قسط: 6
مصطفیٰ کی بات سن کر سب لوگ خاموش تھے اور اپنے اپنے رومز میں بند ہو گئے۔۔عادل یہ بابا سائیں نے کس مشکل میں ڈال دیا ہے ہمیں میری بیٹی بہت معصوم اور چھوٹی ہے میں اس کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی نہیں کر سکتی۔۔۔عادل اس کی بات سن کر چپ رہتے ہیں اور جیسے کسی سوچ میں ڈوبے ہوۓ ہوں۔۔۔دوسری طرف عائشہ پریشان ہوتی ہے ارتضیٰ اگر بابا سائیں اب ازمیر کو لندن لے کر گئے تو میں مر جاؤں گی جی نہیں پاؤں گی آپ پلیز عادل سے بات کریں نا کہ عرشیہ ہمیں دے دے بلکہ ایسا کرتی ہوں میں خود زارا کے پاس جاتی ہوں اس سے جھولی پھیلا کر عرشیہ مانگ لوں گی۔۔۔نہیں تم ایسا کچھ نہیں کرو گی جیسے ہمیں اپنا بیٹا عزیز ہے انہیں بھی اپنی بیٹی پیاری ہے ارتضیٰ نے عائشہ کو سمجھایا لیکن وہ نہیں مانی اور اٹھ کر زارا کے روم کی طرف بھاگی ارتضیٰ روکنے کے لیے اس کے پیچھے لپکے۔۔۔لیکن وہ پہلے ہی دروازہ کھٹکھٹا کر روم میں داخل ہو چکی تھی۔۔۔زارا نے جب روئ ہوئی عائشہ کی طرف دیکھا تو جلدی سے اٹھ کر اس کے پاس آئ کیا ہوا بھابھی آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔؟ عائشہ نے اپنا دوپٹہ زارا کے آگے پھیلایا۔۔اور روتے ہوۓ میں تم سے اپنے بیٹے کی بھیک مانگنے آئی ہوں پلیز میرے بیٹے کو جانے سے روک لو اگر اب کی بار گیا تو میں جی نہیں پاؤں گی پلیز زارا۔۔۔ارتضٰی جو کہ عائشہ کے پیچھے آیا تھا اسے پکڑ کر پاگل ہو گئی ہو تم اتنی خود غرض کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔آپ کو پتا ہے نا کہ پہلے ہی پچیس سال بعد میرا بیٹا مجھے ملا ہے ان پچیس سالوں میں میں پل پل مری ہوں اب اگر گیا تو میں مر جاؤں گی میں نہیں رہ سکتی اس کے بنا۔۔۔چلو آؤ انہیں اپنا فیصلہ کرنے دو ایسے کسی پہ بھی فیصلہ مسلط نہیں کرتے۔۔۔ارتضٰی عائشہ کو پکڑ کے لے جاتا ہے ابھی وہ لوگ دروازے تک پہنچتے ہیں کہ زارا کی آواز پہ دونوں رک جاتے ہیں اور پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔۔۔کیا کہا زارا تم نے زرا پھر سے کہنا عائشہ شاکڈ کھڑی پوچھ رہی ہوتی ہے۔۔۔ٹھیک سنا آپ نے مجھے ازمیر عرشیہ کے لیے قبول ہے میں راضی ہوں بابا سائیں کے فیصلے سے۔۔۔ عادل بھی زارا کی طرف دیکھتا ہے عائشہ بھاگ کر زارا کے گلے لگتی ہے۔۔۔تھینک یو زارا تو نے مجھے نئ زندگی دے دی تھینک یو سو مچ۔۔۔ارتضٰی اور عادل بھی ایک دوسرے کے گلے لگتے ہیں چلو یہ خوشخبری بابا سائیں کو سناتے ہیں تو چاروں اجازت طلب کرتے ہیں اور اجازت ملنے پر کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔۔ہاں بولو کیا بات ہے؟ بابا ہمیں آپ کا فیصلہ منظور ہے۔۔۔اتنا سن کر مصطفیٰ صاحب بہت خوش ہوۓ اور اپنے دونوں بیٹوں کو گلے سے لگا لیا اور کہنے لگے تم لوگوں کو نہیں پتا کہ تم لوگوں نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے تھینک یو سو مچ بیٹا۔۔۔ان سے الگ ہوتے عائشہ اور زارا کے سر پہ پیار سے ہاتھ رکھا اور ان کا بھی شکریہ ادا کیا



