قسط 9 (پارٹ 1)
سات سال بعد ۔۔
فرانس کا شہر پیرس ۔۔ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے کئ ملکوں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے ۔۔ اور اس شہر کی سب سے خاص چیز آئفل ٹاور ہے ۔۔ جو لوگوں کی نگاہوں اور دلچسپی کا مرکز بنا رہتا ہے ۔۔ مگر یہ
بھی ضروری نہیں کہ یہاں آنے والا ہر شخص اس کی کشش میں کھنچ کر یہاں آیا ہو ۔۔
اس رات بھی روز کی طرح یہ شہر اپنی تمام تر رونق اور خوبصورتی کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔۔ لوگ اپنے اپنے معمول اور کاموں کے لئے سڑکوں پر آجا رہے تھے۔۔ گاڑیاں بھی اپنی اپنی منزلوں کی جانب روا تھیں۔۔ ایسے میں ایک سڑک پر موجود ہسپتال کے تیسرے فلور میں، تین افراد آپریشن تھیٹر کے سامنے موجود تھے۔۔ ان تینوں کے چہروں پر پریشانی تھی۔۔ دو لیڈیز جوکہ وہی پر بینچ میں بیٹھی تھیں۔۔ اور دونوں ہی اپنی ڈریسنگ اور چہروں سے پیرس کی خاص شہری لگتی تھیں۔۔ جبکہ انکے سامنے دائیں بائیں چکر لگانے والا انسان اپنے خوبصورت نقوش اور قیمتی کپڑوں سے امیر ترین شخص معلوم ہورہا تھا۔۔ انکی پریشانی اور بےچینی سے صاف ظاہر تھا کہ آپریشن تھیٹر کے اندر موجود مریض انکا کوئی عزیز تھا۔۔ جسکے لئے وہ تینوں دعا کر رہے تھے۔۔ تینوں کی آنکھیں نم تھیں ۔۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ دروازے کے اوپر موجود لال بتی بجھ گئ تھی۔۔ جسے دیکھ کر تینوں دروازے کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔ دورازہ کھلا تھا اور اب ایک ڈاکٹر اور ایک نرس باہر آئی تھیں۔۔ نرس آگے بڑھ گئ تھی۔۔ جبکہ وہ تینوں اب ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔
’’ سینٹی کیسی ہے اب ڈاکٹر ؟ آپریشن ٹھیک رہا نہ ؟ ’’ انہیں میں سے ایک لیڈی نے انگریزی میں پوچھا تھا۔۔
’’ آپ فکر مت کریں۔۔ آپکی پیشنٹ بلکل ٹھیک ہیں۔۔ ہم تھوڑی دیر میں انہیں روم میں شفٹ کر دیں گے۔۔ آپ مل لیجئے گا ’’ ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ تھینک یو ڈاکٹر ’’ انکے ساتھ موجود اس آدمی نے کہا تھا۔۔
’’ نو تھینکس۔۔ یہ میرا فرض تھا’’ وہ کہہ کر آگے بڑھ گئ تھیں۔۔۔
اب وہ ڈاکٹر سیدھا ہینڈ واش کرنے آئی تھیں ۔۔اپنے ہاتھوں سے گلوز اتارے اور ہینڈ واش کرنے کے بعد ایک نظر سامنے آئینے پر ڈالی تھی۔۔ بالوں پر سے کور پن اتاری جس سے سارے سیاہ بال انکے ماتھے اور کمر تک بکھر گئے تھے ۔۔ بالوں کو ٹھیک کرنے کے بعد اب وہ اپنے آفس کی طرف جانے لگی تھیں ۔۔ ابھی انہوں سے آفس کا دروازہ کھولنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا ہی تھا کہ انہیں رکنا پڑا تھا ۔۔
’’ ڈاکٹر الہام ’’ کسی نے پکارا تھا اور وہ پلٹی تھی۔۔ سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر وہ مسکرائی تھی۔۔
’’ کیسا رہا آپکا آپریشن ؟ ’’ وہ اسکے پاس پہنچ کر پوچھ رہی تھیں۔۔
’’ ہمیشہ کی طرح ۔۔ پرفیکٹ ’’ نزاکت سے اپنے کارلر کو تھوڑا اوپر اٹھا کر اس نے فخریہ انداز میں کہا تھا۔۔
’’ گریٹ۔۔ پھر اب چلیں ؟’’
’’ ضرور ۔۔ میں اپنا بیگ لے لوں ’’ وہ کہہ کر آفس کے اندر آئی تھی اور اپنی میز پر رکھا بلیو بیگ اٹھا کر دوبارہ باہر آئی۔۔
’’ پھر آج ذنر میری طرف سے ہوگا یقیناً ؟ ’’ ساتھ چلتے ہوئے الہام نے کہا تھا۔۔
’’ بلکل ۔۔۔ آپکی طرف سے ہوگا ۔۔۔ آخر آپکا ایک اور آپریشن خیریت سے ہوگیا ہے ’’ ساتھ چلتی ڈاکٹر نے کاندھے اٹھا کر کہا تھا۔۔
’’ کوئی بات نہیں۔۔ آپ کی باری بھی آئے گی ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ ایک ریسٹورینٹ میں آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔۔
’’ احتشام بھی آنے والا ہوگا بس ’’ ڈاکٹر پارسا نے کھڑی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اور ہمیشہ کی طرح وہ کھانا آنے کے بعد آئینگے ’’ الہام نے آس پاس ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا۔۔ جدید طرز کا بنا ہوا یہ خوبصورت سا ریسٹورینٹ تھا۔۔ گولڈن اور گرے ٹچ کے ساتھ والز ، میز اور کرسیاں ، اے سی کی ٹھنڈک اور مختلف رنگوں کی لائٹز ماحول کو مزید پر کشش بنا رہی تھیں۔۔ وہ ابھی نظر ہی دوڑا رہی تھی کہ سامنے انٹرینس سے احتشام اسے یہی آتا ہوا نظر آیا تھا۔۔
’’ بڑی بات ہے۔ آج تو جلدی آگئے یہ ’’ الہام نے پارسا کی جانب جھک کر کہا تھا۔۔ وہ بس مسکرا دی تھی۔۔
’’ کیا ہورہا ہے لڑکیوں ؟ ’’ الہام کے ساتھ رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے احتشام پوچھا تھا۔۔
’’ آپکا انتظار ہورہا تھا بس ’’ پارسا نے مسکرا کر کہا تھا اور الہام کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔
’’ اور بہت لمبے عرصے سے اب تک ہورہا ہے۔۔ آپکو اب یہ ختم کر دینا چاہئے احتشام بھائی ’’ الہام کی بات پر پارسا نے اسے گھورا تھا۔۔ جبکہ احتشام نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’
’’ کچھ نہیں۔۔ کھانا کھاتے ہیں ’’ پارسا نے انکی توجہ اب کھانا لگاتے ویٹر کی جانب کی تھی۔۔
’’ ویسے کبھی کچھ بنا بھی لیا کرو تم۔۔ ہمیشہ باہر ہی کھانا کھلا کر فارغ ہوجاتی ہو ’’ احتشام نے اب الہام سے کہا تھا۔۔ جو اپنی پلیٹ میں کھانا نکال رہی تھی۔۔
’’ اصولاً یہ کام آپکو کرنا چاہئے۔۔ کیونکہ ہم دونوں تو پھر بھی کھلا لیتے ہیں۔۔ آپ تو وہ بھی نہیں کرتے ’’ جواب فوراً آیا تھا۔
’’ مجھے کہاں آتا ہے کھانا بنانا ؟ اگر آتا ہوتا تو ضرور بناتا ’’ کاندھے اچکا کر احتشام نے جیسے خود کو اس کام سے آزاد کیا تھا۔
’’ ہاں مگر ڈاکٹر پارسا۔۔ آپکو تو آتا ہے نہ ؟ اگلی دعوت آپ خود کھانا بنا کر دیں گی’’ الہام نے اب توپوں کا رخ پارسا کی جانب موڑا تھا۔۔
’’ واقعی ! اتنے سالوں میں آج تک تو اس نے ایک بار بھی کچھ نہیں بنایا ’’ احتشام نے اب پارسا کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ موقع ہی کہا ملتا ہے؟ ہم تینوں کا پورا دن تو ہسپتال میں گزر جاتا ہے اور پھر واپس جانے تک کیٹی میڈم کھانا بنا لیتی ہیں ’’ اس نے اپنی طرف سے مضبوط وجہ بتائی تھی۔۔
’’ خیر پھر بھی۔۔ تم چھٹی والے دن بنا سکتی تھی مگر تم نے مجھ سے چھپایا ۔۔ اس لئے اب تمہاری سزا ہے کہ تم ہر ویک اینڈ پر ہمیں اچھا سا کھانا بنا کر کھلاؤ گی ’’ احتشام نے چکن کا پیس توڑتے ہوئے اسے آرڈر دیا تھا۔۔ جبکہ پارسا نے الہام کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔۔ جبکہ الہام صاحبہ کھانے سے انصاف کرنے میں مصروف تھیں ۔۔
یہاں سےمیلوں دور ایک ایسا ہی منظر کراچی کے ایک ہسپتال کا تھا۔۔ جہاں ایک ڈاکٹر ایک فائیل کو دیکھتے ہوئے اپنے آفس کی جانب جارہا تھا اور اسکے پیچھے ایک دوسرا ڈاکٹر مسلسل کچھ بولتا اسکے جارہا تھا۔۔ جسے وہ اگنور کر رہا تھا۔۔
’’ کیا مسئلہ ہے یار ۔۔ اتنی اچھی مووی ہے چلتے ہیں نہ دیکھنے ’’ ڈاکٹر معاز اب اسکے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ کر اسے منانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ جبکہ سامنے بیٹھے شخص نے فائل پر آخری نظر ڈال کر اب اسے ایک سائیڈ پر رکھا اور مکمل طور پر اسکی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔
’’ آج میری فل نائیٹ ڈیوٹی ہے اور کل میں نے خوب ریسٹ کرنا ہے۔۔ اس لئے میں کوئی مووی نہیں دیکھ رہا ’’ اس نے حتمی انداز میں کہا تھا۔۔
’’ مووری کی بکنگ میں کروا چکا ہوں اور کل شام تم میرے ساتھ مووی دیکھنے چل رہے ہو۔۔ بس ’’ معاذ نے بھی حتمی انداز میں کہا تھا۔۔
’’ میں کہیں نہیں جارہا ۔۔ اب جاؤ یہاں سے ’’ عرش نے دوبارہ فائیل کھول کر اسے جانے کا اشارہ دیا تھا مگر وہ ڈھیٹ بنا وہی بیٹھا رہا تھا۔۔
’’ کیا مسئلہ ہے ؟ ’’ عرش نے اسے وہی پر بیٹھا دیکھتے تپ کر کہا تھا۔۔
’’ میری بھی آج فل نائیٹ ڈیوٹی ہے ’’ معاذ نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور کرسی کی پشت پر سر ٹکا کر بیٹھ گیا۔۔
’’ اف خدایا ! ’’ عرش نے جیسے تڑپ کر آنکھیں بند کی تھیں ۔۔
کھانے کی میز پر گھر کے تمام لوگ موجود تھے۔۔ سب کی صبح کے بعد اب دوپہر بھی ہوچکی تھی۔۔ مگر ایک ہی فرد ایسا تھا جس کی اب تک رات چل رہی تھی۔۔
مظہر صاحب نے ایک نظر سامنے بیٹھے افراد پر ڈالی جوکہ اپنی اپنی پلیٹ میں جھکے ہوئے تھے۔۔ ویسے افراد میں تھا ہی کون ؟ انکی ایک بیٹی جوکہ کچھ دنوں کے لئے ہی گھر آئی تھی اور ساتھ بیٹھا انکا داماد ۔۔
’’ میں نے ایک بات کرنی تھی تم دونوں سے ’’ انکی آواز پر دونوں افراد ان کی جانب دیکھنے لگے تھے۔۔
’’ ساجد کو تو تم دونوں جانتے ہی ہو ۔ میرا بہت اچھا دوست ہے اور اسکی فیملی بھی بہت اچھی ہے ’’ انہوں نے اب اپنی بیٹی کی طرف دیکھا تھا۔۔
’’ جی بلکل پاپا جانتے ہیں ہم ساجد انکل کو۔۔ مگر آج آپ کیوں یاد دلا رہے ؟ خیر یت ہے نہ ؟ وہ ٹھیک تو ہیں ؟ ’’ وہ اس طرح کے اچانک ذکر پر وہ تھوڑی پریشان ہوگئ تھی۔۔
’’ ہاں وہ بلکل ٹھیک ہے۔۔ دراصل اسکی ایک بیٹی ہے۔ آج کل اسی کی شادی کرنے کو بارے میں سوچ رہا ہے وہ اور وہ بچی بھی بہت پیاری، سمجھدار اور تعلیم یافتہ ہے اور میں ۔۔۔ ’’ انکی بات بیچ میں کاٹ دی گئ تھی۔۔
’’ اور آپ چاہتے ہیں کہ آپ اس پیاری بچی کو اپنی بہو بنا لیں ہیں نہ ؟ ’’ اب کی بار انکے داماد نے کہا تھا۔ انداز عجیب تھا۔ مظہر صاحب کے تعصورات بدلے تھے۔
’’ ہاں بلکل۔۔ میں ایسا ہی چاہتا ہوں میں۔۔ اور امید ہے کہ تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ’’ مظہر صاحب کا لہجہ بھی اس بارطنزیہ تھا۔۔ رانیہ نے ناراضگی سے پاپا کی طرف دیکھا تھا۔۔
’’ عامر کو کیوں اعتراض ہوگا پاپا ؟ بلکہ اسےتو خوشی ہوگی عرش کی شادی پر ’‘ اس نے عامر کے لئے بولنا ضروری سمجھا تھا۔
’’ واقعی۔۔ مجھے بہت خوشی ہوگی عرش کی شادی کی۔۔ اگر شادی میں عرش کی خوشی شامل ہو تو ’’ عامر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا اور ہاتھ صاف کر کے کھڑا ہوا تھا۔۔ البتہ مظہر صاحب خاموش تھے۔۔
’’ میں چلتا ہوں رانیہ ۔۔ شام کو چکر لگاؤنگا ’’ وہ رانیہ سے کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔ جب مظہر صاحب نے اسے کہا تھا۔
’’ تمہارا یہ شوہر کہنا کیا چاہتا تھا آخر ؟ ’’
’’ یہی کہ ہمیں عرش کے ساتھ زبردستی نہیں کرنی چاہئے ’’ اس کے جواب پر مظہر صاحب کے چہرے کے تعصورات بگڑے تھے۔
’’ تمہیں لگتا ہے میں اس کے ساتھ زبردستی کر رہا ہوں؟ ’’ ان کی بات پر ایک طنزیہ مسکراہٹ رانیہ کے چہرے پر آئی تھی۔
’’ نہیں ۔۔’’ وہ کھڑی ہوئی تھی۔
’’ مجھے لگتا ہے کہ آپ اس پر اپنی مرضی تھوپنا چاہتے ہیں اور اگر آپ ایسا کر رہے ہیں تو میں بتا دوں۔۔ آپکو آپ اسے کھو دیںگے’’ اس نے انہیں سمجھانا ضروری سمجھا تھا۔۔
’’ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ وہ میرا بیٹا ہے اور میں اس کے لئے فیصلے کر سکتا ہوں ’’ مظہر صاحب کا لہجہ اٹل تھا۔۔ رانیہ نے ایک گہری سانس لی تھی۔۔ وہ انہیں نہیں سمجھا سکتی تھی۔۔ اس لئے خاموشی سے اب وہ اپنے کمرے کی جانب چلی گئ تھی ۔
’’ یہ کب تک ڈسچارج ہوجائیگے ؟ ’’ سامنے کھڑی لڑکی نے اس سے پوچھا تھا۔۔ وہ فائیل کو بند کرتی ہوئی مسکرائی تھی۔۔
’’ رپورٹس تو بلکل کلئیر ہیں۔۔ ایک دو دن میں ڈسچارج ہوجائیینگے۔۔ آپ پریشان نہ ہوں ’’ اس نے سامنے کھڑی اس گوری سے کہا تھا۔۔
’’ او تھینک یو ’’ وہ اب اس کا شکریہ اد ا کر رہی تھی۔
’’ نو نیڈ۔۔ اٹس مائی جاب میم ’’ اس نے بھی مسکرا کر جواب دیا اور پلٹ کر اس روم سے نکلی ہی تھی کہ کسی نے آکر اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
’’ کون ہوں میں؟ ’’ آنے والے نے زبردستی اپنی آواز کو زنانہ بنا کر کہا تھا اور وہ اسے سن کر مسکرائی تھی۔
’’ وہی جن جو آج ہی اپنے بھوت بنگلے میں واپس لوٹا ہے ’’ اس کی بات پر آنے والے نے فوراً ہاتھ ہٹایا تھا اور وہ پلٹی تھی۔ وہ سامنے ہی کھڑا تھا۔۔ چہرے پر مصنوعی غصہ لئے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ الہام کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ تم نےپھر مجھے جن کہا ۔ اتنا ہینڈسم ہوں یار میں۔۔ لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر اور تم ہو کہ مجھے جن کہہ رہی ہو ’’ دونوں ہاتھ کھولے اس کے سامنے اکڑ کر کھڑے ہوکر کہہ رہا تھا۔
’’ تم حرکتیں ہی جنوں والی کرتے ہو ہمیشہ ’’ وہ کاندھے اچکا کر کہتی اب آگے چلنے لگی تھی۔۔
’’ کیا کروں۔۔ چڑیلوں کے ساتھ جنوں والی حرکتیں ہی تو کرنی پڑتی ہیں ’’ اس نے ساتھ چلتا ہوا وہ اب اپنا حساب برابر کر رہا تھا۔۔
’’ تو پھر غصہ کیوں ہوتے ہو ؟ میں چڑیل ہوں تو تم بھی جن ہی ہو۔۔ حساب برابر ’’ ریسیپشن پر رکتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔
’’ چلو ہوگیا حساب برابر۔۔ اب بتاؤ کیسی ہو؟ ’’ ریسپشن پر ایک کہنی ٹکائے وہ اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔
’’ تمہارے سامنے ہوں، بلکل پہلے جیسی ۔ تم بتاؤ کیسی رہی تمہاری وکیشنز اور گھر میں سب کیسے ہیں؟ ’’ بالوں کو ہاتھوں سے کان کے پیچھے کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
’’ بہت مزے کی۔۔ خوب انجوائے کیا۔۔ پتہ ہی نہیں لگا کب یہ مہینہ گزر گیا ’’
’’ مگر ابھی تو پانچ دن باقی تھے۔۔ جلدی کیوں آگئے ؟ ’’
’’ بس کیا کروں ؟ اب تمہارے بنا بھی تو دل نہیں لگتا نہ ۔ اتنی یاد آئی کہ دوڑا چلا آیا ’’ ایک ہاتھ سینے پر رکھ کر اس نے ڈرامائی انداز میں کہا تھا اور الہام ہنس دی تھی۔
’’ تم کبھی نہیں سدھر سکتے۔۔ چلو جاؤ اب مجھے پیشینٹس کو دیکھنا ہے ’’ وہ کہہ کر واپس پلٹی تھی مگر وہ فوراً اسکے سامنے آیا تھا۔۔
’’ جارہا ہوں۔۔ مگر شام کا ڈنر ہم ساتھ کر رہے ہیں یاد رکھنا ’’ ایک انگلی اس کی طرف اٹھاتے ہوئے اس نے ایک روب سے کہا تھا۔
’’ اوک باس۔۔ جیسا آپ کہیں۔۔ اب میں جاؤں ؟ ’’ اس نے اجازت مانگی تھی۔۔
’’ دل تو نہیں چاہ رہا۔۔ مگر جاؤ کیا یاد رکھوگی ’’ وہ جیسے ایک احسان کرتے ہوئے اسکے سامنے سے ہٹا تھا اور الہام مسکرا کر شکریہ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئ تھی۔۔۔ وہ بھی مسکرا کر اب باہر کی طرف بڑھا تھا ۔۔
اس نے آہستہ سے اسکے کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔ جو سامنے بیڈ پر سویا ہوا تھا۔۔ اسے سویا دیکھ کر پہلے تو معاذ کے چہرے کے تعصورات بگڑے مگر پھر اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ آئی تھی۔۔ اس نے آہستگی سے دروازہ بند کیا اور اب اسکے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے جگ اٹھا کر وہ واش روم کی طرف بڑھا تھا۔۔ جہاں اس نے اسے پانی سے بھرا۔۔ اب وہ آہستگی سے اسکے بیڈ کے پاس آیا تھا۔۔ اسکے اوپر سے کھینچ کر کمبل ہٹایا اور پورا پانی کا پورا جگ اسکے اوپر پلٹ دیا تھا۔۔ اور اگلے ہی لمحے عرش ہربڑا کر اٹھا تھا۔۔ چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے سامنے معاذ کو مسکراتے کھڑا دیکھا تھا۔۔
’’ گڈ مارننگ ڈئیر ’’ دونوں ہاتھ باندھے وہ اسکے سامنے کھڑے ہوکر بڑھے محبوبانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔۔
’’ کیا مسئلہ ہے یار ؟ ’’ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے غصے سے کہا تھا۔۔ ساری نیند خراب کردی اسنے۔۔
’’ مسئلہ یہ ہے کہ مووی شروع ہونے میں صرف ایک گھنٹہ ہے اور اتنا ٹائم تو تم ہوش میں آنے میں لگا دوگے۔۔ اس لئے میں نے سوچا میں خود تمہارے ہوش ٹھکانے لگا دوں ’’ اس نے سامنے صوفے ہر ٹھاٹ سے بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ میں نے کہا تھا کہ میں نہیں جاؤنگا ’’ اسکے سامنے اکڑ کر کھڑے ہوکر عرش نے کہا تھا۔۔
‘’ اور میں نے تب بھی تمہاری جان نہیں چھوڑی تھی۔۔ کیا چاہتے ہو کہ آج رات بھی تمہارے سر پر سوار رہوں میں؟ ’’ اسکی بات پر عرش مزید چڑ گیا تھا۔۔
’’ کیا ہے یار ۔۔ نہیں ہے میرا موڈ مووی دیکھنے کا ’’ سامنے بیڈ پر اب وہ اکتا کر بیٹھ گیا تھا۔
’’ سوچ لو ۔۔ اگر مووی نہیں دیکھی تو لڑکی دیکھنی پڑے گی ’’ کاندھے اچکا کر کہا تھا۔۔
’’ کیا مطلب ؟ کیسی لڑکی ؟ ’’ اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ یہ لڑکی کا ذکر کہاں سے آگیا بیچ میں؟
’’ یہ تو میں تب بتاؤنگا جب تم میرے ساتھ چلوگے ’’ وہ بھی اتنی آسانی سے بتانے والا کہا تھا۔
’’ نہیں سننی میں نے تمہارے فضول باتیں جاؤ اب ’’ وہ دوبارہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولا تھا۔۔
’’ ٹھیک ہے پھر۔۔ میں انکل کو کہہ دیتا ہوں کہ تم مان گئے ہو ’’ وہ اب بے فکری سے کھڑے ہوتے ہوئے بولا تھا۔۔
’’ مان گیا ہوں ؟ کس لئے ؟ ’’ عرش نے فوراً سیدھے ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’ یہ میں تمہیں مووی کے بعد بتاؤنگا ’’ مسکرا کر کہتا اب وہ دوبارہ بیٹھ چکا تھا ۔۔پہلے تو عرش نے اسے غصے سے گھور ا۔۔ مگر کوئی اثر نہ ہوتا دیکھ کر اب وہ شاور لینے جاچکا تھا ۔۔ اب معاذ صاحب سے بھی کوئی جیت سکتا ہے کیا ؟