قسط: 7
اگلے دن ناشتے پہ سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے سوائے عرشیہ کے وہ چپ بیٹھی تھی نہ کوئی شرارت نہ ہی کسی سے کوئی بات کر رہی تھی۔۔۔ازمیر مسلسل عرشیہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔عرشیہ کے دل میں یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں گھر والوں کو پتا نہ چل جاۓ کہ وہ رات کو بھاگنے والی تھی لیکن پھر خود کو تسلی دے لیتی کہ بتاۓ گا کون کیونکہ ازمیر کے علاوہ کسی کو خبر نہیں اور ازمیر نے خود اسے منع کیا ہے کسی کو بتانے سے۔۔۔کیا ہوا عرشیہ تم اتنی چپ کیوں ہو کوئی بات ہے کیا؟ زارا نے کافی دیر سے چپ بیٹھی عرشیہ سے پوچھا۔۔۔کچھ نہیں اس نے مختصر کہا۔۔کسی نے کچھ کہا۔۔؟ نہیں۔۔۔پھر یک لفظی جواب۔۔۔کوئ بات کیوں نہیں کر رہی نہ کوئی شرارت؟ کیا مصیبت ہے اگر بولو تو اعتراض نہ بولو تو مسئلہ۔۔۔آخر چاہتی کیا ہیں آپ؟ عرشیہ نے اٹھتے ہوۓ۔۔عرشیہ تمیز بھول گئ ہو کیا اس طرح بات کرتے ہیں اپنی ماں سے عادل نے ٹوکتے ہوۓ کہا۔۔۔ہاں جی اسی طرح کرتے ہیں۔۔۔چٹاخ۔۔۔زارا نے اس کے منہ پہ تھپڑ ماڑا۔۔عرشیہ منہ پہ ہاتھ رکھ کے اپنے روم کی طرف بھاگ گئی۔۔۔سارے دم بخود ہوکر بیٹھے ہوۓ تھے چلو تم سب ناشتہ کرو بچی ہے سمجھ جائے گی۔۔کوئ بات پریشان کر رہی ہوگی اسے جب ٹھیک ہو گی تو دیکھنا خود ہی معافی مانگنے آۓ گی مصطفیٰ صاحب نے سب کی توجہ عرشیہ سے ہٹاتے ہوئے کہا تو سب لوگ ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگئے لیکن ازمیر مسلسل عرشیہ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔۔دو چار نوالے لینے کے بعد وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ گیا اور اوپر جانے لگا۔۔ازمیر اپنے کمرے کی بجائے عرشیہ کے روم کی طرف بڑھا۔۔۔دروازہ ناک کیا لیکن کوئی رسپانس نہیں آیا۔۔دوسری دفعہ پھر ناک کیا لیکن پھر بے سود۔۔تیسری دفعہ ناک کرنے کی بجاۓ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔۔۔عرشیہ چپ کر کے لیٹی ہوئی تھی۔۔۔تمہیں سنائی نہیں دیتا میں کب سے دروازہ ناک کر رہا ہوں ۔۔۔وہ چپ رہی۔۔۔ازمیر اس کے پاس جا کر بیٹھا۔۔۔کیا بات ہے؟ کچھ نہیں۔۔۔کچھ تو ہوا ہے جو ایسے بیہیو کر رہی ہو اور نیچے زارا ماما سے اور چھوٹے پاپا سے بھی اتنی بدتمیزی کی۔۔۔بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟ اگر میں مسئلہ بتاؤں گی تو کون سا کوئی اس کا حل کرے گا الٹا وہ مسئلہ بڑھانے کا سبب بنے گا۔۔۔ایک دفعہ بتا کر تو دیکھو۔۔۔میں۔۔۔ہمم بولو۔۔۔میں یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی۔۔۔لگتا ہے تم اس طرح نہیں مانو گی مجھے کچھ الگ کرنا پڑے گا تمہارے ساتھ پھر ہی تم مانو گی۔۔۔عرشیہ کے چہرے پر خوف کا سایہ لہرایا۔۔۔ڈرتے ہوۓ کہنے لگی دیکھا میں نے کہا تھا ناں کہ مسئلہ بڑھے گا۔۔۔یہ تو تمہیں رات کو بتاؤں گا کہ میں مسئلہ بڑھاتا ہوں کہ کم کرتا ہوں۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ اتنا کہہ کر ازمیر اٹھ کر چلا گیا۔۔لیکن عرشیہ کو ٹینشن دے گیا۔۔۔اس نے خود کو کمرے میں لاک کر لیا۔۔۔میں دروازہ ہی نہیں کھولوں گی۔۔بجاتے رہیں۔۔۔