قسط: 37
ازمیر اپنے دادا جانی کے روم کی طرف جاتا ہے۔۔دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہو جاتا ہے۔۔مصطفیٰ صاحب لیٹے ہوتے ہیں۔۔۔دادا جانی سو گۓ کیا؟ ازمیر انہیں آواز دے کر پوچھتا ہے۔۔۔اتنی جلدی تو نہیں سوتے کبھی بھی ازمیر نے دل میں کہا اور ان کی طرف بڑھا اور ان کا بازو ہلایا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوۓ ازمیر نے اب کی بار ان کا بازو زور سے ہلایا لیکن پھر بے سود ازمیر نے پریشان ہوتے ہوۓ انہیں جھنجھوڑ ڈالا لیکن انہوں نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔۔۔ازمیر نے جلدی سے اپنے ڈیڈ کو آواز دی ازمیر کی آواز سن کر سب ہی باہر آگۓ۔۔۔کیا ہوا ازمیر اتنے پریشان کیوں ہو؟ ڈیڈ وہ وہ دادا جانی کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے وہ اٹھ ہی نہیں رہے بے ہوش ہو گئے ہیں آئیں انہیں ہاسپٹل لے کر چلیں ازمیر مصطفیٰ صاحب کی حالت دیکھ کر بہت زیادہ گھبرا گیا تھا وہ سب جلدی سے انہیں ہاسپٹل لے کر جاتے ہیں عورتیں گھر میں مسلسل دعا میں مگن ہوتی ہیں۔۔ہاسپٹل میں ڈاکٹر نے جلدی سے ان کا چیک اپ کرتے ہوۓ ان کا ٹریٹمنٹ شروع کردیا۔۔۔جیسے ہی ڈاکٹر باہر آیا تو سب لوگ ان کی طرف لپکے۔۔ڈاکٹر میرے دادا جانی کی طبیعت کیسی ہے اب؟ دیکھو بیٹا انہیں میجر ہارٹ اٹیک آیا ہے۔۔ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں باقی جو اللّٰہ کو منظور۔۔۔کیاااا میجر ہارٹ اٹیک۔۔لیکن کیوں کیا کوئی پریشانی ہے انہیں جو انہیں اچانک سے ہارٹ اٹیک ہو گیا۔۔۔ازمیر مسلسل بڑبڑا رہا تھا۔۔۔ساری رات وہ لوگ ہسپتال میں ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے مصطفیٰ صاحب کے ہوش میں آنے کا انتظار کرتے رہے صبح فجر کے ٹائم انہیں ہوش آیا تو نرس بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا کر لائ۔۔۔وہ سب بھی دروازے کے پاس کھڑے ہوگئے۔۔۔ڈاکٹر جیسے ہی باہر آیا تو وہ لوگ پوچھنے لگے۔۔۔دیکھیں انہیں ہوش آگیا ہے آپ لوگ مل سکتے ہیں لیکن ایک بات یاد رکھیئے گا کہ انہیں کوئی بھی ٹینشن نہیں ملنی چاہئیے نہیں تو اس بار ان کو آخری اٹیک ہوگا۔۔اوکے ڈاکٹر۔۔۔پھر وہ سب مصطفیٰ صاحب کے پاس جاتے ہیں۔۔۔دادا جانی کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ازمیر جلدی سے ان۔کا ہاتھ پکڑ کر پوچھتا ہے۔۔۔ہاں بیٹا کافی بہتر ہوں تم پریشان نہ ہو۔۔۔دادا جانی کیا کوئی پریشانی ہے آپ کو اگر ہے تو مجھے بتائیں میں آپ کی ہر پریشانی کو ہر حال میں دور کروں گا۔۔۔نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں ہے ویسے ہی طبیعت خراب ہو گئ تھی اب میں ٹھیک ہوں۔۔۔ازمیر پریشان نہ کرو بابا سائیں کو چلو ادھر آکر بیٹھ جاؤ زیادہ نہ بلاؤ انہیں۔۔جی ڈیڈ تو ازمیر ایک سائیڈ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔۔میں گھر میں بتا دوں وہ لوگ پریشان ہو رہے ہوں گے شہروز نے کہا اور باہر کال کرنے چلا گیا۔۔۔باقی سب ادھر بیٹھ کے باتیں کرنے لگے۔۔۔کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر دوبارہ چیک اپ کرنے آیا تو مرتضیٰ صاحب آگے ہوکر پوچھنے لگے۔۔۔ڈاکٹر انہیں ڈسچارج کب کریں گے۔۔۔اب پہلے سے بہتر ہیں تو صبح انہیں ڈسچارج کر دیں گے لیکن احتیاط کرنا آپ لوگ کہ انہیں کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔۔۔جی ڈاکٹر ہم خیال رکھیں گے۔۔۔ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں اگر کوئی ایمرجنسی ہوئی تو میں اپنے کیبن میں ہی ہوں گا۔۔۔جی ٹھیک ہے ڈاکٹر آپ کو بہت شکریہ۔۔۔میں سب کے لیے کھانا لے کر آتا ہوں۔۔۔فیروز نے کہا تو ازمیر بھی ساتھ اٹھ گیا چلو میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں۔۔۔شہروز نے گھر کال کرکے بتایا تو گھر میں سب خواتین کو سکون ہوا اور سب شکرانے کے نوافل ادا کرنے لگیں۔۔۔



اگلے دن مصطفیٰ صاحب کو گھر لے آۓ سب ان کے گرد اکٹھے تھے۔۔میں آپ سب سے کچھ مانگوں تو ملے گا مصطفیٰ صاحب نے مدھم لہجے میں کہا ابھی ان سے صحیح سے بات نہیں ہوتی تھی۔۔۔بابا سائیں آپ حکم کریں تو انہوں نے عرشیہ کی طرف دیکھا۔۔۔اگر میں اپنی پرنسس سے کسی چیز کی ریکوئسٹ کروں تو وہ اپنے بگ کنگ کی بات مانیں گی۔۔۔عرشیہ نے مصطفیٰ صاحب کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑا۔۔۔دادا جانی آپ حکم کریں آپ کی پرنسس جان بھی دے دے گی۔۔۔مصطفٰی صاحب مسکرانے لگے۔۔میری حالت بہت خراب رہنے لگی ہے زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب ساتھ چھوڑ دے انہوں نے تمہید باندھی۔۔۔دادا جانی کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ پلیز ایسا نہ بولیں۔۔میں چاہتا ہوں میں اپنی زندگی میں ازمیر اور شایان کو دلہا بنتا دیکھ لوں تو میری پرنسس میری خواہش پوری کرے گی؟ انہوں نے حسرت سے کہا۔۔۔دادا جانی یہ بات تو آپ کو ازی اور شان بھائی سے کرنی چاہئے نا کیونکہ دلہا تو انہوں نے بننا ہے کون سا ہم نے۔۔۔عرشیہ کی بات پہ سب مسکرانے لگے۔۔۔لیکن اس دلہے کی دلہن تو تمہی بنو گی نا۔۔۔تو تم سے پوچھنا زیادہ ضروری ہے۔۔۔اوووو ہاں یہ تو میں بھوک ہی گئی۔۔۔اچھا بتاؤ پھر ہم تیاری کریں۔۔۔تو وہ چپ کر گئی اور عادل کی طرف دیکھنے لگی تو انہوں نے آنکھوں کے اشارے میں ہاں کہا۔۔۔ٹھیک ہے دادا جانی جیسے آپ کہیں اب آپ سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں ہے نا تو وہاں بیٹھے سب لوگ خوش ہو گۓ اور عرشیہ کو پیار دینے لگے۔۔۔عرشیہ نے غیر ارادی طور پر ازمیر کی طرف دیکھا تو اس نے مسکرا کر آنکھوں سے اسے تسلی دی۔۔۔تو وہ چپ کرکے منہ نیچے کرکے بیٹھ گئ۔۔۔چلو بھئ سب اب تیاریوں میں لگ جاؤ اگلے مہینے ہم ان چاروں کی دھوم دھام سے شادی کریں گے۔۔۔جیسے آپ کہیں بابا سائیں عائشہ اور زارا نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔



عریشہ اپنے روم میں چپ چپ بیٹھی تھی۔۔شایان روم میں آیا تو اسے سنجیدہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس کے قریب آکر بیٹھ گیا۔۔۔کیا سوچ رہی ہو جاناں۔۔شایان کے یوں اچانک بولنے پہ وہ چونک گئی۔۔۔آپ؟ آپ کب آۓ؟ ابھی جب تم کسی گہری سوچ میں گم تھی۔۔۔ہاں نہیں میں تو کچھ نہیں سوچ رہی تھی۔۔۔اچھا۔۔یہ بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟ کوئی بات پریشان کر رہی ہے تو بتاؤ مجھے۔۔۔نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔پھر میری جان اتنی سریس اور چپ چپ کیوں ہے؟ کیا ہوا کیا تم شادی نہیں کرنا چاہتی؟ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔تو پھر کیا بات ہے؟ اصل میں میں سوچ رہی تھی کہ میں اپنی ذمی داریاں نبھا سکوں گی۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میں کیسے مینیج کروں گی شایان مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے۔۔۔اہو بس اتنی سی بات شایان نے عریشہ کو اپنے حصار میں لیا اور بہت پیار سے اسے سمجھانے لگا۔۔۔میں ہوں نا میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا تم مجھے ہر قدم پہ اپنے ساتھ پاؤ گی۔۔۔شایان۔اگر مجھ سے کبھی غلطی ہو جایا کرے گی تو پلیز غصّہ نہ کیا کرنا۔۔۔نہیں کروں گا کبھی نہیں کروں گا جیسا تم کہو گی ویسا ہی بن جاؤں گا بس تم ریلیکس رہوں شایان نے عریشہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر کہا۔۔تھینک ہو سو مچ شایان۔۔۔شایان۔نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا تو عریشہ نے طمانیت سے آنکھیں بند کر لیں۔۔اب عریشہ پر سکون تھی۔۔چلو اب میں چلتا ہوں اب کسی بھی قسم کی ٹینشن نہیں لینی بالکل ریلیکس ہو کر سوجاؤ تاکہ میں تمہارے خوابوں میں آکر تمہیں تنگ کر سکوں۔۔عریشہ مسکرانے لگی اوکے گڈ نائٹ۔۔گڈ نائٹ میری جان۔۔۔



دوسری طرف عرشیہ بھی کھوئی کھوئی سی بیٹھی تھی ازمیر اس کے پاس آیا اور اس کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ گیا۔۔عرشیہ نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ازی میں لیکچر کے موڈ میں بالکل نہیں ہوں پلیز کوئی لیکچر وغیرہ نہ دینے لگ جانا عرشیہ نے چڑتے ہوۓ کہا تو ازمیر اس کی بات پہ مسکرانے لگا۔۔میں تو تھینک یو کہنے آیا تھا۔۔۔کس بات کے لیے؟ تم نے دادا جانی کی بات مان کر ان کا مان رکھ لیا۔۔۔پتا جب دادا جانی نے تم سے پوچھا تو مجھے سو فیصد یقین تھا کہ تم انہیں منع کر دو گی اور انکار کردو گی۔۔نہیں اب اتنی بھی میں بدتمیز نہیں ہوں۔۔۔ہاں وہ تو پتا چل گیا ہے۔۔۔شکر ہے آپ کو پتا تو چلا۔۔۔اچھا اب پریشان کیوں ہو؟ ازی آپ میرے خوابوں یا خواہشوں میں رکاوٹ تو نہیں بنو گے؟ اس نے افسردہ ہوتے پوچھا۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ اگر مجھ سے کوئی چھوٹی سی بھی غلطی ہوئی تو آپ مجھے سزا دیں گے میری خوابوں کو توڑ دیں گے میری خواہشوں کو پس منظر رکھ دیں گے۔۔یقین مانیں اگر ایسا کچھ بھی ہوا تو میں موت سے پہلے مر جاؤں گی۔۔۔بس اب کچھ مت بولنا بہت بول لیا تم نے۔۔۔ازمیر نے اس کی آخری بات پہ غصّہ ہوتے ٹوکا۔۔۔میں تمہاری ہر خواہش کا احترام کروں گا۔۔۔تمہارے ہر خواب کو میں اپنا خواب بنا لوں گا جسے پورا کرنے کے لیے میں پوری دنیا سے لڑ جاؤں گا تمہارا کوئی بھی خواب ادھورا نہیں رہنے دوں گا۔۔ازمیر چپ ہوا تو عرشیہ نے اس کی طرف دیکھا کیا سچ میں آپ ایسا کریں گے۔۔ہاں بالکل۔۔۔اور میری غلطیاں؟ میرا دل تمہارے لیے اتنا فراغ ہے کہ چاہے کتنی بھی بڑی غلطی سرزد کیوں نہ ہو جاۓ لیکن اسے معاف کرنے کا حوصلہ ہے میرے دل میں ہاں وقتی غصہ شائد آجاۓ لیکن پھر بھی تمہیں کچھ بھی ایسا نہیں کہوں گا جس سے میری کرسٹل ڈول ٹوٹ جاۓ بہت سنبھال کر رکھوں گا اپنی جان کو۔۔۔میں کوئی کام بھی نہیں کروں گی نہ آہ کے کپڑے پریس کروں گی نہ الماری سیٹ کروں گی نہ میں چاۓ بناؤں گی اور نہ ہی اچھی بیوی بننے کے لیے کھانا بناؤں گی۔۔ٹھیک یے؟ یہ سب تمہارے لیے میں کر دیا کروں گا۔۔۔کیا کبھی کبھی اسائنمنٹ بھی بنا دیا کریں گے؟ عرشیہ اپنی مطلب کی بات پہ آئی تو ازمیر نے بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔۔نہیں ایسا کوئی پلان نہیں ہے میرا اور نہ ہی ہوگا۔۔۔جائیں پھر آپ اچھے شوہر کی فہرست سے خارج ہو گۓ۔۔کوئ بات نہیں ہونے دوں ازمیر نے بھی سنجیدہ ہو کر کہا تو عرشیہ نے منہ بنا لیا۔۔۔ازمیر نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور اس کے گال پہ شدت بھری کس کرتے ہوئے چلا جاتا ہے اور عرشیہ اپنی کالج کی اسائنمنٹ بنانے لگ جاتی ہے اب وہ پر سکون سی تھی اور جلدی جلدی اپنا کام نمٹانے لگی



شادی کی تیاریاں خوب زور و شور سے چل رہی تھیں۔۔بازاروں کے چکر گھر کے کام سب بڑی تیزی سے ہو رہا تھا اور اس تیزی کے چکروں میں سب ہی گھن چکر بنے ہوۓ تھے۔۔۔مصطفٰی صاحب بھی بہت خوش تھے آخر خوش کیوں نہ ہوتے ان کے لاڈلے ہوتے کی شادی تھی۔۔دادا جانی اگر کو بینکنگ وغیرہ کروانی ہے یا کچھ اسپیشل کروانا ہے تو بتا دیں آخر آپ کے لاڈلے ہوتے کی شادی ہے کوئی بھی ارمان اپنے دل میں نہ رکھیے گا۔۔شیراز نے آکر انہیں چھیڑا۔۔۔نہیں سب کچھ اچھا ہے مجھے پسند آیا سب کچھ بہت اچھا انتظام کر رہے ہو۔۔۔ٹھیک ہے دادا جانی آپ کو پسند آگیا مطلب قیمت ادا ہوگئی شیراز نے خوشدلی سے کہا تو وہ مسکرانے لگے۔۔۔