رات کو جب سب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے مصطفیٰ صاحب نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے۔۔۔ہم لوگ شایان کے ساتھ عریشہ کا اور ازمیر کے ساتھ عرشیہ کا نکاح کر رہے ہیں اس طرح گھر کی بیٹیاں گھر پہ ہی رہ جائیں گی اور اپنی آنکھوں کے سامنے بھی ہوں گی۔۔۔ان کے فیصلے پہ سب لوگ خوش تھے سوائے عرشیہ کے وہ ابھی بھی بے یقینی سے اپنے دادا جانی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں دادا جانی ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔کیوں بیٹا ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔؟ ازمیر بھائی مجھ سے اتنے بڑے ہیں۔۔۔تو کیا ہوا ایج میٹر نہیں کرتی ہوتی اسپیشلی لڑکوں کی۔۔۔وہ اتنے غصّے والے بھی ہیں۔۔۔اگر اس نے میری بیٹی پہ غصّہ کیا تو میں اسے ماروں گا بھی۔۔۔جو بھی ہو مجھے یہ رشتہ ہر گز منظور نہیں بس۔۔۔اتنا کہہ کر عرشیہ اٹھ کو اپنے روم میں چلی جاتی ہے۔۔۔وہاں بیٹھے سب لوگ چپ کر جاتے ہیں۔۔۔لیکن ازمیر وہاں بیٹھا مٹھیاں بھینچ کر اپنا غصّہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے جو کم ہونے کی بجاۓ بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔میں سمجھاتا ہوں آپ لوگ فکر نہیں کرو میں منا لوں گا عادل اٹھ کر کہتے ہوۓ عرشیہ کے روم کی طرف بڑھتے ہیں۔۔۔دروازہ ناک کرتے ہوۓ وہ اندر داخل ہوتے ہیں وہ سائیڈ لے کر لیٹی ہوتی ہے عادل جاکر اس کے پاس بیڈ پہ بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔کیا ہوا میری پرنسس بیٹی کو۔۔۔بابا اگر آپ یہ سوچ کر آۓ ہیں نا کہ آپ مجھے منا لیں گے تو بالکل غلط سوچا میں نہیں ماننے والی۔۔۔عادل اس کی بات سن کر مسکرانے لگے۔۔۔ادھر دیکھے میری بیٹی۔۔لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔۔زرا اٹھ کر تو بیٹھے میری پرنسس تو وہ منہ پھلا کر اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔دیکھو بیٹا ازمیر بہت اچھا لڑکا ہے میں نے اور تمہاری ماں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔۔۔لیکن بابا۔۔۔پہلے میری بات مکمل ہونے دو۔۔ہم نے سوچا ہماری بیٹی ہماری آنکھوں کے سامنے رہے گی ہمارے پاس۔۔۔اور ویسے بھی اس سے اچھا رشتہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔۔۔مجھے آپ کی کوئی بھی دلیل امپریس نہیں کر سکتی۔۔۔تو ٹھیک ہے تم مانو چاہے نہ مانو نکاح تو تمہارا تو ازمیر سے ہی ہوگا اور اگر تم نے انکار کیا تو میرا تم سے ہر رشتہ ختم۔۔۔۔اتنا کہہ کر وہ رکے نہیں اس کے کمرے سے نکلتے چلے گئے۔۔عرشیہ منہ کھولے صدمے سے انہیں جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔جو بھی ہو میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔۔میں آج رات ہی بھاگ جاؤں گی کہیں۔۔۔پھر بعد میں آکر منا لوں گی ہاں ایسا کرنا ٹھیک رہے گا۔۔۔وہ اپنے ننھے سے دماغ سے پلان بناتی لیٹ جاتی ہے



