قسط: 9
ماما کہاں ہو آپ؟ عرشیہ اپنی ماما کو آوازیں دے رہی تھی۔۔۔کیا ہوا کیوں چلاتی رہتی ہو؟ ماما میں نے شاپنگ کرنے جانا ہے آپ کب تک فری ہوں گی۔۔؟ ماما صرف دو دن رہ گۓ ہیں اور میری کوئی تیاری ہی نہیں ہے اتنی ساری چیزیں لینی ہیں۔۔کل چلیں گے آج تو آپ کے پاپا کے مہمان آ رہے ہیں۔۔اچھا۔۔چلیں ٹھیک ہے۔۔لیکن کل لازمی چلنا اوکے۔۔اوکے بیٹا۔۔اور وہ ٹی وی لگا کر بیٹھ گئ۔۔۔شایان آفس سے تھکا ہوا آیا اور ٹی وی لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا۔۔۔عرشیہ چاۓ ہی پلادو شایان نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔۔عرشیہ نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔۔شان بھائی اب آپ عریشہ آپی کی ذمہ داری ہو اسے کہیں کہ آپ کو چاۓ بنا کر دے۔۔اچھا ایسے تو پھر ازمیر کی ذمہ داری تم پہ ہو تم نے کتنی دفعہ اسے چاۓ بنا کر دی۔۔۔پیچھے ہی ازمیر آکر کھڑا ہو گیا اور ان کی ساری گفتگو سن رہا تھا شایان کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور عرشیہ کا جواب سننے کو کھڑا ہو گیا۔۔سب سے پہلی بات انہیں پتا ہے مجھے چاۓ بنانا نہیں آتی سیکنڈ وہ کہتے ہیں کہ میں پرنسس ہوں میں کام کرتے ہوئے اچھی نہیں لگتی بلکہ آرڈر دیتی اچھی لگتی ہوں۔۔۔کیا واقعی ازمیر ایسا ہی ہے کیا؟ شایان نے ازمیر کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا تو عرشیہ ایک دم بوکھلا گئی۔۔۔اور ازمیر کی طرف دیکھتے ہوۓ گھبراتے ہوۓ وہ وہ ازی میں میں ایسے ہی مزاق کر رہی تھی یہ مجھے تنگ کر رہے تھے نہ اس لیے عرشیہ نے سارا الزام شایان پر لگا دیا۔۔۔توبہ لڑکی میں نے کب تنگ کیا۔۔۔ازمیر نے عرشیہ کی طرف قدم بڑھاۓ تو وہ گھبرا گئی۔۔۔وہ ازی میں اس سے کوئی بات نہ بن پائ۔۔ازمیر نے اس کے کندھوں پہ بازو پھیلاتے ہوۓ شایان کی طرف دیکھا۔۔ہاں عرشیہ ٹھیک کہہ رہی ہے یہ میری پرنسس ہے اور یہ کام کرتے ہوۓ مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تو عرشیہ حیران ہوتی ازمیر کی طرف دیکھنے لگی اور شایان نے سر کو خم دیا۔۔۔لگتا ہے اب دادا جانی سے ہی درخواست کرنی پڑے گی۔۔۔اوہ نو شان بھائی کتنے بڑے احسان فراموش ہیں آپ۔۔۔تو شایان اور ازمیر دونوں نے سوالیہ نظروں سے عرشیہ کی طرف دیکھا۔۔۔کیا مطلب میں نے کیا کیا۔۔۔دیکھیں نہ سائرہ ماما نے آپ کو بچپن سے آج تک چاۓ کیا کھانا وغیرہ سب کچھ بنا کر دیا ہر طرح خیال رکھا اور آج آپ کا رشتہ طے ہو گیا تو چاۓ پینے کے لیے دادا جانی سے درخواست کریں گے کہ عریشہ کو جلدی سے آپ سے منسلک کر دیں ماں کا پیار بھول گئے توبہ توبہ میں بتاتی ہوں بڑی ماما کو کہ ان کا بیٹا ابھی سے بدل گیا ہے بعد میں میری بہن کو الزام مت دیں۔۔۔اس کی پوری بات سن کر ازمیر کا بے ساختہ قہقہہ نکلتا ہے۔۔۔اور شایان اسے گھر کر دیکھتا ہے۔۔چھٹکی بہت دماغ چلانے لگی ہو۔۔میرے ہاتھوں ضائع نہ ہو جانا۔۔۔خبردار اگر میری عرشیہ کو دھمکی دی تو۔۔اس سے پہلے کہ عرشیہ کچھ بولتی شایان کی بات سن کر فوراً ازمیر نے وارن کیا تو شایان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوۓ سوری مائ لارڈ غلطی ہو گئی معافی کا طلبگار ہوں۔۔۔ٹھیک ٹھیک ہے جائیں معاف کیا تخلیہ۔۔عرشیہ نے شاہانہ انداز میں کہا تو شایان تھوڑا سا جھکا اور چلا گیا۔۔۔اس کے جانے کے بعد عرشیہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور ازمیر اس کو کھلکھلاتا ہوا دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔اور اس کے بال بکھیرتے ہوۓ چلا گیا۔۔اوہو ایک تو ان کو میرے بالوں سے پتا نہیں کیا مسئلہ ہے۔۔۔



رات سب کھانا کھانے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر اکٹھے تھے جب مصطفیٰ صاحب نے سب کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جمعہ والے دن ازمیر عرشیہ شایان اور عریشہ کا نکاح کردیا جاۓ لیکن بابا اتنی جلدی میرا مطلب انتظامات کیسے ہوں گے؟ انتظام تو ایک دن میں بھی ہو جا تا ہے مصطفیٰ صاحب کہنے لگے۔۔۔تو سب چپ کر گئے ٹھیک ہے بابا سائیں جیسا آپ کہیں۔۔۔اصر سب چپ کر گئے لیکن ازمیر اور شایان کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے سب کھانا کھا کر فارغ ہوۓ تو سب ایک دوسرے سے نکاح کا ڈسکس کرنے لگے۔۔مصطفٰی صاحب اپنے روم میں گئے تو ازمیر بھی ان کے پیچھے چلا گیا اور جا کر انہیں زور سے ہگ کرتے ہوئے تھینک یو دادا جانی مصطفیٰ صاحب مسکراتے ہوئے تمہارے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں میرے شیر تو ازمیر مسکرانے لگا۔۔ویسے آپ نے اتنی جلدی نکاح کیوں رکھا پھر ہفتہ کو عرشیہ نے بھی ٹرپ بھی جانا ہے۔۔پتا نہیں بیٹا مجھے لگا کہ جمعہ کو نکاح کر دینا چاہیے تو میں نے فیصلہ کر لیا۔۔۔جی لیکن خیال کیجیئے گا کہ عرشیہ کا ٹرپ کینسل نہ ہو وہ اپنے ٹرپ کو لے کر بہت ایکسائٹڈ ہے۔۔نہیں ہوگا کینسل۔۔ٹھیک ہے۔۔۔



عرشیہ پریشان سی ادھر ادھر گھوم رہی تھی آج منگل ہے مطلب ابھی میری ٹرپ کی شاپنگ بھی نہیں ہوئی اور اوپر سے دادا جانی نے نکاح کی اناؤسمنٹ بھی کر دی اوہ گاڈ اب کیا ہوگا فرائ ڈے کو نکاح اور پھر سٹرڈے کو ٹرپ۔۔یا اللّٰہ کہیں ٹرپ پہ جانا کینسل نہ ہو جائے۔۔۔وہ ایسے ہی سوچتی ہوئی عریشہ کے روم میں چلی جاتی ہے۔۔عریشہ آپی وہ اسے آواز دیتی ہے۔۔ہاں آجاؤ۔۔آپی میں نہ بہت پریشان ہوں۔۔۔کیوں کیا ہوا؟ دیکھیں نا دادا جانی کو پتا بھی ہے کہ سٹرڈے کو میرا ٹرپ ہے اور فرائ ڈے کو نکاح رکھ دیا اگر میرا ٹرپ کینسل ہو گیا تو؟ وہ دکھی ہوتے کہتی ہے۔۔نہیں ہوتا تم اگلے دن چلی جانا کیونکہ سب کو پتا ہی ہے کہ تمہارا ٹرپ ہے سٹرڈے کو۔۔لیکن آپی اپنی ماما کا تو پتا ہی ہے نا آپ کو وہ بہت کوشش کریں گی کہ میں نہ جا سکوں۔۔۔کچھ نہیں ہوتا تم فکر نہ کرو نہیں ہوتا کینسل ٹرپ تمہارا۔۔۔شیور نا؟ ہاں شیور۔۔اچھا چلو میں چلتی ہوں۔۔۔



اگلے دن سکول جانے کے لیے تیار ہوئی۔۔تو اپنا سیل فون چھپانے لگی لیکن سمجھ نہیں آیا کہ کہاں چھپاۓ پھر دماغ میں اچانک ہی آئیڈیا آیا
وہ اپنا موبائل لے کر روم سے باہر آئ اور ازمیر کا دروازہ ناک کیا۔۔۔کم اِن۔۔عرشیہ نے سر آگے کر کے جھانکا۔۔ارے میری کرسٹل ڈول آؤ نا ازمیر نے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔وہ آپ سے ایک کام ہے۔۔ہاں ہاں بتاؤ نا۔۔۔آپ میرا موبائل اپنے پاس رکھ لیں جب میں آؤں گی تو لے لوں گی سکول میں الاؤ نہیں ہے اور اگر آپ ے روم میں چھپایا بھی تو عریشہ لوگ ڈھونڈ کر چھپا لیں گی اور پھر مجھے بہت ستائیں گی۔۔اگر ماما کو دیا تو ان سے بھی کسی بہانے لے لیں گی اور آپ کے روم میں کوئی نہیں آتا اور نہ ہی آپ سے کوئی مانگے گا۔۔ ٹھیک ہے ادھر کپبوڈ میں رکھ دو تو وہ آگے بڑھ کر ادھر رکھ دیتی ہے۔۔۔اور جانے لگتی ہے لیکن کچھ یاد آنے پر پھر مڑتی ہے۔۔وہ آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔۔ازی جو کہ لیپ ٹاپ پہ مصروف ہوتا ہے سر اٹھا کر سوالیہ نظروں سے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتا ہے عرشیہ تھوڑا گھبرا جاتی ہے۔۔۔وہ وہ میں نے پوچھنا تھا۔۔۔ریلیکس۔۔۔ریلیکس ہو کر پوچھو جو بھی پوچھنا چاہتی ہو۔۔۔وہ نکاح کی وجہ سے میرا ٹرپ تو کینسل نہیں ہوگا نا؟ کیونکہ ماما کا آپ کو پتا ہے وہ بہت بہانے بنائیں گی میرے نا جانے کے لیے۔۔۔ڈونٹ وری نہیں ہوگا میں نے پہلے ہی دادا جانی سے بات کر لی ہے۔۔۔رئیلی؟ تھینکس وہ خوش ہوتے ہوۓ چلی گئی۔۔ازمیر نفی میں سر ہلاتے دوبارہ لیپ ٹاپ پہ متوجہ ہوا



نکاح کے سارے انتظامات تقریباً ہو گۓ تھے۔۔کچھ خاص رشتے داروں کو بھی مدعو کر لیا گیا تھا۔۔کچھ لوگ تو خوش تھے لیکن بہت سے لوگوں کو ازمیر کے نکاح پہ اعتراض تھا۔۔کیونکہ ازمیر جیسا لڑکا ان کے ہاتھوں سے نکل رہا تھا انہوں نے اپنی ناراضگی ظاہر بھی کردی تھی لیکن ان سب کا منہ ازمیر اچھی خاصی باتیں سنا کر بند کر دیا۔۔لیکن جیسے ہی شبینہ کو ازمیر کے نکاح کا پتا چلا تو وہ غصّے میں بپھر گئ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ازمیر میرے علاوہ کسی اور کا ہو جاۓ یہ میں نہیں ہونے دوں گی میں یہ نکاح نہیں ہونے دوں گی۔۔میں عرشیہ کو جان سے مار دوں گی وہ چھٹانک بھر لڑکی مجھ سے ازمیر کو چھینے گی مجھ سے شبینہ درانی سے۔۔۔مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔۔۔وہ غصّے میں ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔۔اچانک سے اس کے دماغ میں ایک پلان آیا اس نے فوراً اپنا سیل فون اٹھایا اور کوئی نمبر ڈائل کرنے لگی دوسری طرف بیل جا رہی تھی تقریباً تیسری بیل پہ کال اٹینڈ کر لی گئی۔۔ہیلو۔۔ہاں ہیلو جنید کہاں ہو اس وقت؟ میں دوستوں کے ساتھ پارٹی میں ہوں۔۔اچھا مجھے کام ہے تم سے ہاں بولو نہیں فون پہ نہیں بتا سکتی تم مجھ سے کل ملو پھر بتاتی ہوں۔۔۔