قسط: 13
لائبہ کے جانے کے بعد آئزہ بھی طوبیٰ کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی جس کے جانے کے بعد بیڈ کراؤن سے سر ٹکائے آنکھیں موند گئی۔
”آہستہ سے نوب گھما کر کمرے میں داخل ہوا تو طوبیٰ بیڈ کراؤن کے ساتھ سر ٹیکائے آنکھیں بند کئیں بیٹھی تھی جس پر آزر کی نظریں ٹھہر گئی اور وہی دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے دونوں بازو سینے پر باندھے کھڑا اسے نہارنے لگا
بڑی بڑی آنکھیں جن پر گھنی پلکوں کی جھالر، کھڑی ناک و گلاب کی پنکھڑی سے نازک ہونٹ جو شاید مسکرانے بھول گئیں دودھیا رنگت میں زردی گھل گئی اتنی دلکش صورت پر ویرانیوں کے ڈیرے تھیں۔
“طوبیٰ کو خود پر کسی کی پر تپش نظریں محسوس ہوئی تو فوراً سے گھنیری پلکیں اٹھائی اپنے سامنے آزر کو دیکھ ششدر رہ گئی
”آپ.۔۔؟ وہ جو ڈوپٹے سے بے نیاز بیٹھی تھیں جلدی سے ڈوپٹہ اٹھا کر اپنے سینے پر پھیلا کر اوڑھا
ازر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی طوبیٰ کو یو گھبراتے ہوئے دیکھ۔
”آپ یہاں کیا کر رہے ہیں.؟
ہر بار ایک ہی سوال کبھی تو کچھ نیا پوچھا کرو۔ اسکے سوال کو نظر انداز کرتے آزر نے مصنوعی شکوا کرتے آہستہ سے چلتے ہوئے طوبیٰ کے پاس اسکے سامنے بیٹھا اسکی اسکی بے بےتکلفی پر اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔
”اب طبیعت کیسی ہے میری جا۔۔۔۔! زر نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر چیک کرتے ہوہے محبت پاش انداز دریافت کرتے آخر میں جملہ ادھورا چھوڑا
”پلیز دور رہ کر بات کریں کیا آپکو میری ایک بار کہی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ تلخی سے کہتے اسکا ہاتھ جھٹکنا چاہا جسے وہ تھام کر جھٹکے سے کھنچ کر نزدیک کیا
”میں تو یہ دوریاں مٹا کر تمھارے قریب ہونا چاہتا ہوں اتنا قریب کے تمھاری سانسوں سے تمھاری روح تک دسترس حاصل کرنا چاہتا ہوں! اور تم ہوکہ دور رہنے کی بات کر رہی ہو.! اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دوسرے ہاتھ سے بال کان کے پیچھے اڑیستے اسکا اندازہ معنی خیز تھا جس پر اسکی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی
آزر.! پلیز ڈونٹ کروس یور لمٹس.!! مجھے اس طرح کے بے ہودہ مذاق ہر گز نہیں پسند، سو پلیز لیوو.! اپنی بے ترتیب ہوتی دھڑکن کو اعتدال میں رکھنے کی کوشش کرتے اسے ہاتھ اٹھا کر باہر کا راستہ دیکھایا جبکہ خفت و سبکی سے اسے کے چہرہ زرد پڑنے لگا تھا۔
”آئیم ڈیم سیریس ڈیمٹ.! تم ہوکے سمجھ ہی نہیں رہی.! مگر اب اور نہیں، کل والے انسیڈینس کے بعد تو بالکل بھی نہیں، آنکل سے میری ہمارے رشتے کو لیکر بات ہوچکی ہے اور انھیں اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں اب بس تم ہاں کر دو.! سختی سے کہتے اسکی آنکھوں میں جنون اتر جبکہ مقابل پر اسکی بات بجلی بن کر گری تھی۔
کک..کیا۔۔!! مطلب۔۔۔؟ اسکی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے اسکی زبان لڑکھڑائی۔
”وہی جو تم جان کر بھی انجان بن رہی ہو، فیوچر مسسز آزر خان.! سنجیدہ مگر گھمبیر انداز میں اسنے پیشنگوئی کی تو دھنگ رہ گئی۔
”میں ابھی امی ابو کو کو بلاتی ہو وہی آپ کی عقل ٹھکانے لگائے گئیں۔ اسنے اپنا انٹر کام اٹھایا۔
”پاگل لڑکی اب تم بڑی ہوگئی ہو اپنی پروبلم سے خود ڈیل کرنا سیکھوں اب اچھا تو نہیں لگے گا ہزبینڈ اور وائف میں تم آنکل آنٹی کو بلاؤ۔اسکے ہاتھ سے انٹر کوم لیتے آزر نے شرارت سے کہا تو طوبیٰ سلگ کر رہ گئ تھی
”آپ کی یہ غلط فہمی بہت جلد دور کر دونگی۔ تنک کر بولتے دوبار انٹر کوم کی جانب لپکی۔
”بالکل درست فرمایا بہت جلد سب کی ساری غلط فہمیاں دور ہو جائینگی، ہمارے رشتے کی بات تو میں پہلے ہی آنکل کر چکا ہوں آج ایک اور سرپرائز تمھارا منتظر ہے، جلدی سے تیار ہو کر باہر آؤ۔ اسکا گال تھپتھپا کر ہدایت دیتے ایک آنکھ دبائی۔ جس پر وہ ششدر سی اسے دیکھتی گئی جس کی آنکھیں ساری باتیں سچ ہونے کی گواہی دے رہی۔
”جھوٹ.! آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں ناں.! اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیسے ریئاکٹ کرے کیونکہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو کوئی تو اسے کچھ بتاتا یا اسکی مرضی پوچھتا یا پھر مامی کی طرح باقی سب بھی اسے بوجھ سمجنے لگے تھے اور کسی بھی طرح اب اس بوجھ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ سوچتے ہوئے دل گرفتگی کا شکار ہوئی۔
”ان سب کو میں نے ہی منا کیا تھا.اسکی الجھن کو بھانپتے ہوئے خود بتا کر اسکی غلط فہمی دور کرنی چاہی جو اب اتنا آسان نہیں تھا۔
اچھا اب زیادہ مت سوچو تیار ہوکر باہر آؤ تمھیں تمھارے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گیں۔اسے سوچوں کے بھنور میں چھوڑ وہ باہر آگیا۔









”آزر کے جانے کے بعد وہ کتنی دیر تک اسکی کہی باتوں کے بارے سوچ رہی تھی اتنے میں آئزہ ناشتہ کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی تو طوبیٰ تفتیشی نظروں سے اسے دیکھا جن میں کئیں سوال تھیں۔
”آپی پلیز.! مجھے ایسے نہیں دیکھے اس میں میری کوئی غلطی نہیں، ہمیں آزر بھائی نے منا کیا تھا بتانے کیلئے۔ نظریں چراتے آئزہ نے وضاحت دینی چاہی۔
”ہاں صحیح کہا اس میں تمھاری کوئی غلطی نہیں، غلطی ہے تو وہ صرف میری، میں بوجھ بن گئی ہو تم سب پر۔ کرب سے کہتے دو آنسوں بہہ نکلے جسے ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے صاف کیا وہ ٹرے ٹیبل پر رکھتی اس کے پاس آئی۔
”آپی پلیز.!! آپ جانتی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ طوبیٰ کی بات سن کر اسے بےحد دکھ پہنچا۔
” آپی، آزر بھائی بہت اچھے انسان ہیں آپ سے بہت محبت کرتے۔۔۔۔!!
”اسی لیے تم سب نے سوچا کیوں نہ اپنے سر کا بوجھ اتار کر اسکے سر لاد دیا جائے۔اسکے الفاظ اچکتے تلخی سے اپنی مرضی کے مطابق جملہ مکمل کیا۔ دکھ کے ساتھ حیرت بھی سے وہ اسکی طرف ائی۔
”آپی.! آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں،کیا آپ نہیں جانتی ابو جی امی جی اور ہم سب کتنا پیار کرتیں ہیں آپ سے اور آپ اتنی سی بات پر ہم سب کی محبت کو اپنے شک کے کٹہرے میں لاکر کھڑا دیا۔اسکے سامنے بیٹھ کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے متانت سے سوال اٹھائے جس پر طوبیٰ نے شکوہ کن نظروں سے دیکھتے خفگی سے منہ پھیرا۔
”آپی میں جانتی ہوں آپ ہرٹ ہوئی ہیں، مگر یہ سب اسطرح آپکو پتا چلے گا ہم میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا۔اب کی بار وہ نرمی سے کہتے ٹھوڑی سے پکڑ کر اسکا منہ اپنی طرف کیا۔
”آپی یہ ابو جی کا فیصلہ ہے،اور آپ ہی تو کہتی ہیں امی ابو کبھی بھی ہمارے لئے کوئی غلط فیصلہ نہیں کریں گیں۔اسکے آنسوں صاف کیے۔
”لیکن آئزہ مجھے شادی نہیں کرنی.! گلو گیر لہجے میں کہتے وہ اندر سے بری طرح ٹوٹ چکی تھی جس پر لاجواب ہوتے آئزہ نے آگے بڑھ کر گلے سے لگایا تھا۔








”لاؤنچ بیٹھیں سب ایک دوسرے کو متعجب نظروں سے دیکھ رہے تھیں کوئی نہیں جانتا تھا کہ اتنی ایمرجنسی میں سب کو اتنی صبح صبح کیوں اکٹھا کیا گیا ہے۔
”آزر خان.!اب بتاو بھی ایسی کیا عافت آگئی تھی جو تم اتنی جلدی میں ہمیں یہاں اکٹھا ہونا کا کہا۔ وہاج نے خاموشی کو توڑا وہاں بیٹھے ہر شخص نے آزر کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”بیٹا کچھ تو بتاؤ آخر بات کیا ہیں.؟ آریان صاحب کو فکر ہوئی۔
“آپ میری اور طوبیٰ کی شادی کر دیں۔لفظوں کی ہیر پھیر کرنے کے بجائے وہ سیدھے دو ٹوک انداز میں گویا ہوا جس پر سب ششدر رہ گئیں۔
”لاؤنچ میں آتے طوبیٰ نے آزر کی بات سن لی وہ جو ابھی پہلے شاکڈ سے ہی نہیں نکلی تھی آزر کی اس بات پر اسے لگا جیسے چھت اسکے سر پر آگری ہو۔ لاؤنچ میں بیٹھیں باقی سب کا بھی حال اس مختلف نہ تھا
” آپ ہوش میں تو ہیں.؟ جانتے بھی ہیں کیا کہہ رہیں ہیں.؟اپنے غصے پر قابو پاتے وہ کہتی ہوئی آگے آئی۔
”بیٹا آپ.؟ طوبیٰ کو دیکھ آریان صاحب کو تشویش ہوئی جس پر اسنے خفیف نظروں سے اُنھیں دیکھا۔
”بیٹا ہم بڑے بات کر رہے ہیں آپکی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہونگا۔اریان صاحب کو اپنی بیٹی کی آنکھوں میں درد صاف نظر آیا تھا۔
”آنکل اب میں طوبیٰ کے بغیر نہیں رہ سکتا پلیز آپ اسے میری درخواست سمجھیں یا ضد مگر مجھے آج ہی شادی کرنی۔اٹل انداز میں کہتے اسنے ایک نظر طوبیٰ کو دیکھا۔
”ابو جی.! آپ میرے بڑے جو چاہے فیصلہ کر سکتے ہیں اور مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے پر ابھی میں شادی تو کیا کسی بھی رشتے کے لیے مینٹلی تیار نہیں ہوں۔ اسکی کے انداز میں وہ کہہ آریان صاحب کو رہی تھی مگر دیکھ آزر کو رہی تھی۔
اگر آپ دونوں کی اجازت ہو تو ہم کچھ بول سکتے ہیں یا پھر سارے فیصلے تم دونو نے ہی کرنے ہیں۔ دونوں کو دیکھتے آریان صاحب نے مداخلت کی جس پر طوبیٰ نے نظریں جھکا لی۔
”آنکل.! میں آپکی ہر بات ماننے کو تیار ہوں آپکو آج ہمھارے رشتے کوئی نام دینا ہوگا۔ وہ اب بھی اپنی ضد پر آڑا تھا۔
”لیکن ابو جی.؟ طوبیٰ نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے
جنھیں آریان صاحب کچھ بھی کہنے سے روک دیا تھا۔
”ہاں تو ازر بیٹا آپ بتائیں.! کل ایک دن میں ایسا کیا ہو گیا ہیں جو آپ کو اچانک شادی ہی کرنی ہیں، کیونکہ اسے پہلے تو آپ دعویٰ کر رہے تھیں کہ آپ میری بیٹی کو شادی کے لیے منا لیں گیں۔ رسان سے وہ آزر سے مخاطب تھے۔
”آنکل کل جب ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کے میں کون ہوں تو میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا میں خود طوبیٰ کا خیال رکھنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس ایسا کوئی حق نہیں تھا اس لیے میں یہ کہہ رہا ہوں۔ آزر نے سنجیدگی سے اپنی بات رکھی۔
”بس اتنی سی بات ہے یا کچھ اور بھی۔ آریان صاحب نے جاننا چاہا۔
آنکل یہ اتنی سی بات نہیں ہے کل رات میں نے کس طرح گزاری ہے یہ میں ہی جانتا ہوں میں اپنے سارے رشتے تو کھو چکا ہوں مگر طوبیٰ کو نہیں کھو سکتا پلیز آنکل.؟اسکی آنکھوں میں انجانا خوف تھا۔
”لیکن ابو جی مجھے شادی نہیں کرنی.! طوبیٰ بنوز اپنی بات قائم تھی۔
”انکل میری بات کو بھی سمجھنے کوشش کریں میں چاہتا تو منگنی یا پھر چھوٹی موٹی رسم کہہ کا کر اسے رشتے کو نام دے سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ میں کسی شرعی حق کے بغیر کوئی حق جتانا نہیں چاہتا کہ کوئی دیکھ کر سوال اٹھائے۔ تحمل سے اپنی بات کی وضاحت کی۔ جس پر سب لاجواب ہو گئیں۔
”آزر تم بھی تو سمجھنے کی کوشش کرو اس سب میں طوبیٰ کی رضامندی کی بھی اتنی ہی اہمیت جتنی تمھاری، آخر ہم طوبیٰ کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر سکتے۔ طوبیٰ کے آنسوں دیکھ وہاج نے آزر کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”تو پھر ٹھیک ہے کل کو کوئی مجھ سے سوال نہ کرے۔ ہتھے سے اکھڑتے آزر کھڑا ہوا۔
”بیٹا بیٹھ جاؤ.؟ ہم بات کر رہے ہیں ناں.!۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے آریان صاحب نے آزر کو بیٹھنے کو کہا۔
کب سے تو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہے، مُجھے بھی تو بتائیں میں کیا کروں۔ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بہت کچھ تھا۔
”اچھا تم بیٹھوں تو.! ہم کچھ سوچتے ہیں۔ازر کو بیٹھا کر خود بھی اسکے ساتھ بیٹھے۔
”ہم آج تم دونو کا نکاح کر دیتے ہیں لیکن رخصتی تب ہی ہوگی جب میری بیٹی چاہے گی۔ کچھ سوچتے ہوئے بیچ کی راہ نکالی۔ جس پر آزر کی آنکھیں چمک اٹھی جبکہ دوسری طرف دو آنکھیں بھیگ گئی تھی۔
”ٹھیک ہے، پھر آپکی بیٹی کو بھی وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنا خیال رکھے گی۔ خوشی اسے چہرے سے عیاں تھی جس پر اثبات میں سر ہلاتے آریان صاحب نے اسے گلے لگایا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر گئی سوائے ایک کے۔
ازر میری بہن کا بہت خیال رکھنا کبھی آنسوں نہ آئیں میری بہن کی آنکھوں میں۔ اٹھ کر بلگیںر ہوتے وہاج نے مبارک باد دینے کے ساتھ تنبیہ کی۔
”لیکن تم تو میری طرف تھے، تم نے فورا پارٹی بدل لی ہاں.! الگ ہوتے ہوئے مصنوعی شکوا کیا تھا
طوبیٰ خاموشی سے اپنے آنسوں صاف کرتے وہیل چیئر کا روخ موڑ گئی جس کا ارادہ واپس اپنے کمرے میں جانے کا تھا جس پر آزر فوراً سے اسکی جانب آیا۔
“میں جانتا ہوں تم مجھ سے خفا ہو مگر میرا وعدہ ہے میں تمھاری ساری شکایتیں دور کر دونگا،ابھی تم بیشک اس فیصلے سے خوش نہیں ہو..! لیکن ایک دن تم میر فیصلے کو دل سے قبول کرو گی، میرا وعدہ ہے تم سے.؟ تیزی سے اسکے سامنے آکر پنجوں کے بل اسکے سامنے بیٹھتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پر اعتماد لہجے گویا ہوا جس پر وہ کچھ پل اسے دیکھ کر وہیل چیئر پیچھے کرتی اپنے کمرے کی اور بڑھ گئی اور اسی طرح بیٹھا اسے دیکھ کر رہ گیا۔
عشق سے مَیں ڈَر چُکا تھا, ڈَر چُکا تو تُم ملی
دل تو کب کا مَر چُکا تھا, مَر چُکا تو تُم ملی
بے قراری, پھر محبت, پھر سے دھوکہ ! اب نہیں
فیصلہ میں کَر چُکا تھا_کَر چُکا تو تُم ملی