The Creature’s Love

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 34

ولیمہ شام کو ہونے کے باعث سب ہی تسلی سے کام نمٹا رہے تھے۔۔۔عرشیہ نہیں اٹھی ابھی زارا نے ادھر ادھر دیکھا جہاں گھر کے تمام افراد تھے سواۓ عرشیہ کے۔۔۔زارا اسے مت اٹھانا جب اس کی نیند پوری ہوگی وہ خود ہی اٹھ جاۓ گی عادل نے کہا۔۔۔لیکن۔۔۔لیکن ویکن۔کچھ نہیں اسے آرام کرنے دو زیادہ روک ٹوک نہ کیا کرو اس پر۔۔۔عادل نے سنجیدہ ہو کر کہا تو زارا چپ کر گئی اور کچن۔میں چلی گئی۔۔۔سب نے ناشتہ وغیرہ کرکے اپنے اپنے کاموں میں بزی ہوگئے اور پھر ولیمے کی تیاریاں کرنے لگے صنم لوگ بھی تیار ہونے پارلر چلی گئی تھیں۔۔عرشیہ آج گھر پہنچی تیار ہو رہی تھی۔۔۔سب لوگ تیار تھے دلہنیں تیار ہوکر آچکی تھی اور دونوں ہی سلور میکسی میں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔۔۔ماما میں تیار ہو گئ ہوں دیکھیں تو کیسی لگ رہی ہوں؟۔عرشیہ پوچھتی ہے اس نے پلازو کے ساتھ ٹاپ پہنا ہوتا ہے جو اس پہ بہت جچ رہا ہوتا ہے۔۔۔ہمیشہ کی طرح بہت پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی۔۔عرشیہ کھلکھلانے لگی۔۔۔چلیں ماما میں بھی باہر چلتی ہوں سب لوگ باہر ہی ہیں۔۔ٹھیک۔ہے جاؤ۔۔۔سب رسمیں پوری کرکے مہمانوں کو کھانا کھلایا۔گیا اور یوں۔ہنسی خوشی شادی اپنے اختتام پہ پہنچی۔۔۔
💫💫💫
عرشیہ اب تک سکول دوبارہ سے جوائن کر لو کل سے سکول جاؤ گی تم عادل کہنے لگا۔۔۔مطلب میری آزادی کے دن ختم۔۔۔ہاں بالکل ختم اب تمہیں ایک بھی چھٹی کرتے نہ دیکھوں پیپرز ہونے والے ہیں اور تم ہو کہ سکول جانے کا نام بھی نہیں لے رہی۔۔۔اوہو پاپا کیا ہو گیا آپ کو لگتا ہے ماما نے بہت پٹیاں پڑھائی ہیں آپ کو میرے خلاف۔۔ارے اس میں مجھے کیوں گھسیٹ رہی ہو میں نے کچھ نہیں کہا تمہارے پاپا کو۔۔۔تو وہ آپ کی زبان کیوں بول رہے ہیں؟ عرشیہ تمیز سے بات کرو۔۔۔عادل۔نے ٹوکا۔۔۔سوری پاپا۔۔ہمم چلو اب جاؤ اپنی چیزیں پوری کرو اور صبح کی تیاری کرو جاؤ زارا ساتھ اس کی ہیلپ کرواؤ۔۔۔اور وہ دونوں اٹھ کر عرشیہ کے روم میں آگئیں۔۔۔ماما پاپا نے آج کیا کھایا؟ ولیمہ زارا نے جواب دیا۔۔۔لگتا ہے کچھ زیادہ ہی کھا لیا۔۔۔عرشیہ نے کہا تو زارا بے ساختہ ہنسی پڑی۔۔۔ہاں آپ کو تو ہنسی آۓ گی آپ کی سوتیلی بیٹی کو اس کے آگے باپ سے ڈانٹ جو پڑی ہے۔۔۔ہاہاہا پاگل زارا نے اس کے ہلکا سا تھپڑ لگا کر کہا تو وہ بھی ہنسنے لگی۔۔۔زارا نے اس کی ساری چیزیں سمیٹ کر رکھی اور پھر یونیفارم اٹھا کر لے گئی۔۔یہ میں استری کرکے بھجواتی ہوں۔۔۔ٹھیک ہے ماما
💫💫💫
اگلے دن عرشیہ سکول چلی جاتی ہے۔۔۔باقی سب بھی اپنے کام کے لیے نکل جاتے ہیں۔۔۔رات کو سب اکٹھے بیٹھے ہوتے ہیں تو مصطفیٰ صاحب فیروز اور شہیر کو ایک ایک envelope پکڑاتے ہیں۔۔یہ کیا ہے دادا جانی۔۔۔میری طرف سے تم چاروں کے لیے شادی کا گفٹ۔۔۔شادی۔کا گفٹ سب ایک دوسرے کی منہ کی طرف دیکھتے ہیں اور شہیر لوگ وہ لفافہ کھولتے ہیں تو دونوں کے لفافوں میں دو دو سوئیزر لینڈ کی ٹکٹس نکلتی ہیں۔۔ارے واؤ دادا جانی یو آر گریٹ دونوں یک زبان ہو کر بولتے ہیں اور ان کے گلے لگ جاتے ہیں۔۔۔ہمم جاؤ اور خوب انجوائے کرو اور اچھی اچھی یادیں اکٹھی کرنا۔۔جی دادا جانی۔۔۔اور سب مسکرانے لگے
💫💫💫
زندگی یونہی اپنی ڈگر پہ چلتی رہی فیروز لوگ ہنی مون پہ چلی گئی اور عرشیہ کے پیپرز سٹارٹ ہوگۓ تھے۔۔۔سب مصروف ہوگئے تھے اپنی اپنی زندگیوں میں۔۔عرشیہ پیپرز کیسے ہو رہے ہیں تمہارے ازمیر نے پوچھا۔۔۔بہت اچھے۔۔کب ختم ہوں گے؟ پرسوں لاسٹ پیپر ہے۔۔ہمم ٹھیک ہے۔۔کیوں آپ نے مجھے کہیں لے کر جانا ہے کیا۔۔۔نہیں ویسے ہی پوچھا ہے۔۔۔اگر لے کر نہیں جانا تو پوچھا کیوں؟ ارے لازمی ہے کہ کہیں جانا ہو پھر ہی پیپرز ختم ہونے کا پوچھنا ہے۔۔۔ہاں بالکل۔۔چلو پھر اپنے لندن والے گھر چلیں گے۔۔۔نہ نہیں مجھے نہیں جانا کہیں بھی۔۔۔ازمیر کے چہرے پہ مسکراہٹ ابھری جسے وہ جلدی سے چھپا گیا۔۔ازمیر نے یہ بات جان بوجھ کر کی تھی۔۔اسے پتا تھا اگر وہ ایسا کہے گا تو عرشیہ گھبرا کر انکار کر دے گی اور چپ ہو جاۓ گی۔۔۔کیوں ابھی تو تم کہیں جانے کو تیار تھی اور ابھی کہیں نہیں جانا یہ کیا بات ہوئی۔۔۔میری مرضی۔۔ہمم یہ بھی ہے۔۔چلو جاؤ پیپر کی تیاری کرو۔۔تیاری ہے اور ویسے بھی کل چھٹی ہے۔۔۔چھٹی ہے تو کیا ہوا کچھ آج یاد کر لو کچھ کل کر لینا اس طرح آسانی رہے گی۔۔۔نہیں میں مشکل میں ہی ٹھیک ہوں آپ جائیں اپنے آفس کا کام کریں اور میری جان چھوڑ دیں۔۔۔عرشیہ ازمیر نے تنبیہی انداز میں ٹوکا تو عرشیہ چپ کر جاتی ہے اور اٹھ کر چلی جاتی ہے۔۔یہ کبھی نہیں سدھرنے والی ازمیر نے بڑبڑاتے ہوۓ کہا اور وہ بھی اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا۔۔۔
💫💫💫
ماما میرے پیپرز ختم ہو گۓ یاہوووووو اب میں آزاد ہوں۔۔۔کس نے کہا آزاد ہو بس دو دن کی آزادی ہے میں نے تمہارے لیے انسٹیٹیوٹ دیکھا ہے جس میں تمہاری کمپیوٹر کلاسز ہوں گی ازمیر نے نیچے آتے ہوۓ عرشیہ کی ساری خوشی پہ پانی پھیر دیا۔۔۔کیااااا آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ وہ بھی مجھ سے پوچھے بنا۔۔مجھے نہیں لگتا کہ مجھے تم سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔۔لیکن میری زندگی ہے۔۔جو کہ میرے نام ہو چکی ہے۔۔۔یہ آپ اچھا نہیں کر رہے۔۔۔مجھے پتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔میں نہیں جاؤں گی بس۔۔جانا تو پڑے گا چاہے تم چاہو یا نہ چاہو۔۔۔یہ اچھی زبردستی ہے۔۔۔ایسے ہی بس مجھے کوئی بھی خوش نہیں دیکھ سکتا ہمیشہ ہر کوئی میری خوشیوں کو خراب کرنے میں رہتا ہے عرشیہ مسلسل بڑبڑاتے ہوۓ اپنے روم کی طرف جا رہی تھی۔۔۔سب نے مل کر دیسائیڈ کیا تھا کہ عرشیہ پہ اب تھوڑی سختی کی جاۓ بہت منمانیاں کرنے لگ گئی ہے اور اسی کے تحت سب لوگ اسے اس طرح ٹریٹ کر رہے تھے۔۔۔وہ کمرے میں آئی اور فریش ہو کر لیٹ گئی۔۔سو جاتی ہوں یہی دو دن ہے میرے پاس پھر تو وہ جلاد مجھے انسٹیٹیوٹ چھوڑ آۓ گا وہ لیٹتے ہوئے کہتی ہے اور کچھ ہی دیر میں سو جاتی ہے
💫💫💫
ماما عرشیہ کہاں ہے؟ وہ تو انسیٹیوٹ گئی ہوئی ہے۔۔۔ہمم گڈ شایان تم اس کے انسیٹیوٹ چھٹی سے پندرہ منٹ پہلے پہنچ جانا اور اسے شام۔تک۔گھر نہ لے آنا۔۔۔ٹھیک ہے شایان ازمیر کی بات مانتے ہوئے ٹائم دیکھتا ہے ابھی تو ایک گھنٹہ باقی ہے تب تک میں بھی تمہاری ہیلپ کر دیتا ہوں بیلونز لگانے میں۔۔۔ٹھیک ہے یہ لو اور وہ لوگ مل کر ہال ڈیکوریٹ کرتے ہیں۔۔شایان بھائ چلو اب پ نکلو اسے لینے کے لیے اور یاد رہے جب تک میں نہ کہوں آپ اسے لے نہیں آئیں گے۔۔اوکے بابا فکر ناٹ۔۔۔اور پھر شایان اسے ہر روڈ ہر پارک اور ہر مال میں گھماتا ہے اور عرشیہ حیران ہوتی ہے کہ آج شایان کو کیا کیا ہوگیا ہے۔۔شایان بھائی آپ ٹھیک ہو نا کہیں آپ کے سر پہ چوٹ تو نہیں لگی ہاں ہاں میں ٹھیک ہوں کیوں نہیں آپ آج مجھے ایسے میرے بنا کہے مجھے اتنا گھوما رہے ہیں ضرور آپ کا دماغ پہ چوٹ آئی ہے۔۔۔شایان بھائی میں عرشیہ ہوں عریشہ نہیں ذرا اپنی آنکھیں کھولیں عرشیہ نے اس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا تو شایان کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے۔۔لڑکی ایک تو میں تمہیں گھوما رہا ہوں تاکہ تم فریش ہو سکو اور اوپر سے تم مجھے ہی سناۓ جارہی ہو میں تمہیں۔۔۔ابھی وہ کچھ اور کہتا کہ ازمیر کی کال آ گئی۔۔۔چلو اب گھر چلتے ہیں تمہیں کسی کے پیار کی قدر ہی نہیں ہے شایان نے مصنوعی ناراضگی سے کہا ۔۔قدر تو تب ہوگی نا شان بھائی جب ایسا پیار کبھی کبھار کسی کے کہنے کی بجاۓ اکثر ہی مجھ پہ آتا ہو۔۔توبہ ہے اس لڑکی سے صحیح ازمیر کے حصّے میں آئی ہے یہ شایان نے دل میں کہا اور گھر کی طرف چل پڑے۔۔۔جیسے ہی وہ لوگ گھر پہنچے تو گھر میں مکمل خاموشی تھی اور لائٹس بھی آف تھیں ارے یہ سب کہاں چلے گئے؟ شان بھائی دیکھیں نا کتنا اندھیرا ہے میں اندر نہیں جاؤں گی آپ پہلے آگے جا کر لائٹ آن کریں اس نے ڈرتے ہوۓ کہا شایان اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا کہ یکدم ساری لائٹس آن ہو گئی اور ہال سے ایک شور سا اٹھا۔۔۔ہیپی برتھڈے ٹو یو ہیپی برتھڈے ڈئیر عرشیہ۔۔۔ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔۔تالیوں کی گونج کے ساتھ سب نے اسے وش کیا تو وہ بہت خوش ہوئی اس کے چہرے پہ نا ختم ہونے والی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔تھینک یو ایوری ون تھینک یو سو مچ اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔۔۔چلو آؤ اب جلدی سے کیک کاٹو مجھ سے رہا نہیں جا رہا عریشہ نے اس کا بازو پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوۓ کیک کے پاس کیا اور اس کے ہاتھ میں چھری پکڑائی اور سب کی تالیوں کے بیچ اس نے کیک کاٹا سب سے پہلے اس نے دادا جانی کو کھلایا انہوں نے اس کے سر پہ پیار کرتے ہوے ڈھیروں دعائیں دی۔۔۔دادا جانی صرف دعاؤں سے کام نہیں چلے گا مجھے گفٹ بھی چاہئیے۔۔۔اچھا اچھا بابا جو چاہو گی ملے گا۔۔اس کے بعد عادل اور زارا کو کیک کھلایا اور پھر خود کھا گئی۔۔۔ارے جس نے تمہیں اتنا جھیلا اس کو نہیں کھلانا تھا کیا۔۔۔شان بھائی آپ نے مجھے باتیں بھی تو اتنی سنائی۔۔۔کیاااا میں نے کب باتیں سنائیں۔۔باتیں تو تم مجھے سنا رہی تھی وہ صدمے سے بولا۔۔۔اچھا اچھا زیادہ روئیں نہیں یہ لیں کیک اس نے ایک ٹکڑا کاٹ کر اس کے منہ میں ڈالا۔۔۔عرشیہ جی بڑے پاپا بیٹا سب سے زیادہ حق تو ازمیر کا ہے جس نے یہ سب سجایا اور تمہارے لیے سرپرائز ارینج کیا۔۔۔وہ ہی تو میں کب سے سوچ رہی ہوں کہ ان سب کے پاس اتنا دماغ کہاں سے آگیا جو سترہ سال میں ایک دفعہ بھی ایسا سرپرائز نہ ارینج کر سکے انہوں نے اب کیسے کر لیا عرشیہ نے حیران ہونے کی بھر پور ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ازمیر اس کی باتوں پہ مسلسل مسکرا رہا تھا اور باقی سب اسے گھورنے لگے۔۔۔عرشیہ نے ایک بڑا سا ٹکڑا کیک کا لیا اور ازمیر کے پاس جاکر منہ کھولیں جیسے ہی ازمیر نے کھانے کے لیے منہ کھولا عرشیہ نے وہ سارا کیک اس کے منہ میں گھسا دیا جس سے ازمیر کا منہ بھر گیا اور اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔ہاہاہا بڑے سرپرائز کے لیے بڑا انعام۔۔۔سب ہنسنے لگے پھر سب نے اسے گفٹس دیے۔۔۔مصطفیٰ صاحب نے گلا کھنکار کر سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔عرشیہ اب سترہ سال کی ہوگئی ہے۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ اگلے سال جب یہ اٹھارہ کی ہو جاۓ تو اس کی اور عریشہ کی اکٹھی رخصتی ہو جانی چاہئیے۔۔۔کیا لیکن دادا جانی اتنی بھی کیا جلدی ہے میں کون سا بھاگنے لگی ہوں۔۔عرشیہ ہمیشہ غلط بات ہی نہ بولا کرو اور تمہیں ہماری ہر بات پہ اعتراض ہی ہوتا ہے کبھی تو خوشی سے ہماری کوئی بات مان لیا کرو عادل نے غصے سے کہا تو عرشیہ چپ کر گئی۔۔۔سوری پاپا۔۔جاؤ اب اپنے روم میں۔۔ٹھیک ہے بابا سائیں جیسے آپ کو مناسب لگے۔۔۔عادل نے مصطفیٰ صاحب کو کہا۔۔۔ازمیر تو دادا جانی کے فیصلے پہ ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔۔۔ادھر عریشہ کے منہ سے مسکراہٹ جدا نہیں ہو رہی تھی وہ نیچے منہ کرکے مسکراۓ جا رہی تھی جب سب کی نظروں سے بچ کر شایان اس کے قریب آیا۔۔بڑا مسکرایا جا رہا ہے لگتا ہے میرے پاس آنے کی کچھ زیادہ ہی خوشی ہو رہی ہے میری بیوی کو۔۔۔اچانک کان میں شایان کی گھمبیر آواز سنتے ہی وہ جلدی سے منہ اوپر کرکے اسے دیکھتی ہے تو وہ ایک آنکھ ونک کرتا ہے جس سے عریشہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھتی ہے اور شایان اس کی گھبراہٹ کو دیکھ گہرا مسکراتا ہے۔۔۔
💫💫💫
مصطفیٰ صاحب اپنے کمرے میں ہوتے ہیں کہ ازمیر دروازہ ناک کرتے ہوۓ ان پاس آتا ہوا ارے آؤ ازمیر بیٹھو۔۔۔ازمیر اندر آکر بھاگ کر ان کے گلے لگتا ہے۔۔۔آئ لو یو دادا جانی وہ انہیں زور سے گلے لگاتے ہوۓ کہتا ہے تو مصطفیٰ صاحب اپنے پوتے کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوۓ لو یو ٹو میرے شہزادے۔۔۔آپ کو نہیں پتا دادا جانی آپ نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے میں بہت بہت بہت خوش ہوں تھینک یو سو مچ۔۔۔مصطفیٰ صاحب ہنستے ہوئے مجھے پتا ہے کہ تم کتنا خوش ہو لیکن اگر میری پوتی کو تنگ کیا تو اچھا نہیں ہوگا سمجھ گئے نا۔۔۔ارے دادا جانی آپ کی پوتی کو تو میں اتنا خوش رکھوں گا کہ وہ آپ کو بھی بھول جاۓ گی۔۔۔پھر دونوں مل کر ہنسنے لگے۔۔خوش رہو میرے بچے ہمیشہ اسی طرح مسکراتے رہو۔۔۔جب ہم لندن سے واپس آۓ تو مجھے لگتا نہیں تھا کہ میں تمہارے چہرے پہ کبھی مسکراہٹ بھی دیکھ سکوں گا لیکن احسان ہے میری عرشیہ کا جس نے تمہیں بدل کے رکھ دیا۔۔۔ورنہ تو ایملیا نے تو تمہاری مسکراہٹ ہی چھین لی تھی۔۔۔بس اب اس کا نام دوبارہ کبھی مت لینا دادا جانی میں نہیں چاہتا کہ میری کڑوی یادیں میری زندگی میں دوبارہ کبھی آئیں ازمیر نے سپاٹ لہجے میں کہا چلو چھوڑو سب تم خوش ہو میں بھی بہت خوش ہوں۔۔۔اچھا چلیں پھر آئیں آپ کو کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں ٹریٹ دیتا ہوں فٹافٹ سے تیار ہو جائیں اور میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا میں گاڑی نکالتا ہوں۔۔۔اچھا اچھا چلو میں بھی آج باہر سے ہی کھانا کھانا چاہتا ہوں اپنے شہزادے کے ساتھ چلیں پھر آئیں اور دونوں باہر کھانا کھانے چلے جاتے ہیں
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial