اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 10 (پارٹ 2)

وہ دو دن سے الہام کی باتوں کو سوچ رہا تھا ۔۔ اور فیصلہ وہ کر چکا تھا۔۔ اور یہ فیصلہ وہ الہام کو بھی سنا چکا تھا۔۔ جس پر وہ بے حد خوش ہوئی تھی۔۔۔ مگر پارسا کو ابھی اس بارے میں ان دونوں نے کچھ نہیں بتایا تھا۔۔ چار دن بعد پارسا کی سالگرہ تھی اور اسی دن وہ اسے سب بتانے والے تھے۔۔ الہام کو اس کے لئے بہت سی تیاریاں کرنی تھی اور حامد اسکے ساتھ ساتھ تھا۔۔ احتشام کی آج کل ڈبل ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔۔ جس کی وجہ سے اسے بلکل بھی ٹائم نہیں مل رہا تھا ۔۔ اس وقت بھی وہ حامد کے ساتھ شاپنگ پر آئی تھی۔۔ اسے پارسا کے لئے گفٹ لینا تھا۔۔ جوکہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ پورا مال گھوم کر بھی اس نے کچھ نہیں لیا تھا۔۔
’’ خدا کا خوف کرو الہام۔۔ پورا مال گھوم چکی ہو تم۔۔ ابھی تک ایک چیز نہیں لی تم نے ’’ وہ جو اتنی دیر سے اسکے ساتھ گھوم رہا تھا۔۔ آخر بول ہی پڑا۔۔
’’ ہاں تو کیا کروں؟ کچھ پسند ہی نہیں آرہا ’’ الہام کو جیسے اس سے بڑی پریشانی تھی۔۔
’’ ہر سال تو تم پہلے سے سوچ کر آتی تھی کہ کیا لینا ہے۔۔ اس بار کیا ہوا تمہیں ؟ ’’ وہ اب تھک چکا تھا۔۔ اس لئے رک کر پوچھنے لگا۔۔ اسکی وجہ سے الہام کو بھی رکنا پڑا تھا۔۔
’’ کیونکہ ہر بار تو میں صرف انکی سالگرہ کا تحفہ لیتی تھی مگر اس بار بات کچھ الگ ہے’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔ حامد نے اسے غور سے دیکھا تھا۔۔ آج اسکے چہرے پر ایک خوشی تھی ۔۔
’’ اس مرتبہ بات الگ کیوں ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ کیونکہ احتشام بھائی پارسا کو اس دن پرپوز کرنے والے ہیں ’’ اس نے اسکے کان کے پاس آکر کہا تھا اور حامد ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا تھا۔۔
’’ سچ میں ؟ ’’ اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔۔
’’ یس ۔۔ اس لئے تو میں کچھ سپیشل لینا چاہتئ ہوں۔۔ مگر سمجھ ہی نہیں آرہا ’’ اسے دوبارہ اپنی پریشانی یاد آئی تھی۔۔
’’ ارے تو پہلے بتاتی نا۔۔ آؤ میرے ساتھ ’’ وہ اب اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ایک گولڈ کی شاپ کی طرف لے کر آیا تھا۔۔ وہ خاموشی سے وہاں بیٹھ گئ تھی۔۔ جبکہ حامد شاپ کیپر سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد دکاندار نے ایک بکس اسکے سامنے رکھا اور اسے کھولا تھا۔۔ سامنے ہی دو کپل رنگز جگمگا رہی تھی۔۔ جن میں سے ایک گولڈ کی اور ایک سلور میں مردانہ سٹائیل کی تھی۔۔
’’ واؤ ! کتنی خوبصورت ہیں ’’ الہام نے انہیں چھوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں یہ کپل رنگز ہیں ویسے تو یہ دونوں ہی گولڈ کی ہوتی ہیں مگر کیونکہ ہم مردوں پر سونا حرام ہے۔۔ اس لئے میں نے ان سے مردانہ انگوٹھی سلور کی لانے کو کہا تھا۔۔ شکر ہے کہ پہلے سے بنی تھی اور ایک ہی تھی یہ۔۔ ورنہ مسئلہ ہوجاتا ’’ حامد اسے بتا رہا تھا اور وہ ان انگوٹھیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔
’’ بہت پیاری ہیں۔۔ تم یہ پیک کروا دو’’ اس نے اپنا کارڈ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا اور وہ اب کارڈ سے پیمنٹ کررہا تھا۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ الہام اپنا تحفہ اپنے پیسوں سے ہی لیتی تھی۔۔
’’ چلیں اب ؟ ’’ اس نے بیگ اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں چلو ’’ وہ مسکرا کر آگے بڑھی تھی۔۔
آج اسکی فلائیٹ تھی پاپا کے علاوہ سب جانتے تھے اسکے جانے کا۔۔ اس لئے سب ہی اسے ائیرپورٹ تک چھوڑنے گئے تھے اور ساتھ ہی گھر واپس آئے تھے۔۔ جہاں پاپا ان لوگوں کا انتظار کر رہے تھے ۔۔ وہ سب انہیں دیکھ کر چونک گئے تھے۔۔
’’ عرش کہاں ہے ؟ ’’ پاپا کی گرجدار آواز نے سب کو سہما دیا تھا۔۔ سوائے عامر کے۔۔
’’ جاچکا ہے وہ ’’ جواب بھی اسی نے دیا تھا۔۔
’’ کہاں ؟ ’’ ایک اور سوال تھا۔۔
’’ یہاں سے بہت دور جہاں کوئی اس کے ساتھ زبردستی نہ کر سکے ’’ جواب پھر اسی کی طرف سے آیا تھا۔۔
’’ یہ پٹی بھی تم نے ہی اسے پڑھائی ہوگی۔۔ آخر تم چاہتے کیا ہو ؟ ’’ وہ اب اس پر گرجے تھے۔۔
’’ انکل پلیز ۔۔ آپ آرام سے بات کریں۔۔ ہم آپکو سب سمجھا دینگے ’’ اس بار جواب معاذ کی طرف سے آیا تھا۔۔
’’ تم سے تو میں بعد میں نمٹونگا۔۔ تمہیں اپنے بیٹے کے ساتھ میں نے اس لئے نہیں رکھا تھا کہ تم اسے گھر سے بھگا دو’’ توپوں کا رخ اب معاذ کی طرف ہوا تھا۔
’’ میں نے وہی کیا جو ایک اچھے دوست کو کرنا چاہئے اور مجھے اس میں اپنی کوئی غلطی نظر نہیں آتی ’’ معاذ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں تم دونوں نے دوستی نبھائی ایک بیٹے کو اسکے باپ سے دور کر کے ؟ ’’ دونوں کی طرف اشارہ تھا۔۔ رانیہ خاموش کھڑی تھی۔۔ اس میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔۔
’’ دور ہم نے نہیں آپ نے کیا ہے اسے خود سے ۔۔ اگر آپ اسے اپنے قریب رکھتے تو وہ آپکے ساتھ ہوتا ’’ عامر نے جواب دیا تھا۔۔۔
’’ میں اسکا باپ ہوں۔۔ میں اسکے لئے کچھ برا نہیں کرسکتا ‘’ وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھے۔۔
’’ اگر باپ تھے آپ۔۔ تو ایک باپ بن کر اس سے پوچھتے کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے ؟ اسکے دل کا حال جاننے کی کوشش کرتے ۔۔ اسکے مسئلے۔۔ اسکی پریشانی جاننے کی کوشش کرتے ۔۔ اسے احساس دلاتے کہ آپ اسکےساتھ ہیں۔۔ تاکہ وہ آپکو اپنا حال بتاتا ’’ عامر کی بات پر وہ چونکے تھے۔۔ ایسا کیا تھا جو انہیں نہیں معلوم تھا ؟
’’ کیا کہنا چاہتے ہوں ؟ کیا مسئلہ ہے اسے ؟ ’’ وہ اب پہلے سے تھوڑے دھیمے لہجے میں بولے تھے۔۔
’’ محبت ’’ جواب معاذ کی طرف سے آیا تھا اور مظہر صاحب کے سر پر بجلی گری تھی۔۔
’’ آپ اسکے سامنے دنیا کی کسی بھی لڑکی کو لے آئیں انکل ۔۔ وہ کتنی کی حسین کیوں نہ ہو ، عرش کبھی کسی سے شادی نہیں کرسکتا۔۔ وہ کبھی کسی کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ اسکا دل تو سات سال پہلے ہی کسی کو قبول کر چکا تھا ۔۔۔ وہ تو سات سال پہلے ہی۔۔دل کو بھانے والی سب سے حسین لڑکی سے مل چکا تھا ۔۔ وہ تو سات سال پہلے ہی کسی سے شادی کی خواہش پال چکا تھا ۔۔ وہ اب کسی سے شادی کرنے کے قابل نہیں رہا انکل۔۔ کیونکہ اسے مرض ہے ۔۔ایک لاعلاج مرض۔۔ محبت کا مرض۔۔۔ اور اسی محبت کے انتظار میں اس نے سات سال گزارے ہیں ۔۔وہ آپکے دیئے ہوئے سات دنوں پر اپنے سات سال کے انتظار کو قربان نہیں کر سکتا انکل ۔۔ وہ آخری دم تک انتظار کرتا رہے گا ۔۔ اس الہام کا جو اسے اسکی محبت کا پتہ دے ۔۔ وہ آپکی ضد کے لئے ۔۔ اس الہام کا انتظار ختم نہیں کر سکتا تھا ۔۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ الہام اسے ضرور آئیگا ’’ معاذ نے کہا تھا۔۔ اور وہاں موجود ہر شخص اسے خاموشی سے سن رہا تھا ۔۔ مظہر صاحب تو جیسے صدمے میں تھے۔۔ انہیں تو کبھی یہ احساس تک نہیں ہوا تھا ۔۔ وہ اپنے ہی بیٹے سے اتنے انجان رہے تھے ۔۔ واقعی وہ اسکے ساتھ نہیں تھے۔۔ تو پھر اسنے جانا ہی تھا انہیں چھوڑ کر ۔۔ عرش غلط نہیں تھا ۔۔ وہ صحیح نہیں تھے ۔۔
وہ اس وقت پیرس کے ائیر پورٹ کے باہر کھڑا تھا۔۔ یہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔۔ ویسے تو اس مہینے میں وہاں خزا کا موسم ہوتا ہے۔۔ مگر موسم ٹھنڈا اور بارشوں کی وجہ سے سردی ہی محسوس ہوتی تھی۔۔ بادلوں سے بھرے آسمان اور خزاں کی ملاوٹ نے پیرس کا موسم نہایت خوشگوار بنایا ہوا تھا۔۔ وہ بھی اسی حساب سے ڈریسنگ کیے ہوئے تھا۔۔ بلو کلر کی پینٹ کے اوپر ٹی شرٹ اور اسکے اوپر بلیک کلر کی جیکیٹ پہنے ہوئے ، اپنے ماتھے تک آتے بالوں کو انگلیوں کی مدد سے پیچھے کرتے اس نے سامنے دیکھا تھا ۔۔۔ اور بال دوبارہ ماتھے پر گر گئے تھے ۔۔ سامنے لوگوں کی ایک قطار بنی تھی۔۔ جہاں سب کسی ناکسی اپنے کو پِک کرنے آئے ہوئے تھے۔۔ اور کچھ لوگ نام کا بینل لے کر کھڑے ہوئے تھے۔۔ یہ اس لئے تھا کہ کچھ لوگ کئ ایسے لوگوں کو پِک کرنے آتے تھے جنہیں وہ پہچانتے نہیں تھے۔۔ اس لئے آنے والا اپنا نام پڑھ کر خود ان تک آجاتا تھا۔۔ وہ بھی اسی قطار میں نظریں گما رہا تھا۔۔ عامر بھائی کا کوئی جاننے والا اسے لینے آنے والا تھا۔۔ یقیناً وہ بھی انہیں میں سے کوئی تھا ۔۔ تھوڑی دیر کی تلاش کے بعد اسے اپنا نام نظر آہی گیا تھا جو کہ ایک لڑکے نے پکڑ رکھا تھا۔۔ عرش نے اسکی طرف قدم بڑھائے تھے۔۔ اس نے بھی اسے آتے دیکھ کر بینل رکھ دیا تھا۔۔
’’ ہیلو آئی ایم عرش ’’ عرش نے پاس پہنچ کر ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ تھینک گاڈ آپ آگئے مسٹر عرش ! آئی ایم حامد ’’ حامد نے عرش سے ہاتھ ملایا تھا اور اب وہ دونوں حامد کی گاڑی کی طرف جارہے تھے ۔۔
‘‘ سفر کیسا رہا آپکا ؟ ’’ اسکا سامان رکھنے کے بعد حامد نے پوچھا تھا۔۔ ساتھ ہی اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولا تھا۔۔
’’ اچھا رہا ۔۔ یہاں کا موسم بہت اچھا ہے ’’ حامد نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی۔۔ جب عرش نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ موسم تو یہاں کا بہت اچھا ہے مگر سردی ہم پاکستانیوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔۔ امید ہے آپ تیاری کے ساتھ آئیں ہونگے ؟ ’’ حامد نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں ۔۔ مگر مجھے لگ رہا ہے کہ اس موسم کے حساب سے مجھے شاپنگ کرنی ہوگی ’’ اسکی نظریں اب بھی آسمان پر تھی۔۔
’’ بلکل ۔۔ آج آپ آرام کر لیں پھر کل ہم آپکی شاپنگ کرنے جائینگے ’’ حامد کی بات پر عرش نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا تھا۔۔
’’ آپکو میری وجہ سے تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں خود کر لونگا ’’ وہ واقعی اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
’’ ارے پریشانی والی بات نہیں۔۔ ایک تو یہ کہ مجھے بھی کل جانا ہے کچھ لینے اور دوسرا یہ کہ اب ہم دوست ہیں۔۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہینگے تو ایک دوسرے کا ساتھ بھی تو دوینگے نا ؟ ’’ حامد نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ بلکل ’’ عرش نے کہہ کر دوبارہ باہر نظر دوڑائی تھی۔۔
جانے کیوں اسے یہ موسم بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔۔ ایک عجیب سا سکون تھا جو اسے محسوس ہورہا تھا۔۔ وہ تو سوچ رہا تھا کہ اپنے ملک سے دور رہ کر ، اپنوں سے دور رہ کر وہ بے چین ہوگا ؟ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔ یہاں تو سب کچھ اچھا لگ رہا تھا اور اپنا اپنا سا ۔۔ جانے کیوں ؟
حامد نے اپنے فلیٹ کے سامنے گاڑی پارک کی تھی۔۔
’’ سوری عرش۔۔ ایکچولی مجھے ہسپتال جانا ہے اس لئے ابھی میں آپکو کمپنی نہیں دے سکوں گا۔۔ پر شام کو میں آپکےساتھ ہونگا ’’ حامد نے معذرت خوا لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ ارے اسکی ضرورت نہیں میں۔۔ خود ایک ڈاکٹر ہوں اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں ’’ عرش نے اپنا سامان گاڑی سے نکالتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ تھینک یو ۔۔ یہ چابی ہے فلیٹ کی۔۔ شام کو ملاقات ہوتی ہے ’’ اس نے عرش کی طرف چابی بڑھائی تھی۔۔ جسے اس نے تھام لیا تھا اور اب وہ فلیٹ کی اندر جارہا تھا۔۔ جبکہ حامد ہسپتال کا رخ کر چکا تھا ۔

اس نے فلیٹ پر ایک طاہرانہ نظر ڈالی تھی۔۔ یہ جدید طرز کا بنا ہوا چھوٹا سا فلیٹ تھا۔۔ جس میں دو بیٹ روم ، ٹی وی لانچ ، امیرکن سٹائیل کا بنا ہوا کچن۔۔ جہاں ضرورت کی تمام چیزیں موجود تھیں ، سامنے ہی ایک ڈائیننگ ٹیبل جس کے درمیان میں ایک پھولوں کا گلدان اور آس پاس کرسیاں موجود تھیں۔۔ تقریباً آٹھ چھ افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی ۔ اس نے دونوں کمروں کو دیکھا تھا۔۔ ایک کمرے میں حامد کا سامان موجود تھا اور ایک یقیناً اسی کے لئے سیٹ کیا گیا تھا۔۔اس کمرے میں بھی ضرورت کی ہر چہز موجود تھی۔۔ بلیو اور وائیٹ کلر کے کامبنیشن سے بنے ہوئے وال اور اسی کے ہم رنگ پردے ، بیڈ اور فرنیچر سے روم نہایت خوبصورت لگ رہا تھا۔۔ اس نے ہر چیز کی نظروں سے تعریف کی تھی اور پھر اپنا سامان اٹیچ باتھ کے ساتھ بنی الماری میں سیٹ کرنے لگا تھا ۔۔ سامان سیٹ کرنے کے بعد اس نے کھڑکی کے آگے سے پردے ہٹائے تھے۔۔ جہاں ایک دروازہ موجود تھا اور اسکے باہر ایک چھوٹا سا ٹیرس تھا ۔۔ تھوڑی دیر بعد اپنے لئے ایک چائے کا کپ اور لیپ ٹاپ لے کر وہ ٹیرس پر موجود کرسی پر آکر بیٹھ گیا تھا۔۔ کپ سامنے رکھی میز پر رکھ دیا تھا اور اب وہ معاذ اور عامر بھائی کو اپنے پہنچ جانے کی اطلاح دینے کے لئے ای میل کر رہا تھا ۔۔ اس کام سے فارخ ہوکر اسے نیند کا احساس ہوا اور وہ بیڈ پر آکر لیٹا تھا ۔۔ اسے یہاں سب اچھا لگ رہا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا پاپا کو جب معلوم ہوگا تو وہ بہت غصہ ہونگے مگر اسے اس وقت انکے غصے کی فکر نہیں ہورہی تھی ۔۔ وہ یہاں آگیا تھا اور اسے اب یہاں جاب تلاش کرنی تھی ۔۔ اسے یہاں رہنا تھا اور اسے لگ رہا تھا کہ یہاں رہنا اتنا برا نہیں ہوگا ۔۔ ایک سکون تھا اس جگہ پر ۔۔ ناجانے کیوں مگر جس پریشانی کے عالم میں وہ یہاں آیا تھا اب وہ اسکے دماغ پر حاوی نہیں تھی ۔۔ اس نے سوچا ۔۔ اسکا یہاں آنے کا فیصلہ ٹھیک تھا ۔۔ اور اسی سوچ میں وہ جانے کب سوچکا تھا ۔۔
شام کو وہ عرش کی وجہ سے جلدی گھر آگیا تھا ۔۔وہ اسکا مہمان تھا اور اسے وقت دینا بھی ضروری تھا۔۔ جس وقت وہ اپنے فلیٹ میں آیا۔ عرش کچن میں چائے بنا رہا تھا۔۔
’’ ارے آج ہی تو تم آئے ہو ۔۔ آرڈر کر دیتے چائے ۔۔تھکن ہورہی ہوگی تمہیں ’’ وہ اسے چائے بناتے دیکھ کر اسکے پاس آیا تھا۔۔
’’ میں پورا دن سوتا رہا تھا۔۔ اب تھکن اتر گئ ہے۔۔ تم فریش ہوکر آجاؤ پھر ساتھ چائے پیتے ہیں ’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اوک ’’ حامد مسکرا کر اندر چلا گیا تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ٹی وی لاونچ میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔۔
’’ اور اب آگے کا کیا پلین ہے تمہارا ؟ عامر بھائی بتا رہے تھے کہ تم لمبے عرصے کے لئے آئے ہو ؟ ’’ حامد اب اسکے متعلق پوچھ رہا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ مجھے یہاں کافی لمبا عرصہ گزارنا ہے اس لئے مجھے اب جاب کی تلاش شروع کرنی ہے ’’ اس نےچائے کا گھونٹ لیتےہوئے کہا تھا۔۔ یہ تو وہ پاکستان سے ہی سوچ کر آیا تھا کہ وہ اب پانچ یا چھ سال سے پہلے وہ یہاں سے واپس نہیں جائیگا۔۔
’’ یہ بھی اچھا ہے۔۔ ویسے میرے ایک جاننے والے سینئیر ڈاکٹر ہیں۔۔ مجھے یقین ہیں وہ کسی ہسپتال میں تمہاری جاب کروا دیں گے ’’
’’ تم نے ویسے ہی مجھے اپنے فلیٹ میں جگہ دی ہے۔۔ میں تمہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا ’’ عرش کو اسے تکلیف دینا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔
’’ یہ کیا بات کردی تم نے ۔۔ بھئی ہم دوست ہیں ۔۔ تو ایک دوسرے کا ساتھ دینگے نہ ؟ اور تم پریشان مت ہو۔۔ فری میں تھوڑی کر رہا مدد ۔۔ جیسے ہی جاب لگے گی تم مجھے اچھی سی ٹریٹ دینا ’’ حامد نے کہا تھا۔۔
’’ ضرور دونگا ’’ عرش کو فوراً معاذ کا خیال آیا تھا۔۔ وہ بھی ہر کام کرنے کی ٹریٹ لیتا تھا۔۔
’’ پھر ایسا کرتے ہیں کل ہم شاپنگ پر جائیگے اور پرسوں میں تمہیں ان سے ملوا دونگا۔۔ بلکہ ایک اور آئیڈیا ہے ’’ حامد نے اچانک ہی ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ پرسوں ہماری ایک فرینڈ کی برتھ ڈے ہے۔۔ تم میرے ساتھ چلنا ’’ حامد کی بات عرش کو تھوڑی عجیب لگی تھی۔۔
’’ میں کیسے جاسکتا ہوں؟ میں انہیں جانتا تک نہیں ہو اور اس طرح بناجان پہچان کے جانا عجیب لگے گا ’’ عرش کی بات پر حامد ہنسا تھا۔۔
’’ ارے بھائی۔۔ جان پہچان کے لئے ہی تو جارہے ہیں اور پھر تم میرے دوست ہو۔۔ اس لیے انجان نہیں ہو۔۔ بس تم کل گفٹ بھی لے لینا ۔۔ پرسوں ہم دونوں ساتھ جائینگے ’’ حامد سب ڈیسائیڈ کر کے اپنی چائے کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔۔ جبکہ عرش بھی مسکرایا تھا۔۔ وہ جانتا تھا یہاں اتنی جلدی جاب ملنا بہت مشکل تھا۔۔ ہاں اگر کوئی اپکی مدد کر دے تو جاب آسانی سے لگ جانی تھی۔۔۔ اور اس وقت اسے جاب کی ضرورت تھی۔۔ کیونکہ وہ زیادہ عرصہ حامد کے فلیٹ میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔۔ اسے اپنے رہنے کا خود بندوبست کرنا تھا۔۔ اور اس کے لئے اسے جاب چاہئیے تھی ۔۔ اور اس کے لئے اسے حامد کے اس جاننے والے سے بھی ملنا تھا ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial