قسط: 12
”ازر جب سے گھر واپس آیا تھا طوبیٰ کا مخروطی چہرہ نظروں میں سمائے چاند کو دیکھ رہا رہا تھا۔
یہ شال تمھارے پاس ہی رہے گی اور تمھیں میری محبت کا احساس دلائے گی۔ شال واپس اسے اڑاتے حیا و غصے سے سرخ چہرہ یاد آیا آزر کی ذرا قربت میں اس کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا تھا۔
”میری جان کیا بنے گا تمھارا خود سے باتیں کر رہا تھا۔






”ایک نئی صبح کا آغاز ہوا
چوہدری ہاوس میں سب ناشتے کیلئے ٹیبل پر موجود تھے۔
“سائرہ.! آپ لوگوں کی شوپنگ مکمل گئی یا ابھی بھی کچھ رہتا ہے۔ چائے کا گھونٹ بھرتے آریان صاحب نے پوچھا۔
ابو جی.! ابھی تو بہت کچھ رہتا ہے۔ بریڈ سلائس پر مکھن لگاتے لائبہ نے بتایا۔
”تو پھر آپ لوگ ایسا کریں ایک دو دن کا بریک لے لیں بیٹا.! کیوں کے آج مجھے کسی ضروری کام سے شہر سے باہر جانا ہے تو گاڑی اور ڈرائیور میرے ساتھ جائے گا۔ مسئلہ بتاتے ہوئے تجویز دی۔
نہیں ابو جی ایک ہفتہ رہ گیا ہے شادی میں اور ابھی بہت سے کام رہتے ہیں، ابھی تو آپی کی شوپنگ رہتی ہے۔ آئزہ متفکرانہ انداز میں گویا ہوئی
”ابو جی.! مجھے کچھ نہیں چاہیے اور میں آپ سب سے ایک بات کہنا چاہتی ہو پلیز کوئی ناراض نہ ہو خاص کر کہ لائبہ اور آئزہ۔ وہ جو خاموشی سے اپنا ناشتے کرنے میں مگن تھی اپنے ذکر بولی جس پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے۔
”ابو جی میں پوری شادی میں شامل نہیں ہو سکتی آپ کو پتا ہے لوگ کیسی عجیب عجیب نظرو سے دیکھ رہے تھیں منگنی میں، جب تو آئزہ تھی میرا خیال کر رہی تھی اب تو آئزہ بھی دلہن بن جائے گی تو پھر میں کیسے لوگو کی چوبھتی ہوئی نظریں اور سوال مجھ سے برداشت نہیں ہوتے تو پلیز.؟ لائبہ آئزہ مجھے فورس نہیں کرنا کے میں شادی میں شامل ہو میری دعائیں تم دونوں کے ساتھ مگر میں نہیں۔ چمچ کو پلیٹ چلاتے وہ اپنے آنسوں چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
لیکن آپی.! دونوں بہنیں یک زبان بولیں۔
تم دونو کی رخصتی میں ضرور آؤں گی مگر کسی اور تقریب میں نہیں تم جانتی ہو ہلہ گلہ شور شرابہ مجھے ویسے بھی نہیں پسند۔ یہ سب کہتے وہ کس کرب سے گزری تھی یہ صرف وہی جانتی تھی۔
پلیز از آ ریکوسٹ.! دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائی
”ٹھیک ہے آپی.! لیکن رخصتی میں آپ ضرور آئے گی وعدہ کریں۔ وہ بنا کسی ضد بحث کے فورا مان گئی جس پر وہ خوش بھی تھی اور اداس بھی۔
آریان اور سائرہ اپنی بیٹیوں کو دیکھ خوش تھیں مگر کہیں نہ کہی وہ طوبیٰ کے یوں شادی آنے سے منا کرنے کی وجہ سے واقف تھے اسلئے اندر سے وہ بھی دکھی تھی۔
”اہم.!! اہم.!!“ اریان صاحب نے گلا کھنکارا تو پھر سے سب آریان صاحب کی طرف متوجہ ہوئے۔
”تو میں جو کہہ رہا تھا اس کا کیا آج مجھے ڈرائیور کی ضرورت ہے۔ دھیان دلایا۔
“تو ابو جی.! ہم شوپنگ پر کیسے جائیں گیں.؟ آئزہ کو فکر لاحق ہوئی۔
”تم کل چلی جانا.!ابو جی کہہ رہے ہیں ناں ٹائم نہیں ہے۔ حل پیش کیا۔
”اچھا چلو کچھ سوچتے ہیں.! ابو جی کیوں نہ ہم آزر بھائی کو بلا لیں۔ کچھ سوچتے ہوئے آئزہ نے تجویز پیش تو طوبیٰ نے متعجب نظروں آئزہ کو دیکھا
“ایک دن صبر کرنے کے بجائے تم کسی غیر کے ساتھ جاؤ گی۔اسنے اپنی حیرت کو الفاظ دیے۔
”آپی آپ سے کس نے کہا وہ غیر ہیں، وہ تو اپنوں سے بھی بڑھ کر اپنے ہیں، آپ نہیں جانتی وہ بھی بہت اچھے ہیں اگر آپ ہاں کر دے تو میں آپ کی شادی ازر بھائی سے کروا دوں۔ وہ روانی میں بنا سوچے سمجھے بولی چلی گئی۔
آئزہ۔۔۔!!“ آج تو یہ بات کہہ دی آئندہ ایسی بات کہنے سے پہلے سوچ لینا۔طوبیٰ نے غصے سے کہتی وہاں سے چلی گئی۔
”آئزہ بیٹا.! کیوں تنگ کرتی ہو آپی کو۔! سائرہ نے خفگی سے ٹوکا۔
”ابو جی.! اب آزر بھائی سے کیے وعدے کا پاس ہی ہے جو اب تک ہم نے ابھی تک بتایا نہیں، لیکن آپ نے دیکھا وہ تو آزر بھائی کا نام سننا بھی گوارہ نہیں کر رہی تو شادی کیلئے کیسے مانے گی، آپی کو منانے کی ساری زمیداری آزر بھائی کے سپرد کر کہ ہم یوں لاتعلق تو نہیں ہو سکتے سارے معاملے سے، ہمیں آزر بھائی ہی لے کر جائیں گے، ٹھہرے ابھی کال کرتی ہوں۔ سنجیدگی سے کہتے آئزہ کال کرنے چلی گئی تھی
“آریان صاحب مجھے نہیں لگتا کے طوبیٰ مانے گی شادی کے لیے آپ نے دیکھا وہ کیسے غصّہ کر کے گئی ہے۔ سائرہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
”امی جی.! ہم منا لیں گیں آپی کو، آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں اور ازر بھائی نے کہا تھا ناں وہ منا لیں گیں آپی کو۔لائبہ نے تسلی دی اتنے میں آئزہ واپس آئی۔
”ازر بھائی آرہے ہیں۔ آئزہ نے اطلاع دی
”اچھا پھر میں چلتا ہوں واپس آکر میں خود طوبیٰ سے بات کروں گا مجھے یقین وہ میری بات نہیں ٹالے گی۔ کرسی سے اٹھتے آریان صاحب نے کہا اور نکلتے چلے گئے۔









“آپی ہم لوگ جا رہے ہیں.! لائبہ نے دروازے کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے بتایا۔
”اچھا ٹھیک ہے.!
ایک بار بھی نہیں پوچھا تھا کے کس کے ساتھ جا رہے ہو کیونکہ کے ازر کی آواز وہ سن چکی تھی.
“آئی نہیں تمہاری سڑیل بہن۔ وہ جو طوبیٰ کا منتظر تھا لائبہ کو اکیلے آتا دیکھ پوچھا۔
”نہیں بھائی وہ ابھی پینٹنگ کر رہی ہیں ابھی انھیں کوئی ڈسٹرب نہیں کر سکتا۔ لائبہ نے بتایا۔
”چلو واپسی پر دیکھ لیں گیں آپ کی سڑیل بہن کو.! شریر انداز میں کہتے وہ باہر نکلا
”اچھا جی.! میں بتاتی ہوں آپی کو کہ آپ انھیں سڑیل کہتے ہیں.؟ گاڑی میں بیٹھتے ڈراوا دیا جس پر وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے ہنس دیا۔
نہ تو میں کوئی غلط بات کہہ رہا ہوں جو تو مجھے اپنی چڑیل بہن کی دھمکی دے رہی ہو کیوں آنٹی میں۔ اسکی بات کا جواب دیتے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی سائرہ بیگم سے تائید چاہی۔جس پر وہ اسے دیکھ کر رہ گئی جیسے اپنی بیٹی کی قسمت پر رشک کر رہی ہو.!









”سب کے جانے کے بعد وہ گھر میں اکیلی تھی کمرے میں بیٹھے بیٹھے اب اسے گھٹن ہونے لگی تھی تبھی نوری کو آواز دی۔
”نوری.!! نوری.!!
“جی باجی وہ فوراً حاضر ہوئی۔
چلے گئیں سب..؟
جی باجی وہ تو کب کے چلے گئیں ہیں۔ نوری کی بات سن کر طوبیٰ کا دل ناجانے کیوں اداس ہوا۔
”اچھا. میں لان میں جا رہی ہوں مجھے ایک کپ کافی بنا دو.!اگلے ہی لمحے وہ نارمل ہوتے نوری کو کہا۔
”کیا.؟ آج آئسکریم نہیں کافی مانگ رہی ہیں طبیعت ٹھیک ہیں نا آپ کی۔ اسے حیرت ہوئی
اتنی ٹھنڈ ہے اسلئے کہا اگر نہیں بنانی تو کوئی بات۔ خفا ہوئی۔
”نہیں باجی.! آپ نے پہلے کبھی کہا نہیں ناں اسلیے.؟ فوراً وضاحت کی جس پر اسنے اثبات میں سر ہلایا۔
”طوبیٰ باہر لان میں آگئی تھی آج وہ گھر میں اکیلی تھی اسلئے گھر میں خاموشی چھائی وہ جھولے پر بیٹھی گئی اپنی وہیل چیئر کو خود سے دور کر دیا تھا۔
”جنواری کی سردی اس پر گھہرے کالے بادلوں نے بھی آسمان کو گھیر رکھا ٹھنڈی ہوا کے جھونکیں ہولے ہولے سے اسے چھو کر گزر رہے تھے۔
کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لتے وہ جھولا جھول رہی تھی جس کی سوچوں کا مہور آج کوئی اور ہی تھا جس کے باعث آج ایسا پہلی بار ہوا تھا کے وہ اکیلے میں رو نہیں رہی تھی بلکہ اسکے چہرے پر ایک مسکان تھی جسے شاید وہ خود بھی انجان تھی۔
وہ اس قدر اسکی سوچوں گم تھی کہ اسے ارحم کے انے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
”وہ آیا تو کچھ اور ہی سوچ کر تھا لیکن طوبیٰ کو یوں خوش اور مطمئن دیکھ کر وہ کچھ بول ہی نہیں سکا.
وہ تو ہمیشہ سے یہی چاہتا تھا لیکن کبھی اسے اتنا خوش نہیں دیکھا وہ بھی اکیلے میں تو بس روتا ہی پایا تھا ہمیشہ.!
”اہم.!! اہم۔۔!!“ ارحم نے گلا کھنکارا
کسی کی آواز آنکھیں کھولی تو اپنے سامنے ارحم کو دیکھ کر چونک گئی تھی۔
“تم.! تم کب آئے ؟؟
“جب تم کیسی کے خیالوں میں کھوئی ہوئی.؟ متواتر چال چلتے وہ اسکے پاس آیا۔
”نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں.؟ نظریں چراتے اسکی بات سے نفی کی۔
”اچھا مجھ سے بھی چھپاؤ گی۔اسکے ساتھ بیٹھتے سنجیدگی سے پوچھا۔
“نہیں ارحم.! ایسی کوئ بات نہیں.!
”میں نے اس دن تمھاری اور ازر کی باتیں سن لی تھی۔ سامنے دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
”کس دن..؟ بے ساختہ نظریں چرائی۔
” لائبہ کی منگنی میں جب وہ تمھیں اپنی شال دے رہا تھا
غصّہ تو مجھے اس پر بہت آیا لیکن پھر میں وہاں کوئی سین کریٹ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے خاموش ہو گیا۔ سرد مہری سے کہتے اسے دیکھا۔
”تو پھر آج کیوں اس بارے میں بات کر رہے ہو.؟ سوال اٹھایا۔
”کیوں کر رہا ہوں میں بات، کیا تم نہیں جانتی کے میں کیوں کر رہا ہوں یہ بات.؟ اسکی بات کا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔
”نہیں میں نہیں جانتی نا ہی مُجھے جاننے میں کوئی دلچسپی ہے۔ وہ دو بدو ہوئی۔
”ہاں تمھیں کیوں ہونے لگی دلچسپی تمھاری ساری دلچسپی تو اس آزر میں ہے، تمھیں میری آنکھوں میں اپنے لیۓ محبت نظر نہیں آتی کیوں تم اتنی انجان بنتی ہو آئزہ.! کی آزر.؟ کی سب کی محبت نظر آگئی، لیکن میری محبت اسکا کیا میرے جزبات میرے احساسات تمھارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
ہاں بولو.! بولتی کیوں نہیں کچھ.؟
اس ازر کی محبت تمھارے لیے اہم ہے، میری محبت کی کوئی اہمیت نہیں تمھاری نظر میں کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ ایسا
کیوں.!!
آنکھوں میں وحشت لیے وہ آج اپنے سارے حساب برابر کرنے پر تل گیا اسکے کندھے دبوچ وہ اسے پوچھ رہا تھا جس پر طوبیٰ کو لگ رہا تھا کہ ارحم کی انگلیاں کے کندھوں میں دھنس جائیں گی درد سے طوبیٰ کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھی اور نا چاہتے ہوئے بھی آنکھوں سے انسوں بہہ نکلے
ارحم..! مجھے درد ہو رہا ہے۔درد کی شدت سے کراہ گئی تھی
”تمھہں در ہو رہا ہے اور مجھے درد نہیں ہوتا،میرے درد کا کیا کسی کو احساس ہے،جو میں تمھارے درد کا احساس کروں تم تو مجھے اپنا بیسٹ فرینڈ کہتی ہو اور. میری محبت کا نا تو تم نے مان رکھا نا ہی مجھے سمجنے کی کوشش کی تم نے۔ارحم کے لہجے میں درد تھا۔
“نہیں سمجھنا مجھے تمھاری محبت کو چھوڑو مجھے۔ اسنے بامشکل اسکے ہاتھوں کو جھٹکا۔
”اور تم کیا چاہتے ہو آج صاف صاف بتا ہی دو.؟آئزہ کی نظرو میں گرانا چاہتے ہونا مجھے، میں تم سے محبت نہیں کرتی میں نے ہمیشہ تمھیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھا اور تم نے پتا نہیں کب میری دوستی کو غلط سمجھ لیا،
اگر میں خود غرض بن بھی جاؤں اور اپنی ہی بہن کی خوشیوں کی دشمن بن بھی جاؤں.! تمھاری محبت کو مان دے بھی دو تو مامی کا سوچا ہے کبھی تم نے۔ آج وہ بھی کسی کو حاطر میں لانے کے موڈ میں نہیں تھی۔
”اب بولو ناں کبھی پوچھا ہے مامی سے کے وہ ایک اپاہج کو اپنی بہو بنائے گی وہ تو مجھے دیکھنا پسند نہیں کرتی.؟
اب بولو بولتے کیوں نہیں.؟ یا پھر تم چاہتے ہو کے جیسے وہ مجھے میرے گھر میں مامی باتیں سناتی ہیں ویسے ہی تمھاری محبت کا مان رکھا کر ساری ذندگی مامی کی باتیں سنتے گزار دوں، بس تم خوش رہو باقی سب گئیں بھاڑ میں بس تمھاری آنا کو تسکین ملنی چاہئے۔آج وہ بھی سارے حساب برابر کر دینا چاہتی تھی۔
”اس دن بھی تم تو چلے گئے تھے اپنی محبت کا علان کر کے کے تم ایک اپاہج سے محبت کرتے ہو.!
مامی نے سن لی تھی تمھاری محبت کی داستان اور جانتے ہو مامی نے میری کتنی تزلیل کی آوارہ بدچلن بد کردار کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ بتاتے ہوئے اسنے اپنے آنسوں صاف کیے۔
”اور رہ گئی آزر.! کی بات تو اگر اس دن تم نے پوری بات سن لی ہوتی تو تمھیں پتا چل جاتا کے میں نے ازر کو بھی صاف انکار کر دیا تھا کسی کو ہو ناں ہو مگر مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہے اپنے بارے میں، میں جانتی ہو میری ذندگی میں کبھی کوئی خوشی نہیں آسکتی۔ وہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
”پلیز.! چلے جاؤ تم یہاں سے پلیز.! وہ پوری طرح ٹوٹ گئی تھی۔
”ارحم آگے بڑ کر طوبیٰ کو چپ کروانا چاہتا تھا لیکن وہ جانتا تھا آج اس نے یہ حق بھی کھو دیا تھا۔
”ارحم کبھی بھی طوبیٰ کو دکھ نہیں پہچانا چاہتا تھا لیکن اسے آزر کا آریان صاحب سے طوبیٰ کا رشتا مانگنا برداشت نہیں ہوا تھا۔
” جانے سے پہلے میری ایک اور بات سنتے جاؤ.؟ ارحم آج سے میں تمھیں اپنی قسم سے آزاد کرتی ہوں وہ قسم میں نے اپنے بیسٹ فرینڈ کو دی تھی جس پر مجھے خود سے ذیادہ بھروسہ تھا لیکن آج تم نے مجھ سے میرا اکلوتا دوست بھی چھین لیا۔ اسکے لہجے میں کرب تھا آج جو جینے کی ذرا سی بھی چاہ تھی وہ بھی آج ختم ہو گئی تھی۔
“پلیز چلے جاؤ.! وہ حلق کے بل چیخی جس پر ناچاہتے ہوئے بھی ارحم کو وہاں سے بے دلی سے جانا پڑا وہ جانتا تھا آج اس نے بہت غلط کر دیا ہے اور اب طوبیٰ اسکی کوئی بات نہیں سنے گی۔







”کیوں..! اللّٰہ جی کیوں..!! میرے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے ابھی تو میں پوری طرح خوش بھی نہیں ہوئی تھی کے پھر سے میری ذندگی میں اندھیرا چھا گیا۔
طوبیٰ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنی جان لے لے، کیا کرو اللّٰہ جی میں ذندہ رہ کر کسی کو میری ضرورت نہیں پھر کیوں ہو میں ذندہ.؟ وہ مایوسیوں کی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔
رو رو کر طوبیٰ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا سر درد سے پھٹنے لگا تھا اس کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔
”یک دم اسے خیال آیا کہ امی لائبہ و آئزہ ازر کے ساتھ شوپنگ پر گئیں ہیں اور اب واپس آنے والی ہوگی اور وہ ہرگز اس حالت میں ان کا سامنا نہیں کر سکتی تھی،خاص کر کے ازر کے سامنا تو بالکل نہیں۔ جلدی سے اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ صاف کیا اور جیسے ہی جھولے کا سہارا لے کر کھڑی ہوکر اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے لگی سر بری طرح چکرا گیا اور وہ وہیل چیئر پر بیٹھے کی جگہ گر گئی، اور وہیل چیئر کا ہینڈل طوبیٰ کے سر میں لگا اور خون بہنے لگا طوبیٰ درد کی شدت برداشت کرتے کب ہوش ہورد سے بیگانی ہوتی چلی گئی۔









”چلے آنٹی اب مجھے اجازت دیں اسے پہلے کے بارش تیز ہو جائے گھر کے لیے نکلنا چاہیے۔ گاڑی کی ڈگی سے شوپنگ بیگ نکال کر سائرہ بیگم کو دیتے اجازت چاہی۔
”ایسے کیسے بیٹا.! اندر آؤ میں تمھارے لیے چائے بناتی ہوں پی کر جانا۔
نہیں.! آنٹی آج نہیں.؟ نفی کی۔
”آجائیں، ہو سکتا ہے چائے کے ساتھ آپی سے بھی ملاقات ہو جائے۔ شوپنگ بیگ اٹھائے آئزہ نے پاس سے گزرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔
“چلیں اگر آپ اتنا کہہ رہی ہیں تو پی لیتا ہوں آپ بھی کیا یاد کریں گی۔ وہ فوراً مان گیا۔
”لائبہ تم آئزہ کے ساتھ مل کر سارے بیگز اندر رکھواؤ میں نوری کو چائے کا کہتی ہوں، آؤں آزر بیٹا۔ دونوں کو ہدایت دیتے وہ آزر کو لیکر اندر آئی۔
سائرہ بیگم کے جانے بعد جینس کی پاکٹ میں ایک ہاتھ پھنسائے دوسرے ہاتھ سے موبائل کی اسکرین سکرول کرتے آزر متواتر چال چلتے لان میں کھلنے والے سلائیڈ ڈور کی جانب آیا جہاں سے اندھیرے میں ڈوبا لان نظر آرہا تھا۔
آزر اپنے دھن میں موبائل کی اسکرین سکرول کرتے ہوئے وقفے وقفے سے لان میں لگے جھولے کو دیکھ رہا تھا جو اندھیرے کے باعث صاف نظر نہیں آرہا اسی درمیان بادل ضرور سے گرجے جس کے ساتھ ہی بجلی چمکی جو سیدھی آزر کے دل پر گری اسے اپنی جگہ منجمند کر گئی جس کے ساتھ ہی بارش بھی تیز ہو گئی۔
طوبیٰ.! وہ زیرے لب بڑبڑاتے ہوئے برق رفتاری سے اس جانب بھاگا سائرہ بیگم جو ٹیبل پر چائے رکھ کر آزر کو بلانے کی خاطر اسکی سمت پلٹی تھی آزر یو جاتا دیکھ وہ بھی گھبرا کر اسکی پیچھے گئی۔
وہ جو تقریباً بھاگتے ہوئے پہنچا تھا سامنے کا منظر دیکھ دھنگ رہ گیا سردی میں ٹھٹھرتی وہ گھٹری بننی زمین پر پڑی تھی جس کے ماتھے سے خون رس رہا تھا سائرہ جو طوبیٰ کو دیکھ چکی تھی فوراً سے آگے بڑھ کر گھاس پر اسکے ساتھ بیٹھتے اسکا سر اپنی گود میں رکھا جس کی سانسیں مدھم ہوتی جارہی تھی جس پر سامنے شاکڈ کھڑے آزر کو اپنا سانس روکتا ہوا محسوس ہوا تھا اس نے کب سوچا تھا کے وہ طوبیٰ کو اس حالت میں دیکھے گا۔
کچھ پل میں خود کو سنبھالتے آزر آگے بڑھا۔
”کیا ہوگیا میری بچی کو طوبیٰ.! طوبیٰ آنکھیں کھولوں میری بچی۔ طوبیٰ کو اس حالت میں دیکھ سائرہ بیگم کے ہاتھ پاؤں پھول گئیں۔
”آنٹی.! آنٹی.! مجھے دیکھنے دیں.؟ ازر نے ہمت مجتمع کرتے طوبیٰ کا سر اپنی گود میں لیتے اسکی نبض چیک کی کسی انہونی کے ڈر سے دو آنسو ٹوٹ کر ازر کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گال بہہ گیے جو اتنی تیز ہوتی بارش میں کسی کو نظر نہ آئیں جس میں وہ تینوں بھیگ چکے تھیں۔
طوبیٰ.؟؟ طوبیٰ.؟؟ اسکے گال تھپتھاتے آزر نے بمشکل پکارا مگر وہ تو بے حس و حرکت پڑی تھی۔جس پر ایک پل کی بھی دیر کیے بنا ازر نے طوبیٰ کو اٹھا کر کمرے میں لے آیا تھا جن کے پیچھے ہی آئزہ و لائبہ بھی متفکر ہوتے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے آئی تھیں۔
”لائبہ.! ڈاکٹر کو کال کرو جلدی.؟ ازر نے طوبیٰ کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے کمفرٹ دیا تھا ٹھنڈ سے طوبیٰ کا جسم نیلا پڑنے لگا تھا
سائرہ بھی طوبیٰ کے سرہانے بیٹھ گئی آزر طوبیٰ کے سر سے خون صاف کرنے لگا۔
”ازر بھائی ڈاکٹر آرہا ہے۔ لائبہ نے بتایا آئزہ تو جیسے کسی سکتے میں تھی۔
”فرسٹیڈ باکس کہاں ہے ہمیں اس کا خون بہنے سے روکنا ہو گا۔ آزر نے متفکرانہ انداز میں پوچھا۔
”بھائی آپ ہٹیں میں دیکھتی ہوں کپڑے بھی چینج کرنے ہونگیں تو آپ.؟ لائبہ فرسٹیڈ باکس ہاتھ میں لیے پاس آئی تو تو آزر کو ناچاہتے ہوئے بھی اٹھنا پڑا پاس بیٹھی سائرہ بیگم تو بس اپنی بیٹی کی حالت دیکھ روتی جا رہی تھی۔
طوبیٰ بیٹا پلیز.! آنکھیں کھولو تم جانتی ہوں ناں میں تمھیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی، کیوں اپنی ماں کو ستا رہی ہو.! اپنے آنسوں صاف کرتے وہ طوبیٰ سے یوں مخاطب تھی جیسے وہ اسے سن رہی ہو۔
”کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر بھی آگیا جو اب طوبیٰ کا چیک اپ کر رہا تھا اور ازر سب کے ساتھ باہر کھڑا بیچینی سے طوبیٰ کے لیے دعا گو تھا۔
اتنے میں ڈاکٹر کمرے سے باہر آیا جس پر مضطرب سا آزر ڈورتے ہوئے سامنے آیا۔
”کیسی ہے طوبیٰ.! ٹھیک تو ہے ناں کوئی پریشانی کی بات تو نہیں اگر آپ کہتے ہیں تو ہم اس ہاسپٹل لیکر چلتیں ہیں، آپ بتائیں نہ کیسی ہے وہ۔ایک ہی سانس میں وہ کتنے سوال کر گیا۔
”جی آپ.؟ وہ انکا فیملی ڈاکٹر تھا جو ایک اجنبی کو اس طرح متفکر ہوتا دیکھ متعجب ہوا جس پر وہ کچھ پل کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔
”آینی وے.! چوٹ ذیادہ گہری نہیں، بس خون بہنے اور ٹھنڈ کی وجہ سے وہ بہوش ہو گئی تھی میں نے انجیکشن لگا دیا ہے۔صبح تک ہوش آ جائے گا۔ ڈاکٹر نے پروفشنل انداز میں بتایا تو سب نے سکون کی سانس لی
ڈاکٹر کچھ ضروری ہدایات دینے کے بعد چلا گیا۔
”آنٹی آپ کی اجازت ہو تو.؟ آزر کے بیچین دل کو قرار نہیں آرہا تھا تبھی پوچھ لیا سائرہ اثبات میں سر ہلا کر اجازت دی۔
” ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر دروازے کو دھکیلتے کمرے میں داخل ہوا تو نگاہیں سامنے بیڈ پر بے سدھ پڑی طوبیٰ گئیں جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں بہہ نکلے ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئیں تھیں۔
”وہ آہستہ سے چلتا ہوا بیڈ کے پاس آکر طوبیٰ کے پاس بیٹھ گیا جبکہ نظریں اسکے چہرے کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔
”میرے سارے جزبات احساسات مر گئیں ہیں، میرا اس زندگی سے دل اکتا گیا ہے، سچ کہوں تو اب جینے نہیں.! چاہتی مر جانا۔۔۔۔!! یک یک طوبیٰ کے کہے الفاظ گونجے تھے۔
”اتنی سی چوٹ سے ہی اس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور وہ صدیوں کی بیمار لگنے لگی تھی۔
”تم نے اچھا نہیں کیا اس کی تمہیں سزا ملے گی۔ اسکے ماتھے سے بال ہٹاتے ہوئے اسکے دل نے خواہش کا اظہار کیا جس پر اسنے اپنے دل کو ڈپٹا اسے اب اپنا وہاں رکنا مشکل لگ رہا تھا اگر اور رکتا تو پھر اپنے جزبات پر ضبط کھو دیتا اسلئے فورا سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔








”قدسیہ بیگم لاؤنچ میں بیٹھی ارحم کی منتظر جو اب تک گھر نہیں لوٹا تھا۔
”آگئے تم اس اپاہج سے مل کر.؟ وہ جو رات گئے گھر لوٹا تھا قدسیہ بیگم کی آواز پر انکی جانب متوجہ ہوا۔
”ماما پلیز.! آج نہیں، میرا دماغ پہلے ہی خراب ہے آپ ایسی باتیں کر کے مزید خراب نہ کریں۔ارحم نے بیزاری سے ٹوکا۔
”کیوں.؟ آج اس اپاہج نے منہ نہیں لگایا ہاں بھئی.! اب کیوں لگانے لگی وہ تم جیسے شخص کو.! اب تو نیا عشق مل گیا ہے، اب تمہیں کہاں منہ لگائے گی۔ زہر خند لہجے میں زہر اگلنا شروع ہوئی
”پتا نہیں کتنوں کو اپنی خوبصورتی کے جال میں پھنسائے گی اس جیسی لڑکیاں کسی ایک کی۔۔۔۔۔۔۔!
”ماما پلیز.! کتنا زہر بھرا ہے آپ کے دل میں اس بچاری کیلئے.!ارحم کا ضبظ جواب دے گیا تھا۔
ماما پلیز.!! بس کر دیں بس.! اور کتنا زہر اگلے گی آخر اتنی نفرت کیو کرتی ہیں آپ اسے، آپ کی اس نفرت نے آپ کے بیٹے کو برباد کر دیا کیوں نہیں سمجھتی۔ ارحم نے شروع میں غصے میں کہتے ہوئے آخر میں اسکے لہجے کرب چھلکا
”ہاں.! ہاں.! اب تم اُس اپاہج.! بد کردار، بد چلن، لڑکی کی خاطر اپنی ماں کو باتیں سناؤں گے، یہ دن دیکھنے کیلئے تو تمھیں اتنا بڑا کیا تھا تاکہ میرا بیٹا مجھے ہی باتیں سنائے وہ بھی ایک دو کوڑی کی لڑکی کی خاطر.! یہ دن دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہ گئی۔ رونے کی آواز نکلتے اموشنل بلیک میل کیا
”بیٹا تم نہیں جانتے یہ جو خوبصورت لڑکیاں ہوتی ہیں نا“ ایسے ہی اپنی معصوم شکل دیکھا کر اپنی اداؤں کے جال میں پھنساتی ہیں لڑکوں کو.! طوبیٰ کی خوبصورتی دیکھ کر تو لڑکیا بھی اسکی گرویدہ ہو جاتی ہیں تم پھر ٹھہرے لڑکے۔ قدسیہ بیگم اس انداز میں بولی جیسے بہت پتہ کی بات کی ہو۔
”تو ماما اگر وہ اتنی ہی خوبصورت ہے تو پھر آپ کیو نفرت کرتی ہیں.؟ ارحم نے کرب سے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
کیونکہ تمھارا باپ بھی اسی خوبصورتی کے پیچھے چھوڑ گیا ہمھیں اور آج یہی خوبصورتی دیکھا کر اپنی بہن کا شوہر اور مجھ سے میرا بیٹا چھین لےگی۔ کمزور سی دلیل جس اسے قائل نہ کر سکی۔
”کسی لڑکی کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی اس بلاوجہ کی ضد و ہٹ دھرمی کے باعث چھوڑ کر گئیں تھے، اور جہاں تک بات طوبیٰ کی ہے نہیں ہے وہ ایسی ماما.! اس نے تو کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی، لیکن آپ کی نفرت نے مجھ سے میری خوشیاں چھین لی ماما.! آپ نے اپنے بیٹے کی خوشیاں چھین لی۔ اب ساری زندگی اپنی بیٹے کی خوشیاں دیکھنے کے لیے ترستی رہے گی۔ کرب سے کہتے وہ اٹھ کر وہاں چلا گیا اور محض دیکھ کر رہ گئی۔








”آزر گھر آ تو گیا تھا لیکن اس کا سارا دھیان طوبیٰ کی طرف ہی تھا۔
”کسی پل چین نہیں آرہا تھا وہ طوبیٰ کا خیال رکھنا چاہتا تھا لیکن ابھی اس کے پاس ایسا کوئی حق نہیں تھا جس کے چلتے وہ طوبیٰ پر اپنا حق جتا سکتا۔
مجھے جلد از جلد طوبیٰ کو اپنے پیار کا یقین دلانا ہو گا مگر یوں اس طرح دور رہ کر یہ ممکن نہیں اسکے لیے تمھیں میرے پاس آنا ہوگا، میں اب تم سے اور درو نہیں رہ سکتا طوبیٰ.! تمہیں میری محبت کا یقین کرنا ہو گا تم صرف میری ہو.! صرف آزر خان کی۔ وہ خود سے باتیں کر رہا تھا
اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے اب کیا کرنا ہے۔








ایک نیا سورج طلوع ہوا جس کی کرنیں کھڑکی پر لگیں پردوں کی اوٹ سے کمرے میں داخل ہوئی۔
”طوبیٰ کی آنکھ کھلی تو اسے اپنے سر میں ٹیس اٹھتی محسوس ہوئی جس پر بے ساختہ ہاتھ سر تک گیا۔
”آہستہ آہستہ حواس بحال ہوئے تو اسے ارحم کی باتیں یاد آئی پھر اسے یاد آیا کیسے وہ گر گئی اور اسکے بعد کیا ہوا اسے کچھ یاد نہیں تھا۔
”طوبیٰ نے جب مندھی مندھی آنکھیں کھولی تو خود کو اپنے کمرے میں پایا، وہ بیڈ کے درمیان میں تھی جس کے ایک جانب لائبہ اور دوسری طرف آئزہ بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھنے کے انداز میں سوئی ہوئی تھیں۔طوبیٰ احتیاط سے اٹھ کر بیٹھی اور اپنی باری باری بہنوں کو دیکھا جو شاید رات دیر تک اسکے پاس بیٹھی تھی۔
پاگل.! زیرے لب بڑبڑاتے اسے اپنی بہنوں پر ٹوٹ کر پیار آیا۔
”آپ اٹھ گئی؟ طبیعت کیسی ہے اب آپ کی.؟۔ لائبہ آنکھ کھلی تو طوبیٰ کو دیکھ وہ فوراً سیدھی ہوئی۔
بہتر ہے۔ نکاہت زدہ لہجے میں گویا ہوئی۔
”چلیں شکر ہے رات کو تو آپ نے ہمیں ڈرا ہی دیا تھا اور آزر بھائی کی تو جیسے جان پر بن گئی تھی۔ لائبہ روانی میں کہہ گئی جبکہ آزر کے ذکر طوبیٰ نے متعجب نظروں سے اسے دیکھا۔
آزر۔۔؟؟
”ہاں.؟ وہ واپسی پر امی جی نے انھیں چائے پر روک لیا تھا تو انھوں نے ہی سب سے پہلے آپ کو دیکھا اور پھر وہی آپ کو اندر لیکر آئے۔ گڑبڑا کر وضاحت کی جس پر طوبیٰ کی دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔
اچھا اب میں ذرا امی جی کو بتا دوں وہ کافی پریشان تھی۔ لائبہ اپنے بال سمیٹ کر اپنا ڈوپٹہ لیتی اٹھی۔
آزر بھائی.؟ کو بتا دینا وہ بھی رات سے کتنی مرتبہ کال کر کے پوچھ چکیں ہیں۔ اسے پہلے کے وہ کمرے سے نکلتی دوسری جانب وہ جو سوتے ہونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی ہانک لگائی تو طوبیٰ نے اسکی جانب مڑ کر دیکھا۔
اتنے میں لائبہ کمرے سے نکل ہی تھی کہ سامنے سے آتے ہوئے شخص ٹکرا گئی۔
آؤچھ..!وہ سر مسلتے ہوئے پیچھے ہوئی تو آزر کو دیکھ اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