عادل ٹی وی لاؤنج میں آکر سب کو بتاتا ہے کہ عرشیہ مان گئی ہے تو سب خوش ہو جاتے ہیں اور ازمیر بھی سکون کا سانس لیتا ہے۔۔اور اپنے روم کی طرف چلا جاتا ہے۔۔ایک انجانی سی خوشی ہو رہی ہوتی ہے اسے۔۔جب وہ اپنی آنکھیں بند کرتا ہے تو اس کا ڈرا ڈرا سا روپ آنکھوں کے پردوں پہ لہراتا ہے جس سے ازمیر کی مسکراہٹ گہری ہوتی ہے۔۔۔دل میں یہ ٹھان لیتا ہے کہ اسے ہمیشہ خوش رکھے گا اس پہ کبھی ہلکی سی آنچ بھی نہیں آنے دے گا اور ہمیشہ اس کی حفاظت کرے گا۔۔اس کی ہر مشکل کو مجھ سے ٹکرانا پڑے گا۔۔۔یہی سب سوچتے ہوۓ وہ سو جاتا ہے۔۔دوسری طرف عرشیہ بھاگنے کی تیاری میں ہوتی ہے لیکن بیوقوف اتنا تو سوچتی ہی نہیں کہ بھاگ کر جاۓ گی کہاں بس گھر سے بھاگ جانے میں لگی ہوتی ہے۔۔وہ چادر لیتی خود کو اچھے سے کور کرکے باہر نکلتی ہے۔۔۔ازمیر کو ایک دم ہی سوتے میں بے چینی ہوتی ہے وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھتا ہے اور ادھر ادھر دیکھتا ہے۔۔۔مجھے کچھ عجیب کیوں لگ رہا ہے ایسا لگ رہا ہے وہ اٹھ کر بالکونی میں آکر ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے جب وہ نیچے گھر کے بیک سائیڈ کےگیٹ پر کسی کو بھاگتے ہوئے دیکھتا ہے۔۔اس کے روم کی بالکونی چونکہ گھر کی بیک سائیڈ پہ تھی جس کی وجہ سے اس کی نظر بھاگتے انسان پر پڑی وہ دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ یہ عرشیہ ہی ہے۔۔اور عرشیہ کو بھاگتے دیکھ کر ازمیر کا غصّہ عود آیا۔۔۔اس نے وہیں سے نیچے جمپ کیا اور اس کے پیچھے چل پڑا عرشیہ تیز تیز بھاگ رہی تھی جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک کر ایک جگہ کھڑی ہوئی تو اپنے سامنے کسی کے ہونے کا احساس ہوتا ہے جب وہ پیروں سے نظر اوپر کی طرف لیکر جاتی ہے تو اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔۔ازمیر سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑا اسے کڑے تیوروں سے گھور رہا ہوتا ہے۔۔۔وہ اپنے قدم پیچھے کو لیتے ہوۓ دوبارہ سے بھاگنا شروع کرتی ہے اور ازمیر اسے بھاگنے دیتا ہے بھاگتے ہوئے جب وہ اپنے پیچھے دیکھتی ہے کہ پیچھے کوئی نہیں ہے تو وہ رک جاتی ہے اور لمبے لمبے سانس لیتی ہے۔۔لیکن جیسے ہی وہ اپنے سامنے دیکھتی ہے تو ازمیر وہاں اس کے پاس ہی کھڑا ہوتا ہے۔۔۔وہ دائیں سائیڈ بھاگنا شروع کر دیتی ہے لیکن جب جب کھڑی ہوتی تو ازمیر کو اپنے سامنے پاتی۔۔عرشیہ بہت ڈر گئی لیکن ہمت نہیں ہاری وہ پھر بھاگی اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ آج اس سے جان چھڑا کر رہے گی لیکن وہ معصوم یہ نہیں جانتی تھی کہ آج وہ اپنی اس حرکت سے ہمیشہ کے لئے قید ہو کر رہ جاۓ گی۔۔اس دفعہ جب وہ بھاگی تو اس کا پاؤں زور سے کسی پتھر سے ٹکرایا جس سے وہ گرنے لگی اس سے پہلے کہ وہ گرتی اسے کسی کے مضبوط بازوؤں نے پکڑ لیا اور گرنے سے بچا لیا جب اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ازمیر ہی تھا جس نے اسے گرنے سے بچایا۔۔۔ایک تو وہ بھاگنے کی وجہ سے بہت زیادہ تھک گئ دوسرا ازمیر کا خوف اس پہ طاری ہو رہا تھا جس کی وجہ سے وہ ازمیر کے بازوؤں میں لڑھک گئی۔۔ازمیر نے اسے اپنی بانہوں میں بھرا اور چپکے سے گھر لے آیا اور اپنی بالکونی سے ہی روم میں آکر دروازے سے باہر ادھر ادھر دیکھا جب تسلی ہو گئی کہ باہر کوئی نہیں ہے تو عرشیہ کو اٹھا کر اس کے روم میں لے کر گیا۔۔ازمیر نہیں چاہتا تھا کہ گھر میں کسی کو بھی پتا چلے کہ عرشیہ گھر سے بھاگی تھی۔۔کیونکہ اگر گھر والوں کو عرشیہ کی اس حرکت کا پتا چلا تو وہ سب اس سے نفرت کرنے لگیں گے اور سب کی نظروں میں گر جاۓ گی جو کہ ازمیر بالکل نہیں چاہتا تھا کہ ایسا کچھ بھی ہو۔۔۔وہ سمجھتا ہے کہ وہ نادان ہے کچھ بھی کرتی ہے اس لیے اسے چپکے سے واپس اس کے روم میں لٹا کر اسے ہوش میں لے کر آیا۔۔۔لیکن جیسے ہی عرشیہ ہوش میں آئ پہلے تو کچھ بھی اسے سمجھ نہیں آیا لیکن جیسے جیسے حواس بحال ہوئے تو ازمیر کو دیکھ کر کپکپانے لگی۔۔۔وہ وہ میں آپ سے نکاح نہیں کرنا چاہتی اس لیے بھاگ گئی۔۔اچھا لیکن چھوٹے پاپا تو کہہ رہے تھے کہ تم مان گئی ہو۔۔۔جھوٹ بولا تھا انہوں نے وہ روتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔تم بھاگ کر کہاں جارہی تھی مطلب کس کے پاس جاتی؟ یہ سوال اس نے خود کے خدشے دور کرنے کے لیے پوچھا۔۔ازمیر کو اتنا تو یقین تھا کہ اس کا کسی کے ساتھ کوئی افئیر نہیں ہے۔۔لیکن دل کے کسی کونے میں ایک پھانس ہے جو وہ نکال دینا چاہتا تھا تاکہ ماضی کی کوئی بری پرچھائ ان کی زندگی پر نہ پڑے۔۔۔کہیں بھی چلی جاتی۔۔۔ اللّٰہ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں بھی چلی جاتی۔۔۔مجھ سے شا دی کیوں نہیں کرنا چاہتی۔۔۔؟ آپ مجھ سے اتنے بڑے ہیں اور مجھ پہ اتنا غصّہ کرتے ہیں پھر چھوٹی چھوٹی بات پہ سزا بھی دیتے ہیں۔۔اس کی باتیں سن کر ازمیر اپنی مسکراہٹ چھپاتا ہے۔۔۔ویسے جو تم نے آج حرکت کی ہے اس کی سزا تو بنتی ہے ویسے۔۔۔ن نہ نہیں نہیں پلیز اس دفعہ معاف کر دیں پلیز وہ باقاعدہ رونے لگ گئی سزا کا سن کر۔۔۔ٹھیک ہے یہ آخری دفعہ ہے۔۔۔اور ہاں جو تم نے بھاگنے والی حرکت کی ہے اس بارے میں کسی کو خبر نہ ہو سمجھی تو وہ جلدی سے ہاں میں گردن ہلاتی ہے۔۔۔ہمم چلو سو جاؤ اب اور خود بھی اپنے روم میں آکر سو جاتا ہے