اپنے روم کی طرف بڑھا۔۔۔سب لوگ اب باہر موجود تھے دلہے سٹیج پہ بیٹھے ہوۓ تھے اور اب دلہنوں کو لایا جا رہا تھا۔۔۔صنم اور عائزہ برائیڈل بنی بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔۔انہیں سٹیج کی طرف لے جایا گیا تو شہیر اور فیروز دونوں اٹھ کر آۓ اور ان کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ بٹھایا۔۔۔اتنی دیر میں ازمیر بھی تیار ہو کر آگیا۔۔۔بلیو شرٹ اور گرے کلر کی پینٹ کوٹ سلیقے سے بناۓ گۓ بال اور گرے کلر ہی آنکھیں وہ وہاں پہ موجود سب لڑکیوں کا دل دھڑکا چکا تھا۔۔۔ہر لڑکی اسے دیکھ آہیں بھر رہی تھی۔۔۔ارے آؤ نہ یار کہاں رہ گئے تھے شہروز اسے دیکھ بول رہا تھا۔۔۔تیار ہو رہا تھا۔۔۔ہمم چلو آؤ سٹیج پہ ان کے پاس وہ سب لڑکے ان کے کاؤچ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔۔۔سب بڑے رسم کرنے لگے۔۔اس کے بعد لڑکیوں کی باری تھی عرشیہ نے شہیر کو جبکہ عریشہ نے فیروز کو دودھ پلانے کی رسم کی۔۔۔چلیں فیروز بھائی اب اپنی جیب ہلکی کریں۔۔۔کتنے پیسے چاہیئے میری گڑیا کو؟ فیروز نے پوچھا۔۔۔زیادہ کچھ نہیں بس ایک بلینک چیک دے دیں اپنا سگنیچر کیا ہوا۔۔کیااااا؟ یہ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا فیروز نے کہا۔۔۔نہیں بالکل بھی نہیں۔۔۔اے فقیرنی شرم کر کچھ تو خیال کر بے چارے کا۔۔۔شہروز نے کہا چلیں ان کا میں خیال کر لیتی ہوں آپ دے دیں۔۔۔بھائ مجھ سے بھی کوئی پوچھ لے کہ مجھے کیا چاہئیے عرشیہ نے دہائی دی۔۔۔تم تو ایک کینڈی کے ڈبے سے ہی مان جاؤ گی تمہاری خیر ہے پہلے اس فقیرنی سے نمٹ لیں شیراز نے کہا تو عرشیہ نے بھنویں سکیڑیں۔۔۔ایکسکیوزمی شیراز بھائی مجھے اتنا ہلکے میں نہ لیں مجھے ورلڈ ٹور کا ٹکٹ چاہئیے۔۔۔وہاٹ یار تم دونوں بہنوں نے تو دلہوں کو کنگلا کرنے کی ٹھان لی ہے۔۔۔ہاں تو بہنیں بھی تو اتنی پیاری پیاری دے رہی ہیں عرشیہ نے اترا کر کہا۔۔۔یار سمجھاؤ اپنی اپنی بیویوں کو کہ سو سو روپے لیں اور سائیڈ پہ ہو جائیں۔۔۔شہروز نے شایان اور ازمیر سے کہا۔۔۔شہروز بھائی ہمارا معیار آپ کے جتنا نہیں ہے۔۔۔یہ سو سو روپے آپ رکھیں اپنی جیب میں سمجھے عرشیہ نے کہا تو سب مسکرانے لگے۔۔۔بھئ میری بیوی کی ڈیمانڈ کو پورا کیا جاۓ اب اسے ورلڈ ٹور کا ٹکٹ چاہئیے تو دلہے کا فرض بنتا ہے اس کی ڈیمانڈ کو پورا کرنا۔۔۔واہ واہ ابھی تو صرف نکاح ہوا ہے تابعداری کا یہ حال ہے سوچو جب شادی ہوگی تو کیا حال ہوگا؟ شہیر نے بگڑتے ہوئے کہا۔۔۔جو بھی سمجھو آئی ڈونٹ کئیر۔۔۔تم بھی کہہ دو جو کہنا ہے تم بھی کہیں رہ نہ جاؤ فیروز نے شایان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔میں اپنی بیوی سے ایگری ہوں آخر کو بلینک چیک کا فائدہ مجھے بھی تو ہوگا نا۔۔۔توبہ توبہ کتنے لالچی ہیں دونوں میاں بیوی فیروز نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔۔۔ہاں ہم ہیں لالچی ایکسیپٹڈ اب نکالیں چیک۔۔۔