The Creature’s Love

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 5

ازمیر فریش ہونے کے بعد بیڈ پہ ڈھے سا گیا۔۔ابھی اسے لیٹے ہوئے بمشکل پانچ منٹ ہی ہوۓ تھے کہ کچھ یاد آنے پہ یک دم آٹھ کر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرکے کہیں فوکس کرنے لگا جب اسے مطلوبہ انفارمیشن مل گئی تو فوراً کمرے سے باہر نکلا اور وہ اپنی مخصوص گاڑی لے کر آیا جس کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا اس کے بعد گھر واپس آیا تو پہلے وہ صنم کے روم میں پہنچا اس کی مخصوص رگ دبا کر اسے بے ہوش کیا اس کے بعد عائزہ اور عریشہ کو بھی بے ہوش کرکے پہلے صنم اور عائزہ کو اٹھا کر کھڑکی سے جمپ کیا اور پچھلے گیٹ سے گاڑی میں بٹھایا اس کے بعد جمپ کرکے عریشہ کی کھڑکی میں پہنچا اور عریشہ کو لا کر گاڑی میں بٹھایا وہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر ایسے جمپ کرتا جیسے کوئی اڑ رہا ہو اور پھر ان تینوں کو لے کر ایک جنگل میں پہنچا اس نے خود کو مکمل طور پہ چھپایا ہوا تھا۔۔جنگل میں آکر اس نے تینوں کے چہروں پہ پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لایا جیسے ہی وہ ہوش میں آئیں تو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا لیکن جیسے ہی ان کے حواس بحال ہوۓ تو خود کو جنگل کے بیچ کھڑا دیکھ گھبرا گئیں اور سامنے ہوڈی میں چھپا شخص دیکھ کر چلانے لگیں۔۔۔شش اس نے اپنی انگلی منہ پہ رکھ کے چپ رہنے کا اشارہ لیا۔۔۔ک کون ہو تم کیا چاہتے ہو ہم سے؟ ابھی وہ کچھ اور پوچھتی کہ ازمیر نے اپنی مخصوص آواز سے ٹائیگرز بلاۓ اور انہیں سمجھایا کہ انہیں کچھ کہنا نہیں بس ڈرانا ہے تو وہ ٹائیگرز ان کے گرد گھومتے ہوۓ چنگھارنے لگے۔۔وہ تینوں ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگیں ان کی چیخیں سن کر ازمیر نے اپنی گردن مخصوص انداز میں گھمائ۔۔۔جب دیکھا کہ وہ تینوں بہت زیادہ ڈر گئی ہیں تو ٹائیگرز کو واپس بھیج دیا۔۔اور اپنی آواز بدل کر ان سے مخاطب ہوا۔۔۔اب اگر تم لوگوں کی وجہ سے عرشیہ ہرٹ ہوئی یا اس کی آنکھ میں ایک بھی آنسو کی وجہ تم میں سے کوئی ہوئی تو آج تو ٹائیگرز کو واپس بھیج دیا لیکن اگلی دفعہ تم تینوں کو ان کی خوراک بنادوں گا سمجھی تو وہ تینوں جلدی سے بولی نہیں ہم آئندہ اسے کبھی ہرٹ نہیں کریں گے اور نہ ہی کبھی رلائیں گے پلیز ہمیں معاف کر دو پلیز وہ تینوں رو رہی تھیں۔۔۔ہمم ٹھیک ہے آؤ میرے ساتھ میں تم لوگوں کو گھر چھوڑ آؤں۔۔۔اور وہ تینوں جلدی سے آگے بڑھیں۔۔ازمیر انہیں اپنی مخصوص گاڑی میں گھر چھوڑ کر خود اپنی گاڑی کو اس کی سیکریٹ جگہ پہ چھوڑنے چلا گیا اور وہ تینوں ڈری سہمی اپنے اپنے رومز میں چلی گئی لیکن ساری رات سو نہ سکیں
لیکن ان کے بر عکس ازمیر بہت سکون سے سویا
💫💫💫
صبح سب ناشتے پہ ہلکی پھلکی گپ شپ کر رہے تھے لیکن عریشہ صنم اور عائزہ آج بالکل چپ تھیں اور عرشیہ بھی گم سم سی تھی۔۔کیا ہوا لڑکیوں آج تم سب خاموش کیوں ہو خیریت تو ہے نا؟ جی جی دادا جانی ہم ٹھیک ہیں۔۔تینوں زبردستی مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔۔پھر چپ کیوں ہو؟ ایسے ہی رات لیٹ سوۓ نا تو سر درد کر رہا ہے عریشہ نے بہانا بنایا۔۔۔اچھا۔۔عرشیہ۔۔۔ہمم عرشیہ اپنے دھیان میں ناشتہ کر رہی ہوتی ہے جب عریشہ اسے بلاتی ہے۔۔۔وہ ت تم کسی ایسے انسان کو جانتی ہو جو عجیب سا ہو۔۔عریشہ کی بات سن کر عرشیہ کے ساتھ باقی سب بھی اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔۔عجیب مطلب؟ مطلب جیسے جانوروں کو سمجھنا انہیں سمجھانا سم تھنگ لائک ڈیٹ۔۔۔ابھی عریشہ پوچھ ہی رہی ہوتی ہے کہ ازمیر بھی نیچے آ جاتا ہے اور مسکراہٹ دباتے ہوئے اس کی بات سنتا ہے۔۔۔وہاں کوئی اور اس کی بات کا مطلب سمجھا ہو چاہے نہ سمجھا ہو لیکن مصطفیٰ صاحب کو سب پتا چل گیا تھا کہ یہ کس کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔۔۔یہ کیسی باتیں کر رہی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا بیٹا آپ نے کوئی ہارر مووی دیکھی ہو گی یا سٹوری پڑھیں ہوگی جس کا اثر ابھی تک تمہارے دماغ پہ ہے اور پھر عرشیہ کیسے جانتی ہوگی اسے وہ تو کہیں اکیلے جاتی بھی نہیں ہے عادل نے کہا تو عائزہ بول پڑی نہیں چھوٹے پاپا یہ سب مووی یا سٹوری کا اثر نہیں ہے ہم سب کہہ رہے ہیں۔۔۔تو سب عرشیہ کی طرف دیکھنے لگتے ہیں عرشیہ گھبرا کر نہیں بابا میں کسی کو نہیں جانتی۔۔۔لیکن تم لوگ یہ سب صرف عرشیہ سے ہی کیوں پوچھ رہی ہو ارتضیٰ نے پوچھا کیونکہ پاپا رات۔۔۔ابھی وہ کچھ بتاتی کہ اس کے موبائل پہ میسج آیا۔۔اس نے جب دیکھا تو اس میں لکھا تھا اگر تم لوگوں نے کسی کو کچھ بھی بتایا تو آج رات کی سزا کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔رات کو کیا بیٹا؟ ارتضیٰ پوچھنے لگے۔۔۔ک کچھ نہیں پاپا ہم تو ایسے ہی اسے ڈرا رہے تھے بھلا ایسے انسان کہاں دنیا میں ہوتے ہیں۔۔۔سب انہیں دیکھ کر نفی میں سر ہلاتے ہیں۔۔لیکن وہیں ازمیر کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ اُبھرتی ہے جسے وہ نہایت کمال سے چھپا لیتا ہے۔۔۔۔ناشتہ کرتے ہوۓ زارا کی نظر عرشیہ کے چہرے پہ جاتی ہے جہاں انگلیوں کے نشان تو نظر آنے کی حد تک مدھم تھے لیکن ہونٹ پہ زخم کا نشان تھا۔۔عرشیہ یہ تمہارے ہونٹ پہ زخم کیسے ہوا۔۔۔عرشیہ فوراً اپنے زخم کو چھوتے ہوئے غیر ارادی نظر ازمیر پہ جاتی ہے جو اسی کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔وہ ماما وہ نا میں چاکلیٹ کا ریپر منہ میں ڈال کر زور سے کھینچا کہ اس کا کارنر میرے ایسے لگ گیا۔۔۔زارا نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔۔۔پتا نہیں کب عقل آۓ گی اسے؟ ان کی بات سن کر عرشیہ کا منہ بن گیا ماما پتا نہیں کب خوش ہوں گی آپ مجھ سے ہمیشہ مجھے ڈانٹتی رہتی ہیں یا باتیں سناتی رہتی ہیں لگتا ہے میں آپ کی سوتیلی بیٹی ہوں۔۔۔مجھے بھی لگتا ہے کہ ہاسپٹل میں میری بیٹی چینج ہو گئی ہے۔۔۔اچھا تو جاکر کنفرم کر لیتیں۔۔۔مجھے پتا نہیں تھا کہ یہ احساس تب ہوگا جب تم اتنی بڑی ہو جاؤ گی چلیں کوئی نہیں آپ تو اللّٰہ کا شکر ادا کریں جس نے مجھ جیسی پیاری معصوم اور اتنی اچھی بیٹی سے نوازا۔۔۔تمہاری حرکتیں دیکھ کر شکر نہیں توبہ منہ سے نکلتی ہے۔۔۔دیکھیں میرے بہانے آپ اپنی بخشش کروا لیتی ہیں۔۔۔تم سے باتوں میں کوئی نہیں جیت سکتا۔۔۔ہاں جی وہ تو ہے عرشیہ نے اترا کر کہا اور وہاں بیٹھے سب لوگ ناشتے کے ساتھ ماں بیٹی کی لڑائی بھی انجوائے کر رہے تھے۔۔۔میرا ناشتہ تو ہو گیا اب میں دوبارہ سونے جا رہی ہوں مجھے آپ ڈسٹرب نہ کرنا۔۔۔کیوں سکول نہیں جانا۔۔نہیں ماما میں کل سے کافی تھک گئی ہوں اور رات بھی میں ٹھیک سے سوئی نہیں۔۔ سکول میں نیند آۓ گی تو وہاں بھی آپ کے جیسے جلاد ٹیچرز ہیں جو مجھے ڈانٹ کر کلاس سے رفو چکر کر دیں گے۔۔کوئ بہانا نہیں چلو سکول کی تیاری کرو تو عرشیہ نے معصوم منہ بنا کر اپنے پاپا کی طرف دیکھا اور آنکھوں سے التجا کی جس پہ عادل نے کہا کہ کوئی نہیں آج چھٹی کرنے دو کل سے چلی جاۓ گی۔۔۔عرشیہ بھاگ کر اپنے پاپا کے گلے لگی تھینک یو پاپا۔۔اور اوپر بھاگ گئی۔۔ آپ کی شہہ کی وجہ سے بگڑ رہی ہے۔۔۔کچھ نہیں ہوتا ابھی بچی ہے جب بڑی ہوگی تو سمجھ جاۓ گی۔۔۔
💫💫💫
ازمیر بھی اپنی سائٹ کی طرف نکلا جہاں کام تقریباً ختم ہو گیا تھا۔۔بس آج آخری دن تھا پھر یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور جلدی جلدی کام کروانے لگا اور دو سے تین دن میں وہ اپنا مکمل سیٹ اپ تیار کرنے کے بعد اپنا بزنس سٹارٹ کرنے کے لیے بے چین تھا۔۔۔
💫💫💫
ازمیر جب گھر واپس آیا تو اسے مصطفیٰ صاحب نے اپنے روم میں بلوایا۔۔جی دادا جانی۔۔۔بیٹھو مصطفیٰ صاحب نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ کہا تو وہ صوفے پہ بیٹھ گیا۔۔۔رات تم نے ان تینوں کو کیوں ڈرایا؟ دادا جانی وہ تینوں عرشیہ کی آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب بنی تھی جو میں بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔اچھا جو تمہاری وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں اس کے چہرے پہ تھپڑ کے نشان اور اسی تھپڑ کی وجہ سے زخم ہونا وہ سب کیا ہے۔۔۔دادا جانی وہ میری ہے میں چاہے اسے توڑوں کروڑوں یا جوڑوں جو مرضی کروں یہ میرا معاملہ ہے جو میری ملکیت میں ہے اس کے ساتھ میں جو مرضی سلوک کروں لیکن کسی اور کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے تھوڑا سا بھی نقصان پہنچاۓ۔۔۔اور عرشیہ اس کے ساتھ اگر کوئی برا کرنے کا سوچے گا بھی تو میں اس کا نام و نشان مٹا کر رکھ دوں گا۔۔۔اچھا کس حق سے تم اپنی ملکیت کہہ رہے ہو مت بھولو کہ ابھی اس کا تمہارے ساتھ صرف کزن کا رشتہ ہے اس کے علاوہ اور کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔تو پھر دیر کیوں کر رہے ہیں آپ بات کریں سب سے اور اسے میری ملکیت میں دے دیں ورنہ اگر میں خود اسے بنانے پر آیا تو آپ لوگوں کو بہت برا بھی لگے گا اور پھر کبھی کوئی مل بھی نہیں سکے گا اس سے آپ کو پہلے ہی بتا رہا ہوں میں پھر نہ کہنا کہ وارن نہیں کیا۔۔۔اتنا کہہ کر وہ چلا گیا اور مصطفیٰ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔۔۔
💫💫💫
شہیر اپنے روم میں جا رہا تھا کہ جاتے ہوۓ اس کی نظر صنم پہ پڑی جو کہ اپنے بیڈ پہ بکس بکھیر کر بیٹھی ہوئی تھی شہیر دبے پاؤں آیا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔۔کیا ہو رہا ہے؟ اچانک بولنے پر صنم ڈر گئی۔۔۔اور دل پہ ہاتھ رکھ کر آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔۔۔کیا کر رہی ہو اتنی ساری بکس بکھیر کر۔۔۔دیکھیں یہ کوایشن نہیں سمجھ آرہا ہے مجھے اس نے فنانشل اکاؤنٹنگ کی بک شہیر کے آگے رکھتے ہوۓ کہا۔۔شہیر نے دیکھا تو آنکھوں میں شرارت لیے مجھے آتا ہے یہ کوایشن لیکن تمہیں سمجھانے کے بدلے مجھے کیا ملے گا۔۔۔تو صنم نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا توبہ توبہ شہیر آپ کتنے لالچی ہیں آپ ی منکوحہ سے بھی معاوضہ وصول کریں گے شرم کریں صنم نے ہاتھ ہلا ہلا کر اس انداز میں کہا کہ شہیر کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔بھئ معاوضہ تو معاوضہ ہے وہ چاہے منکوحہ سے ہو یا کسی اور سے اب جلدی سے بولو سمجھنا ہے کہ نہیں۔۔۔ہاں سمجھنا تو ہے تو پھر بتاؤ بدلے میں کیا ملے گا؟۔۔۔ایک کہ اچھی سی کافی بولیں منظور ہے؟ نہیں ۔۔۔تو پھر اور کیا چاہئے؟ ایک پیاری سی کس۔۔۔شہیر کے ایسا کہنے پہ صنم کا چہرہ لال ٹماٹر کی طرح ہوگیا۔۔۔استغفراللّٰہ شہیر آپ کتنے موقع پرست ہیں۔۔۔ایسے تو ایسے صحیح۔۔بولو کیا کہتی ہو۔۔۔کچھ دیر سوچنے کے بعد اچھا چلیں ٹھیک ہے سمجھائیں تو صحیح تو شہیر اسے سمجھانے لگا ابھی آدھا کوایشن سمجھایا تھا کہ صنم جلدی سے بول پڑی ارے یہ یہاں سے ایسے تھا لو مجھے ادھر سے سمجھ نہیں آرہا تھا بس باقی کا میں خود کر لوں گی۔۔۔تھینک یو اس نے جلدی سے بکس اپنی طرف کیں۔۔۔چلو اب مجھے میری فیس تو دو احسان فراموش لڑکی۔۔۔کون سی فیس آدھا کوایشن سمجھا ہے اس لیے کوئی فیس نہیں۔۔۔کتنی بڑی دھوکے باز ہو تم۔۔ہم تو ایسے ہی ہیں۔۔مطلب تم اپنی بات سے مکر رہی ہو تم کس نہیں کرو گی تو صنم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ہاں نہیں کون گی۔۔۔ٹھیک ہے پھر مجھ سے اب بات بھی مت کرنا شہیر ناراض ہو کر اٹھ کر چلا گیا۔۔۔اور صنم کندھے اچکا کر پھر پڑھنے لگی اسے لگا شہیر مزاق کر رہا ہے وہ اس سے ناراض نہیں ہو سکتا۔۔اب یہ تو بعد میں پتا چلے گا کہ ناراض ہے یا مذاق ہے
💫💫💫
مصطفیٰ صاحب پریشان سے اپنے روم میں ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے۔۔پھر آخر کار ایک فیصلے پہ پہنچتے ہوئے وہ تینوں بیٹوں اور بہوؤں کو اپنے روم میں بلاتے ہیں۔۔جب وہ تینوں آ جاتے ہیں تو انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوے خود بھی بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔اور تھوڑی دیر چپ رہتے ہیں۔۔۔کیا بات ہے بابا سائیں آپ بہت پریشان نظر آرہے ہیں کیا بات ہے ہمیں بتائیں اگر کوئی پریشانی ہے تو ہم مل کر حل ڈھونڈ لیں گے عادل نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا تو وہ ان کی طرف دیکھنے لگے اور گلا کھنکار کر بات کرنے کے لیے خود کو تیار کیا۔۔میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اور میں اس فیصلے پہ اٹل ہوں میں آپ ا فیصلہ کسی بھی حالت میں بدلوں گا نہیں کیونکہ مجھے جتنے سب بچے عزیز ہیں ان سب میں سے ازمیر میرے لیے سب سے خاص ہے۔۔کچھ توقف کے بعد پھر بولے میں نے فیصلہ کیا ہے ازمیر کا نکاح عادل کی بیٹی عرشیہ سے کرنے کا۔۔تو سب کو لگا کہ یہ مذاق ہے لیکن مصطفیٰ صاحب کو ڈریس دیکھتے ہوئے۔۔۔لیکن بابا سائیں عرشیہ تو بہت چھوٹی ہے ازمیر سے اور ویسے بھی چھوٹی ہے۔۔۔میں جانتا ہوں لیکن یہ فیصلہ میں نے کچھ سوچتے ہوئے ہی کیا ہے۔۔مصطفٰی صاحب نے ازمیر کی پسند کا ذکر نہیں کیا کہ سب اسے برا ہی نہ سمجھنے لگ جائیں اور کوئی ازمیر کو کچھ کہے یہ مصطفیٰ صاحب کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔ازمیر لڑکیوں سے بہت چڑتا ہے کیونکہ لندن میں ایک لڑکی نے اسے چیٹ کیا تھا اس کے بعد اسے لڑکیوں سے سخت نفرت ہو گئی لیکن عرشیہ چھوٹی ہے اور معصوم ہے میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ اگر عرشیہ کی کسی بات پہ ازمیر کو غصّہ بھی آتا ہے تو وہ برداشت کر لیتا ہے اور ایک عرصے سے وہ مسکرایا تک نہیں تھا لیکن ایک مدت بعد ازمیر کے چہرے پہ سمائل آئ تو وجہ عرشیہ اور اس کی معصوم شرارتیں تھی۔۔اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ عرشیہ اور ازمیر کا نکاح کر دوں عرشیہ بدل دے گی ازمیر کو اور ازمیر بھی عرشیہ کو سنبھال لے گا۔۔سب ان کی باتیں بہت غور سے سن رہے تھے لیکن فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا۔۔۔بابا سائیں کیا ازمیر مان جاۓ گا ارتضیٰ نے اپنے بیٹے کی ضدی طبیعت کی وجہ سے ان سے پوچھا۔۔۔اسے منانا میرا کام ہے۔۔اگر تم لوگ نہیں مانیں تو میں اسے لیکر ہمیشہ کے لیے لندن چلا جاؤں گا کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔۔۔عائشہ جو کہ کب سے خاموش تھی تڑپ گئی نہیں بابا سائیں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔بابا سائیں ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں عرشیہ ہماری بیٹی ہے۔۔۔لیکن عادل اور زارا کی مرضی کے بنا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور عادل اپنے دل پہ بوجھ نہ رکھنا اگر تمہیں کوئی اعتراض بھی ہوگا تو ہم سمجھ سکتے ہیں یہ بیٹی کا معاملہ ہے اگر تم انکار بھی کروگے تو بھی ہمارے رشتے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا تم صرف اپنے دل کی سننا۔۔ارتضٰی عادل کا کندھا تھپتھپا کر وہاں سے چلے گئے ان کے پیچھے عائشہ بھی چلی گئی۔۔۔مرتضٰی اور سائرہ بھی وہاں سے چلے گئے۔۔۔عادل اور زارا کچھ دیر وہاں بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر جانے لگے کہ مصطفیٰ صاحب نے روک کر عادل صرف ایک ڈیفرنس دیکھ کر انکار مت کرنا اچھے سے سوچ کر فیصلہ کرنا تمہاری بیٹی بہت معصوم ہے اور اسے ازمیر سے اچھا کوئی نہیں سنبھال سکے گا باقی تمہاری مرضی۔

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial