قسط: 3
”کشادہ ڈرائنگ روم کے ڈبل صوفے پر فرحانہ بیگم اپنے بیٹے وہاج کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ سنگل صوفے پر سنجیدہ تاثرات لیے آزر خان کروفر سے بیٹھا اپنے فون میں بزی تھا۔
”اسلام علیکم.! سائرہ بہن.! سائرہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو فرحانہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آگے بڑھی تھی جس پر سائرہ بیگم نے مسکراتے ہوئے گلے ملتے ہوئے سلام کا جواب دیا جس کے بعد وہ قدسیہ بیگم سے ملی جو کے ایک باوقار خاتون تھی۔
اسلام علیکم آنٹی.! وہاج نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ادب سے سلام کیا جس پر سائرہ بیگم نے مسکراتے ہوئے جواب جس دیکھ کر آزر خان جو اپنے موبائل میں مصروف تھے اسکو بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر سلام کرنا پڑا جسے وہاج زبردستی اپنے ساتھ لے کر آیا تھا اتنے میں آریان صاحب بھی آگئے اور رسمی سلام دعا کے بعد بعد سب اپنی جگہ بیٹھ گئیں تو سائرہ نے آئزہ کے ساتھ مل کر سب کو چائے ناشتہ سروو کیا جس کے بعد سب ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگے۔
”وہاج بیٹا.! اور سناؤ کیا ہو رہا ہے آج کل۔ چائے کا سپ لیتے ہوئے آریان صاحب نے سوال کیا جس کا وہ مسکراہٹ لیے متانت سے جواب دینے لگا آزر اس سب سے لاتعلقی براتے ہوئے اپنے موبائل میں مصروف رہا جسے وہاج وقتاً فوقتاً گھوریوں سے نوازا رہا تھا۔
”اب اسے بھی بلوا لیں جس کے لیے ہم یہاں آئے ہیں؟ چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے فرحانہ بیگم مدعے پر آئی جس پر وہاج فوری طور پر متوجہ ہوا۔
”جی کیوں نہیں.! ابھی بلاوتی ہوں.! آئزہ.! لائبہ کو لے کر آؤ.! سائرہ بیگم نے اثبات میں سر ہلا کر اپنی بیٹی کو کہا جو چائے سرو کر کے جانے لگی تھی۔
”جی امی.!
چند لمحے ہی گزرے تھے کے آئزہ کی معیت میں لائبہ ڈرائنگ روم میں آئی جس نے ہلکے گلابی رنگ کا سمپل سوٹ کے ساتھ مہرون دوپٹہ سلیقے سے لیے بہت پیاری لگ رہی تھی وہاج کی نظرے لائبہ پر ہی ٹھہر گئی تھی
“آؤ یہاں بیٹھوں میرے پاس.! فرحانہ بیگم نے فوراً سے وہاج دوسرے صوفے پر جانے کا اشارہ کرتے لائبہ کو اپنے پاس بیٹھنے کو کہا جس پر وہاج جو لائبہ کو یک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا گڑبڑا گیا اور یہ پہلا موقع تھا جب آزر کے چہرے پر مہبم سی مسکراہٹ ابھری جسے وہ کھنکار میں بدل گیا۔
”اہم.! اہم.!
“آؤ تم یہاں بیٹھ جاؤ.! اسکی حالت سے محضوظ ہوتے آزر خان نے بیٹھنے کی اوفر کی جس پر وہ منہ بناتے دوسرے طرف جا بیٹھا۔
“ماشاء اللّٰہ ہماری بیٹی بہت پیاری ہے۔ شفقت بھر ہاتھ سر پر رکھتے لائبہ کو دیکھ کر فرحانہ بیگم نے تعریف کی جس پر وہ نظریں جھکائے مسکرائی وہاج کی نظرے ابھی بھی لائبہ کے چہرے کا طواف کر رہی ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کوئی لڑکی اسے پہلی نظر میں پسند آئی ہو۔
“یہ دیکھنا دیکھانا تو بس ایک فارملیٹی ہی تھی میں نے تو بھائی صاحب سے پہلے کہہ دیا تھا٬ لائبہ تو بس میرے وہاج کی دلہن بننے گی٬ کیوں بھائی صاحب صحیح کہہ رہی ہوں ناں.؟متانت سے کہتے ہوئے آریان صاحب کو مخاطب کیا جس پر آریان صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
“جی جی کیوں نہیں.!
” ہمیں تو لائبہ بیٹی بہت پسند ہے اب سے یہ آپ کے پاس میری امانت ہے، جسے بہت جلد لینے آرہیں ہیں ہم، کیوں وہاج بیٹا.! تمھیں تو کوئی اعتراض نہیں؟ اپنی کلائی سے گولڈ کا کنگن اتارا کر لائبہ کو پہنانے اپنے بیٹے کی مرضی جاننی چاہی جو دلکش مسکراہٹ سجائے اثبات میں سر ہلا گیا۔
“بہت بہت مبارک ہو سب کو اب سے لائبہ ہماری ہوئی۔ فرحانہ نے پر مسرت انداز میں سب کو مبارکباد دی۔ لائبہ نے آہستہ سے نظرے اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے وہاج کو دیکھا اور یہ سب پاس بیٹھی آئزہ سے مخفی نہیں رہا جس پر اسنے کندھے سے کندھا مار کر چھیڑا تھا











”جہاں ایک طرف سب اندر خوشیاں منا رہے تھیں وہی دوسری جانب طوبیٰ لان میں تنہا بیٹھی اپنی بےبسی پر رو رہی تھی۔
”طوبیٰ لان میں جھولے پر بیٹھی رو رو کر اللّٰہ سے باتیں کرتے ہوئے اپنے دل کا حال بیان کر رہی تھی آج اسے شدت سے اپنے معذوری احساس ہوا جس پر اسکا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا۔
”میں تو اس لیے منا کر رہی تھی کے کیسے یہ بچاری اپنی وہیل چیئر لے کر پرائے لوگوں کے سامنے آئیگی، لیکن یہ اپاہج تو اپنی ہی شادی کا خواب دیکھ رہی ہے۔ مامی کے کہہ الفاظ یاد آنے پر اس کے آنسوؤں میں روانی آئی تھی۔
”شادی.!!
”شادی کا خواب..!!
”اللّٰہ جی.! آپ تو جانتے ہیں، میں نے کبھی ایسا کوئی خواب نہیں دیکھا، ہاں مگر.!! روتے ہوئے کچھ یاد آنے پر اسنے دائے ہاتھ سے اپنے گال پر پھسلے آنسوں صاف کیے جو روکنے کا نام نہیں لے رہے تھیں۔
” ہاں ایک خواب دیکھا.! نہیں.! نہیں.! وہ تو میرا بچپنا، پاگل پن، یا پھر میری نادانی کہہ لے کیوں کے جو لڑکی اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کی سکت نہ رکھتی ہو وہ ہؤا میں اڑنے کا خواب دیکھے یہ تو پاگل پن ہی ہو سکتا تھا، اللّٰہ جی آپ جانتے ہے میں نے اپنا پائلٹ بننے کا خواب اپنی ساری خواہشوں کے ساتھ بہت پہلے اپنے دل میں ہی دفن کر دیا تھا۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے بے جان پیروں کو دیکھتے اسکے چہرے پر درد عیاں تھا۔
اپنی خوشیاں تو بھول ہی گئی تھی کہ میری اپنی بھی کوئی خوشی یا خواہش ہو سکتی میں نے تو اپنی ساری خوشیاں اپنی بہنوں سے منسلک کر لی تھی ان کی خوشی میں ہی اپنی خوشیاں ڈھونڈ لیا کرتی تھی مگر اب تو لگتا ہے وہ بھی میری قسمت میں نہیں، سب میری اس معذوری کی وجہ سے، میں کیوں نہیں چل سکتی، کیوں میں باقی سب کی طرح نارمل زندگی نہیں گزار سکتی کیوں ؟؟؟
وہ رو رہی تھی سسک رہی تھی مگر ایسا کوئی نہیں تھا جو اسکے آنسو صاف کرتا جو اسکا درد سمجھتا وہ اکیلی تھی۔
اگر میں معذور نہ ہوتی، میں بھی باقی سب کی طرح چل سکتی تو آج لائبہ کی خوشیوں میں شامل ہوں سکتی، اسکے چہرے پر آئی پہلی مسکراہٹ دیکھ سکتی، لیکن نہیں.! مجھے سب سے دور کر دیا گیا.! کیوں کے میں چل نہیں سکتی٬ میں اپاہج ہوں٬ لاچار ہوں٬ میری نظر لگ سکتی، اور سب کو لگتا ہے کہ میں اپنی بہن سے حسد کروں گی اپنی بہن کی خوشیوں کو نظر لگاؤ گی.!
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسکی تکلیف بڑھتی جارہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکا دل بند ہو جائے گا اپنا درد کم کرنے کے لیے پاس رکھی وہیل چیئر کو خود سے دور دکھلا تھا
“سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے سب کی زمیدار تم ہو میں کیسی کے سامنے نہیں جاسکتی صرف تمھاری وجہ سے وہ اپنا غصہ بےجان وہیل چیئر پر نکال رہی تھی اس اب سے بے خبر کے کوئی اسے دیکھ رہا ہے
آزر خان جو فون سننے باہر نکلا تھا کسی کی سسکیاں سن کر اس طرف کھینچا چلا آیا سامنے جھولے پر اسے کیسی پری کا گمان گزرا کیوں کہ ایسی خوبصورتی آج تک اس نے کتابوں کہانیوں میں ہی سننی تھی آج پہلی بار اس نے اتنی خوبصورت مگر اداس نازک سی لڑکی جو دنیا سے بیگانی اپنی ہی دنیا میں مگن رونے مشغول تھی۔
”ازر خان کو اس کا دکھ اپنے دل پر محسوس ہوا تھا ازر نے آگے بڑ کر اس کے آنسو چننے چاہے لیکن کسی احساس کے تحت وہی رکنا بہتر سمجھا، اس کے درد کو محسوس کرتے کے ازر کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں تھی۔
”آپ یہاں ہیں.؟ پیچھے سے آئزہ کی آواز آئی جس پر آنکھوں میں آئی نمی انگوٹھے سے صاف کرتے فوراً پلٹا۔
”ازر بھائی.! آپ کو اندر بولا رہے ہیں۔ اسنے اطلاع دی جس پر وہ سر کو جنبش دیتے اندر کی اور بڑھ گیا اور وہ بھی دائے بائے دیکھ کر کندھے اچکاتی اندر چلی گئی۔










”دس از نوٹ فیئر پھوپھو جان.! میرے بغیر ہی یہاں بات پکی ہو گئی.؟ ٹیبل پر رکھی مٹھیاں کی تھال سے برفی کا پیس اٹھا کر بائٹ لیتے ہوئے مسنوئی شکوہ کیا
” بیٹا ایسی بات نہیں، تم نے ہی آنے میں دیر کر دی ۔ سائرہ نے اسکی بات کی تردید کرتے ہوئے اٹھ کر پیار دیا سب انجان شخص کو یو بے تکلف ہوتا دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوئے۔
”میں ہوں اس گھر کا داماد اور میرے بغیر ہی یہاں بات پکی ہو رہی تھی۔ سب کی نظروں میں اپنے لیے ناآشنائی دیکھ کر اپنا تعارف کروایا مگر ناراضی اب واضح تھی۔
”تم داماد نہیں.! بیٹے ہو.! کیوں غیروں جیسی بات کر رہے ہو۔ اب کی بار آریان صاحب مشکوک نظروں سے دیکھتے ڈپٹا۔
”اگر آپ مجھے بیٹا سمجھتے تو میرا انتظار کرتے یو میرے بغیر میری بہن کا رشتہ نہ طے کرتے کیوں؟ صحیح کہہ رہا ہوں ناں مسٹر.؟؟ چل کر آریان صاحب کے صوفے کے بازو پر بیٹھتے ہوئے سامنے بیٹھے وہاج کو مخاطب کیا۔
”وہاج ملک.! اپنا تعارف کروایا اتنے میں آزر خان بھی ڈرائنگ روم میں واپس آیا اسکے پیچھے ہی آئزہ بھی۔
”ارحم چودھری.! اور یہ اپنا نام بتاتے ہوئے آزر خان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
یہ بھی ہماری فیملی کا اہم حصہ اور میرا بیسٹ فرینڈ خان انڈسٹری کا آزر خان سی ای او.! ارحم کی سوالیہ نظروں کا مفہوم سمجھتے اضافی تعارف دیا جس پر آزر نفی میں سر ہلا گیا۔
”اسلام علیکم.! خوش اخلاقی سے سلام کیا جس اس نے اچھے سے جواب دیا۔
”سب نظر آرہے ہیں لیکن طوبیٰ نظر نہیں آرہی۔ کسی کو نہ پاکر ارحم نے اپنی ماں کے پہلو میں سوال اٹھایا۔
”وہ…!! اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہے۔اس بار قدسیہ بیگم جواب دیا جو کافی دیر سے خود کو ایک مہذب خاتون ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی قدسیہ بیگم جانتی تھی ایک ارحم ہی تھا جو طوبیٰ کے لیے اپنی ماں سے بھی لڑ سکتا تھا۔
”کیا.!! اس کی طبیعت ٹھیک نہیں.! ارحم کو فکر لاحق ہوئی۔
” طوبیٰ.؟ فرحانہ کا انداز سوالیہ تھا۔
”لائبہ ور آئزہ کی بہن اور ہماری سالی صاحبہ.! ارحم نے گویا سب کے علم میں اضافہ کیا
”طوبیٰ کے ذکر پر آزر خان کو باہر بیٹھی پری پیکر لڑکی کا خیال آیا تھا جس پر اسکے ہونٹوں پر تبسم پھیل گئی۔
”سب بڑے اپنی باتو میں مصروف ہو گئیں تھیں۔
آپ سب کو نہیں لگتا یہاں بڑوں کی باتوں ہم بور ہو رہے ہیں وہاج کارحم نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”اگر آپ سب کو کوئی اعتراض ناں ہو تو ہم سب باہر لان میں چلے جائیں۔ ارحم نے کہا تھا ہاں جاؤ وہاج اور ازر کو لان بھی دیکھاؤ