قسط: 36
تھوڑی دیر میں عرشیہ کمرے سے باہر آتی ہے۔۔۔لسن اپ گائیز میرے پاس ایک نیوز ہے جو میرے دشمنوں کے لیے تو بیڈ نیوز ہوگی عرشیہ نے شایان کی طرف دیکھتے کہا جبکہ میرے باقی کے ویل وشرز ہیں ان کے لیے گڈ نیوز۔۔۔اچھا وہ کیا بتاؤ تو بھلا شہروز نے کہا۔۔۔شہروز بھائی رکیں زرا بتاتی ہوں۔۔۔شان بھائی پلیز دل تھام کر سننا اور ہاں کسی کے پاس بیٹھ جائیں تاکہ وہ آپ کو سنبھال سکے اگر کہیں ہارٹ اٹیک ہو جاۓ تو۔۔۔عرشیہ تمیز سے رہو بکواس بند کرو اور سیدھی طرح بتاؤ کہ بات کیا ہے زارا نے کہا۔۔۔ماما آپ بھی میری دشمن۔ہیں اس لیے آپ اور شایان۔بھائ ایک جگہ ہو جائیں۔۔۔زارا نفی میں سر ہلاتی ہے۔۔۔میں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہو گئی ہوں یاہووووووو۔۔۔وہ خوش ہوتے ہوۓ بتاتی ہے۔۔۔واؤ مبارک ہو پھر تو شہروز نے اٹھ کر اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ رکھا اور مبارکباد دی تھینک یو بھائی سب نے باری باری اسے مبارکباد دی اور آخر میں شایان مسکراتے ہوئے آگے ہوا۔۔۔میری چڑیل بہت خراب ہوگئی ہے۔۔بہت مباک ہو اس کی ناک کھینچتے ہوئے شایان مبارکباد دیتا ہے۔۔تو عرشیہ بھی کھلکھلا کر ہنستی ہے تھینک یو میرے جن بھیو عرشیہ بھی بدلے میں شایان کا ناک کھینچتے ہوئے بولتی ہے۔۔۔یہ دیکھ سب ہنستے ہیں۔۔بلو اپنے پاس ہونے کی خوشی میں ہمیں ٹریٹ دو صنم آگے بڑھ کر اسے کہتی ہے۔۔۔لو جی کر لو گل۔۔ایک تو اتنی محنت کرکے پاس بھی میں ہوئی اور ٹریٹ بھی میں دوں۔۔۔یہ بات ٹھاکر کو ہضم نہیں ہوئی بسنتی عرشیہ نے آواز بدل کر ٹھاکر بننے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ایک تو یہ لڑکی بہت فلمی ہو گئی ہے۔۔۔ٹھاکر کو ہضم ہو نہ ہو لیکن ہمیں پارٹی ہضم ہو جاۓ گی۔۔۔جشن کا انتظام ہوووو فیروز نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔۔تو سب نے مل کر کہا ہووووو۔۔۔مطلب میری جمع پونجی آپ لوگ لگوا کر ہی رہو گے عرشیہ نے معصوم سا منہ بنا کر دکھ سے کہا۔۔ہاں بالکل عریشہ نے بھی اپنے سب کزنز کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔ہاۓ اللّٰہ عریشہ آپی آپ بھی دشمنوں سے مل گئیں میری سگی بہن ہو کر آپ نے دشمنوں کا ساتھ دیا میں آپ کو جلا رشتہ کرتی ہوں۔۔جلا رشتہ مطلب عائزہ نے پوچھا۔۔ارے آپی جیسے وطن کے غداروں کو جلا وطن کرتے ہیں ویسے ہی رشتے کے غداروں کو جلا رشتہ کرتے ہیں تو عرشیہ کی نئ لوجک پہ سب قہقہہ لگاتے ہوۓ ہنستے ہیں۔۔۔عرشیہ مطلب کچھ بھی تم بھی نا بالکل پاگل ہو شہروز ہنستے ہوئے کہتا ہے۔۔چل کوئی نا تو چاہے جو بھی جلا کر لیکن پارٹی تو بنتی ہے۔۔۔ٹھیک ہے میں پارٹی دینے کو تیار ہوں لیکن پھر آپ لوگوں کی طرف گفٹ بھی بنتے ہیں بولو منظور ہے۔۔۔ہاں منظور ہے۔۔۔چلو پھر شام کو سن ہو گیا۔۔۔شایان نے کہا۔۔۔نہیں شام کو نہیں عرشیہ جلدی سے بولی۔۔۔کیوں شام کو کیا ہے؟ شایان۔نے پوچھا۔۔کیونکہ شام کو ازی مجھے باہر لے کر جا رہے ہیں میرے پاس ہونے کی خوشی میں۔۔۔اووووو۔۔۔سب نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔۔ہااااااااں عرشیہ نے بھی ان کے انداز میں کہا۔۔۔تو گائیز کیوں نہ پھر شام کو ہی ان کے ساتھ پارٹی کی جاۓ وہ بھی ڈبل مزے والی شایان نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ڈبل مزے والی کیسے؟ شیراز بھی آگیا تھا تو اس نے پوچھا۔۔۔کیونکہ ازمیر سے عرشیہ کے نام پہ جتنا مرضی خرچ کر والو وہ کچھ بھی نہیں کہے گا کیونکہ ہمارے مجنوں کو اپنی لیلیٰ بہت پیاری ہے اور اگر عرشیہ خود ٹریٹ دے گی تو یہ ریزرو ہو کر دے گی کنجوسی سے سوچ سوچ کر ہر چیز منگواۓ گی تو سب ہی شایان کی رائے سے متفق ہوۓ۔۔۔جی نہیں میرے پاپا کے پاس بھی بہت پیسہ ہے وہ بھی نہیں ہچکچائیں گے میری پارٹی کے خرچ سے عرشیہ نے منہ بنا کر کہا۔۔۔ہاں وہ تو ہے لیکن پھر بھی ازمیر کی پارٹی کی بات ہی الگ ہوگی۔۔۔فیروز نے بھی ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا تو سب کھل کر مسکراۓ۔۔۔آپ لوگوں کی مرضی ویسے بھی مجھے تو فائدہ ہی ہے نا میری جمع پونجی بھی بچ جاۓ گی اور میرے پاپا کی بھی۔۔۔ہاہاہاہا بوگیمبو خوش ہوا۔۔عرشیہ نے مصنوعی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔چلو اب تیاری کریں فیروز نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔۔ابھی تو بہت ٹائم ہے تسلی سے کر لیں گے۔۔۔ارے ابھی سے شروع کریں گے تو شام تک ہوگی نا۔۔۔فیروز بھائی آپ ویسے ہی کہہ دیں کہ آپ کو اپنی مسز کے ساتھ وقت گزارنا ہے یہ تیاری کے بہانے کیوں بنا رہے ہیں۔۔ابیہا کی بات سن کر فیروز گڑبڑایا۔۔۔نہ نہیں بھابھی آپ بھی نا کچھ بھی سوچ لیتی ہیں۔۔۔ہاں بیٹا سب جانتی ہوں میں۔۔۔اچھا لگتا ہے شیراز بھائی بھی ایسے ہی بہانے بناتے ہوں گے جو آپ سب جانتی ہیں۔۔فیروز نے الٹا ابیہا پہ بات ڈالتے ہوئے کہا۔۔ہاں نا تبھی تو میں تمہارے بہانے سمجھ گئی۔۔۔ہاہاہاہا۔۔کمال کرتی ہیں آپ بھی بھابھی۔۔فیروز نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر سب ہی ہنستے ہوئے اپنے اپنے روم میں چلے جاتے ہیں۔۔۔



ازمیر اپنے آفس میں بیٹھا میٹنگ کی تیاری کر رہا ہوتا ہے وہ ایک نظر ساری اپنے پراجیکٹ پہ ڈالتے ہوئے باقی کی چیزیں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کا فون رنگ کرتا ہے اور بنا دیکھے کال اٹینڈ کرتا ہیلو۔۔ہیلو ازی میں نے آپ کو ایک بات بتانی ہے۔۔۔عرشیہ رازدارانہ انداز میں آہستہ آواز میں ازمیر کو کہتی ہے۔۔ازمیر کان۔سے فون ہٹا کر ایک دفعہ کنفرم کرتا ہے کہ واقعی عرشیہ نے اسے کال کی کیونکہ ازمیر کے آفس آنے تک تو وہ اس سے ناراض تھی جب کنفرم ہوا تو۔۔۔اچھا کیا بات بتانی ہے میری ڈول نے مجھے یہ اتنی آہستگی سے بات کر رہی ہے ازمیر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔وہ نا سب شام کو پارٹی کے لیے تیار ہو رہے ہیں اور وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ سے ٹریٹ لینی ہے۔۔۔مجھ سے کس بات کی ٹریٹ؟ ازمیر نے حیران ہوتے پوچھا۔۔۔وہ میرے پاس ہونے کی خوشی میں تو میں نے سوچا آپ کو پہلے ہی انفارم کر دوں تاکہ آپ کہیں چھپ جاؤ اور شام کو گھر ہی نہ آنا۔۔۔عرشیہ کی بات سن کر ازمیر مسکرایا اور میں ایسا کیوں کروں بھلا؟ ارے میرے پاس ہونے کی خوشی میں مجھے پارٹی دینی چاہیئے نا کہ آپ کو میں خود ہی انہیں پارٹی دے دوں گی نہیں تو یہ لوگ آپ کو بہت تنگ کریں کہہ رہے تھے کہ آپ کا تو بہت خرچہ کروائیں گے اس لیے بچ جائیں میں نے سوچا آپ کو وارن کر دوں عرشیہ نے کہا تو ازمیر نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پاگل ہو بالکل میری ہر چیز تمہاری ہی تو ہے اب چاہے وہ پیسے ہی کیوں نہ ہو سمجھی اب چلو تم بھی شام کی تیاری کر لو پھر سب مل کر پارٹی کریں گے۔۔اوکے۔۔۔اوکے باۓ اینڈ لو یو میری جان۔۔عرشیہ ازمیر کے اظہار پہ جلدی سے اللّٰہ حافظ بولتی فون بند کر دیتی ہے۔۔۔ازمیر کتنی ہی دیر عرشیہ کو سوچتے ہوۓ مسکراتا رہتا ہے اور پھر اٹھ کر میٹنگ روم میں چلا جاتا ہے



شام کو سب تیار ہوتے ہیں اب صرف ازمیر کا انتظار ہو رہا ہے۔۔۔یار یہ کہاں رہ گیا ابھی تک آیا کیوں نہیں شہیر نے کہا۔۔رکو میں کال کرکے پتا کرتا ہوں فیروز نے کہنے کے ساتھ ہی فون۔نکال کر کال ملائی۔۔۔دو بیل کے بعد دوسری سائیڈ سے کال پک کی گئی۔۔۔ہاں بول۔۔۔تم ابھی تک آۓ کیوں نہیں ہم سب انتظار کر کر کے سوکھی لکڑی بن گئے ہیں۔۔۔بس ابھی پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں بے صبرے لوگو۔۔۔ہاں جلدی آ نہیں تو ہم عرشیہ کو طعنے دے دے کر ہلکان کر دیں گے آخر میں فیروز نے دھمکی دی۔۔۔اوۓ خبردار اگر عرشیہ کو کچھ کہا تو میں تیرا وہ حشر کروں گا کہ تو طعنے دینا تو دور کی بات۔۔۔بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہو گے ازمیر نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا۔۔۔اوہو میں تو ڈر گیا فیروز نے ایکٹنگ کی۔۔۔ڈرنا چاہئیے بھی ازمیر نے کہا۔۔۔چلو آ جاؤ باہر میں گیٹ کے پاس ہوں تو فیروز نے سب کو مطلع کیا کہ آ جاؤ باہر ازمیر باہر کھڑا ہے وہ سب باہر گۓ اور دو سے تین گاڑیوں میں سوار ہو کر ریسٹورنٹ پہنچے وہاں اوپن ایریا میں بیٹھ کر سب نے اپنی اپنی پسند کا آرڈر کیا اس سے پہلے وہ کھانا شروع کرتے کہ عرشیہ نے روک دیا۔۔۔ایک منٹ سب لوگ رکو سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔ازی انہیں اس وقت تک نہیں کھانے دینا جب تک سب مجھے گفٹ نہ دے دیں۔۔۔کیاااا یہ کیا بات ہوئی گفٹ تو بعد میں بھی دیا جا سکتا ہے۔۔۔ٹھیک ہے جو ابھی گفٹ دے گا وہ ابھی ٹریٹ کے مزے اٹھاۓ اور جو بعد میں دے گا وہ پھر صرف پچھتاۓ۔۔کیا یار ازمیر سمجھا نا اسے۔۔۔میں کچھ نہیں کر سکتا سوری ازمیر نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا تو سب اسے گھورنے لگے شرم کر لے کمینے انسان۔۔۔شایان نے کہا۔۔۔تم کرتے ہو جو میں کروں گا۔۔۔اچھا ٹھیک ہے گفٹ دیتے ہیں ہم ابھی تو سب نے عرشیہ کو گفٹ دیے جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہو گئی۔۔۔چلو اب ٹوٹ پڑو کھانے پر عرشیہ کی بات سن کر سب نے اسے گھوری سے نوازا لیکن ادھر پرواہ کسے تھی اس نے بنا ان کی گھوری کا اثر لیے کھانا شروع کر دیا پھر وہ لوگ یونہی گھومتے گھماتے انجوائے کرتے ہوئے گھر پہنچے۔۔۔بھئ آج تو مزہ آگیا شایان نے کہا۔۔۔میں تو سونے جا رہی ہوں بہت تھک گئ ہوں عرشیہ نے کہا اور وہ سونے چلی گئی۔۔۔باقی سب بھی اپنے اپنے رومین چلے گئے



رات کے پہر اچانک ہی صنم کی طبیعت خراب ہونے لگی اسے وومٹنگ شروع ہو گئی تھی۔۔۔شہیر تو پریشان ہو گیا وہ اسے اپنے حصار میں لے کر بیٹھتا ہے کیا ہوا صنم پتا نہیں شہیر میرا دل بہت گھبرا رہا ہے اور سر بھی چکرا رہا ہے وہ ابھی بات کر رہینہوگی ہے کہ اسے دوبارہ وومٹ ہوتی ہے اور وہ بھاگ کر باتھروم کی طرف جاتی ہے۔۔جب باہر آتی ہے تو بہت نڈھال ہو رہی ہوتی ہے۔۔شہیر اس کی حالت دیکھ فوراً گاڑی کی کیز اٹھاتا صنم کو ساتھ لیے ہاسپٹل کے لیے نکلتا ہے۔۔۔ہسپتال پہنچ کر وہ ڈاکٹر کا پوچھتے ہوئے صنم کا ہاتھ پکڑ کر کیبن میں داخل ہوتا ہے ڈاکٹر پلیز پہلے میری وائف کو چیک کریں اس کی طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے شہیر بوکھلائے ہوئے کہتا ہے۔۔ریلیکس ہو جائیں آپ اور پلیز باہر جائیں تاکہ میں انہیں چیک کر سکوں تو شہیر اثبات میں سر ہلاتا باہر چلا جاتا ہے۔۔کچھ ہی دیر میں صنم کیبن سے باہر آتی ہے ہونٹوں پہ شرمیلی سی سمائل لے کر۔۔شہیر اسے دیکھ اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔۔۔کیا کہا ڈاکٹر نے تو صنم شرماتے ہوئے وہ وہ آپ پاپا بننے والے ہیں۔۔کیاااااا شہیر نے صنم کو دیکھا اور ادھر ہی اسے اٹھا کر گول گول گھومنے لگا۔۔۔شہیر سب دیکھ رہے ہیں مجھے نیچے اتارے صنم گھبرا کر ادھر ادھر دیکھتی ہے۔۔۔ارے یار دیکھتے ہیں تو دیکھنے دو اپنی بیوی کو اٹھایا ہے اور خوشی ہی اتنی ہے کہ میں کیا بتاؤں تھینک یو سو مچ یار مجھے اتنی بڑی خوشی دینے کے لیے۔۔۔وہ اسے اپنے حصار میں لیتے ہوۓ باہر آکر اسے احتیاط سے گاڑی میں بٹھاتا ہے اور گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں گھر میں سب سو رہے ہوتے ہیں کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ صنم کی طبیعت خراب ہے اور یہ دونوں ہاسپٹل گۓ تھے اب چل کر سو جاتے ہیں صبح سب کو گڈ نیوز دیں گے۔۔ہمم صنم بھی سر ہلاتی اس کے ساتھ کمرے کی جانب جاتے ہیں اور سو جاتے ہیں



اگلے دن صبح سب ناشتے کی ٹیبل پہ بیٹھے ہوتے ہیں۔۔پاپا مجھے کالج میں کب ایڈمیشن دلوا رہے ہیں آپ؟ میں نے دو تین کالجز کا وزٹ کیا ہے اس میں سے مجھے ایک کالج ٹھیک لگا تم ناشتہ کر کے تیار ہو جاؤ سارے ڈاکومنٹس بھی رکھ لینا پھر ایڈمشن کے لیے چلتے ہیں ازمیر نے جواب دیا۔۔ٹھیک ہے۔۔آپ کو پتا ہے نا میں نے پری میڈیکل میں ایڈمشن لینا ہے؟ عرشیہ نے پوچھا۔۔۔ہاں ہاں پتا ہے مجھے سب تم بس ریڈیو رہو۔۔۔اوکے۔۔۔
ماما بابا میرے پاس بھی ایک نیوز ہے آپ سب کے لیے۔۔۔شہیر نے کہا۔۔۔اچھا وہ کیا مرتضیٰ صاحب متوجہ ہو کر پوچھتے ہیں تو شہیر صنم کی طرف دیکھتا ہے جو گردن جھکاۓ اپنی پوری توجہ پلیٹ پہ مرکوز کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔آپ سب میرین طرف سے بھی دادا دادی بننے والے ہیں۔۔۔کیااااا سچ میں سائرہ اپنی جگہ سے اٹھ کر صنم کے پاس آتی ہے اور اس کا ماتھا چومتے ہوئے ڈھیر ساری دعائیں دی۔۔۔اور وہ شرماتے ہوۓ پلیٹ پہ جھک گئی۔۔



عرشیہ تیار ہو؟ جی بس ایک منٹ۔۔۔عرشیہ جلدی سے اپنی ساری چیزیں اٹھاتی باہر کی طرف آئ۔۔چلیں؟ ہاں چلو۔۔۔ازمیر اس کی طرف دیکھتا ہے تو آنکھیں جھپکانا بھول جاتا ہے عرشیہ پنک ٹاپ کے ساتھ جینز پہنے سٹالر لیے میک اپ سے عاری چہرہ غلافی آنکھوں میں کاجل کی باریک سی لکیر اور سر پہ پنک ہی سٹالر اوڑھے جس کے شیڈ سے اس کا چہرہ بھی پنک ہی ہو رہا تھا ہاتھوں میں رنگ برنگے بریسلٹ اور بینڈز وہ بالکل کوئی جیتی جاگتی گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔ازمیر کو اپنی طرف اس طرح متوجہ پا کر اسے لگا شاید کچھ غلط ہو گیا ہے۔۔۔ازی کیا ہوا میں ٹھیک نہیں لگ رہی کیا؟ ٹھیک تو میں نہیں رہا تمہیں دیکھ کر وہ بڑبڑایا۔۔۔کیا مطلب عرشیہ نے نا سمجھی سے پوچھا۔۔ہمم کچھ نہیں چلو آؤ ازمیر نے آگے چلتے ہوۓ اسے کہا تو وہ بھی کندھے اچکاتے اس کے پیچھے چل پڑی۔۔۔کالج۔پہنچ کر ساری فارمیلٹیز پوری کرنے کے بعد پرنسپل نے ازمیر سے ہاتھ ملایا۔۔کل سے یہ کلاسز اٹینڈ کرسکتی ہیں کیونکہ انکی کلاسز سٹارٹ ہو چکی ہیں۔۔۔ٹھیک ہے سر اور وہ لوگ کالج سے نکلتے ہیں ازمیر اپنی گاڑی آفس کی طرف بڑھاتا ہے۔۔ازی اب کہاں جا رہے ہیں۔۔۔میری آفس میں میٹنگ ہے اگر میں تمہیں گھر چھوڑ کر دوبارہ آؤں گا تو لیٹ ہو جاؤں گا اس لیے سوچا پہلے میٹنگ اٹینڈ کر لوں تم میرے آفس میں بیٹھ جانا میں میٹنگ اٹینڈ کر لوں گا پھر اکٹھے گھر چلے جائیں گے۔۔ہمم اوکے۔۔۔ازمیر آفس پہنچا تو اس کے ساتھ عرشیہ کو دیکھ سب لوگ حیران نظروں سے اپنے باس کو دیکھ رہے تھے۔۔جو آج پہلی بار کسی لڑکی کے ساتھ آفس آیا تھا اور بہت ہی نرم لہجے میں مسکراتے ہوئے اس سے مخاطب تھا۔۔آج تک انہوں نے اپنے باس کو مسکراتے ہوۓ یا نرمی ے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا لیکن آج تو معجزہ تھا ان کے لیے۔۔۔صبیحہ۔۔یس سر۔۔میٹنگ کا سارا زائچہ تیار ہے نا؟ یس سر۔۔۔یاد رہے اس پراجیکٹ میں میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔۔ی یس سر۔۔۔ہمم ٹھیک ہے سب ممبرز آگۓ کہ نہیں۔۔۔یس سر بس آپ کا ویٹ ہو رہا ہے ٹھیک ہے چلو میں آتا ہوں۔۔۔عرشیہ تم ادھر میرے آفس میں بیٹھو میں میٹنگ ختم کرکے آتا ہوں تو وہ اثبات میں سر ہلاتی آفس میں انٹر ہوتی ہے وہ ارد گرد دیکھتی ہے۔۔ازمیر کا آفس بہت ہی شاندار تھا۔۔۔وہ سارے آفس پہ طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے ازمیر کی چئیر پہ پورے استحقاق کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔۔۔ازمیر میٹنگ روم جانے سے پہلے اپنی اسسٹنٹ کو بلایا۔۔۔دیکھو اندر میم کو جو بھی چاہئیے ہو وہ فوراً انہیں لا کر دینا۔۔۔اور پھر وہ میٹنگ کے لیے چلا جاتا ہے۔۔۔کیبن میں کچھ دیر گزارنے کے بعد وہ باہر آتی ہے اور پورا آفس گھوم کر دیکھنے لگتی ہے۔۔۔آپ کو کچھ چاہیئے میم؟ ازمیر کی اسسٹنٹ پوچھتی ہے۔۔۔نہیں شکریہ میں بور ہو رہی تھی تو سوچا پورے آفس کا ایک راؤنڈ لگا لوں۔۔۔جی ٹھیک ہے آ جائیں میں آپ کو آفس دکھانے میں مدد کرتی ہوں وہ سارا آفس دیکھنے کے بعد میٹنگ ایریا کی طرف جانے لگتی ہے کہ ازمیر کی اسسٹنٹ اسے روک لیتی ہے۔۔۔میم ادھر میٹنگ چل رہی ہے پلیز آپ ادھر نہ جانا نہیں تو سر ناراض ہوں گے۔۔عرشیہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے ٹھیک ہے میں ازی کے کیبن میں جا رہی ہوں پلیز میرے لیے چاۓ کے ساتھ کچھ کھانے کو بھی بھجوا دیں۔۔اوکے میم میں بھجواتی ہوں آپ بیٹھیں۔۔۔اوکے۔۔۔
وہ چاۓ کے ساتھ سنیکس کھا کر کچھ دیر بعد پھر اٹھتی ہے اور سیدھا میٹنگ روم میں پہنچ جاتی ہے۔۔۔ازی میں بہت بور ہو رہی ہوں اب چلیں گھر۔۔وہ اندر داخل ہوتے بنا ادھر ادھر دیکھے ازمیر کے پاس آتے ہوۓ کہتی ہے اور جیسے ہی نظر سامنے جاتی ہے تو سب اس کی طرف ہی متوجہ ہوتے ہیں۔۔۔وہ سب کو دیکھ ڈرتے ہوئے ازمیر کی طرف دیکھتی ہے۔۔۔اسسٹنٹ بھی بھاگ کر اس کے پیچھے آتی ہے لیکن اب صبیحہ اور سمیعہ (اسٹنٹ) دونوں ڈر رہی ہوتی ہیں اور ازمیر کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہیں۔۔۔ازمیر عرشیہ کی طرف دیکھتا ہے جس کی آنکھوں میں واضح ڈر نظر آرہا ہوتا ہے۔۔تم چلو جا کر بیٹھو میں بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں وہ نارمل انداز میں نرمی سے عرشیہ کو کہتا ہے وہاں بیٹھے سب لوگ جو کہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ازمیر غصّے سے پتا نہیں اس لڑکی کے ساتھ کیا کرے گا اس کا نرم بیہیور دیکھ حیران رہ جاتے ہیں۔۔سمیعہ جاؤ عرشیہ کے پاس۔۔جی سر وہ جلدی سے باہر نکلتی ہے اور عرشیہ کے پیچھے جاتی ہے۔۔۔عرشیہ ادھر ادھر ٹہلتی تھک کر کاؤچ پہ بیٹھ جاتی ہے پھر وہیں سو جاتی ہے۔۔ازمیر میٹنگ ختم کر کے جلدی سے آفس کی طرف بڑھتا ہے جب آفس کو دروازہ دھکیلتا ہے تو سامنے ہی دشمنِ جان کو سویا ہوا دیکھتا ہے تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ ابھرتی ہے اور اس کے پاس جا کر بیٹھ کر اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اسے اٹھاتا ہے۔۔۔عرشیہ۔۔عرشیہ اٹھو گھر چلیں۔۔عرشیہ اس کی آواز سنتی آنکھیں کھولتی ہے تو ازمیر کو دیکھ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔ازی اتنی دیر لگا دی آئندہ میں کبھی آپ کے ساتھ آفس نہیں آؤں گی۔۔۔ازمیر ہنسنے لگا۔۔ٹھیک ہے میری کرسٹل ڈول چلو اب چلیں۔۔ہاں جی چلیں وہ جلدی سے اٹھتی کھڑی ہوتی ہے اور پھر دونوں گھر کے لیے نکلتے ہیں۔۔راستے میں عرشیہ ازمیر کو مخاطب کرتی ہے۔۔ازی۔۔ہاں۔۔آپ غصّہ تو نہیں ہے مجھ پہ۔۔میں کیوں غصّہ ہونے لگا۔۔۔وہ میں نے آپ کی میٹنگ میں آکر میٹنگ خراب کی۔۔۔مجھے آپ کی اسٹنٹ نے روکا بھی لیکن میں بہت بور ہو رہی تھی مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں اندر چلی آئ۔۔ہمم اٹس اوکے لیکن آئندہ خیال رکھنا۔۔۔میں آفس آؤں گی تو خیال رکھوں گی نا جب میں آؤں گی ہی نہیں تو خیال کس بات کا اس کی بات سن ازمیر مسکرا دیتا ہے۔۔۔لو جی آگیا گھر عرشیہ جلدی سے اترتی اندر کی طرف بھاگتی ہے۔۔۔ماما میرا ایڈمشن۔ہو گیا کل سے میں نے کالج۔جوائن۔کرنا ہے۔۔۔اچھا چلو یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔ماما میں سونے لگی ہوں بہت تھک گئی ہوں اتنا کہتے عرشیہ اپنے روم کی طرف چلی جاتی ہے