اتنی دیر میں سائرہ اور عائزہ آگے آئیں بس بچوں اب بس کرو دلہنیں تھک گئی ہوں گی یہ لو شہیر اور فیروز یہ دو بہنوں کو دونوں کے ہاتھ میں ڈائمنڈ سیٹ پکڑایا جو انہوں نے عرشیہ اور عریشہ کو دے دیا اور انہوں نے تھینکس کہتے ہوۓ پکڑ لیا۔۔۔ازی آجائیں یہ بیچ کر ہم ورلڈ ٹور پہ چلے جائیں گے عرشیہ کی بات سن کر سب ہنسنے لگے۔۔۔نہیں میری ڈول یہ تم سنبھال کر رکھ لو تمہارے ہبی کے پاس بہت پیسے ہیں تمہیں ایک دفعہ کیا دس دفعہ بھی ورلڈ ٹور پہ لے جاۓ تو بھی کوئ کمی نہیں ہوگی۔۔سب اس کی بات سن کر ہوٹنگ کرنے لگے۔۔۔میری بیٹی کو حد سے زیادہ بگاڑنے میں ازمیر کا ہاتھ ہے زارا نے تپ کر کہا تو سائرہ اور عائزہ مسکرانے لگیں۔۔۔چلو اب صنم اور عائزہ کو ان کے روم میں چھوڑ کر آؤ جلدی سے تھک گئی ہوں گی۔۔عائشہ صنم کو اور زارا عائزہ کو لے کر ان کے روم میں لے گئی۔۔۔باہر سب گپیں لگانے کے لیے بیٹھ گئے۔۔شہروز اور شیراز بھائی۔۔۔بولو پرنسس۔۔۔آپ لوگ امریکہ کب جا رہے ہیں عرشیہ کے پوچھنے پر جہاں سب لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے وہیں زارا نے اس کو گھور کر دیکھا۔۔۔ہم تو اب کبھی نہیں جائیں گے ادھر ہی رہیں گے مستقل۔۔۔کیاااااا نہیں بھائی آپ ایسا نہیں کر سکتے آپ واپس چلے جائیں۔۔۔پرنسس آپ کو ہارے یہاں رہنے سے کیا پرابلم ہے؟ شیراز نے پوچھا۔۔۔پرابلم آپ سے نہیں آپ کے بچوں سے ہے آپ کو پتا ہے آج انہوں نے میرا ڈریس جوتے جیولری سب کچھ کہیں چھپا دیا جو مجھے ابھی تک نہیں ملا یہ سب تو میں ایمرجنسی میں لے کر آئ ہوں۔۔۔کیا واقعی؟ شہروز نے پوچھا۔۔۔جی بھائی اور یہ لوگ ویسے بھی مجھ سے بہت بدتمیزی کرتے ہیں میں آپ لوگوں کا لحاظ کرتے ہوۓ انہیں کچھ نہیں کہتی ورنہ دل کرتا ہے ان کی جوتوں سے پٹائی کروں۔۔۔شہسوار اولیاء عزہ ادھر آؤ۔۔۔یس ڈیڈ وہ تینوں منہ نیچے کرکے کھڑے ہوگئے۔۔۔عرشیہ پھوپھو کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ جھوٹ بول رہی ہیں ڈیڈ ہمیں یہاں سے نکلوانے کے لیے شہسوار نے الٹا عرشیہ کو الزام دیا تو وہ آنکھیں پھیلاۓ دیکھنے لگی۔۔۔نہین بھائی میں جھوٹ نہیں بول رہی۔۔۔عزہ تم ادھر آؤ۔۔یس ڈیڈ۔۔دیکھو اچھے بچے کبھی جھوٹ نہیں بولتے ورنہ اللّٰہ تعالیٰ زبان کاٹ دیتے ہیں۔۔۔بتاؤ عرشیہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔وہ ڈیڈ شہسوار بھائی نے کہا تھا کہ ان کی چیزیں چھپا دیں تو یہ کمرے سے باہر ہی نہیں آ سکیں گی۔۔۔شیراز نے شہسوار کو غصّے سے دیکھا تو وہ ڈر گیا۔۔۔آئندہ نہ تو مجھ سے بات کرنا اور نہیں مجھے ڈیڈ کہنا اور ہاں تم تینوں کو بورڈنگ سکول میں بھیج دینا ہے ہم نے وہیں امریکہ رہنا وہاں اکیلے شیراز نے غصّے سے کہا تو وہ تینوں ڈر گئے اور رونے لگے سوری ڈیڈ آئندہ ہم کبھی کسی کو تنگ نہیں کریں گے پلیز۔۔۔سوری ہم سے نہیں عرشیہ سے کرو۔۔۔وی آر سوری پھوپھو آئندہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔۔۔ہمم اٹس اوکے لیکن اگر آئندہ ایسا کچھ بھی کیا تو میں آپ لوگوں کے ڈیڈ سے کہہ کر امریکہ بھجوا دوں گی۔۔۔جی۔۔ہاں ٹھیک ہے اب جاؤ۔۔۔یہ لو بھئی چاۓ عائشہ نے سب کو چاۓ دی تو سب چاۓ پینے لگے۔۔عرشیہ چاۓ پی کر اٹھ گئی۔۔۔میں تو سونے جا رہی ہوں مجھے بہت نیند آ رہی ہے۔۔گڈ نائٹ۔۔۔اور پھر اس کے بعد سب ہی چاۓ پی کر اپنے اپنے روم میں سونے کے لیے چلے گئے۔۔۔