ٹھیک ہے اور پھر فون کٹ کرنے کے بعد شبینہ کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی اور اپنے بیڈ پہ گرنے کے انداز میں لیٹ گئی۔۔اب میں دیکھتی ہوں کہ تم کس طرح اس سے نکاح کرتے ہو؟ ہاہاہاہاہا شبینہ نے مکروہ قہقہہ لگایا۔۔اگلے دن فرسٹ ٹائم ہی شبینہ جنید سے ملتی ہے کہو کیا بات ہے جو اتنی جلدی ملنے کے لیے بلایا مجھے جنید نے پوچھنے پر شبینہ اسے اپنا پلان بتاتی یے۔۔۔ہمم ٹھیک ہے کام ہو جاۓ گا۔۔مجھے پتا تھا کہ تم ہی میرا کام کر سکتے ہو اور دونوں کافی پی کر اپنے اپنے گھر کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔۔۔



فرائ ڈے کو عرشیہ اور عریشہ دونوں ہی تیار ہونے پارلر جاتی ہیں اور انہیں شہیر لے کر جاتا ہےجیسے ہی وہ پارلر جانے کے لیے نکلتی ہیں ان کی گاڑی کو ایک اور گاڑی فالو کر رہی ہوتی ہے۔۔شہیر انہیں پارلر چھوڑ کر خود واپس چلا گیا۔۔ابھی دس منٹ ہی ہوۓ تھے پارلر آۓ کہ ایک لڑکی آئی۔۔۔یہاں عرشیہ کون ہے؟ جی میں ہوں۔۔آپ کو باہر کوئی ازمیر کو بلا رہا ہے۔۔تو وہ عریشہ کی طرف دیکھتی ہے۔۔جاؤ شائد کوئی کام ہو۔۔عرشیہ اٹھ کر باہر چلا گئ۔۔عریشہ نے کافی دیر تک انتظار کیا جب عرشیہ باہر سے نہیں آئی تو عریشہ دیکھنے کے لیے باہر گئی۔۔وہاں دیکھا عرشیہ کی چوڑیاں ٹوٹی ہوئی پڑی تھیں۔۔اور اس کا ائیر رنگ بھی پڑا تھا عریشہ سب دیکھتے ہوئے بہت پریشان ہوئی۔۔اس نے فوراً اپنے پاپا کو کال کی۔۔۔ہی ہیلو پاپا وہ عرشیہ۔۔۔کیا ہوا عرشیہ کو جلدی بتاؤ۔۔۔پاپا وہ عرشیہ کڈنیپ ہو گئ ہے۔۔۔کیااااا؟ کیسے ہوا یہ سب شہیر تو تم لوگوں کو پارلر کے اندر چھوڑ کر آیا تھا۔۔۔پاپا وہ باہر سے ایک لڑکی آئی کہتی عرشیہ کو ازمیر بلا رہا ہے تو میں نے کہا جاؤ جا کر بات سن آؤ اور وہ چلی گئی جب کافی دیر تک واپس نہیں آئ تو میں نے باہر جا کر دیکھا تو اس کی چوڑیاں ٹوٹی ہوئی پڑی تھیں اور اس کا ائیر رنگ بھی نیچے پڑا ہوا تھا۔۔۔عادل صدمے سے وہیں صوفے پہ ڈھے گیا۔۔اور سب لوگ اس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔۔۔کیا ہوا آپ کو؟ زارا نے پوچھا تو اس نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا پھر سب کی طرف دیکھتے ہوۓ میری بیٹی کڈنیپ ہو گئ۔۔۔کیا کون؟ عرشیہ۔۔۔کیاااا لیکن کیسے تو اس نے ساری تفصیل جو عریشہ نے اسے بتائ تھی وہ سب کو بتائ اور ساتھ ہی شایان کو کہا کہ عریشہ کو لے کر آۓ شایان نے فوراً گاڑی نکالی اور عریشہ کو لینے نکل گیا جب شایان پارلر پہنچا تو عریشہ وہیں بیٹھی رو رہی تھی اس کی حالت خراب ہو رہی تھی شایان بھاگ کر عریشہ کی طرف آیا پنجوں کے بل عریشہ کے پاس بیٹھ کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے اس کا چہرہ اوپر کیا۔۔۔عریشہ تم ٹھیک ہو تو وہ اور زور سے رونے لگی۔۔شان وہ عرشیہ۔۔۔عرشیہ پتا نہیں کس حال میں ہوگی۔۔شایان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے۔۔تم فکر نہیں کرو ہم سب ہیں نا ہم ڈھونڈ لیں گے اسے۔۔چلو آؤ گھر چلیں تو عریشہ ہاں میں سر ہلاتی ساتھ چل پڑی۔۔شایان نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کر زن سے گاڑی بجھاتا گھر پہنچا۔۔۔گھر میں سب لوگ پریشان تھے جب عریشہ گھر پہنچی تو سب اس کی طرف لپکے تو وہ روتے ہوئے بتانے لگی وہ بھی گھبرائ ہوئی تھی اس کو صوفے پہ بٹھا کر پانی پلایا۔۔۔ازمیر کا غصّے سے برا حال تھا اس پہ اس کی پاورز حاوی ہونے لگیں جب مصطفیٰ صاحب نے اس کی حالت دیکھی تو اسے زبردستی روم میں بھیجا روم میں خود کو لاک کرکے پہلے تو اوپر منہ کرکے چلانے لگا پھر آنکھیں بند کرکے عرشیہ کو تصور میں لاتے ہوۓ فوکس کرنے لگا اور اسے مطلوبہ انفارمیشن مل گئی تھی اب بس انتظار تھا کہ کب اس کی پاورز پہ کنٹرول ہو اور وہ باہر نکلے کیونکہ دن کا ٹائم تھا تو وہ اس حالت میں باہر نہیں نکل سکتا تھا۔۔شبینہ بھی اس جگہ پہنچ چکی تھی جہاں عرشیہ کو کڈنیپ کر کے لایا گیا جب شبینہ کو وہاں لایا گیا عرشیہ شبینہ کو دیکھ کر روتے ہوئے شبینہ آپی شکر ہے آپ ادھر ہیں دیکھیں یہ پتا نہیں کون ہے جو مجھے کڈنیپ کرکے لے آۓ ہیں۔۔شبینہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے چچچچچ بیچاری عرشیہ بےبی کڈنیپ ہو گئ وہ بھی اپنے نکاح والے دن اوہو یہ تو بہت برا ہوا اب گھر والوں کی بدنامی بھی ہوگی۔۔۔اور عرشیہ کے قریب آکر منہ پہ زور سے تھپڑ لگایا تھپڑ اتنی زور دار تھا کہ عرشیہ لڑکھڑا گئی اور منہ پہ ہاتھ رکھ کے شبینہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔تو میرے ازمیر سے نکاح کرے گی تیری اتنی ہمت شبینہ غصے سے پاگل ہوتی اس کے بال مٹھی میں پکڑ کر اتنی زور سے کھینچنے لگی کہ عرشیہ کی چیخیں نکلنےلگی اور ساتھ ہی اس کے منہ پہ تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی اسے گرا کر اس کی کمر میں اور پیٹ میں ٹانگوں سے مارنے لگی شبینہ بالکل پاگل ہو چکی تھی جب جنید نے عرشیہ کی حالت دیکھی تو شبینہ کو پکڑا بس کرو وہ مر جاۓ گی۔۔۔ خود کو چھڑوانے ہوۓ مارنا ہی تو چاہتی ہوں میں اس کی ہمت بھی کیسے ہوئی ازمیر کے بارے میں سوچنے کی عرشیہ تو کب کی بے ہوش ہو چکی تھی۔۔۔جنید کبھی تم نے کم عمر لڑکی کے ساتھ انجوائے کیا تو جنید نے نفی میں سر ہلایا تو شبینہ ہنستے ہوئے چلو آج میں تمہیں موقع دیتی ہوں اس لڑکی کے ساتھ جیسے دل میں آۓ اسی طرح فل انجوائے کرو جیسے مرضی ٹریٹ کرو اسے کوئی تمہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔۔۔تو جنید چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ سجاۓ عرشیہ کی طرف بڑھا اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا لیکن یہ بھی صد شکر کہ عرشیہ کو ہوش نہیں آرہا تھا جس کی وجہ سے جنید اپنا شیطانی کھیل روکے ہوئے تھا۔۔۔دوسری طرف تقریباََ ایک گھنٹے بعد کافی حد تک نارمل ہوا تو کھڑکی سے جمپ لگا کر باہر نکل گیا۔۔۔اور تیزی سے اپنی گاڑی لی اور مطلوبہ جگہ کی طرف بڑھا۔۔وہ جلد سے جلد مطلوبہ جگہ پہنچنا چاہتا تھا اس نے فل سپیڈ میں گاڑی دوڑاتے ہوۓ مطلوبہ جگہ پہنچا۔۔جلدی سے گاڑی سے نکلا اور اندر کی جانب بڑھا۔۔اندر سے ازمیر کو عرشیہ کے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔پلیز دور رہو مجھ سے میرے پاس مت آنا میں مار ڈالوں گی خود کو بھی اور تمہیں بھی عرشیہ کو ہوش آگیا تھا جب ہوش آیا تو جنید کو خود کے قریب دیکھ کر فوراً آٹھ کر بیٹھنے لگی لیکن پیٹ اور کمر میں شدید درد کی لہر اٹھی اور کراہ کر رہ گئی لیکن ہمت کرتے ہوۓ دوبارہ اٹھنے لگی اور پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر بمشکل خود کو کھڑا کیا۔۔جنید جو کہ اسے ہی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا اس کی طرف بڑھا اور اس کا ڈوپٹہ گلے سے نکال کر پھینکا۔۔تو عرشیہ نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔جیسے جیسے جنید اس کی طرف بڑھ رہا تھا عرشیہ پیچھے کی طرف قدم بڑھا رہی تھی آخر کار وہ دیوار کے ساتھ جا لگی۔۔۔جنید اس کے پاس گیا اور بازوؤں سے اس کی قمیض پھاڑ دی عرشیہ روتے ہوۓ کبھی اس کی منتیں کر رہی تھی تو کبھی اس کو دھمکا رہی تھی۔۔۔شبینہ یہ سب دیکھ کر جنید سے بولی کیا کر رہے ہو جنید جلدی سے اپنا کام کرو اور نکلو ادھر سے۔۔۔جو مزہ تڑپانے میں ہے وہ ویسے کہاں۔۔اور جیسے ہی جنید نے اس کی شرٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا اس سے پہلے کہ وہ اس کی سامنے سے شرٹ پھاڑتا دروازہ زور سے کھلا۔۔شبینہ نے اور جنید نے بوکھلا کر دیکھا تو ازمیر کو سامنے دیکھ کر دونوں کے اوسان خطا ہو گئے۔۔ت تم یہاں؟ شبینہ کی زبان لڑکھڑائ۔۔عرشیہ نے ازمیر کو دیکھا تو بھاگ کر اس کی طرف آئی اور اس کے بازو سے لپٹ گئی۔۔۔ازی دیکھیں شبینہ آپی نے مجھے کڈنیپ کروایا اور دیکھیں میرا کیا حال کیا بہت مارا مجھے۔۔میرے بال بال کھینچے منہ پہ تھپڑ مارے اور اور مجھے گرا کر میری کمر اور پیٹ میں ٹانگوں سے مارا پھر اس لڑکے نے میرے کپڑے بھی پھاڑ دیے۔۔۔عرشیہ روتے ہوۓ ازمیر کو سب بتا رہی تھی۔۔ازمیر نے اپنی شرٹ اتاری اور عرشیہ کو پہنائ۔۔جاؤ گاڑی میں جا کر بیٹھو میں آتا ہوں۔۔۔تو عرشیہ جلدی سے باہر نکل کر گاڑی کی طرف بڑھی اور خود ازمیر ان دونوں کی طرف غصے سے بڑھا اور شبینہ کے بال مٹھی میں اتنی زور سے پکڑے کہ شبینہ کو لگا اس کے بال جڑ سے نکل جائیں گے۔۔اور دوسرے ہاتھ سے جنید کی گردن پکڑ کر دبانے لگا جنید کی آنکھیں باہر کو آنے لگی اس کا سانس بند ہونے لگا پھر دونوں کو جھٹکے سے چھوڑا کہ دونوں زمین بوس ہوۓ ان دونوں کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی کی بیک سائیڈ پہ گرایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پہ آکر بیٹھا۔۔۔عرشیہ کی طرف دیکھا جو نڈھال سی آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔۔۔کرسٹل ڈول ادھر دیکھو اس کا چہرہ تھپتھپاتے ہوۓ اسے بلایا عرشیہ نے تھوڑی سی اپنی آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا۔۔یہ لو پانی پیو۔۔اسے پانی پلایا۔۔اس کا منہ صاف کیا۔۔۔شبینہ یہ سب دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔۔۔کیا کمی ہے مجھ میں جو تم میری طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور اس میں ایسا کیا خاص ہے جو اس کی اتنی کئیر کر رہے ہوں شبینہ نے غصّے سے چلاتے ہوۓ پوچھا۔۔۔تمہاری حیثیت میرے لیے ایک ٹشو پیپر جتنی بھی نہیں ہے۔۔کیونکہ ٹشو پیپر کو بھی استعمال کے کچھ دیر بعد ہی پھینکا جاتا ہے لیکن تم تو استعمال کے قابل بھی نہیں ہو اور رہی بات عرشیہ کی تو وہ میرے لیے میری زندگی ہے میری سانسیں ہے میری سانسوں کی جگہ عرشیہ میرے جینے کا سبب ہے۔۔۔میں تمہاری یہ سانسیں چھین لوں گی یہ وعدہ ہے میرا۔۔اس قابل رہو گی تو ہی چھینو گی نا اتنا کہہ کر ازمیر گاڑی سٹارٹ کرتا ہے اور ایک مخصوص جگہ لے کر جاتا ہے وہاں ایک چھوٹا سا گھر بنا ہوتا ہے۔۔۔وہ جنید اور شبینہ کو باہر نکال کر گھر کے اندر لے جا کر ایک روم کو اپنے فنگر پرنٹ سے کھولتا ہے اور انہیں وہاں بند کرکے خود دوبارہ گاڑی میں آکر گاڑی کو رائل مینشن کی جانب بڑھاتا ہے ۔۔۔مینشن میں پہنچ کر وہ گاڑی سے اتر کر عرشیہ کی سائیڈ آتا ہے اور نڈھال عرشیہ کو بانہوں میں اٹھا کر اندر کی طرف بڑھتا ہے۔۔۔سب لوگ عرشیہ کی حالت دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور اس کی طرف لپکتے ہیں عرشیہ کے بال بکھرے ہوتے ہیں اور چہرے پہ تھپڑوں کے نشان واضح ہوتے ہیں زارا تو رونے لگ جاتی ہے عادل اس کی حالت دیکھ صدمے کی کیفیت میں آ جاتا ہے۔۔۔چھوٹے پاپا عرشیہ بالکل ٹھیک ہے کچھ۔نہیں ہوا اسے میں ٹائم سے پہنچ گیا تھا اللّٰہ کا شکر یہ بالکل محفوظ ہے ازمیر کے کہنے پہ عادل اسے کھینچ کر گلے لگاتا ہے تھینک یو سو مچ بیٹا آج تم نے میری بچی کو بچا لیا۔۔بہت بڑا احسان کر دیا تم نے تو اپنے چھوٹے پاپا پہ۔۔چھوٹے پاپا یہ تو میرا فرض تھا اور ویسے بھی وہ آپ کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ میری ہونے والی بیوی بھی ہے ازمیر کی بات سن کر عادل نم آنکھوں سے مسکراتے ہیں۔۔۔چلیں اب اس کو ہوش میں لاتے ہیں جب اس کی حالت سنبھلتی ہے تو پھر نکاح کی رسم بھی پوری کرنی ہے۔۔۔اور عرشیہ کو اٹھا کر اس کے روم میں چھوڑتا ہے اس کے ساتھ ہی زارا اور عریشہ بھی عرشیہ کے روم میں آ جاتی ہیں باقی سب بھی آنے لگتی ہیں لیکن مصطفیٰ صاحب روک دیتے ہیں کہ عرشیہ گھبرا جاۓ گی۔۔عرشیہ کو اس کے کمرے میں چھوڑ کر خود اپنے روم میں آ جاتا ہے اسے بس رات ہونے کا انتظار ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے کام کو انجام تک پہنچا سکے