سارا دن بھی کمرے میں رہی نہ ناشتہ کیا نہ لنچ اور اب نہ ہی ڈنر پہ گئی۔۔حتی کہ وہ بلانے پہ بھی نہیں گئی۔۔۔سب پریشان تھے۔۔باری باری سب دروازہ بجاتے رہے لیکن عرشیہ نے دروازہ نہ کھولا۔۔بند دروازے کے پیچھے سے ہی سب کو واپس بھیج دیا۔۔۔ازمیر لب بھینچے سب دیکھتا رہا۔۔۔اپنے روم میں خود کو کام میں مصروف کرنے ک کوشش کرنے لگ گیا۔۔۔لیکن دھیان بھٹک بھٹک کر عرشیہ کی ہٹ دھرمی کی طرف جا رہا تھا۔۔ازمیر خود کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ عرشیہ کے ساتھ سختی نہ کرے لیکن جب ازمیر یاد آتا ہے کہ کیسے اس نے سارا دن خود کو بند رکھا اور خود کو بھوکا رکھ کر تکلیف دی یہ سب سوچتے ہوئے اس کا غصّہ بڑھ رہا تھا وہ اپنا غصّہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا کبھی اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلنے لگ جاتا تو کبھی بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے میں زور سے بھینچ لیتا۔۔لیکن غصّے سے رگیں تنی ہوئی تھیں آنکھیں ایسے کہ ابھی خون ٹپک پڑے گا۔۔اس کو کس نے حق دیا خود کو اذیت میں رکھنے کا عرشیہ صرف میری ہے اس لیے اسے خود بھی حق نہیں ہے خود کو تکلیف دینے کا۔۔۔وہ خود بھی خود کو تکلیف نہیں دے سکتی۔۔۔وہ غصّے میں بڑبڑاتے ہوئے روم سے نکلا اور تیزی سے عرشیہ کے روم کی طرف بڑھا۔۔جب دروازہ کھٹکھٹایا تو عرشیہ ڈر گئی اور ہراساں ہو کر دروازے کو دیکھنے لگی اسے پتا تھا کہ اس وقت ازمیر ہی ہو سکتا ہے۔۔م می میں در دروازہ نہیں کھولوں گی۔۔۔چلیں جا جائیں آپ یہاں سے۔۔۔مجھے پتا ہے آ آپ مجھے پھر اندھیرے میں بند کر دیں گے۔۔میں ن نہ نہیں کھولوں گی۔۔۔لیکن عرشیہ کو یہ نہیں پتا تھا کہ ازمیر کے پاس ڈوپلیکیٹ چابی بھی ہے ازمیر واپس اپنے روم میں گیا ڈرار سے چابی نکالی اور عرشیہ کا دروازہ کھول کر اندر آگیا۔۔عرشیہ اس پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے یقین نہ کرنا چاہ رہی ہو کہ ازمیر سچ میں اس کے سامنے ہے۔۔ازمیر کے چہرے پہ چٹانوں سی سختی تھی وہ لب بھینچے آہستہ آہستہ عرشیہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔عرشیہ جلدی سے بیڈ سے اٹھی اور باتھروم کی طرف بھاگنے لگی۔۔اس سے پہلے کہ وہ خود کو باتھروم میں بند کرتی ازمیر نے اس کے ارادے بھانپتے ہوئے تیزی سے اس کی طرف لپکا اور ایک ہی جست میں اس کا بازو پکڑ کر کھینچا اور اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔عرشیہ کا بازو ابھی بھی ازمیر کی گرفت میں تھا۔۔عرشیہ خوف سے کانپ رہی تھی اور اس کا کپکپانا ازمیر واضح طور پہ محسوس کر رہا تھا۔۔یوں لگ رہا تھا کہ اگر ازمیر نے بازو نہ پکڑا ہوتا تو وہ گر جاتی۔۔ازمیر کے ڈر سے اس کی حالت غیر ہو رہی تھی اور مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی خود کو اذیت پہنچانے کی۔۔می م میں نے ک کب خود کو ا اذیت پہنچائی۔۔یوں کچھ نہ کھا کر خود کو کمرے میں بند رکھ کر خود کو اذیت پہنچانا ہی تو یے۔۔۔میں اگر تمہیں کل جب تم بھاگی تھی تب ہی سزا دے دیتا تو اچھا تھا لیکن تم نے میری نرمی کا نا جائز فائدہ اٹھایا۔۔ڈب سے بڑھ کر خود کو تکلیف میں رکھا۔۔اب تم بچ کے دکھاؤ آج نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔۔تم اگر یہ سوچ رہی ہو نا کہ یہ سب کرو گی اور میں نکاح سے انکار کر دوں گا تو یہ بھول ہے تمہاری۔۔میں صبح ہی دادا جانی سے کہتا ہوں کہ ہمارا نکاح کروا دیں۔۔۔یہ سب سن کر عرشیہ کی زبان تالو سے چپک گئی اس میں بولنے کی سکت ہی نہ رہی رنگت ایسے سفید پڑ گئی جیسے کاٹو تو مانو خون ہی نہ ہو بازو ابھی بھی ازمیر کی آہنی گرفت میں تھا۔۔لیکن اس سے پہلے چلو میرے ساتھ ازمیر اسے کھینچتے ہوئے لے جانے لگا کہ عرشیہ جیسے ہوش میں آئ۔۔ک کہاں لے جارہے ہیں آپ مجھے؟ میں نہیں جاؤں گی چھوڑیں مجھے…ازمیر اسے ابھی لے جانے لگا کہ کچھ یاد آنے پر اس کا ہاتھ چھوڑا اسے صوفے پہ بٹھایا ادھر سے ہلنا نہیں بالکل بھی اگر تم ادھر سے ادھر ہوئی تو بہت بری طرح سے پیش آؤں گا میں ابھی آتا ہوں۔۔۔اسے ہدایت کرتا خود کچن کی طرف آیا اور کھانا گرم کرکے عرشیہ کے لیے لے کر آیا۔۔یہ لو کھانا کھاؤ۔۔عرشیہ جس نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا اور بھوک بھی بہت لگ رہی تھی۔۔اس لیے بنا چوں چرا کے کھانا کھانے لگی۔۔۔جب وہ کھا چکی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔آپ کہ کہاں لے کر جا رہے ہیں پلیز چھوڑ دیں مجھے۔۔۔شش خبردار اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو جان لے لوں گا تمہاری۔۔عرشیہ فوراً ڈر کے چپ کر گئی۔ ازمیر نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور زن سے گاڑی اڑا کے لے گیا۔۔۔عرشیہ آنکھوں میں خوف لیے چپ کرکے بیٹھی ہوئی تھی اس میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ پوچھ سکے کہاں لے کر جارہے ہو۔۔۔ایک جگہ لا کر گاڑی روکی عرشیہ کو بازو سے پکڑ کر باہر نکالا۔۔عرشیہ نے باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھا تو وہاں ایک گھنا جنگل تھا۔۔ازمیر اسے بازو سے پکڑ کر اندر کی طرف لے جانے لگا۔۔۔ی یہ آپ م مجھے ک کہ کہاں لے کر جارہے ہیں میں نے نہیں جانا چھوڑیں مجھے۔۔۔عرشیہ نے مزاحمت کرتے ہوۓ خود کو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن کہاں کمزور اور نازک سی عرشیہ اور کہاں ازمیر رائل جیسا مضبوط انسان۔۔۔عرشیہ کے لیے اس کی آہنی گرفت سے خود کو چھڑوانا نا ممکن ہی تو تھا۔۔۔ازمیر اسے لے کر انھیرے میں جنگل کے بیچ و بیچ لا کر کھڑا کر دیا۔۔اور خود کہیں چھپ گیا۔۔۔آج اس نے جنگلی جانوروں کو نہیں بلایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عرشیہ اندھیرے سے اتنا ڈرتی ہے کہ مرنے والی ہو جاتی یے اگر جنگلی جانوروں کو بلا لیا گیا وہ تو سب میں ہی مر جاۓ گی اس لیے جانوروں کو بلانے کا ارادہ ترک کرکے اسے اندھیرے میں کھڑا کرکے۔۔۔اب ادھر ہی رہو میں جا رہا ہوں تم نے اگر مجھ سے نکاح نہیں کرنا تو تمہیں جینے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔۔اگر تم میری نہیں ہو سکتی تو تمہاری زندگی بھی تمہاری نہیں رہے گی۔۔۔نہیں پلیز مجھے یہاں نہیں رہنا عرشیہ روتے ہوۓ اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتی ہے لیکن وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر جنگل میں ہی ایسی جگہ چھپ جاتا ہے کہ عرشیہ پر نظر رکھ سکے۔۔۔عرشیہ زور زور سے چلانے لگتی ہے بچاؤ بچاؤ کوئی ہے ازمیر بھائی پلیز واپس آ جائیں پلیز واپس آجائیں آپ جو کہو گے میں مانوں گی پلیز مجھے لے جائیں وہ مسلسل روتے ہوۓ ازمیر کو بلا رہی تھی۔۔روتے روتے وہ بیٹھ گئی اور تھک کر اب آہستہ آواز میں رو رہی تھی لیکن اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔۔۔تقریباٌ دو گھنٹے بعد جب عرشیہ رو رو کر بری طرح نڈھا ہو گئی تو ازمیر اس کے قریب آیا۔۔تو بتاؤ کیا فیصلہ ہے تمہارا ازمیر نے گھمبیر آواز میں پوچھا۔۔۔جیسے ہی عرشیہ نے ازمیر کی آواز سنی تو اس سے لپٹ گئی۔۔۔ازمیر بھائی شکر آپ آگۓ آپ کو پتا میں کتنا ڈر گئی تھی آپ مجھے اتنے گھنے جنگل میں اتنے اندھیرے میں اکیلی کو چھوڑ گئے۔۔۔مجھے اندھیرے سے اتنا ڈر لگتا ہے۔۔وہ مسلسل اس کے ساتھ لگی بڑبڑا رہی تھی ازمیر کو اس کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا لیکن یہ سب اس کے لیے ضروری تھا ازمیر اس کے بال سہلاتے ہوئے چپ کروانے لگا۔۔۔پھر بتاؤ کرو گی مجھ سے نکاح۔۔۔میری زندگی میں میری زندگی بننے کے لیے تیار ہو یا پھر اب میں سچ میں تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں آخر میں دھمکی دینا اس نے ضروری سمجھا۔۔۔نہیں آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جانا آپ جو کہو گے میں مانوں گی۔۔۔جیسا کہو گے ویسا کروں گی لیکن مجھے اپنے ساتھ لے جائیں پلیز۔۔ ہمم گڈ ازمیر نے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا اس کے بال ٹھیک کرتے ہوئے اس کے آنسو صاف کیے۔۔۔چلو اب گھر چلیں اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور ہاتھ پکڑتے ہوئے جنگل سے باہر آیا اور اسے گاڑی میں بٹھا کر خود ڈرائیو کرنے لگا۔۔۔راستے میں آتے ہوۓ ازمیر کو آئسکریم پارلر نظر آیا اس نے گاڑی روکی تو عرشیہ نے گھبرا کر ازمیر کی طرف دیکھا کہ اب کیوں گاڑی روک دی کہیں کوئی نئ سزا تو نہیں تیار۔۔ازمیر نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا جس کی آنکھوں میں خوف پھیلا ہوا تھا۔۔آئسکریم کھاؤ گی تو عرشیہ کی نظروں نے یکدم حیرانگی کا تاثر لیا۔۔بتاؤ کون سا فلیور کھاؤ گی؟ چاکلیٹ فلیور عرشیہ نے آہستہ سے جواب دیا۔۔ازمیر جانے لگا لیکن کچھ سوچ کر آ جاؤ اکٹھے ادھر جا کر ہی کھاتے ہیں تو عرشیہ اثبات میں سر ہلاتے ہوۓ گاڑی سے اتری اور ساتھ میں چل پڑی وہ دونوں آئسکریم پارلر میں انٹر ہوۓ دو آئسکریم آرڈر کی۔۔۔بھوک تو نہیں لگی تمہیں۔۔اگر کچھ اور کھانا ہے تو بتا دو ہم کسی ریسٹورنٹ میں چلے جائیں گے۔۔۔نہیں مجھے بھوک نہیں ہے بس آئسکریم ہی کھاؤں گی۔۔۔پکا؟ ہاں جی پکا۔۔ٹھیک ہے۔۔۔ویٹر آئسکریم لے کر آ گیا دونوں نے خاموشی سے آئسکریم کھائی۔۔۔از ازمیر بھائی۔۔بھائ مت کہنا آئندہ۔۔عرشیہ نے ہاں میں گردن ہلائی۔۔بولو کیا چاہئے۔۔۔وہ ایک آئسکریم اور کھانی ہے میں نے آنکھیں نیچے کرکے آہستہ سے بولی۔۔تو ازمیر مسکرانے لگا۔۔ویٹر ںسے کہہ کر ایک لیٹر والا باکس پیک کروایا اور عرشیہ کو پکڑا دیا یہ پوری تمہارے لیے پیٹ بھر کے کھانا تو وہ خوش ہوتے ہوۓ تھینک یو ازمیر بھا۔۔۔ابھی اس نے بھا ہی بولا ازمیر نے گھورا تو جلدی سے چپ کرکے منہ دوسری طرف کر لیا۔۔۔گھر پہنچ کر عرشیہ چپکے چپکے دبے پاؤں اپنے روم کی طرف جا رہی تھی۔۔۔ایسے چپکے سے کیوں جارہی ہو کس بات کا ڈر تو عرشیہ نے ازمیر کو منہ پہ انگلی رکھ کے چپ کروایا ششش۔۔۔کسی کو پتا نہ چلے ورنہ آئسکریم شئیر کرنی پڑ جاۓ گی جو کہ میں نہیں چاہتی ۔۔ازمیر کا بے ساختہ ہلکا سا قہقہہ نکلا۔۔۔جاؤ میں دیکھتا ہوں اگر کوئی آ گیا تو میں روک لوں گا۔۔ٹھیک ہے اور عرشیہ بھاگ کر اپنے روم میں چلی گئی۔۔۔ازمیر نفی میں سر ہلاتے ہوئے مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے آیا۔۔۔آپ؟ اب کیا غلطی ہو گئی۔۔۔نہیں کوئی غلطی نہیں ہوئی بلکہ جو غلطی پہلے کی اس کو صبح سدھارنا ہے۔۔عرشیہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔جو تم نے زارا ماما اور چھوٹے پاپا سے بدتمیزی کی صبح ان سے سوری کرنا اوکے ازمیر بچوں کی طرح سمجھاتے ہوئے بولا۔۔اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اوکے۔۔گڈ گرل اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے۔۔چلو اب جلدی سے سو جاؤ صبح پھر سکول بھی جانا ہے۔۔نہیں پہلے میں آئسکریم ختم کر لوں۔۔نہیں تو مجھے اسی ٹینشن میں ساری رات نیند نہیں آۓ گی کہ کوئی کھا ہی نہ جاۓ۔۔۔اور پھر صبح خالی باؤل سب کو دکھا کر جیلس کروں گی کیسا دیں تالی عرشیہ نے ازمیر کے آگے ہاتھ کرتے ہوئے کہا تو ازمیر نے آئ برو اوپر کرتے ہوۓ دیکھا۔۔ تو جلدی سے عرشیہ ہاتھ پیچھے کرنے لگی لیکن اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ پیچھے ازمیر نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ مارا تو عرشیہ بے ساختہ خوش ہو کر کھلکھلا نے لگی۔۔۔اس کے بال بکھیرتے ہوئے مسکراتے ہوئے چلو میں چلتا ہوں تم بھی جلدی سو جانا۔۔



صبح ناشتے پہ جب سب لوگ ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے تھے۔۔عرشیہ سکول جانے کے لیے تیار ہو کر آئ اور سب کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔اپنی ماما اور پاپا کی طرف دیکھتے ہوئے ڈئیر پیرینٹس آئ ایم سوری مجھے آپ دونوں سے بدتمیزی نہیں کرنا چاہئیے تھی۔۔۔اس کے سوری کرنے کے انداز پہ سب مسکرانے لگے۔۔اٹس اوکے بیٹا آئندہ خیال رکھنا عادل نے اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔جی۔۔ٹھیک ہو تم؟ زارا نے پوچھا تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔۔ویسے ڈئیر پیرینٹس آپ لوگوں کو بھی سوری کرنی چاہیے۔۔کیونکہ مدر نے مجھے تھپڑ مارا اور فادر نے بھی ڈانٹا۔۔ہاں بھئ سوری کرنا تو بنتا ہے میری شہزادی کو مصطفیٰ صاحب نے اس کی تائید کی تو عادل اور زارا دونوں نے باری باری اسے کے سر پہ بوسہ دے کر سوری کیا تو عرشیہ نے شاہانہ انداز میں اٹس اوکے کہا۔۔۔تو سب لوگ ہنسنے لگے۔۔عرشیہ نے بے ساختہ ازمیر کی طرف دیکھا تو ازمیر نے آنکھوں کو داد دینے کے انداز میں اٹھایا اور سر کو خم کیا۔۔۔عرشیہ نے جلدی سے اپنی نظریں پھیریں اور اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔۔مجھے سکول سے دیر ہو رہی ہے اللّٰہ حافظ اور وہ جلدی سے گیٹ کی طرف بڑھی جہاں ڈرائیور پہلے سے گاڑی لے کر کھڑا تھا۔