آخر شادی کے دن بھی آ ہی گۓ آج مہندی تھی سب کچھ تیار تھا۔۔عرشیہ ازمیر شایان اور عریشہ کو لاکر سٹیج پر صوفے پہ بٹھا دیا گیا۔۔۔شایان اور ازمیر کی نظریں بھٹک بھٹک کر دونوں دلہنوں کی طرف جا رہی تھی۔۔۔بس کرو چھچھورو تمہاری ہی ہیں فیروز نے انہیں نوٹ کرتے ہوۓ کہا تو شایان تو شرمندہ سا ہو گیا جبکہ ازمیر ڈھیٹ بن کر فیروز کی طرف مڑا۔۔۔وہ دیکھ بھابھی اکیلی ہیں اور تمہارا ویٹ کر رہی ہیں۔۔۔نہیں کر رہی تم اپنی بکواس بند رکھو۔۔آپ چالو رکھیں پھر۔۔۔ازمیر نے دو بدو کہا۔۔۔چلو بھئ رام کرلو پھر بچوں نے بھی سونا ہوگا اتنا کہہ کر عائشہ نے آگے بڑھ کر مہندی لگائی اور بہت سی دعائیں دے کر اٹھ گئیں اس طرح سب رسم پوری کی اور پھر سب سونے چلے گۓ کیونکہ اگلے دن بارات تھی تو ہونی تھی۔۔۔



اگلے دن بارات پہ عرشیہ نے مہرون کلر کا لہنگا جس پہ سلور کلر کا کام ہوا ہوا تھا اور ازمیر نے بھی مہرون اور سلور کلر کے کمبینیشن کی شیروانی پہنی ہوئی تھی۔۔۔عریشہ نے مہرون اور گولڈن کا کمبینیشن کیا تھا تو شایان نے بھی گولڈن اور مہرون شیروانی پہنی تھی وہ سب بہت پیاری لگ رہے تھے ہر کوئی انہیں ستائشی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ تو جلے دلوں کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے لیکن وہاں پرواہ کسے تھی۔۔۔یونہی رسمیں پوری کرتے ہوۓ ان دونوں کو ان کے رومز تک پہنچا دیا گیا۔۔کچھ دیر بعد شایان بھی روم میں آیا تو عریشہ ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیٹھی تھی جیسے جیسے شایان نزدیک آ رہا تھا ویسے ویسے عریشہ کی دھڑکن تیز ہو رہی ہوتی ہے شایان اس کے قریب بیٹھ کر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے جو کہ برف کی مانند ٹھنڈے ہو رہے ہوتے ہیں۔۔ریلیکس عریشہ کیوں پریشان ہو۔۔تو وہ ہاں میں گردن ہلاتی ہے۔۔۔شایان نے اپنی جیب سے ایک ڈبیہ نکالی اور اس کے سامنے کھولی جس میں بہت ہی پیارا بریسلٹ تھا۔۔۔واؤ کتنا پیارا ہے عریشہ نے خوش ہوتے کہا تو شایان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے کیا اور اسے پہنا دیا۔۔۔بہت خوبصورت لگ رہی ہے میری جان۔۔۔شکریہ۔۔۔ہمم جاؤ چینج کر کے آو تو عریشہ آٹھ کر چینج کرنے چلی جاتی ہے اور تھوڑی ہی دیر میں چینج کر کے واپس آ جاتی ہے شایان اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لٹاتا اسے اپنے پیار کی بارش میں بھگونے لگتا ہے اور یوں دو جانیں ایک ہو جاتی ہیں