قسط: 6
”تم کہا تھے.! آزر کو آتے دیکھ وہاج نے پوچھا۔
”باہر.! یک لفظی جواب دیتے اپنی جگہ پر بیٹھا کچھ دیر پہلے کی مناسبت وہاج کو وہ بجھا بجھا سا لگا۔
”کیا بات ہے تم ٹھیک ہو، آزر.؟ اسے فکر ہوئی
“میں ٹھیک ہوں فکر نہیں کرو.! آزر نے وہاج کو تسلی دی مگر وہ اسکے چہرے کے اترتے چڑھتے رنگ کو دیکھ تشویش میں مبتلا ہوا۔
”سب آجائیں کھانا لگا دیا ہے۔ سائرہ نے آکر اطلاع دی۔
سب ڈائنگ ٹیبل پر موجود تھے سوائے طوبیٰ کے۔
”نوری.! (ماسی ) طوبیٰ کو کہا آنے کا۔ کرسی کھنچ کر بیٹھتے ہوئے ارحم نے پوچھا۔
”نہیں صاحب جی.! ٹیبل پر سلاد کی پلیٹ رکھتے ہوئے بتایا۔
”میں لے کر آتا ہوں.! چیئر کھسکا کر اٹھنے لگا
”تم کیوں اس اپاہج کے لیے پریشان ہو رہے ہو.! اسے تو عادت ہے اکیلے رہنے کی، رہنے دو وہ یہاں آکر کیا کرے گی۔ ناگواری سے کہتے ہوئے ارحم کو جانے سے روکا۔
”ماما پلیز.! طوبیٰ نام ہے اسکا۔ ارحم نے فوراً سے اپنی ماں کو ٹوکا۔
”ہے تو اپاہج ہی ناں.! قدسیہ بیگم نے اپنی بات پر زور دیا۔
”آپ بیٹھیں.! میں لیکر آتی ہوں آپی کو۔ آئزہ اپنی جگہ سے اٹھی جانتی تھی کہ یہاں بات بڑھ سکتی ہے۔
”آپا.! کبھی تو بخش دیا کریں.! آریان نے خفگی دیکھائی۔
”ارے.! میں نے کوئی غلط بات نہیں کی, جو ہے. سو ہے، اب اپاہج کو اپاہج نہیں تو اولمپکس اتھلیٹ کہوں.! قدسیہ بیگم اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
“آنٹی.! یہ تو اللّٰہ کی طرف سے ہے وہ جسے چاہے صحت دے جس چاہے کسی آزمائش میں ڈال کر آزمائے اس میں طوبیٰ کا تو کوئی قصور نہیں، یہ کسی کے ساتھ کبھی بھی ہوسکتا ہے، اس بار وہاج نے اپنی پلیٹ میں بریانی نکالتے ہوئے ٹھہرے ہوئے انداز میں نقطہ اُٹھایا
”جی بہن.! وہاج.! صحیح کہہ رہا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی میں نکس نکالنے والے کے کون کیسا ہے اور کیسا نہیں۔فرحانہ نے بھی اپنے بیٹے کی ہاں میں ہاں ملای تھی۔
” اللّٰہ پاک معاف کرے بڑا بول نہیں بولنا چاہئے مگر ہر کوئی بھلا کیسے ہو سکتا ہے اپاہج.! یہ تو اپنے اپنے اعمال ہوتے جس کی سز ہمھیں دنیا میں بھگتنی پڑتی ہے، آپ اسکی معصوم صورت دیکھ کر دھوکا نہ کھانا بہت شاطر لڑکی ہے، لوگوں کو اپنے بس میں کرنے کے سارے گُن آتے ہیں، اپنی دونوں بہنوں سے ایک دم الگ ہے۔ وہاج اور فرحانہ کی بات سن کر سلگ کر رہ گئی تبھی زہر خند لہجے زہر اگلنا شروع کیا جس پر ضبط کیے آزر غصہ قابو کرنے کی کوشش کرتے جبڑے بینچ گیا۔
”آپا بس بھی کر دیا کریں، آپ تو ہر وقت اس کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ سائرہ ضبط جواب دینے لگا تھا۔








“آپی.! دروازے پر دستک دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی جو حسبِ معمول اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور بالکونی کا سلائیڈ ڈور کھلا تھا ٹھنڈی ہوا کے جھونکے وقفے وقفے سے وہاں لٹکے سفید پردوں کو اڑا رہے تھے۔
”آپی آپ سو گئی ہیں .؟ طوبیٰ جو بیڈ کراؤن کے ساتھ سر ٹکائے خالی نظروں سے ہوا سے لہراتے پردے میں جانے کیا دیکھ رہی تھی آئزہ کی بلانے پر اسکی جانب متوجہ ہوئی۔
”نہیں، آئزہ آجاؤ.! آنکھوں کی نمی دائے ہاتھ سے صاف کرتے اجازت دی۔
”آپی آپ کھانے پر نہیں آئی؟ سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔آئزہ نے لائٹ اون کرتے ہوئے پوچھتے ہوئے بتایا۔
”مامی.! چلی گئی ہے کیا.؟ اسکی بات کا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔
”نہیں.!
”تو پھر مجھے بلایا.؟ اس کی حیرت بنوز برقرار تھی۔
”آپی.! آپ کو تو پتہ ہی ہے ارحم.! کے سامنے مامی.! کی کہا چلتی ہے.! بتاتے ہوئے وہ اسکے سامنے بیٹھی۔
”جو بھی ہے.! میرے سر میں بہت درد ہے، تم جا کر کہہ دو میں سو گئی ہوں.! اسکا انداز ٹالنے والا تھا۔
”لیکن آپی.!!
”جیسا میں کہ رہی ہوں ویسا ہی کرو.! دو ٹوک انداز میں کہتے ہوئے کمفرٹ درست کیا تھا جس پر وہ دیکھ کر رہ گئی۔










”آپی کے سر میں درد تھا تو وہ دوا لے کر سو رہی ہیں۔ کرسی کھنچ کر بیٹھتے ہوئے آئزہ نے بتایا۔
”دیکھا میں نہ کہتی تھی اس اپاہج کو اپنی بہنوں کی خوشیوں سے کوئی غرض نہیں حسد کرتی ہے اپنی بہنوں سے۔ ناگواری سے کہتے سر جھٹکا جس پر ضبط کیے آزر نے اپنی مٹھیاں بھنچے کچھ کہنے کے کو لب واں کیے ہی تھے کہ ارحم بولا پڑا۔
”ماما پلیز.!!اپنے سامنے رکھی پلیٹ کو تیش سے پیچھے دھکیل کر اٹھا جس پر باقی سب بھی اٹھے تھیں۔
”ارحم ریلکس.! کیا ہو گیا سب دیکھ رہے ہیں آئزہ نے آگے بڑ کر اس روکنے کی کوشش کی۔
”تم.! تو.!!
”واقعی محبت کرتے ہو تو پھر یہی تمھاری محبت کا امتحان ہے کہ تم کبھی آئزہ کی آنکھوں میں آنسو نہ آنے دو.! اب میں بھی دیکھتی ہوں تم کہاں تک اپنی محبت کے امتحان میں کامیاب ہوتے ہو.! کسی کے کہے الفاظ یاد آنے پر وہ بنا کچھ کہے آئزہ کو ساکت کھڑا چھوڑ وہاں سے نکلتا چلا گیا
”ارحم.!! ارحم.!! قدسیہ بیگم پکارتی ہوئی پیچھے آئی تھی مگر وہ بھی کہا کسی کی سننے والا تھا۔







”کافی کا مگ ہاتھ میں لیے دوسرا ہاتھ ٹراؤزر کی پاکٹ پھنسائے چھوٹے چھوٹے کافی کے سپ لیتے ہوئے وہ اب تک طوبیٰ کے سحر میں کھویا ہوا تھا۔
گھر واپس تو آگیا مگر اسکا دل وہی رہ گیا وہ من موہنی مگر افسردہ صورت بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے لہرا رہی تھی اتنے عرصے میں پہلی مرتبہ کوئی لڑکی اسکے دل کو بھائی یا پھر دل میں ہی گھر کر گئی یہ کہنا قبل از وقت تھا۔
”اگلے ہی لمحے قدسیہ بیگم اور ارحم کا خیال آتے ہی اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے کچھ سوچتے ہوئے کافی کا مگ سٹول پر رکھتے ہوئے جلد بازی میں اپنا موبائل نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے کان سے لگایا جو پہلی بیل پر اٹھا لیا گیا۔
”ضروری ہدایت دیتے ہوئے کال ڈیسکنیٹ کر کے فون واپس سٹول پر رکھ کر دونوں بازوں سینے پر باندھے آسمان میں روشن چاند کو دیکھنے لگا جس میں اسے وہی صورت دیکھائی اسکی ویران آنکھیں اپنے اندر جانے کتنا درد چھپائے بیٹھی تھی جو آزر کی بے قرار بڑھا گئی تھی۔
جانے کتنی دیر تک وہ انہی سوچوں میں گم طوبیٰ کے حوالے سے سوچتے کب اسکے دل نے طوبیٰ کو اپنا مان اسے خبر ہی نہ ہوئی۔










”ایک نئی صبح کا آغاز ہوا ناشتے کی پر ٹیبل پر موجود آریان صاحب نیوز پیپر پڑھ رہے تھے کہ سائرہ چائے کی کٹیلی لاکر رکھتے کرسی کھنچ کر بیٹھی تو سائرہ کے چہرے پر پریشانی بھانپتے ہوئے آریان صاحب نے نیوز پیپر فولڈ کرکے ایک طرف رکھا۔
”آریان.! سب اتنی جلدی میں ہو رہا ہے میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا، اتنی تیاریاں ہیں کرنے کی اتنے کام ہیں میرا تو سوچ کر بی پی ہائی ہو رہا ہے۔ کپ میں چائے انڈیلتے سائرہ تشویش کا اظہار کیا۔
“ارے بیگم.! پریشان کیوں ہو رہی ہے سب ہو جائے گا فکر نہ کریں۔ آریان صاحب نے سائرہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے تسلی دی۔
”جی امی.! جو میرے لائق کام ہو مجھے بتا دیجیے گا میں کر دونگی، دیکھنا سب بہت اچھے سے ہوگا۔ گلاس میں جوس نکالتے پیشکش کرنے کے ساتھ ہی ہمت بڑھائی۔
”تم بس دعا کرو باقی سب کام خود ہی ہو جائے گیں۔ سائرہ نے نرمی سے ٹالا جس پر وہ اسکا چہرہ کچھ بجھ سا گیا مگر چہرے پر مسکراہٹ برقرار رہی۔
گڈ مارننگ.!! مسکرا کر وش کرتے ہوئے لائبہ کرسی کھنچ کر بیٹھی جسکا سب نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”کیا باتیں ہو رہی ہیں بریڈ اٹھا کر جیم لگاتے ہوئے پوچھا
کچھ نہیں بس تم دونوں کی شادی کی باتیں ہو رہی۔۔۔۔
“دونوں سے کیا مطلب ہے آپ کا.؟ آئزہ جو ابھی آئی تھی طوبیٰ کی بات سن حیران ہوئی
“دونوں سے مراد ہے کہ ہم تمھیں بھی لائبہ کے ساتھ ہی رخصت کر رہے ہیں۔ سائرہ بیگم نے گویا بمب پھوڑا
”امی جی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ منہ بسور خفگی سے کہتی لائبہ کے ساتھ والی کرسی کھنچ کر بیٹھی جبکہ لائبہ کے چہرے پر کھسیانی ہنسی ابھری جبکہ طوبیٰ کچھ متفکر ہوئی۔
”امی اتنی جلدی بھی کیا ہے.؟ جیسے میں جانتی نہیں کہ دل میں تو تمھارے لڈو پھوٹ رہے ہیں۔ لائبہ نے اسکی نقل اتارتے کندھے سے کندھا مارتے ہوئے چھیڑا
”بیٹا قدسیہ بہن موقع ہی نہیں دیا کہ ہم تم سے تمھاری مرضی جان سکیں، میں جانتا ہوں.! یہ سب بہت جلدی ہے لیکن آج نہیں کل تو ہونا ہی ہے، تو پھر آج ہی کیوں نہیں۔ آریان صاحب نے سنجیدہ مگر نرم انداز میں بتاتے ہوئے پوچھا جس پر آئزہ نے شرماتے ہوئے سر جھکا لیا گویا سب کی رضا مندی میں راضی ہو جس پر باقی سب خوش ہوئے مگر طوبیٰ نے پر سوچ انداز میں آئزہ کو دیکھتے کسی گہری سوچ میں پڑ گئی۔
ناشتے کے بعد آریان صاحب اوفس چلے گئے اور لائبہ سائرہ کے ساتھ مل کر برتن سمیٹنے لگی
”آئزہ.! مجھے کمرے میں چھوڑ دو.؟ طوبیٰ نے کہا جس پر آئزہ نے اثبات میں سر ہلاتی ہوئے اٹھی۔









اپنے کشادہ کمرے میں جلے پیر کی بلی بننی مسلسل کسی کا نمبر ڈائل کر رہی تھی
بیڈ پر بکھرا سامان بتا رہا تھا وہ کہی جانے کی تیاری کر رہی ہے۔
تم واپس آرہی ہو یا نہیں… فون پر کسی نے دو ٹوک انداز میں پوچھا
مگر ڈیڈ..! وہ ضدی لہجے میں بولی
”اگر مگر کچھ نہیں.! آرہی ہو.! مطلب آرہی ہو..!! دوسری جانب اٹل انداز میں حکم دیا گیا جس پر احتجاج کرنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ کال ڈیسکنیٹ کر دی گئی۔
”ڈیڈ ایک بار آپ میری…… ٹوووووووووو
”آزر.! آزر.! آزر.! تم جتنا مرضی مجھ کو خود سے دور کرنے کی کوشش کر لو مگر میں تمھیں کبھی خود سے دور ہونے نہیں دونگی۔ اسکا نام بڑبڑاتے ایک بار پھر سے نمبر ڈائل کرتے ہوئے وہ مظطرب سی یہاں سے وہاں چکر لگا رہی تھی جو اس بار بھی انگیج جا رہا تھا۔
” پلیز.! پک اپ دا کال آزر.! آئی وانٹ ٹو ٹاک یو رائٹ ناؤ.! ایک بار پھر سے وہی جواب آنے پر وہ غصے سے زور سے فون بیڈ پر پھینکتے ہوئے خود بھی ڈھے گئی تھی۔
”ڈیڈ کو بھی ابھی بلانا تھا مجھے ایسی بھی کیا ایمرجنسی ہو گئی ضرور اس میں بھی تم ہی انوالو ہو آزر.! مگر میں واپس آؤگی اپنے کپڑے سوٹ کیس میں پٹھخنے کے انداز میں رکھتے اسکا ضبط جواب دینے لگا اور آنسوں بہہ کر اسکے گالوں پر پھسل رہے تھے جنھیں وہ بے دردی سے صاف کرتے ہوئے اپنی پیکنگ کرنے لگی۔








”آئزہ طوبیٰ کو کمرے میں چھوڑ کر جانے کے لیے پلٹی تھی کہ طوبیٰ نے آواز دی۔
آئزہ.!
”جی آپی.! رک کر سامنے ائی۔
”مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے،
“جی کہیں میں سن رہی ہوں.! سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”آئزہ.! میں چاہتی ہوں تم ایک بار اچھے سے سوچ لو یہ تمھاری زندگی بھر کا فیصلہ ہے.؟۔
”کس بارے میں.؟ انجان بنی۔
“تم اچھی طرح جانتی ہو.! میں کس بارے میں کہہ رہی ہوں۔ وہ سنجیدہ ہوئی۔
”آپی.! یہ کمبخت سوچنے کا موقع ہی کہا دیتا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر ڈرامائی انداز اپنایا۔
”آئزہ.! یہ کوئی فلم یا ڈراما نہیں چل رہا یہ اصل زندگی ہے اور زندگی دوسرا موقع نہیں دیتی۔ وہیل چیئر آگے کرتے اب کی بار سختی سے ٹوکا جس پر وہ بھی سنجیدہ ہوئی۔
“آپی.! فکر نہ کریں سب اچھا ہوگا اور آپ نے ہی کہا تھا وہ لڑکی ارحم کی زندگی میں کبھی نہیں آئیگی تو پھر کس بات کی پریشانی ہے۔ آگے بڑھ کر پنجوں کے بل اسکے گھٹنوں کے پاس بیٹھتے یقین دہانی کروانے کی کوشش کی۔
”اس لڑکی کے آنے یا نہ آنے سے فرق نہیں پڑتا آئزہ.! کل جو پسندیدگی مجھے وہاج کی آنکھوں میں لائبہ کے لیے نظر آئی میں نے کبھی ارحم کی آنکھوں میں تمھارے لیے نہیں دیکھی، ابھی تو تمھیں یہ سب باتیں سمجھ نہیں آرہی لیکن جب تک تمھیں ان باتوں کی سمجھ آئے ،میں نہیں چاہتی تب تک بہت دیر ہو جائے۔ کچھ باتیں واضح کرتے ہوئے آنے والے وقت سے باخبر کرنا چاہا۔
”اوو.! ہوو.! آپی آپ بھی نہ بس فارغ بیٹھی بیٹھی فضول کی باتیں سوچتی رہتی ہیں.! آپ ایسا کریں پینٹنگ کریں خود کو مصروف رکھا کریں، ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہی ہیں۔ جس پر وہ تلخ ہوئی۔
”آئزہ تم۔۔۔۔۔۔۔.! طوبیٰ نے اسے سمجھنے کی خاطر کچھ کہنا چاہا مگر اسکی بات کاٹتے ہوئے اسکی کہی یاد دلائی۔
”آپی.! ویسے بھی آپ کہتی ہیں ناں“ ہمارے بڑے جو بھی فیصلہ کر گیں وہ ہمارے بھلے کے لیے ہی ہوگا تو پھر اب آپ بھی تو بھروسہ رکھے سب صحیح ہوگا۔
”مگر وہ تم سے محبت نہیں کرتا.!۔
”میں تو کرتی ہوں ناں اتنا ہی کافی ہے، اور آپ دیکھنا ایک دن میں اسے خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دونگی۔ اٹل انداز میں ایک ضد تھی جس پر طوبیٰ کچھ نہ بول پائی۔