💫💫💫
صنم بیڈ پہ بیٹھی کو گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔شہیر جیسے ہی دروازہ کھول کر روم میں آیا تو صنم کو اے سی روم میں بھی پسینہ آنے لگا۔۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں بھینچ لیے۔۔۔شہیر دروازہ لاک کرتا آپ ے مضبوط قدم صنم کی طرف بڑھانے لگا اور بیڈ پہ اس کے سامنے بیٹھ کر اس کی طرف دیکھنے لگا جب کافی ٹائم گزر گیا تو صنم نے پلکیں اٹھا کر دیکھا۔۔ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔سوچ رہا ہوں کہ اس طرح تیار ہوئی کتنی پیاری لگ رہی ہو جب منہ دھو لو گی تو پھر سے چڑیل لگنے لگو گی۔۔۔کیاااااا چڑیل میں چڑیل تو آپ کون سا کسی جن سے کم ہو بلکہ آپ زومبی ہو صنم کے ری ایکشن پہ شہیر نے جاندار قہقہہ لگایا اور اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔میں تو صرف مذاق کر رہا تھا یار۔۔ہمم اور میں بھی آپ کے مذاق کا جواب دے رہی تھی۔۔۔اچھا تو تم میرے ہر کام کا جواب دو گی اس نے معنی خیزی سے کہا تو صنم کی پلکیں ایک دفعہ پھر جھک گئیں جسے دیکھ شہیر کے چہرے پہ گہری مسکان نے احاطہ کیا۔۔۔یہ لو شہیر اٹھا اور الماری سے ایک باکس لایا اور اسے کھول کر صنم کے آگے کیا یہ لو تمہاری منہ دکھائی۔۔اس باکس میں بہت خوبصورت گولڈ کے کنگن تھے۔۔۔واؤ کتنے پیارے ہیں یہ تو وہ پہننے لگی تو شہیر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور خود پہنانے لگا۔۔۔خوبصورت تو ہیں بالکل تمہاری طرح اور اس کے ماتھے پہ لب رکھے۔۔۔تو صنم آنکھیں بند کرکے مسکرانے لگی۔۔۔چلو اب جلدی سے چینج کرلو میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔صنم اٹھ کر چینج کرنے چلی گئی۔۔۔
💫💫💫
فیروز روم میں آیا تو عائزہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ سو رہی تھی۔۔۔یہ لو میڈم سو رہی ہیں۔۔واہ فیروز کیا قسمت ہے تیری۔۔بیوی گھونگھٹ میں بیٹھ کر انتظار کرنے کی بجاۓ کراؤن سے ٹیک لگاۓ سو رہی ہے۔۔۔وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوۓ بیڈ کی طرف بڑھا اور عائزہ کی بند آنکھوں کو باری باری چوما۔۔وہ اپنی آنکھوں پہ نرم لمس محسوس کرتے جھٹ سے آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔آ آپ۔۔جی جناب میں۔۔۔سوری مجھے پتا نہیں چلا اور میری آنکھ لگ گئی۔۔۔ہمم اٹس اوکے۔۔۔عائزہ کی نیند کے خمار بھری آنکھیں فیروز کو اپنی اٹریکٹ کر رہی تھیں۔۔۔میرے خیال سے میری وائفی کی نیند پوری ہو گئی ہوگی ہے نا؟ اب تو نہیں کہو گی نا مجھے نیند آ رہی ہے میں نے سونا ہے مجھے سونے دیں۔۔۔عائزہ اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوۓ بلش کرتی ہے اور شرم سے گردن جھکا لیتی ہے۔۔۔اور فیروز کہتا مسکراتا ہے ارے تمہاری منہ دکھائی تو دی نہیں ٹھہرو ابھی دیتا ہوں اور وہ اپنی پاکٹ سے ایک ڈبیہ نکال کر کھول کر اس کے سامنے کرتا ہے جس میں ایک خوبصورت رنگ ہوتی ہے جس پہ اے ایف لکھا ہوتا ہے۔۔۔کیسی لگی؟ بہت پیاری۔۔پھر فیروز اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پہنا کر اس کے ہاتھ کی پشت چوم لیتا ہے عائزہ سٹپٹا جاتی ہے۔۔چلو اب جلدی سے یہ سب اتار کر چینج کرکے آؤ۔۔وہ اسے اٹھا کر ڈریسنگ روم تک چھوڑ کر آتا ہے اور خود بیڈ پہ ڈھے جاتا ہے۔۔۔
💫💫💫
اگلی صبح عائزہ کی آنکھ کھلی تو وہ فیروز کے حصار میں تھی اس نے مسکراتے ہوئے فیروز کو دیکھا اور اس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی لیکن سوتے ہوئے بھی فیروز کا حصار اس کے گرد مضبوط تھا ۔۔فیروز اٹھیں اور چھوڑیں مجھے۔۔۔کیا ہوگیا ہے بیوی سوئی رہو ابھی اٹھ کر کیا کرنا ہے۔۔۔نیچے سب انتظار کر رہے ہوں گے دس بج گئے ہیں۔۔۔کیا دس بج گئے وہ جلدی سے اٹھنے لگا لیکن جیسے ہی اپنی بانہوں میں سمائی عائزہ پر پڑی تو اس کے لبوں کو اپنی گرفت میں لے کر قطرہ قطرہ جام اپنے اندر اتارنے لگا اور خود کو اچھے سے سیراب کرنے کے بعد اسے چھوڑا جیسے ہی فیروز نے اپنا حصار ڈھیلا کیا تو عائزہ فوراً اٹھی اور فریش ہونے چلی گئی پیچھے سے فیروز کا جاندار قہقہہ گونجا۔۔۔جب وہ فریش ہو کر آئ تو کھلی کھلی بہت پیاری لگ رہی تھی اس نے اپنے بال ڈرائیر سے ڈرائ کیے اور ہلکا ہلکا میک اپ کر کے تیار ہوگئ۔۔۔آپ ابھی بھی بیٹھے ہوۓ ہیں چلیں اٹھیں اور فریش ہو کر تیار ہو جائیں پھر نیچے چلتے ہیں۔۔۔تو وہ بھی اٹھ کر فریش ہوگیا اور دونوں نیچے چلے گئے۔۔۔اسلام و علیکم عائزہ نے سب کو سلام کیا تو سائرہ نے جواب دیتے ہوئے اپنے پاس بٹھایا جیتی رہو میری بیٹی اسے پیار کرتے ہوئے کہا
💫💫💫
صنم اٹھو یار کتنا سوتی ہو شہیر صنم کو اٹھاتے ہوۓ کہتا ہے تو وہ کسمسا کر کروٹ بدلتی ہے۔۔۔شہیر اس کے کان۔میں پھونک مارتا ہے لیکن وہ نہیں اٹھتی۔۔۔شہیر اسے سیدھا کرکے اس کے ہونٹوں پہ جھک جاتا ہے اور صنم کی سانسوں پہ حاوی ہوتا ہے۔۔۔سانس کم ہونے کی وجہ سے صنم کی آنکھیں پوری طرح پھیل جاتی ہیں اور وہ شہیر کو پیچھے کرنے کے لیے مزاحمت کرتی ہے۔۔۔شہیر کو جب لگتا ہے کہ اس کی سانسیں کم ہو رہی ہیں تو وہ پیچھے ہوتا اس کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہے جبکہ صنم اپنی سانسیں بحال کر رہی ہوتی ہے کتنے برے ہیں آپ۔۔۔تمہیں کب سے اٹھا رہا ہوں لیکن تم اٹھ ہی نہیں رہی تو مجھے یہی طریقہ سب سے بیسٹ لگا۔۔۔چلو اب اٹھو جلدی سے فریش ہو کر تیار ہو جاؤ پھر نیچے چلیں۔۔۔کچھ ہی دیر میں دونوں تیار ہو کر نیچے آتے ہیں اور سلام کرتے سب کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔۔

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial