قسط 9 (پارٹ 2)
وہ ریسیپشن تک آئی تھی جہاں پارسا اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔
’’ آج آپکو اکیلے جانا ہوگا گھر ’’ اس نے گاڑی کی چابی پارسا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔ جسے پارسا نے لے لیا تھا۔
’’ اور تم ؟ ’’
’’ میں آج ڈنر پر انوائیٹڈ ہوں ’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
’’ کس کے ساتھ ؟ ’’ پارسا کو حیرت ہوئی تھی۔۔
’’ آفکورس میرے ساتھ ۔۔ بیوٹیفل لیڈی ’’ جواب کہیں اور سے آیا تھا۔۔ دونوں نے دائیں جانب دیکھا۔۔ جہاں وہ کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔ پارسا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھر گئ تھی۔۔۔
’’ اوہو۔۔ ڈاکٹر حامد۔۔ ویلکم بیک ’’ پارسا نے خوش اسلوبی سے کہا تھا۔
’’ تھینک یو ’’ سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ جھک کر بولا تھا۔۔ الہام ہنس دی تھی۔
’’ تو پھر آپ الہام کو ڈنر پر لے کر جارہے ہیں اور مجھے کون انوائیٹ کرے گا ؟ ’’ پارسا نے ہاتھ اٹھا کر اس سے کہا تھا۔
’’ ارے میں تو کرنے لگا تھا انوائیٹ۔۔ مگر الہام نے منع کر دیا۔۔ کہنے لگی کہ نہیں ڈاکٹر پارسا کیوں کباب میں ہڈی بنیں؟ ’’ اس نے ساری ٹوپی الہام کے سر ڈال دی تھی اور اسکا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔
’’ میں نے منع کیا تھا ؟ جھوٹ بول رہا ہے یہ۔۔ اس نے مجھے ایسا کچھ نہیں کہا تھا ’’ الہام نے فوراً اپنا دفع کیا تھا۔
’’ ارے ارے ۔۔ تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ ہم اکیلے جائینگے۔۔ اب کیسے پلٹ رہی ہو بات سے ’’ حامد فوراً ہی معصوم بنا تھا۔۔ اور پارسا ان دونوں کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔۔
’’ ٹھیک ہے۔۔ میں نے کہا تھا نہ؟ اب میں ہی لے کر جاؤنگی ڈاکٹر پارسا کو ہمارے ساتھ ۔۔ چلیں آپ ہمارے ساتھ جائینگی ’’ اس نے پارسا سے کہا تھا اور اب حامد گڑبڑا گیا تھا۔۔
’’ ہاں ٹھیک ہے لے چلتے ہیں ساتھ۔۔ مجھے کیا ؟ کیوں پارسا میڈم چلینگی نہ ہمارے ساتھ ؟ ’’ اس نے چپکے سے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ کر نہ کہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔ جس سے پارسا کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔
’’ میں ضرور جاتی۔۔ مگر احتشام کو انفارم کرنا ہوگا اور اسے ڈنر بھی بھجوانا ہے ’’ اسکے جواب پر حامد نے گہری سانس لی تھی۔۔ شکر ہے !
’’ اچھا ٹھیک ہے پھر۔۔ ہم بھی چلتے ہیں اب ’’ حامد نے فوراً جواب دیا تھا۔۔
’’ اوک۔۔ پھر میں چلتی ہوں اور تم دونوں زیادہ دیر مت کرنا اچھا ’’ اس نے آخری بات الہام کو دیکھ کر کہی تھی۔
’’ میں ٹائم پر آجاؤنگی ’’
’’ اوک پھر ۔۔ اللہ حافظ ’’ وہ اب وہاں سے نکل کر گاڑی میں آکر بیٹھی تھی اور تھوڑی دیر بعد اپنے فلیٹ کے سامنے موجود تھی۔ ارادہ احتشام کے فلیٹ کی جانب جانے کا تھا ۔۔ جو انکے فلیٹ کے بلکل سامنے ہی تھا ۔۔
وہ اس وقت کچن سے باہر نکل رہا تھا۔۔ ہاتھ میں کافی کا کپ تھا۔۔ جب پارسا اندر آتی دکھائی دی تھی۔۔ اسے اکیلا آتے دیکھ کر وہ اسی کی طرف بڑھا تھا۔۔
’’ اسلام وعلیکم ۔۔ الہام نہیں آئی ساتھ ؟ ’’ اس نے فوراً الہام کے بارے میں پوچھا تھا۔۔ پارسا نے مسکرا کر اپنا بیگ لاونچ کے صوفے پر رکھا اور خود پانی پینے کچن میں آگئ تھی۔۔ وہ بھی اس کے پیچھے آیا تھا۔۔
’’ وہ آج ڈاکٹر حامد کے ساتھ ڈنر پر گئ ہے’’ اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی تھی اور اسےلے کر ڈائیننگ ٹیبل کے پاس رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئ تھی۔
’’حامد واپس کب آیا ؟ ’’ اس نے چولے پر پانی رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ آج ہی آیا ہے شاید ’’ پانی کا گلاس واپس رکھتے ہوئے اس نے جواب دیا تھا۔۔
’’ ویسے ایک مہینے کے لئے گیا تھا وہ۔۔ مگر ابھی تو کچھ دن باقی تھے نہ ؟ ’’ ابلا ہوا پانی ایک کپ میں ڈالتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔ پارسا اسے سب کرتے دیکھ رہی تھی۔۔
’’ ہاں۔۔ شاید دل نہیں لگا ہوگا اسکا ’’ پارسا نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔ اور اس کی یہ مسکراہٹ احتشام نے غور سے دیکھی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔۔ پھر وہ پلٹا اور کافی کا کپ اسکی جانب بڑھایا تھا اور اپنا کپ لے کر سامنے رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔۔
’’ وہاں تو اسکی فیملی ہے اور یہاں اسکا کوئی نہیں۔۔ سوائے کچھ دوستوں کے۔۔ پھر کیا ہے ایسا یہاں جو اسکا دل وہاں نہیں لگا تھا ؟ ’’ وہ اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔ جانے کیا جاننا چاہتا تھا وہ ؟ اسے خود بھی نہیں معلوم تھا ۔۔
’’ ہاں۔۔ ایسا کچھ تو ہے یہاں جس کے بغیر شاید اسکا دل وہاں نہیں لگا تھا ’’ گہری مسکراہٹ کے ساتھ پارسا نے کافی کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا۔۔ اس وقت احتشام کو اسکی مسکراہٹ کچھ خاص اچھی نہیں لگی تھی۔۔ جانے کیوں ؟
’’ اور وہ کیا ہے ؟ ’’ اسکا تجسس بڑھ رہا تھا۔ پارسا نے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔ اور پھر ایک ہاتھ پر اپنا چہرہ ٹکائے تھوڑا سا جھک کر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھا۔۔ مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔ اور آنکھوں کی چمک میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔
’’ وقت آنے پر بتاؤنگی۔۔ پہلے سب باتیں کلئیر تو ہوجائیں ’’ وہ اسی انداز سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اور احتشام نے اسکا یہ انداز پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔۔۔ اسکی مسکراہٹ آج پہلی بار اسے اچھی نہیں لگی تھی۔۔ کیونکہ شاید آج پہلی بار وہ دل سے مسکرائی تھی۔۔۔ اور وجہ حامد تھا۔۔۔ احتشام کو یہ وجہ اچھی نہیں لگی تھی۔۔ اس نے اپنا کافی کا کپ رکھا اور فوراً اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ پارسا بھی اسے دیکھ کر سیدھی ہوئی تھی۔
’’ کیا ہوا ؟ ’’ وہ اسکے کافی چھوڑ کر اٹھنے پر حیران ہوئی تھی۔۔
’’ کچھ نہیں۔۔ آج کیٹی نے جلدی جانا ہے۔۔ اسے کچھ کام ہے۔۔ الہام بھی نہیں ہے۔۔ تو کیوں نہ ہم بھی کھانا باہر کھا لیں ؟ ’’ اسکی آفر پر پارسا کا منہ کھل گیا تھا۔۔۔ اتنے سالوں میں یہ پہلی بار تھا۔۔ جب وہ اسے باہر اکیلے ڈنر کرنے کا کہہ رہا تھا۔۔ ورنہ ایسا کئ بار ہوا تھا کہ الہام کی نائیٹ ڈیوٹی ہوتی۔۔ اور وہ دونوں اپنے اپنے فلیٹ پر اکیلے ہوتے تھے۔۔ مگر ہر بار احتشام کیٹی کو روک دیتا تھا تاکہ وہ ان کے ساتھ کھانا کھا کر اور پارسا کے ساتھ اسکے فلیٹ میں سوجائے۔۔ وہ بہت احتیاط کرنے والا انسان تھا۔۔ اپنی اور دوسروں کی عزت کا خیال رکھنا وہ جانتا تھا۔۔ مگر آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ اسے باہر ڈنر کرنے کی آفر کر رہا تھا۔۔ پارسا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے حیران ہونا چاہئے کہ خوش ؟ اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ بولا تھا۔۔
’’ کیا ہوا ؟ باہر ڈنر کرنے میں کوئی پرابلم ہے کیا ؟ ’’ اسکے دوبارہ کہنے پر وہ جیسے اپنی حیرانگی سے باہر آئی تھی۔۔
’’ نہیں۔۔ بلکل نہیں ۔۔ میں بس فریش ہوجاؤ پھر چلتے ہیں ’’ وہ کہہ کر وہاں سے باہر نکلی تھی اور احتشام کی پرسوچ نگاہیں اب اسکی منتظر تھیں ۔۔ جانے آج اسے کیا ہوگیا تھا ؟
مووی دیکھنے کے بعد اب وہ دونوں ایک شاندار ہوٹل میں موجود تھے۔۔ معاذ آرڈر دے کر اب آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا۔ جیسے وہ پہلی بار یہاں آیا ہوں۔۔ مگر عرش جانتا تھا کہ بات اسی نے شروع کرنی ہے تو اب مزید انتظار کرنے کے بجائے اس نے بات کا آغاز کیا تھا۔۔
’’ کس لڑکی کی بات کر رہے تھے تم ؟ ’’ اس نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔۔
’’ ارے واہ ! تمہیں بہت بے چینی ہورہی ہے لڑکی کے بارے میں جاننے کی ؟ ’’ ایک آنکھ دباتے ہوئے اس نے بات کو مزاق کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔ کیونکہ عرش کا موڈ بلکل بھی مزاق کا نہیں تھا۔۔
’’ تم بتا رہے ہو کہ میں اٹھ کر چلا جاؤں ؟ ’’ اس نے معاذ کو دھمکی دی تھی۔۔ جوکہ اثر کر گئ تھی۔۔
’’ ارے اٹھ کر مت جاتا ورنہ بل مجھے دینا پڑے گا ’’ اس نے فوراً اسے روکا تھا۔۔ جیسے اسکا بہت بڑا نقصان ہونے ولا ہو۔۔ اب بل دینا بھی ایک نقصان ہی ہے نہ ؟
’’ ویسے شرم آنی چاہئے تمہیں۔۔ ایک ڈاکٹر بن گئے ہو تم۔۔ اتنے پیسے ہیں تمہارے پاس مگر اب بھی تمہاری نظر میری جیب پر ہوتی ہے ’’ عرش نے اسے غیرت دلانی چاہی جوکہ ایک ناممکن کام تھا معاذ کے لئے۔۔
’’ کیونکہ تمہاری جیب پر میرا حق ہے جانِ من۔۔ آفٹر آل آئی ایم یور فرسٹ وائف ’’ اس نے خالص بیویوں والے انداز میں کہا تھا۔۔
’’ تو وائف جی ۔۔ اب آپ بتائیں گی کہ کس لڑکی کی بات کر رہی تھیں آپ ؟ ’’ اس نے بھی ایک ہسبنڈ والے انداز میں کہا تھا۔۔
’’ آپ اپنی وائف کے ہوتے ہوئے دوسری لڑکی کا پوچھ رہے ہیں۔۔ شرم نہیں آتی آپکو ؟ ‘‘ معاذ تو پورے کیریکٹر میں آچکا تھا ۔
’’ ٹھیک ہے۔۔ پھر میں چلتا ہوں ’’ اس نے اب اٹھنا چاہا تھا کہ معاذ نے فوراً سے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا تھا۔۔
’’ اچھا بتا رہا ہوں نہ ’’ وہ بھی اب سیدھا بیٹھ چکا تھا اور سوالیاں نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
’’ میرے پاس عامر بھائی کی کال آئی تھی آج ’’ اس نے عرش کی طرف دیکھا تھا۔۔ جو بلکل سنجیدہ تھا۔۔
’’ انہوں نے بتایا کہ تمہارے پاپا آج رانیہ اور ان سے اپنے ایک دوست کا ذکر کر رہے تھے۔۔ ساجد نام ہے شاید ‘’ اس نے پھر عرش کی طرف دیکھا۔۔
’’ ہاں ۔۔ پاپا کے بہت پرانے اور گہرے دوست ہیں ’’ عرش انہیں جانتا تھا۔۔
’’ ہاں ایکچولی انکی بیٹی ہے۔۔ خوبصورت بھی ہے۔۔ ایجوکیٹڈ بھی ہے اور نیچر کی بھی اچھی ہے ’’ وہ دوبارہ رکا تھا۔۔
’’ آگے بولو ؟ ’’ اسے خاموش ہوتا دیکھ کر عرش نے کہا تھا۔۔
’’ تو یہ کہ مظہر انکل اس لڑکی کو تمہارے لئے پسند کرتے ہیں اور شاید ساجد انکل سے بھی بات کر چکے ہیں ’’ اس نے تیزی سے بات ختم کرکے عرش کے بگڑتے ہوئے تعصورات کو دیکھا تھا۔۔
’’ میں انہیں صاف انکار کر چکا ہوں۔۔ پھر بھی انہوں نے ایسے کیسے بات کر لی ساجد انکل سے ؟ ’’ اپنا غصہ ضبط کرتے وہ ایک ایک لفظ چبا کر کہہ رہا تھا۔۔
’’ یار دیکھو۔۔ سیدھی سی بات ہے۔۔ انکل اتنے عرصے سے تمہاری شادی کروانا چاہ رہے تھے۔۔ پہلے تم نے اپنے ایم بی بی ایس کا بہانہ کر کے ٹال دیا۔۔ اسکے بعد تم نے اپنے کیرئیر کے سٹارٹ کا بہانہ کیا اور اب تو ماشااللہ تمہارے یہ دونوں مسئلے حل ہوچکے ہیں۔۔ تو اب تمہارا یہ بہانہ کہ تم ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہو۔۔ انکل کے لئے قابلِ قبول نہیں ہے۔۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ یا تو تم شادی کرلو یا پھر تم انہیں سچ بتا دو ’’ معاذ نے اسے سمجھانا چاہا تھا۔۔
’’ سچ یہی ہے کہ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔ جب میں اس کے لئے تیار ہوجاؤنگا تو میں خود بتا دونگا۔۔ اور جہاں تک بات پاپا کی ہے تو اگر وہ سوچ رہے ہیں کہ وہ میرئ ساتھ زبردستی کر سکتے ہیں ؟ تو یہ انکی بھول ہے ’’ اس نے اپنی طرف سے بات ختم کردی تھی اور اب وہ کھانے کی طرف متوجہ ہوچکا تھا ۔۔ معاذ جانتا تھا کہ اسے سمجھانا ناممکن ہے اس لئے وہ بھی خاموشی کھانے سے انصاف کرنے لگا ۔
وہ اس وقت پیرس کے ایک شاندار ہوٹل میں بیٹھے تھے۔۔ پیلی اور سفید رنگ کی بتیوں سے وہ پورا ایریا چمک رہا تھا۔۔ سامنے کی وال پر فکس اکویریم میں مختلف رنگوں کی مچھلیاں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔ میوزک کی ہلکی دھن اور میز پر رکھی کینڈلز نے اس ماحول کو مزید دلکش بنایا ہوا تھا۔۔ ایسے ماحول میں وہ ہمیشہ آکر اپنے آس پاس موجود لوگوں سے بے نیاز ہوجاتی تھی۔۔۔ جانے وہ کہا کھوجاتی تھی ؟ یہ آج تک وہ خود بھی جان نہیں سکی تھی۔۔ اس وقت بھی وہ سامنے رکھے اکویریم پر نگاہیں ٹکائے کسی اور ہی جہان میں گم تھی۔۔ اور اسے احساس تک نہیں ہوسکا تھا کہ کب سامنے بیٹھے حامد نے کھانے کا آرڈر دیا اور اب وہ بڑی فرصت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اسکا کھویا ہوا انداز دیکھ کر حیران نہیں ہوا تھا۔۔ کیونکہ وہ اتنے سالوں سے اسے جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس طرح کسی اور جہاں میں کھوجانے کا احساس اسے خود بھی نہیں ہوتا تھا۔۔ اس وقت بھی وہ اسکے سامنے ہوکر بھی کہیں اور گم تھی۔۔ وہ بھی اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ ناجانے اسکی نگاہوں کی تپش تھی یا پھر کوئی اور احساس ؟ کہ الہام نے اسکی طرف دیکھا تھا۔۔ اسکے دیکھنے پر بھی حامد نے اپنی نظریں اس پر سے نہیں ہٹائی تھی۔۔
’’ یہ تم مجھے گھور کیوں رہے ہو ؟ ’’ الہام اس کے مسلسل دیکھنے پر اکتا کر پوچھ رہی تھی۔۔
’’ تم اس اکویریم کو کیوں گھور رہی ہو؟ ’’ اس نے انگلی سے سامنے رکھے اکویریم کی جانب اشارہ کر کے کہا تھا۔۔
’’ کیونکہ وہ بہت خوبصورت ہے ’’ الہام نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کیونکہ تم بہت خوبصورت ہو ’’ اس نے فوراً ہی کہا تھا۔۔ الہام کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔
’’ اور اب تم کہنے والے ہو کہ بلکل ایک چڑیل کی طرح ؟ ’’ اسکی بات پر وہ ہلکا سا ہنسا تھا۔۔
’’ ویسے تم میری صحبت میں کافی سمجھدار ہوگئ ہو ’’ اس نے اپنی تعریف کاموقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔۔
’’ پر افسوس کہ تم اب تک بے وقوف ہی ہو ’’ الہام نے کاندھے اچکا کر افسوس سے کہا تھا۔۔
’’ تم نے ہی بنایا ہے سویٹی ’’ حامد نے یہ قصور بھی اسکے حصے میں ڈالا تھا۔۔
ویٹر کے کھانا سرو کرنے تک دونوں کے درمیان خاموشی رہی تھی۔۔ ویٹر کے جانے کے بعد حامد نے خاموشی سے اسکے سامنے رکھی پلیٹ اٹھا کر اسکے لئے کھانا ڈلا تھا۔۔ اور الہام نے بھی اسے روکا نہیں تھا۔۔ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا تھا۔۔ اسکی پلیٹ میں بھی کھانا ڈالتا تھا اور اپنی مرضی سے ڈالتا تھا۔۔ الہام کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ نہیں مانتا تھا اور آخرمیں الہام کو سارا کھانا ختم کرنا ہوتا تھا۔۔ اس لئے اب الہام کو بھی اسکی عادت ہوچکی تھی۔۔ اس نے اسکے سامنے پلیٹ رکھی تھی اور اب وہ اپنی پلیٹ لے رہا تھا۔۔۔
’’ ویسے تم نے بتایا نہیں۔۔ اتنی جلدی کیوں آگئے تم ؟ ’’ الہام نے تھوڑی دیر بعد اس سے پوچھا تھا۔۔
’’ تمہاری یاد ستا رہی تو رہا نہیں گیا ’’ سیدھا جواب دینا تو اسے آتا ہی نہیں تھا۔۔
’’ ویری فنی ۔۔ سیدھی طرح بتاؤ ’’ الہام نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ یار بس وہ ماما پاپا کو بیٹھے بٹھائے میری شادی کروانے کی سوجھ گئ۔۔ اسلئے میں وہاں سے بھاگ آیا ’’ اس نے عام انداز میں کہا تھا۔۔ جبکہ الہام کو شاک لگا تھا۔۔
’’ تمہاری شادی ؟ سچ میں؟ ’’ وہ تھوڑا جھک کر حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔۔
’’ ہاں۔۔ میری ہی شادی ’’
’’ مگر تم نے انکار کیوں کیا ؟ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ اف ! میں کتنی خوش ہوتی اگر واقعی ایسا ہوتا تو ’’ وہ جیسے فوراً ہی ایکسائیٹڈ ہوئی تھی۔۔ اور حامد نے اسے افسوس سے دیکھا تھا۔۔
’’ تمہیں تو بس مجھ سے جان چڑوانے کی جلدی ہے ۔۔ مگر زیادہ خوش مت ہو۔۔ میں شادی نہیں کرنے والا ’’ اس نے جیسے الہام کے ارمان ٹھنڈے کرنا چاہے تھے۔۔
’’ مگر کیوں ؟ ’’ وہ وجہ جاننا چاہتی تھی۔۔
’’ کیونکہ میں اسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ جسے میں چاہتا ہوں ’’ وہ بہت سنجیدہ تھا۔۔ الہام نے اسے پہلے کبھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔۔ مگر آج اس نے اسے حیران کیا تھا۔۔
’’ تم کسی کو چاہتے ہو ؟ سچ میں ؟ ’’ وہ دوبارہ سے ایکسائیٹڈ ہوئی تھی۔۔
’’ ہاں تو کیا نہیں چاہ سکتا ؟ ’’ وہ فوراً ہی اپنے اسی انداز میں بولا تھا۔۔
’’ بلکل چاہ سکتے ہو۔۔ مگر تم نے مجھے کبھی بتایا نہیں ؟ اٹس ناک فئیر ’’ اس نے شکوہ کیا تھا۔۔
’’ تمہیں بتا کر میں ایک چڑیل کا سایہ نہیں ڈالنا چاہتا اپنی چاہت پر ’’ حامد نے کھانے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
’’ اور جو تم خود ایک جن ہو اسکا کیا ؟ ’’
’’ میں جن ہوں تو میری چاہت بھی کوئی عام چڑیل تھوڑی ہوگی ’’ حامد نے اسے نگاہوں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا تھا۔
’’ تو پھر بتاؤ کون ہے وہ ؟ ‘‘ وہ جاننے کے لئے بے چین تھی۔۔
’’بتا دونگا ۔۔ جلدی کیا ہے سویٹی ؟ ’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ابھی بتاؤ مجھے ’’ وہ ماننے کو تیار نہیں تھی۔۔
’’ ابھی نہیں۔۔ مگر بہت جلد بتادونگا ’’ اس نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ پکا ؟ ’’ الہام نے وعدہ لینے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔۔ حامد نے اسکے خوبصورت ہاتھوں کوایک نظر دیکھا۔۔ پھر اسی نظر سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا۔۔
’’ وعدہ ’’ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔ ایک وعدے کے ساتھ ۔۔۔