اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 7 (پارٹ 1)

اس نے سجدے سے سر اٹھایا تھا ۔۔ کچھ دیر اسکے لب ہلتے رہے تھے ۔۔ واضح محسوس ہورہی تھی ۔۔ اسکے لبوں کی کپکپاہٹ ۔۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چہرہ اپنے دائیں کاندھے کی جانب موڑا تھا ۔۔ پھر بائیں کاندھے کی جانب موڑا تھا ۔۔۔ چہرہ سیدھا کر کے اب اس نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے تھے ۔۔ آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ گرا تھا ۔۔ اور آہستہ آہستہ باقی بھی گر رہے تھے ۔۔ آنسوؤں کی رفتار اسے کچھ بھی کہنے سے روک رہی تھی ۔۔ اس نے کچھ پڑھا تھا ۔۔ کچھ کہا تھا ۔۔ اور پھر اسکی آواز آہستہ آہستہ تیز ہوئی تھی ۔۔ اس نے اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں چھپایا تھا ۔۔
’’ مجھے اس آزمائش سے نکال دے ۔۔۔ مجھے اپنی رضا دے ’’ وہ مسلسل یہی الفاظ دہرا رہا تھا ۔۔۔ جانے کتنا ہی وقت گزرا تھا ۔۔ جب اس نے اپنا سر اٹھایا تھا ۔۔۔ دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیر کر وہ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
دل اچانک ہی ہلکا محسوس کر رہا تھا ۔۔ خدا سے بات کر لینے کے بعد دل کا ہلکا محسوس کرنا بھی تو لازم ہوتا ہے ۔۔
’’ رونے سے اکثر دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے ۔۔ مگر خدا کے آگے رونے سے روح کو سکون ملتا ہے ’‘ ایک آواز نے اسکے باہر کی جانب بڑھتے قدم روکے تھے۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔ سامنے کوئی بزرگ شخص کھڑے تھے ۔۔
’’ آزمائش سے نجات اور خدا کی رضا اس سے رو رو کر مانگ لینے کے بعد ۔۔ کیا محسوس کر رہے ہو ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہے تھے ۔۔
’’ ہلکا ۔۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اچانک ہی کوئی بوجھ ۔۔ کوئی وزن دل سے اتر گیا ہو ۔۔ بے چینی مٹ گئ ہو ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ وہ واقعی ایسا ہی تو محسوس کر رہا تھا ۔۔
‘’ تو پھر خدا کا جواب پالیا تم نے ۔۔ مبارک ہو ’’ وہ مسکرا کر آگے بڑھنے لگے تھے ۔۔ جبکہ وہ الجھا سا انہیں دیکھ رہا تھا۔۔
’’ جواب کیسا ؟ مجھے تو کوئی جواب نہیں ملا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔ اور وہ بزرگ اسے دیکھ کر مسکرائے تھے ۔۔
’’ خدا شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے ۔۔ وہ اگر دل کو سکون دے ۔۔ اگر ضمیر سے بوجھ ہٹا دے ۔۔ تو پھر سمجھو اس نے اپنا جواب دے دیا ہے۔۔۔ وہ تم سے راضی ہے ۔۔ اور اگر تم سے خدا راضی ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اب تم وہی کرو جو اسے راضی رکھے ’’
’’ اور مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میرا کونسا عمل اسے ناراض نہیں کرے گا ۔۔ اور کونسا عمل اسے راضی رکھے گا ؟ ’’ اس نے ایک اور سوال کیا تھا۔۔۔
’’ دل میں رہتا ہے وہ ۔۔ دل کو سکون دیتا ہے۔۔ اور پرسکون دل جو کام کرنے کا کہتا ہے ۔۔ اس میں اسکی رضا ہوتی ہے ۔۔ اب اپنے دل سے مشورہ لو ۔۔ اسکا ہر مشورہ صحیح ہوگا ’’ وہ کہہ کر جاچکے تھے ۔۔ اور احتشام وہی کھڑا رہ گیا تھا ۔۔ اس نے دل سے مشورہ لینا تھا ۔۔ اس نے دل سے مشورہ مانگا تھا ۔۔ اور پھر اچانک ہی ۔۔ دل نے اسے ایک مشورہ دیا تھا ۔۔ دل نے اسے جو مشورہ دیا ۔۔ اب وہ اس پر عمل کرنا چاہتا تھا ۔۔ اس نے اپنا موبائیل نکالا تھا ۔۔ اب اسکے قدم اپنی گاڑی کے جانب تھے ۔۔
’’ پارسا ۔۔ ’’ موبائیل کان سے لگائے ۔۔۔ گاڑی کا دروازہ کھولتے اس نے کہا تھا ۔۔۔
’’ میرا ایک کام کرو ’’ وہ کہتے ساتھ گاڑی میں بیٹھا تھا ۔۔ اور اس نے گاڑی آگے بڑھا دی تھی ۔۔

وہ اس کمرے میں اب بھی اکیلی تھی ۔۔ پارسا کے لائے ہوئے کپڑے پہنے وہ صوفے پر بیٹھی ۔۔ قرآن کی تلاوت کر رہی تھی ۔۔ اسک ایک ایک لفظ اسکی روح کو سکون دے رہا تھا ۔۔ اس نے کچھ دیر بعد قرآن کو چھوم کر رکھا تھا ۔۔ اسی وقت روم کے دروازے پر ناک ہوا تھا ۔۔ اس نے جاکر دروازہ کھولا اور سامنے کھڑی پارسا کو دیکھ کر وہ مسکرائی تھی ۔۔
’’ کیسی ہیں آپ ؟ ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔ اور پارسا اسے مسکراتا دیکھ کر پرسکون ہوئی تھی ۔۔
’’ اب بہت اچھی ہوگئ ہوں ۔۔ یہ ناشتہ ہے تمہارے لئے ’’ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا شاپر اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔
’’ آپ نہیں کرینگی ؟ ’’ الہام نے شاپر لیتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
’’ نہیں ۔۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے ’’ وہ کہہ کر پلٹی تھی ۔۔ مگر پھر رک کر دوبارہ الہام کی جانب دیکھا تھا۔۔
’’ تمہیں مسکراتا دیکھ کر اچھا لگا الہام ’’
’’ آپ نے ہی تو کہا تھا ۔۔ جس سے خدا راضی ہو ۔۔ اسے دنیا کی رضا کی کیا پرواہ ؟ ’’ وہ مسکرائی تھی ۔۔ اور پارسا نے محسوس کیا ۔۔ یہ مسکراہٹ دل سے تھی ۔۔
’’ ٹھیک کہا تم نے۔۔ خدا سے بہتر نیتوں کا حال جاننے والا کوئی نہیں ہے ۔۔ کیونکہ خدا سے بہتر رازِدل کوئی نہیں ہے’’ وہ کہہ کر پلٹی تھی۔۔ اس کمرے سے جاچکی تھی ۔۔ مگر وہ یہ نہیں جان سکی تھی ۔۔ کہ کمرے میں موجود الہام کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی ۔۔
’’ رازِدل ’’ اس نے اپنے ہونٹوں کو سرگوشی کرتے سنا تھا ۔۔ اور پھر کوئی تھا ۔۔ کوئی تھا جس کا چہرہ اچانک کی نظروں کے سامنے آیا تھا ۔۔۔ اس نے کھڑکی سے باہر ۔۔ عرش کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ وہ خاموش تھا ۔۔ وہ میری جانب دیکھ بھی نہیں رہا تھا ۔۔ شاید میں اسکی نظر میں اسکی ایک نظر کے قابل بھی نہیں تھی۔۔ وہ تو ہر راز جان جاننے کا دعوہ کرتا تھا ۔۔ اور اسکے دعوے ، دعوے ہی رہ گئے ’’ اس کی آنکھوں میں نمی آئی تھی۔
’’ آپ نے ٹھیک کہا ڈاکٹر پارسا ۔۔۔ عرش والے سے بہتر رازِدل تو عرش خود بھی نہیں ہوسکتا ’’ وہ مسکرائی تھی ۔۔ اور اس بار مسکراہٹ میں ایک درد بھی تھا ۔۔

آج کی صبح خان ہاؤس میں سوگوار تھی۔۔ مگر شاید یہ سوگواری صرف چند لوگوں کے لئے ہی تھی ۔۔
اربش نے اپنے کمرے کے کی کھڑکی سے پردہ ہٹایا تھا۔۔ اور ایک لمبی سانس لے کر سامنے دیکھا ۔۔ آج کی صبح اسے نہایت ہی خوبصورت لگی تھی۔۔۔ اسکے ہونٹوں پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔۔
جس سے آپ نفرت کرتے ہوں۔۔ اگر اسے برباد کردو تو سب کچھ کتنا اچھا لگتا ہے؟ آج اربش کو بھی سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔ وہ کمرے سے باہر نکلی تو جیسے ہر طرف سناٹا تھا۔۔۔ سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔۔ اس نے کچن کا رخ کیا تھا جہاں ملازمہ ناشتا بنا رہی تھی۔۔
’’ ناشتہ تیار ہے ؟ ’’ اس نے ملازمہ سے پوچھا تھا۔۔
’’ جی بی بی مگر کوئی آیا ہی نہیں آج نیچے ’’
’’ میں بلاتی ہوں ۔ تم ناشتہ لگاؤ ’’ اسکا رخ اب ماما پاپا کے کمرے کی طرف تھا۔۔ دروازے تک پہنچ کر اسنے اپنے چہرے کے تعصورات بدلے تھے اور اب دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئی تھی۔۔ سامنے ہی پاپا بیڈ پر بیٹھے نظر آئے تھے اور ماما شاید واش روم میں تھیں۔۔ وہ پاپا کے ساتھ جاکر بیٹھی تھی۔۔
’’ آپ ناشتہ کرنے نہیں آئے ’’ اس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ جانے انکا دھیان کن سوچوں پر تھا۔۔ اسکی بات پر وہ چونکے تھے۔۔
’’ تم نے کر لیا؟ ’’ انہوں نے پوچھا تھا۔۔ اسی وقت ماما بھی فریش ہوکر باہر آئیں تھیں۔۔
’’ نہیں ۔۔ آپ دونوں کے بغیر نہیں کرونگی میں۔۔ چلیں آپ نیچے ’’ وہ اب انکا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہوئی تھی۔۔
’’ میرا بلکل دل نہیں چاہ رہا کچھ کھانے کا ’’ انہوں نے انکار کیا تھا۔۔۔
’’ آپ اسکی وجہ سے نہیں کھا رہے جو آپکو چھوڑ کر چلی گئ۔۔ اور میں جو آپکے انتظار میں بیٹھی ہوں۔۔ آپ مجھے انکار کر رہے ہیں ’’ اس نے اداس لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔ تم چلو ہم بھی آرہے ہیں ’’ ماما نے اس سے کہا تھا اور اس نے پاپا کی طرف دیکھا جو پھیکا سا مسکرائے تھے۔۔۔
’’ میں انتظار کر رہی ہوں ’’ وہ کہہ کر باہر نکلی تھی۔
’’ ایک رات بہت تھی ایجاز اس سوگ کے لئے۔۔ اب میں اربش پر اسکا اثر نہیں پڑھنے دینا چاہتی۔۔ چلیں وہ ہمارا انتظار کر رہی ہے’’ انہوں نے کہا تھا اور ایجاز صاحب بنا کچھ کہے کھڑے ہوچکے تھے ۔۔
اب مرنے والوں کے ساتھ مرا تو نہیں جاتا نہ ؟
تھوڑی دیر بعد ناشتے کی میز پر وہ تینوں بیٹھے خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے۔۔ کسی نے بھی کسی کو مخاطب نہیں کیا تھا۔۔
’’ باہر کوئی ڈاکٹر پارسا آئیں ہیں ’’ ملازمہ نے آکر اطلاع دی تھی۔۔
’’ یہ کون ہیں ؟ ’’ ایجاز صاحب نے پوچھا تھا۔۔
’’ احتشام کے ساتھ کام کرتی ہیں ۔۔میں دیکھ کر آتی ہوں ’’ وہ کہہ کر گیسٹ روم کی طرف گئ تھی۔۔ جہاں ڈاکٹر پارسا بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔
’’ اسلام و علیکم ڈاکٹر پارسا۔۔ سب خیریت ہے صبح صبح یہاں آنا ہوا ’’ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسکے سامنے آکر کھڑی ہوئی تھی۔۔ پارسا بھی کھڑی ہوگئ تھی۔۔
’’ مجھے الہام کے کمرے سے کچھ ضروری چیزیں لینے کے لئے بھیجا ہے۔۔ آپ مجھے اسکا کمرا بتا دیں ’’ اسکی بات پر اربش کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔۔
’’ ضرور ۔۔ آپکو جو چاہئے آپ لے لیں۔۔ کیونکہ اسکے بعد یہ کمرہ ہمیشہ کے لئے بند ہونے والا ہے ’’ ڈاکٹر پارسا کو اسکا انداز کچھ عجیب لگا تھا۔۔
’’ انہیں الہام کے کمرے میں لے جاؤ ’’ ملازمہ کو آرڈر دے کر اب وہ وہاں سے جاچکی تھی۔
’’ کیوں آئی ہیں وہ ؟ ’’ اسکے آتے ہی ماما نے اس سے پوچھا تھا۔۔
’’ الہام نے بھیجا تھا۔۔ اپنا سامان لینے کے لئے ’’ وہ کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔۔
’’ بے شرمی کی انتہا ہے ’’ ماما نے کہنا شروع کر دیا تھا۔۔ ’’ اب بھی اس میں اتنی ہمت ہے۔۔ دیکھ رہے ہیں آپ اپنی بیٹی کو ’’ رخ اب ایجاز صاحب کی طرف تھا ۔۔
’’ وہ مر چکی ہے اور اب اس گھر میں اسکے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی ’’ پاپا نے بات ختم کر دی تھی ۔۔ شاید ہمیشہ کے لئے ۔۔ ایک بار پھر تینوں کے درمیان خاموشی آگئ تھی۔۔
وہ الہام کے گھر سے مطلوبہ چیزیں لے کر اب احتشام کے گھر آئی تھی۔۔ آج صبح ہی احتشام نے اسے کال کر کے یہ کام دیا تھا۔۔ اسے ان چیزوں کی ضرورت تھی۔۔
’’ تم احتشام کی دوست ہو ؟ ’’ رابعہ کی آواز پر وہ پلٹی تھی۔۔
’’ جی آنٹی۔۔ کیسی ہیں آپ ؟ ’’ اس نے انہیں دیکھ کر کہا تھا۔۔ انکے چہرے کےتعصورات سخت تھے۔۔
’’ کیوں بھیجا ہے اس نے تمہیں؟ ’’ وہ سخت لہجے کے ساتھ بولی تھیں۔۔
’’ وہ انہیں اپنے کمرے سے کچھ ضروری سامان چاہئے تھا ’’ اس نے کہا تھا اور رابعہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ وہ تو سوچ رہی تھیں کہ احتشام نے اسے اپنی سفارش کے لئے بھیجا ہوگا۔۔ وہ معافی مانگنا چاہتا ہوگا۔۔ مگر نہیں ۔۔ اسے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا۔۔
’’ جو بھی لینا ہے لو اور جاؤ ’’ وہ غصے سے کہہ کر واپس چلی گئ تھیں اور پارسا اب احتشام نے کمرے کی جانب گئ تھی۔۔ بہت مشکل کام تھا یہ۔۔
اس کے دل نے جو فیصلہ کیا تھا۔۔ اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیا تھا ۔۔ اس نے بہت سے کام نپٹانے تھے۔۔ اس لئے وہ صبح ہوٹل نہیں گیا تھا۔۔ وہ اس وقت اپنے ہسپتال میں موجود تھا ۔۔ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ کسی سے ویڈیوں میٹنگ کر رہا تھا ۔۔ وہ اب تک رات والے حلیے میں ہی تھا ۔۔ مگر اس وقت اسے اپنے حلیے کی پرواہ نہیں تھی۔۔ اس بس کچھ کام جلد از جلد کرنے تھے ۔۔۔ ایک گھنٹے کی میٹنگ کے بعد وہ اپنے آفس سے نکل کر ہسپتال کے اونر کے پاس آیا تھا ۔۔ جہاں پہلے سے پارسا موجود تھی ۔۔ اس نے احتشام کو وہ تمام چیزیں دے دی تھیں جو کہ وہ انکے گھروں سے لائی تھی۔۔ وہ اب آنر سے کچھ بات کر رہا تھا ۔۔ پارسا بھی ان سب میں شامل تھی ۔۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ اس آفس سے نکلے تھے ۔۔۔ جب احتشام کے پاس کسی کی کال آئی تھی ۔۔ اس نے کال ریسیو کی تھی ۔۔
’’ اوک ۔۔ میرے آفس میں رکھو ۔۔ میں آرہا ہوں ’’ اس نے بس اتنا کہہ کر کال کٹ کی تھی ۔۔
’’ کیا تم مطمئن ہو ؟ ’’ اس کے ساتھ چلتے ہوئے پارسا نے پوچھا تھا ۔۔ دونوں کا رخ اسکے آفس کی جانب تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ خدا جس سے راضی ہو ۔۔ وہ مطمئن کی ہوتا ہے ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔ اور پارسا کو اچھی لگی تھی ۔۔ یہ مسکراہٹ ۔۔
وہ دونوں اس کے آفس میں آئے تھے ۔۔۔ جہاں پہلے ہی ایک شخص موجود تھا ۔۔
’’ یہ آپکے پیپرز ’’ اس نے کھڑے ہوتے ہی ایک لفافہ احتشام کی جانب بڑھایا تھا ۔۔
’’ تھینک یو ۔۔ میں آج رات یہ تمہیں واپس بھیج دونگا ’’ احتشام نے لفافہ اسکے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
’’ اوک ‘‘ وہ شخص کہہ کر جاچکا تھا ۔۔ جب پارسا اسکی جانب مڑی تھی ۔۔
’’ بہت جلدی ہورہا ہے یہ سب ‘‘ اس نےکہا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ زندگی میں کچھ چیزیں جلدی ہی کرنی پڑتی ہیں ۔۔ ’’ اس نے کہتے ساتھ ایک فائل اٹھا کر اسکی جانب کی تھی۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ پارسا نے فائل لیتے ہوئے کہا تھا ۔۔ اور جب اس نے فائل کھول کر دیکھی تو اسکی آنکھوں میں واضح حیرانگی تھی ۔۔
’’ احتشام ؟ ’’ اس نے حیران کن انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ تھوڑا خود غرض بن رہا ہوں پارسا ۔۔ مگر ہم اکیلے ہیں ۔۔ اور ہم دونوں کو تمہاری ضرورت ہے ’’ احتشام نے کہا تھا ۔۔ اور پارسا کے آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔۔
’’ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں ‘‘ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔ احتشام بھی مسکرایا تھا ۔۔

اسے یہاں آتے شام ہوگئی تھی ۔۔ کل رات وہ یہاں آیا تھا ۔۔ الہام کو چھوڑنے ۔۔ اب اس کے بعد وہ اب یہاں آیا تھا ۔۔ مگر کل رات کو جن شکستہ قدموں سے یہاں سے گیا تھا ۔۔ اب وہ اس حال میں نہیں تھا ۔۔ اب وہ مضبوط نظر آرہا تھا ۔۔ الہام کے روم کے پاس پہنچ کر اس نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔ اور دروازہ ناک کیا تھا ۔۔
دروازہ نہیں کھلا تھا ۔۔ اس نے دروازہ دوبارہ ناک کیا تھا ۔۔ وہ الہام کے لئے پریشان تھا۔۔ جانے وہ کیسی ہوگی ؟
الہام نے دروازہ کھولا تھا ۔۔ اور سامنے کھڑے احتشام کودیکھ کر پہلے وہ حیران ہوئی تھی ۔۔ جانے اسے اتنی حیرانی کیوں ہوئی تھی ۔۔ مگر پھر اگلے ہی لمحے اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ اس نے احتشام کو اندر آنے کا راستہ دیا تھا ۔۔ وہ اندر آیا تھا ۔۔
’’ کیسے ہیں آپ ؟ ’’ اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔
’’ جیسی تم ہو ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہاتھا ۔۔ نظریں الہام پر نہیں تھیں ۔۔ جانے کیوں ۔۔ مگر اب بھی وہ الہام کی جانب دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ۔۔
’’ یعنی آپ بھی پرسکون ہیں ۔۔ میری طرح ’’ الہام کی بات پر اس نے الہام کی جانب دیکھا تھا ۔۔ اور اس نے دیکھا ۔۔ الہام کے چہرے پر کوئی تکلیف نہیں تھی ۔۔ وہ مسکرا رہی تھی ۔۔ وہ پرسکون تھی ۔۔
’’ ہاں ۔۔ اس نے دل میں سکون ڈالا ہوا ہے ’’ احتشام نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ پارسا کہاں ہے ؟ ’’
’’ اسے کچھ کام دیا ہے ۔۔ بس وہی کر رہی ہے ’’ احتشام نے کہا تھا ۔۔ وہ دونوں اب بھی کھڑے ہوئے تھے ۔۔ دونوں میں سے کوئی بھی بیٹھا نہیں تھا ۔۔
’’ وہ بہت اچھی ہیں ’’ الہام نے تعریف کی تھی ۔۔ اور اس تعریف پر احتشام مسکرایا تھا ۔۔
’’ اچھے دوست خدا کا تحفہ ہوتے ہیں ۔۔ وہ بھی تحفہ ہے ’’ احتشام نے کہا تھا ۔۔ اور الہام نے اسکے ہاتھ کی جانب دیکھا تھا۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ اس نے احتشام کے ہاتھ میں پکڑی اس فائل کی جانب اشارہ کیا تھا ۔۔ اور احتشام کے چہرے کے رنگ بدلے تھے ۔۔ وہ جانے کیوں اچانک پریشان لگنے لگا تھا ۔۔
’’ وہ ۔۔ یہ ۔۔۔ تمہارے۔۔۔ ’’ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا ۔۔ مگر کہہ نہیں پارہا تھا ۔۔ اسکی نگاہیں جھکی تھیں ۔۔ اور الہام کو اسکی جھکی نگاہیں اچھی نہیں لگی تھیں ۔۔
’’ میں جانتی ہوں ۔۔ ’’ الہام کی بات پر عرش نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ کیا ؟ ‘‘
’’ آپ یہاں کیسے آئے ہیں ۔۔ میں جانتی ہوں ۔۔ اس لئے آپکو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ مجھے یہ منظور ہے‘‘ الہام نے کہا تھا ۔۔ اور احتشام نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔ ابھی وہ کوئی جواب دینے ہی والا تھاکہ اسکا موبائل بجا تھا ۔۔ اس نے دیکھا ۔۔ پارسا کی کال تھی ۔۔
’’ہاں پارسا کہو ؟ ’’ اس نے کال ریسیو کرتے ساتھ کہا تھا ۔۔ پارسا نے شاید کوئی جواب دیا تھا ۔۔
’’ اچھا ٹھیک ہے تم جانتی ہو تم نے آگے کیا کرنا ہے۔۔ میں بس تھوڑی دیر میں آرہا ہوں ۔۔ تم سارا انتظام کرلو پلیز ’’ وہ اس سے کہہ رہا تھا اور الہام خاموشی سے سن رہی تھی۔۔۔
’’ تھینک یو پارسا ۔۔ میں آتا ہوں اوک ’’ اس نے کہہ کر کال بند کر دی تھی اور اب وہ الہام کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔
’’ پارسا ہم دونوں کے تمام ڈاکیومنٹس لے آئی تھی ’’ الہام اسے دیکھتی ۔۔ اسکی بات سن رہی تھی ۔۔
’’ اور اب میں آج کے دن ہی سارا پروسس پورا کرونگا ’’
’’ کیسا پروسس ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ یہاں سے بہت دور جانے کا پروسس۔۔ اب ہم اس ملک میں نہیں رہینگے۔۔ آج کی رات۔۔ یہاں آخری رات ہوگی ’’ احتشام نے جیسے اسے فیصلہ سنایا تھا ۔۔ اور الہام جیسے اسکے لئے پہلے سے تیار تھی ۔۔
’’ اور ہم سب کچھ یہی چھوڑ کر جائینگے ۔۔۔ سب کچھ ۔۔۔ ’’ اس نے کہا تھا اور احتشام سمجھ چکا تھا۔۔ کہ وہ کیا چھوڑنے کی بات کر رہی تھی ۔۔۔ وہ سر اقرار میں ہلا کر جاچکا تھا ۔۔ اور الہام بس ایک ہی بات سوچ رہی تھی ۔۔
’’ آج کی رات یہاں آخری رات ہوگی؟ ’’
تو اب اس آخری رات کو اس نےکیسے گزارنا تھا ؟ وہ اٹھی تھی۔۔ جیسے اچانک کی کچھ یاد آیا ہو ۔۔
اب وہ باہر نکلی تھی۔۔ ہر طرف دھوپ اور روشنی تھی۔۔ اس نے ایک رکشہ روکا تھا ۔۔ اسے کہیں جانا تھا ۔۔ آج کی رات آخری تھی ۔۔ اور آج اس آخری رات میں۔۔ اس نے ایک آخری ملاقات کرنی تھی ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial